اردو میں تدریس، آموزش اور آزمائش : مسائل اور امکانات
(Safdar Imam Qadri, India)
اردو زبان کی تعلیم و تدریس کے مسائل اس وجہ سے بھی بہت
پیچیدہ اور مشکل ہیں کیوں کہ مختلف معاشرتوں نے اس زبان کو اس انداز سے
اپنایا کہ متضاد اور مخالف ماحول اور تاریخ و جغرافیہ کی آویزشوں والی
آبادیوں میں ایک ساتھ اس کے طلسمات قائم ہوتے چلے گئے۔ یہ زبان پیدا تو
ہندستان میں ہوئی لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش سے بڑھ کر اس انداز میں دنیا
کے گوشے گوشے میں پھیلی کہ اب مرکزیت اور آغازکے سوالوں پر اتّفاقِ رائے
مشکل ہے۔ کبھی اردو درباروں کی زبان ہوتی ہوگی یا صوفیوں نے اپنے حلقے میں
اس کی پرورش کی ہوگی لیکن اب اس کی کاروباری اور عوامی ضرورتوں نے اس طرح
مزاج میں تبدیلی پیدا کردی جس سے یہ اندازہ لگانا آسان نہیں کہ کس معاملے
میں یہ زبان کون سی کروٹ لے گی۔ جب ایک ہی زبان کا ایک چاہنے والا بُت پرست
ہو اور دوسرا بُت شکن، ایک صوفیِ باصفا ہو تو دوسرا شراب و کباب کا شیدائی،
ایک روایت پر نازاں تو دوسرا جدّت پر فریفتہ؛ یہ بُتِ ہزار شیوگی اِس زبان
کا ایسا مقدّر ہے جہاں نہ جانے کتنی اَبوجھ پہیلیاں موجود ہیں اور جنھیں
اسی لیے بہتوں نے ناقابلِ تسخیر کہہ رکھا ہے۔
کثیر لسانی اور تہذیبی ماحول
اردو ہر چند دنیا کی نئی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن اس کی تاریخ اور اس میں
اتنے پوشیدہ ادبی اور علمی لعل و گہر موجود ہیں کہ کثیر ابعادی مطالعے کے
بغیر اس زبان کے معاملات ومسائل کو بہ غور سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ تاریخ و
تہذیب کے ساتھ ساتھ عہدِ جدید کے گوناگوں تقاضوں سے اس زبان نے جو اپنی
تشکیلِ نَو کی؛ اسی نے اردو کو ہر معاملے میں قومی اور بین الاقوامی جہات
سے غور و فکر کرنے اور اسی طرح اونچے معیاروں سے جینے کی ایک خو،پیدا کردی۔
اس زبان میں دوسری زبانوں سے اخذ واستفادہ اور مختلف تہذیبوں سے لین دین کا
جو شعور پیدا ہوا، اس سے اردو زبان یا تہذیب کے طَور پر الگ الگ رہنے والی
شَے بن کر قانع نہ رہ سکی بلکہ زبانوں اور تہذیبوں کے امتزاج کے بنیادی
اصول اس کی گھُٹّی میں اس طرح پیوست ہوگئے جیسے یہی صفت اس کی زندگی کی
ضمانت ہو۔ آج بھی اکثر و بیش تر اردو داں آبادی کئی زبانوں میں ایک ساتھ
درک رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کی بات کریں تو یہ جان لینا قابلِ اطمینان ہے
کہ اردو خواں آبادی میں ۷۵ فیصد افراد ذولسانی ہیں جب کہ ہندی سے اس کا
موازنہ کریں تو وہاں یہ صورت ۲۵ فی صدی کے آس پاس ہے۔
اُردو کی تعلیم و تدریس کی تاریخ پر غور کریں تو یہ چار دِنوں کا قِصّہ
نہیں ہے۔ ہندستان میں اردو کے جو ابتدائی آثار ملتے ہیں، اُن میں ایک طرف
راج دربار اور بادشاہت کا سلسلہ دِکھائی دیتا ہے تو اُسی کے پہلو بہ پہلو
صُوفیا کی خانقاہیں، عُلماکے مدارس اور مسجدوں کے مکاتب مِل جُل کر تعلیم
کا ایک مستحکم نظام قائم کر رہے تھے۔ مسلمانوں سے پہلے بودھوں نے ہندستان
میں تعلیم و تدریس کا باضابطہ نظام قائم کرکے آریائی اقوام کو بہ طورِ
تازیانہ تعلیم کا ایک عوامی منچ مہیّا کرایا تھا۔ نالندہ اور وِکرم شِلا یا
تک شِلا کُچھ لوگوں کے لیے بھلے سیرگا ہیں ہوں گی لیکن اِن آثارِقدیمہ کو
بہ غور دیکھتے ہوئے مُشکل حالات میں بودھوں کی نئی تعلیم کا خاکہ پیش کرنے
کی جسارت اور توجّہ کی وجہ سے ہمارا سَران کی تعظیم میں جھُک جاتا ہے۔
اردو جب زبان کی حیثیت سے تشکیلی مراحل سے گُزر رہی تھی، اُس زمانے میں
اردو پر جِن بولیوں کے سب سے زیادہ اثرات قائم ہوئے ہوں گے، ان کے بارے میں
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ کُچھ زیادہ تحقیقات ممکن نہ ہوئیں اور تحقیق کا
