پاکستان سے پندرہ دن غیر حاضری کے دوران
رابطے کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا یا وہاں کے اخبارات تھے۔بہت سی باتیں محسوس
کرنے اور ان پر لکھنے کی خواہش ہونے کے باوجود کمپیوٹر ساتھ نہ رکھنے کے
سبب میں لکھنے سے معذور رہا۔ 31 دسمبر2016 کو نئے چیف جسٹس جنا ب ثاقب نثار
نے حلف لیا۔ اس سے پہلے دسمبر کے آخری دنوں میں عدلیہ خصوصاً نئے چیف جسٹس
کے بارے سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی گئی وہ افسوسناک ہی نہیں انتہائی
شرمناک تھی۔ ایک ایسی تصویر جس میں کسی دوسرے شخص کو ثاقب نثار کا نام دے
کر ہنسی مذاق کرتے دکھایا گیا تھا، میڈیا پرعام کر دینا اخلاقی لحاظ سے بہت
غلیظ اور گری ہوئی حرکت ہے۔ ایک شخص کو آپ پوری طرح جانتے نہیں سمجھتے نہیں
تو یہ فضول نعرے بازی کیسی۔ سنی سنائی باتوں پر کسی کے خلاف اس طرح کی مہم
چلانے والوں کو دنیا کا کوئی ضابطہ نہ ہی اچھا سمجھتا ہے اور نہ ہی معاف
کرتا ہے۔ ان کے دوستوں کے بقول اس طرح کی ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ بازی جسٹس
صاحب کے مزاج کے خلاف ہے۔وہ نجی دوستوں میں بھی بڑے باوقار انداز میں گفتگو
کرتے ہیں۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک شخص کسی نئے شہر جا رہا تھا۔ اس نے ایک دوسرے
شخص سے جو راستے میں کھڑا تھا پوچھا کہ وہ کتنی دیر میں شہر پہنچ جائے گا۔
کوئی جواب نہ پا کر اس نے دوبارہ پوچھا ۔ مگر اب بھی جواب نہیں ملا۔ مایوس
ہو کر وہ آگے بڑھ گیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گیا تھا کہ وہی شخص بھا گتا ہوا
آیااور اسے بتایا کہ وہ اتنے وقت میں شہر پہنچ جائے گا۔ مسافر نے حیران ہو
کر پوچھا کہ پہلے دو دفعہ پوچھنے پر بھی تم نے جواب نہیں دیا اب کیا مجبوری
تھی کہ اتنا بھاگ کر مجھے بتانے آئے ہو۔ آنے والے نے کہا کہ جواب دینا میرا
اخلاقی فرض تھا مگر مجھے آپ کی رفتار کا علم نہیں تھا اس لئے چپ رہا۔ کچھ
دیر آپ کو چلتے دیکھ کر آپ کی رفتار سے واقف ہو گیا ہوں تو بھاگ کر آپ کے
پاس پہنچ کر بتا دیا ہے۔ جناب ثاقب نثار کسی حد تک خاموش طبع جج ہیں جو خود
بہت کم بولتے مگر ان کے فیصلے پوری طرح بولتے ہیں۔بحیثیت چیف جسٹس ان کی
کارکردگی دیکھ تو لیں پھر تبصرہ کریں تو بات سمجھ آئے گی۔مگر کیا کیا جائے
کہ سیاسی لال بجھکڑ اپنے مخصوص مفادات کے لئے کسی کی پگڑی اچھالنے میں کوئی
عار محسوس نہیں کرتے۔
جناب ثاقب نثار پرانے لاہورئیے ہیں اور میری معلومات کے مطابق انتہائی
سنجیدہ ، مکمل پروفیشنل اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔ میں ان کے بہت سے
قریبی عزیزوں اور دوستوں کو جانتا ہوں۔گو وہ ان سے بڑے مایوس ہیں کہ ملتے
تو بہت اچھی طرح ہیں مگر کسی کام کا کہہ دیں تو مجبوریوں کا اظہار کرکے
خوبصورت سا انکار کر دیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کی امانت اور دیانت پر
سبھی کو فخر ہے۔ ان کے بقول جسٹس صاحب کے دامن پر اقربا پروری یا کسی جاننے
والے کی نا جائز تو کیا جا ئز حمایت کا بھی کوئی داغ نہیں۔رہا شریف برادران
کا وکیل ہوناتو یہ کوئی برائی نہیں،ہر اہل شخص کی سب کو ضرورت ہوتی ہے۔
محترم اعتزاز احسن بھی شریف برادران کے وکیل رہے۔ وکلا اپنی خدمات بیچتے
ہیں اپنا ضمیر اور کردار نہیں۔
میں سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل سے بات کر رہا تھا۔بتا رہے تھے کہ افتخار
چوہدری کے دور میں جسٹس ثاقب نثار کو ان کی باری پر افتخار چوہدری نے پنجاب
ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بجائے سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا اسلئے کہ
افتخار چوہدری خائف تھے کہ جسٹس ثاقب جیسے اچھے اور مضبوط منتظم کی موجودگی
پنجاب میں ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے ۔ بہت سی قوتوں نے افتخار
چوہدری کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور حکومتی سطح پر بھی کوشش کی گئی کہ
ثاقب نثار پنجاب کے چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیں مگر جسٹس ثاقب نے عدلیہ میں
کسی بھی تفریق کا حصہ بننے کی بجائے سپریم کورٹ جانے کو ترجیح دی اور عدلیہ
کے وقار کی خاطر اپنی ذات کی قربانی دے دی۔میرے ان دوست وکیل کے خیال میں
سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں میں جناب ثاقب نثار آئین اور قانون کو سب سے
بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی دو خوبیوں کی بنا پر انہیں تمام ججوں میں ایک
منفرد مقام حاصل ہے۔ پہلی جسٹس صاحب سائل اور وکیل کی بات پورے غور سے سنتے
اور انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع دیتے ہیں اور دوسرا فیصلہ
سنانیں میں کبھی دیر نہیں کرتے۔
مجھے یقین ہے کہ نئے چیف جسٹس مخالفوں کے پروپیگنڈے کے بر عکس ایک شاندار
منتظم اور بہترین چیف جسٹس ثابت ہونگے۔کیونکہ سینئر وکلا کے بقول وہ ایک
دیانتدار اور اصولی آدمی ہیں۔ ایک ایسے جج ہیں جو عام لوگوں کیلئے درد دل
رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اﷲ کو جوابدہی کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہیں۔ اس
ملک کے عام شہری کی طرح میں بھی ان کی کامیابیوں کے لئے دعاگو ہوں۔
|