سانپ
(Muhammad Anwar, Karachi)
پیر نو جنوری کو مسقط سے دبئی کے لیے روانہ ہونے کے لیے
تیار امارات ایئرلائنز کے مسافر طیارے ای کے 0863 میں کارگو کا سامان رکھنے
والے عملے نے سانپ کو جہاز میں دیکھا ، جس کے بعد پرواز کو منسوخ کردیا گیا۔
یہ خبر پڑھ کر ذرا سا اطمینان ہوا کہ شائد سردی کے ساتھ دنیا میں جہازوں
میں رکاوٹوں کا موسم بھی آ گیا ہے ۔ بس فرق سانپ کا ہے ۔اب ذرا غور کیجیے
کہ جو کام دیگر ملکوں میں سانپ کیا کرتے ہیں ہمارے ہاں ’’آستین کے سانپ ‘‘
کرتے ہیں۔خیال ہے کہ اصل سانپ پاکستان کے’’ آستین کے سانپوں‘‘ کی کارکردگی
سے جلنے اور کڑنے لگے ہیں تب ہی انہوں نے مقابلے کے لیے طیارے کا انتخاب
کیا ہے۔ حالانکہ وہ کسی اور سواری کا بھی انتخاب کرسکتے تھے ۔یہ بھی ہوسکتا
ہے کہ ان سانپوں نے سوچا ہو کہ پاکستان کے’’ آستین کے سانپ‘‘ مزے میں ہیں
اور ایک ہم ہیں کہ جن کا زہر بھی ہم وہاں کے سانپوں کے مقابلے میں مشکوک
ہوچکا ہے۔
سانپوں کو بھی خیال آیا ہوگا کہ پاک وطن کے ’’ آستین کے سانپ ‘‘قومی
ائیرلائن کے بجائے اپنے دوستوں کے جہازوں پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اور ایک ہم ہیں جن کو اﷲ نے پیدا ہی سانپ کیا۔ باوجود اس کے ہم اپنی قومی
ائیرلائن میں بھی سفر کا حق نہیں رکھتے کیا؟مجھے یقین ہے کہ اس خیال نے
انہیں جہازپر سفر کرنے کے لیے مجبور کیا ہوگااور وہ امارات ائیرلائن میں
سوار ہوگیا ۔
مگر یہ اطلاعات بہت زیادہ خطرناک ہے کہ بعض مزید’’ آستین کے سانپ‘‘ ، اپنے
چند پسندیدہ ساتھیوں کی حمایت کے لیے قومی ایوان میں داخل ہونے کے پروگرام
بنا چکے ہیں۔ یقین کریں کہ مجھے اصل سانپ سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا آستین
کے سانپوں کے فعال ہونے سے لگتا ہے ۔کیونکہ وہ تو دبئی میں بھی جنگل میں
رہتے ہیں ۔جبکہ’’ آستین کے سانپ‘‘ تو محلوں نما گھروں میں رہتے ہیں اور ’’
گرگٹ‘‘ کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر رنگ بدلنا تو ان کا مشغلہ
ہے ناں ۔بس دعا کیجیے کہ اﷲ ہم کو ہر زیلی شے سے محفوظ رکھے ۔ اور زہریلوں
کو انسانوں کے لیے فائدہ مند بنادے ۔ ایمان ہے کہ اﷲ تو سب کچھ کرسکتا ہے۔# |
|