جتنا بھی کام ہوا، اُس کے لیے پہلے سے ہی یہ اُصول قائم کر لیاگیا کہ اردو
کو مغربی ہندی کی بولیوں سے بر آمد شدہ مانا جائے جِس کی وجہ سے ماگدھی اور
اَردھ ماگدھی بولیوں سے اردو کے ابتدائی رشتوں کے معاملات کو قابلِ غور
سمجھا ہی نہیں گیا۔ اِسی لیے اردو کے ارتقا کے بہت سارے سوالات بعض ماہرینِ
لسانیات کی کج ادائیوں اور چند علما کی عصبیت کی وجہ سے اب بھی غیر یقینی
صورتِ حال میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ اس مسئلے کے حَل کے
بعد ہی ہم اُردو کی مشرقی روایت کے بارے میں کُچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں
اور اپنی زبان کی عربی، فارسی اور تُرکی روایت کے ساتھ ساتھ پُوربی زبانوں
اور بولیوں کی روایات کے بارے میں غور وفکر کر کے کسی نئے لسانی نتیجے تک
پہنچ سکتے ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ بعض افراد کی جبینوں پر شِکن آجائے لیکن یہ سچّائی معلوم
ہوتی ہے کہ ہندستان میں تعلیم کے سلسلے سے ادارہ سازی کا جو تصوّر بودھوں
نے پیش کیا، اُسے مسلمانوں نے بہت غور سے دیکھا اور اپنے فروغ میں اسے
سنجیدگی سے آزمایا۔ یہ دُرست کہ مسلمانوں نے تک شلا، وِکرم شلا اور نالندہ
جیسے بڑے ادارے اپنی عظیم حکومتوں کے باوجود قائم نہیں کیے البتّہ چھوٹے
چھوٹے مدارس کے وجود اور افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا لیکن اُنھیں قدیم
عہد کی مذکورہ یونی ورسٹیوں کا بدل نہیں کہہ سکتے۔ عہدِ سلطنت کے بادشاہوں
کی عِلم دوستی اور قدرشناسی کا شہرہ ہے لیکن وہ چاہتے تو تعلیمی ادارہ سازی
کا کام اپنی بڑی بڑی تعمیرات کے ساتھ کر ہی سکتے تھے۔ پوری مغل تاریخ بھی
عظیم تعلیمی ادارے قائم کرنے کے پہلو سے ہمیں خاطر خواہ جواب نہیں دیتی اور
اس طرح بودھوں کے تعلیمی شعور کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حد تو یہ ہے کہ
نالندہ کے زوال کا الزام بھی محدود معنوں میں ہی سہی، بختیار خلجی کی افواج
پرہی جا پڑتا ہے۔ اس طرح تعلیمی ادارہ سازی میں معاونت کے بجاے ہمارے
بادشاہوں کے نام اداروں کے مسمار کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔
صوفیا: ہندستان میں اردو تعلیم کے اوّلین بنیاد گزار
ہندستان میں اردو کی ابتدائی تعلیم کو صُوفیا کی خانقاہوں اور مساجد یا
مدارس سے الگ کر کے ڈھونڈنا مُشکل ہے۔ یہ بھی دُرست ہے کہ یہ ادارے مذہبی
تعلیم کے لیے قائم کیے گئے تھے اور اِن کا ایک مقصد تبلیغِ اسلام اور
رضامندی سے ہی سہی لیکن تبدیلِ مذہب بھی تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل
کام تو عربی زبان میں ہونا تھا۔ عربی کے ساتھ ساتھ کاروباری جہتوں سے فارسی
یا تُرکی کے لیے بھی مواقع پیدا ہوگئے۔ انھی تینوں زبانوں کے ساتھ ساتھ
عوامی دباو یا ذریعۂ تعلیم اور تبادلۂ خیالات کی مجبوریوں نے اردو کو عہدِ
سلطنت کے مدارس میں جگہ دِلائی ہوگی لیکن لسانی حکمرانی تو بہرحال عربی،
فارسی اور تُرکی کے ہاتھ میں رہی اور بادشاہت کے لُٹتے وقت تک اِس میں کوئی
خاص تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
حقیقت میں اہلِ اُردو کے درمیان تعلیمی ادارے قائم کرنے کا سلسلہ انگریزوں
کی آمد اوران کے اقتدار کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے بڑے ادارے قائم
کرنے اور اُن کے دروازوں کو عوام کے لیے کھولنے کی خواہش یا ضرورت کو سماج
نے شاید سمجھا نہیں تھا۔ اِسی لیے مسلمانوں کے درمیان واضح مذہبی ہدایات کے
باوجود تعلیم سے بے رُخی اور عدم توجہی کی روِشِ عام ایک طویل مدّت تک قائم
رہی۔ یہ تو اچھّا ہوا کہ ایک ہی زمانے میں انگریزوں کا اثر لینے اور اُن سے
اختلاف کرنے کی تعلیمی مہم شروع ہوئی اور ہم نے انگریزوں کی یونی ورسیٹیوں
کے ساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ندوۃ العلما
یا دارالمصنّفین جیسے کُچھ ادارے قائم کرلیے جن سے ہمارا رُکاہوا نیا
تعلیمی سلسلہ پھِر سے جاری ہو سکا اور اِس بہتر نقطۂ آغاز کے نتائج بہرطور
سامنے آنے لگے۔ آج کی تعلیمی پسماندگی کا سبب جاننے کی کوششوں کے دوران
ہمیں یہ نہیں بھُولنا چاہیے کہ ہم نے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی طرف
توجّہ بہت دیر سے کی جب کہ کہنے کو اپنی قوم میں بادشاہت کا ایک پورا سلسلہ
موجود تھا۔
اس لیے اس حقیقت سے ہم اپنی گفتگو شروع کریں کہ ہندستان میں اردو آبادی نے
بڑے تعلیمی اداروں کی بنیاد انگریزوں کی حکومت کے قیام یعنی ۱۸۵۷ء کے بعد
ہی رکھی۔ یہ ادارے واضح طور سے مغربی اثرات میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان اداروں
سے الگ، اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں کا جو سلسلہ شروع ہو رہا تھا، وہاں
بھی اردو کے لیے گنجایشیں پیدا ہوئیں۔ روایتی مذہبی تعلیم سے اردو آبادی نے
اپنی نئی تعلیم کے ڈھانچے کو جوڑنے کی بہت کم کوشش کی اور زیادہ توجّہ اس
بات پر رہی کہ عصری تعلیم کے لیے مغربی پیمانوں کو تختۂ مشق بنایا جائے اور
مذہبی تعلیم غیر رسمی حصّے میں حسبِ ضرورت شامل رہے۔ بہت مشکل سے جنگِ
آزادی کے دوران جامعہ ملیّہ اسلامیہ جیسے ادارے کا قیام اس نقطۂ نظر کے
ساتھ ہوا کہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور قومی تعلیم کے ایک مِلے
جُلے خاکے میں رنگ بھرا جا سکے۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مغربی تعلیم کی
رہنمائی میں علی گڑھ نمایندہ ادارہ تھا اور مشرقی اور مذہبی انداز کی تعلیم
کے لیے دارالعلوم دیوبند، ندوۃالعلما وغیرہ قائم ہوئے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے
کہ ان اداروں میں آپسی تعلّق، نقطۂ مفاہمت، صلاح و مشورہ اور اصول و نظریات
یا عمل میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور پانے کے ثبوت ایک اچھے خاصے زمانے تک
ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔
انیسویں صدی میں قومی تعلیم کا ادھورا خاکہ
ادارہ سازی میں جب کوتاہیاں ہوں گی تو یہ بھی حقیقت سامنے آئے گی کہ ایک
ڈسپلن کے طور پر اصل تعلیم کو فروغ دینے میں بہت ساری کمیاں درآئیں گی۔
مضمون کے طور پر تعلیم اور تدریس کو سمجھنے کی کوشش اور عالمی یا قومی سطح
پر اُس کے تجربات اور نفاذ کی باری تو اور بھی دیر سے آئی۔ آج تک ایسی کوئی
مکمّل تحقیق یا کتاب ہمیں دیکھنے کو نہیں ملی جس سے ۱۹ویں صدی کے ایسے
تعلیمی ادارے جو اُردو آبادی کو استحکام دینے کے لیے قائم ہوئے تھے، اُن کی
تعلیم کا پُورا پُورا خاکہ سامنے آ جائے۔ حالاں کہ ہر جگہ مستند، ذہین اور
قومی خلوص سے لبالب شخصیتوں نے یہ تعلیمی بیڑا اُٹھایا تھا۔ اِس کی وجہ سے
اِن اداروں کا فیضان کم ہوا اور ہماری قومی تعلیم کا خاکہ انیسویں صدی کے
اداروں سے مکمّل طور پر اُبھر کر سامنے نہیں آسکا۔ وہ سب خاکے ادھورے یا یک
رُخے تھے۔ چاہے وہ دارالعلوم کی تعلیمی فِکر ہو یا علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی
کا تعلیمی خواب۔ سب میں ہمیں اپنی ضرورتوں کے مطابق کُچھ نہ کُچھ نئے رنگ
بھی بھرنے تھے۔
جنگِ آزادی کی تحریک کی اہمیت اس اعتبار سے قابلِ توجّہ ہے کیوں کہ اِس
تحریک میں ہندستانی قوم نے ایسے گُرسیکھے جِن سے ایک ساتھ مُلک اور زندگی
کے ہمہ گیر معاملات پر نگاہ رکھی جا سکتی تھی۔ ہندستانی قوم نے انگریزوں سے
لڑائی کے ساتھ ساتھ قومی تشکیلِ نو کے ایسے ٹھوس اور پُرخلوص کام اپنے ذمّے
لے لیے جو وسیع اور مستقبل پسند نقطۂ نظر کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی دوران
گاندھی جی کی ہدایت اور ذاکر حسین کی قیادت میں نئی تعلیم کے ہمہ گیر
تصوّرات کی بنیاد پڑی۔ مُلک کے بعض اداروں میں بالعموم اور جامعہ ملیہ
اسلامیہ میں بالخصوص اس کے نفاذ کی کوششیں ہوئیں۔ آزادی سے قبل کے دَور کو
نگاہ میں رکھیں تو ہندستان کی نئی تعلیم کا خواب دیکھنے والے اور اِس سلسلے
سے منصوبہ بند طریقے سے کُچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد جامعہ ملیہ
اسلامیہ کے پلیٹ فارم سے جمع ہو گئے تھے۔ اِس تعلیمی تصوّر اور تجربے کی
لَو ذرا اور تیز ہوگئی ہوتی اور اِس کے اثرات زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہوگئے
ہوتے تو شاید ہم آج بہتر تعلیمی زندگی گزارتے اور اردو آبادی کے تعلیمی
مسائل آج کے مقابلے کم پیچیدہ ہوتے۔
آزاد ملک کی پالیسیوں میں عدم توازن
آزادی کے بعد دوسری اقوام کی طرح ہی ہماری جو نشو و نُما ہوئی، اُس میں
عجلت پسندی اور کم غور و خوض کرکے بڑے کاموں میں ہاتھ ڈالنے کا جوش وجذبہ
ایسی رُکاوٹیں رہیں جہاں سے ہم اُچھال لینے کی حالت میں نہیں آسکے۔ نئے
ماحول میں جو اہرلال نہرو کی قیادت میں ہر شعبۂ حیات میں بڑے اداروں کی
بنیاد رکھنے کی ایک بڑق رفتار مہم اچانک شروع ہوگئی۔ پس ماندگی اور جہالت
کی ماری قوم کے کھیون ہار کے طور پر ابوالکلام آزاد ہمارے سامنے تھے۔ تعلیم
کے شعبے میں واقعی عظیم اور مہتم بالشان ادارے قائم کیے گئے لیکن یہ یاد
رہے کہ ان کی افادیت بڑھنے کے بجاے دیکھتے دیکھتے گذشتہ نصف صدی میں کم
ہوتی چلی گئی۔ ہندستانی سماج کی پیچیدہ زندگی اور دُکھ درد کو ٹھیک سے
سمجھے بغیر عمومی ادارہ سازی پر زیادہ توجّہ رہی جِس کے نتیجے کے طور پر ہم
تعلیمی اور سماجی پچھڑے پن سے برق رفتاری کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکے اور
ہندستانی سماج کی حقیقی ضرورتوں کی تکمیل کا کام ادھورا رہ گیا۔
تعلیم و تحقیق کے سلسلے کی ادارہ سازی کا جائزہ لیں تو جواہر لال نہرو ماڈل
کی ایک اور بھُول یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عجلت پسندی میں ملک کی علاقائی
ضرورتوں کو نہیں سمجھا گیا اور تو ازن کا تو بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔
کِسی پس ماندہ اور شکست خُوردہ قوم کی قربانیوں اور جدوجہد کا ایسا نتیجہ
سامنے آئے کہ قومی ترقّی کی متوازن لہر سے دُوری پیدا ہوجائے تو اِسے
خوابوں کی تکمیل کے بجاے چکنا چُور ہونا ہی قرار دیا جائے گا۔ اِس پر
مستزاد کہ بڑی خوشی سے مُلک کی تعلیمی ترقّی کے لیے ہم نے کُچھ صُوبوں کو
مہربانی کی بہاریں پیش کیں اور کُچھ کو انتظار کی زنجیروں میں ڈال رکھا۔
۱۹۶۰ء تک تو ہندستان کے نقشے میں معاشی ماہرین نے بعض دلچسپ اصطلاحیں بھی
گڑھ لیں جنھیں ہم ’کاؤبیلٹ‘، ’بیمارو اسٹیٹس‘ اور ’ہندی پٹیّی‘ کے نام سے
جب جب یاد کرتے ہیں تو اِس کا مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ ہندستان کے عمومی
نقشے میں یہ آبادیاں پس ماندگی کا شناخت نامہ ہیں۔ اِن صوبوں کے افراد سے
پوچھیے کہ دوسرے شعبۂ حیات سے الگ تعلیم و تدریس کے کاموں میں قومی پیمانے
پر وہ کیوں پچھڑ گئے یا قومی منصوبہ بندی میں ہی کوئی ایسا کھوٹ تھا جِس نے
کُچھ آبادیوں کو ترقّی کے ذرائع کم بہم پہنچائے۔ یہ سوال آج پس ماندہ
صُوبوں کے افراد کے ذہن میں قائم ہوتا ہے کہ جنگِ آزادی کے لیے خون بہانے
اور قربانی دینے میں وہ کِسی سے بھی پیچھے نہیں تھے لیکن آزاد مُلک کے پھَل
پھُول اُنھیں دوسروں سے کم نصیب ہوئے اور وہ آج بھی ہندستان کی قومی ترقّی
کے پیمانے کو نیچے کی طرف لانے کے لیے مجبور ہیں۔
آزاد مُلک کی غیر متوازن پالیسیوں کے جبر اور جلد بازی میں قائم کیے گئے
ادارے کِسی بھی قوم کی کشتی کو پار نہیں لگا سکتے تھے، اِس لیے تعلیمی
مسائل و مباحث کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے ہمیں اپنی آدھی ادھوری ترقیوں کے
کچّے پن کوسمجھنا ہی ہوگا تب جاکر یہ جائزہ ممکن ہوگاکہ تعلیم کے مضمون کو
ہم نے قومی نقطۂ نظر سے دیکھنے میں کہاں کہاں بھُول کی۔ سائنس اورٹکنالوجی
کے ادارے ہوں یا سنٹرل یونی ورسٹیوں کا قیام، مراکزِ تحقیق قائم کرنے کا
خیال ہو یا بڑے اداروں کے علاقائی دفاتر، ہر جگہ ایک عدم توازن اور صوبائی
اور عدم مساوات کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جب ادارہ سازی میں بنیادی نوع
کی خامیاں سطح پر ہی موجود ہوں گی تو لازماً داخلی خامیاں اور ہزار کج
ادائیاں اگلے مرحلے میں سامنے آئیں گی۔ دوسرے مضامین اور موضوعات سے صرفِ
نظر کرتے ہوئے صرف اردو کی تعلیم و تدریس کو موضوع بنایا جائے تو قومی سطح
پر ایک ایسی بے ترتیبی اور اُتھل پتھل کی کیفیت سامنے آتی ہے جس سے یہ یقین
اور پختہ ہوجاتا ہے کہ ابھی غور و فکر اور سنجیدہ توجّہ کی ہزار منزلیں
ہمیں طے کرنی ہیں؛ تب جاکر ہم اپنی زبان اور لسانی آبادی کو قومی اور بین
الاقوامی سطح تک پہنچا سکتے ہیں۔
غیر پیشے ورانہ نقطۂ نظر سے کارکردگی
اردو تدریس کی صورتِ حال کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے اختصار میں یہ نتیجہ
اخذ کرلیا جائے کہ اس سلسلے میں ہماری کوششیں غیر سائنسی اور غیر پیشے
ورانہ رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ بھی قابلِ توجّہ ہے کہ اردو جیسی وسیع
حلقے میں بولی جانے والی اور مختلف شعبۂ حیات میں کارگر خدمات انجام دینے
والی زبان کے تدریسی معاملات میں جو انہماک اور دلچسپی درکار تھی، وہ بھی
ہم نے نہیں اپنا ئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس قومی کام میں جس خونِ جگر کے
اصراف کی ضرورت تھی اور دل و دماغ کی یکجائی سے ہمیں کوئی نیا مقام حاصل
کرنا تھا، ان سب میں ہماری کوتاہیاں ہمالیہ پہاڑ کی طرح بہ تدریج بڑھتی چلی
گئیں اور آج وقت نے اس پر مزید برف جمانے کی کاوشیں کرکے ہمیں اپنی مادری
زبان سے دنیا کے بہت سارے کاموں میں سرفرازی حاصل کرنے کی مہم سے دور کردیا
ہے۔ ہم نے اپنے اسلاف کی قوم پرستانہ روِش کے بر خلاف آزادی کے بعد مواقع
اور مناصب کے حصول اور نتیجتاً زرومال کی طرف راغب ہونے کو انجام کار سمجھ
لیا جس کی وجہ سے کشمیر سے کنیا کماری تک اور آسام سے لے کر گجرات تک آج
ایسا ایک ادارہ موجود نہیں جو بہ بانگِ دٌہل کہہ سکتا ہو کہ اس نے اردو کو
بنیاد بناکر پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں ایسے کارنامے انجام دیے جن پر آج ہم
افتخارانہ انداز میں داد و تحسین پیش کرسکتے ہوں اور ہم میں یہ بھروسہ پیدا
ہوجائے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی مادری زبان کے ناموس کی حفاظت اور استحکام
میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔
اردو زبان کے مسائل موجودہ عہد سے لے کر آنے والے زمانے تک کون کون سے ہیں
اور ہوسکتے ہیں، ان کی پہچان کے مقصد اور تدارک کی خاطر اپنے تعلیمی نظام
کے خاص خاص امور پر توجہ دیے بغیر پوشیدہ حقیقتوں سے ہمارا سامنا نہ ہوسکے
گا۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ تعلیمی نظام میں ان بکھرے ذرّات کو سمیٹنے کی
کوشش کی جائے اور ان پر کچھ مشاہدات بھی درج ہوجائیں۔ شاید اس سے سوئے ہوؤں
کی آنکھیں کھلیں اور حالات کی ستم ظریفی کے باوجودجولوگ جی لگا کر کام
کررہے ہیں، ان کی ناامیدیاں بھی کم ہوں گی۔ اس جائزے سے ممکن ہے کہ تعلیم
کے شعبے میں ہماری بعض کوتاہیاں اصول و نظریات کا توازن حاصل کرکے قوم کو
صحیح جگہ پہنچانے میں معاون ہوسکیں گی۔اس سلسلے سے کچھ سلگتے ہوئے سوالوں
سے آئندہ صفحات میں ہمارا سامنا بھی ہو گا۔
تعلیمی ڈھانچا: حکومت اور انتظامیہ بہ نام اساتذہ
اسکول، کالج یا یونی ورسٹی ہر جگہ ہم ماتم کناں ہوتے ہیں کہ حکومت کی بے
توجّہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام متاثر ہورہا ہے۔ ہر استاد اور ماہرِ
تعلیم حکومت کے سر پہ آخر کار اپنا ٹھیکرااس اندازمیں توڑتا ہے: طالب علم
کے مقابلے میں اساتذہ کم ہیں، کلاس روم اتنے نہیں ،جتنے بچوں کا داخلہ
ہوگیا ہے۔ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں لیکن برسوں سے جگہیں بھری نہیں گئیں۔
کہیں کہیں مستقل کی جگہ عارضی یا تھوڑی سی رقم دے کر ٹھیکے پر اساتذہ کو
رکھ کر کام چلایا جارہا ہے۔ بعض اداروں کی عمارتیں خستہ اور نڈھال ہیں۔ ملک
میں اردو کے تعلّق سے شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جس کی عمارت،اس کا تعلیمی
ماحول، اساتذہ کا علمی انہماک اور طلبا کے نتائج کا ایسا شفاف گراف سامنے
آتا ہو کہ ہم فخر سے ایسے ادارے کا نام اپنی زبان کی ترقی اور ہزار الزامات
کے جواب میں پیش کرسکتے ہوں۔ کسی ایک ادارے کے طلبہ کی کارکردگی کے بارے
میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے اپنا کام بہترین معیار اور مستقبل کی ضرورتوں
کو سامنے رکھ کر مکمّل کیا ۔
یہ عجیب صورت ہے کہ اکثر و بیش تر اسکول سے لے کریو نی ورسٹی تک ہمارے
اساتذہ اس موضوع پر بہت کم گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے
اپنے طلبا کے اسباق اور درس کے لیے کون سی نئی معلومات پیش کیں یا اس سلسلے
سے انھوں نے کس قدر تگ و دَــو کی۔ اس سلسلے میں بالعموم سرکاری سہولیات کی
ضرورت نہیں ہوتی اور استاد چاہے تو اپنی کمائی سے تھوڑی سی رقم اور تھوڑا
سا وقت صَرف کردے تو تعلیم کا معیار بلند تر ہوجائے گا۔ یہیں یہ یاد رکھنے
کی بات ہے کہ ہر استاد اپنے مقالات اور اپنی کتابوں کے فضائل پر تو محوِ
گفتگو ہوتا ہے یا رہنا چاہتا ہے لیکن اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ مصنّف
سے پہلے یا ساتھ ساتھ مدرّس کی حیثیت رکھتا ہے اور بچّوں کو بہتر طریقے سے
پڑھانے کے لیے بہر طور ایک معقول اجرت بھی اسے میسرّ ہے ۔ استاد کو اگر یہ
یاد رہے کہ حکومت کی فرض ناشناسی کے باوجود اگر وہ ایمان کا طالب ہے تو
سرکاری نا مہربانی کے باوجود اپنی بہترین خدمات سے طلبا کا بھلا کرسکتا
ہے۔آج تعلیم میں ہم جتنی چمک دمک کی تلاش کر لیں لیکن جب لوگوں نے ندیوں کے
کنارے، سڑکوں کے کنارے اور پیڑوں کے ساے میں بچوں کو بٹھا کر اعلا تعلیم کے
لیے بھی تیار کرلیا تو آخرآج کے اساتذہ کب تک سرکاری معاونت اور عدم توجّہی
کا ماتم کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے اسکول اور کالج کی تعلیم کو اور پورے
نظام کو کمزور ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہیں گے۔
اردو ذریعۂ تعلیم: اندھیرا اور اجالا ایک ساتھ
دنیا کے تمام ماہرینِ تعلیم اس بات پر متّفق ہیں کہ مادری زبان میں بچّوں
کی تعلیم سے سب سے بہتر نشوونما اور ترقّی ہوتی ہے۔ اسی لیے تعلیم سے
متعلّق کتابوں اور کمیشنوں کے دستاویزات کے ساتھ ساتھ مرکز اور ریاستوں کے
محکمہ جاتِ تعلیم میں یہ سفارشیں موجود ہیں کہ تعلیم کا ذریعہ مادری زبان
کو بنایا جائے۔ انگریزوں کی طویل غلامی کے اثرات ملک پر اس قدر رہے جس کی
وجہ سے آزادی کے بعد انگریزی تعلیم کی فیض رسانیوں کا ہندستان میں جادو
کبھی کم نہیں ہوسکا۔ اردو کی کون کہے، ملک میں ہندی زبان کو ذریعۂ تعلیم
بناکر کام کرنے والے تعلیمی ادارے خاطر خواہ تعداد میں ابھی تک نہیں پیدا
ہوسکے اور اس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں کام انگریزوں کی غلامی میں آج تک
رفتار سے چل رہے ہیں۔ عالمگیریت کی چوہا دوڑ میں شاید یہ توقّع بے وقوفوں
کی جنّت میں رہنے جیسی ہوگی کہ آنے والے وقت میں ہندی ہر سطح پر ذریعۂ
تعلیم بن کر اُبھرے گی؟ یہ نا ممکن ہے!
جنگِ آزادی کی تحریک سے پہلے ہی ملک میں لسانی منافرت کی داغ بیل فورٹ ولیم
کالج میں پڑ چکی تھی۔ فارسی کی حکومتی حیثیت سے اردو کو جیسے ہی اپنی جگہ
قائم کرنے کے مواقع نصیب ہوئے، ہندی کا نظامِ حکومت میں داخلے کا دعویٰ اور
پھر اقوام کی بنیاد سے زبانوں کی پہچان کی خطرناک مہم چل پڑی جس کی آندھیوں
میں اردو عوام کے پاؤں اکھڑنے ہی تھے۔ یہ صورتِ حال آج بھی موجود ہے اور
اردو ذریعۂ تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ انیسویں صدی کی لسانی عصبیت کی
وہ بنیادیں ہیں جنھیں وقت نے رہ رہ کر زہر آلود بنایا اور اس کی گرم ہواؤں
میں یہ زبان اور اس کے بولنے والے اب بھی جھلس رہے ہیں۔
اردو کو آسانی سے علاقائی زبان کہنا ایک مشکل امر ہے۔ سہ لسانی فارمولا کسی
تکمیل تک اس لیے نہیں پہنچ سکا کیوں کہ اردو صوبائی تقسیم میں کسی خاص
علاقے کی زبان نہیں ہوسکتی تھی اور بالآخر نہیں مانی گئی اور صورتِ حال یہ
بنی کہ رہنے کو گھر نہیں ہے، سارا جہاں ہمارا۔ ہندی کے لیے تو وسطی اور
شمالی ہند کے صوبے پہچان لیے گئے۔ کم لوگوں کے بیچ بولی جانے والی زبانیں
بھی علاقائی زرخیزی کے سبب اپنا گھر پانے میں کامیاب رہیں۔ آزادی کے تیس
پینتیس برس گزرنے کے بعد دوسری سرکاری زبان کے طور پر اردو کی پہچان کا
سلسلہ تو شروع ہوا لیکن وہ چند اضلاع اور صوبوں سے آگے بڑھ کر کسی ایسی پہل
میں تبدیل نہ ہوسکا جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اردو کو ہم نے اس کا
گھر یا اصل حق ادا کردیا جب کہ درجنوں زبانیں اپنی مخصوص جغرافیائی پہچان
کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی جائز پشت پناہی سے تعلیم و تدریس میں اپنا
مناسب حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
اردو ذریعۂ تعلیم کو آزمانے یا چھوڑنے میں حقیقتاً جو رکاوٹیں ہیں، ان کی
قانونی، سماجی، سیاسی اور نفسیاتی گرہیں کھولے بغیر سارے الجھے ہوئے مسائل
حل نہیں ہوسکتے۔ سب سے پہلا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ ہندستان میں ہندی اور
انگریزی کی مضبوط موجودگی اور مختلف صوبوں میں علاقائی زبانوں کی مقامی
قوّت سے اگر مقابلہ کریں تو ذریعۂ تعلیم کے معاملے میں اردو کی شاید ہی
کوئی وکالت کرنا پسند کرے۔ اردو ذریعۂ تعلیم بالعموم پسماندگی کی علامت کے
طور پر ایک سماجی حیثیت رکھتی ہے۔ بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر، کرناٹک،
آندھرا پردیش اور جموں و کشمیرجیسے صوبوں میں گنتی کے اردو ذریعۂ تعلیم کے
اسکولوں کو سامنے رکھ کر اگر ہم یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ ہندستان کی تعلیم و
تدریس کے منظر نامے پر انگریزی، ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں کی طرح اردو
ذریعۂ تعلیم ایک سچائی کی طرح ہے، تو اسے خوش فہمی سے زیادہ اہمیت نہیں دی
جاسکتی۔ یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے انگلینڈ،جرمنی ،کناڈا اور امریکہ کے
بعض ممالک میں اردو بولنے والوں کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ
وہاں اردو زبان آج پھل پھول رہی ہے۔ یہ حقیقت میں تارکینِ وطن کی بوڑھی نسل
ہے جسے اپنے جذبوں کے اظہار کے لیے اردو زبان کی ضرورت ہے ۔ کسی زبان یا
سماج کی زندگی کو پہچاننے کے لیے بہر صورت یہ دیکھنا لازم ہے کہ نئی نسل
اور مستقبل کی طرف جانے والی آبادی اس زبان کو کتنے استحکام کے ساتھ اپنی
جان سے لگا رہی ہے۔
حکومت کے عتابات کا نتیجہ
اردو ذریعۂ تعلیم کے اداروں کی مجموعی تعداد اردو مضمون رکھنے والے طلبا کے
مقابلے دو تین فی صد بھی نہیں مانی جاسکتی۔ پھر ایسے ادارے روز گھٹتے جارہے
ہیں یا کم کیے جارہے ہیں ۔ اردو آبادی میں ننانوے فی صدی ایسے افراد موجود
ہیں جو معاشی اعتبار سے باحیثیت ہونے کے سبب اردو ذریعۂ تعلیم سے بہت دور
جا بسے ہیں۔ اقلیت آبادی اور بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے قائم کردہ
اسکولوں میں کہیں کہیں اردو میڈیم کی جھلک ملتی ہے لیکن اب وہ لوگ بھی
انگریزی ، ہندی اور علاقائی زبانوں کے ساتھ اردو کے بجاے عربی کی طرف اپنی
کمان جھکا دیتے ہیں۔ اس سے الگ، حکومتوں کی سازشیں اور نفرت آمیزیاں تو ایک
کھلی کتاب کی طرح سے ہیں ۔ کسی صوبے سے ایسی اطّلاع نہیں ملتی کہ ایک سال
میں اگر وہاں پانچ ہزار نئے اسکول قائم ہوئے تو ان میں پانچ اردو میڈیم کے
ادارے بھی شامل تھے۔ ملک کی آبادی کے بڑھنے کے ساتھ اگر ادارے نہیں بڑھیں
گے تو اردو ذریعۂ تعلیم کے بچّے کہاں جائیں گے۔ ہر صوبے سے یہ شکایت ملتی
ہے کہ اردو مضمون کی کتابیں اتنی دیر سے شائع ہوتی ہیں کہ بچے ہندی یا
انگریزی زبان کی کتابیں خرید کر عملی طور پر اپنا میڈیم تبدیل کرچکے ہوتے
ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم کے اساتذہ کی تقرری کو اگر ہم پیمانہ بنائیں تو یہ
اور منہ چڑھانے والا ہوگا۔ صوبۂ بہار میں این ڈی اے کی حکومت کے دور میں تو
ایک پورا سلسلہ چلا کہ جب تک اردو مضمون پڑھنے والے دس بچّے کلاس میں نہ
ہوں ، تب تک وہاں استاد نہیں دیے جائیں گے۔ یہ کسی کو یاد نہیں رہتا کہ
بچوں کو جیسے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو کا کوئی استاد وہاں نہیں تو وہ
فوراً متبادل مضمون کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ بہار میں گیارہ ہزار سے زیادہ
اردو ایل۔پی۔مکتب کے نصف سے زیادہ عہدوں پر تو غیر اردو داں افراد کاتقرر
کرکے ہمیشہ کے لیے ان اسکولوں کا اردو میڈیم کردار ضائع کردیا گیا۔ ایسی
سازشیں ہر صوبے میں حکومت کی خواہش اور افسروں کی من مانی سے ہورہی ہیں اور
اردو میڈیم اسکول کی تعلیم ایک موت کی طرف بڑھتے ہوئے ادارے کی طرح معلوم
ہوتی ہے۔ ہزاروں اردو میڈیم اسکولوں میں اردو داں استاد نہیں ہیں اور ایسے
اسکول سرکاری جبراورحکومت کے منشا کے مطابق اردو سے دور ہو رہے ہیں ۔
اردو میڈیم تعلیم پر جو عمومی اعتراضات ہیں، وہ یہ کہ اردو میں تمام مضامین
کی کتابیں دستیاب نہیں ہیں اور اردو میڈیم میں پڑھ کر ہم کاروبار ِ حیات
میں فاتح نہیں ہوسکتے۔ ترٌکی بہ ترٌکی کہیں تو انگریزی اور ہندی میڈیم میں
پڑھ کر ہماری قوم نے کتنی ترقّی کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں،اس کی جانچ پرکھ
عالمی ترقّی کے پیمانوں کے مقابلے میں موجودہ اعداد و شمار ہمارا مذاق
اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد کے تعلیمی تجربے کے بارے
میں جن لوگوں نے بھی تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، انھیں معلوم ہے کہ ضرورت کی
ساری کتابیں اردو میں مہیا کراکے تکنیکی اور غیر تکنیکی شعبوں میں اعلا
تعلمیات کا نشانہ پور اکیا گیا تھا۔ اس ادارے کے فارغین ملک کے کسی دوسرے
میڈیم سے کامیاب طلبا سے رتّی برابر کم تر نہیں تھے۔ پچھلی ایک دہائی میں
مولانا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی نے اردو میڈیم کی تعلیم میں اچھی خاصی
پیش رفت کی۔ حالاں کہ ان کے تعلیمی مواد ، تدریس کے معیار اور مدرّسین و
مترجمین کے انتخاب کے معیار پر ماہر ین کے درمیان چہ می گوئیاں ہوتی رہتی
ہیں۔اس کے با وجود اس ادارے کے فارغین مختلف شعبۂ حیات میں کامرانی سے اردو
ذریعۂ تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں۔
اردو آبادی کا تذبذب
اردو ذریعۂ تعلیم کے داخلی مسائل بھی کم نہیں ہیں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو
یونی ورسٹی، حیدرآباد کے بی۔ ایڈ۔ کالجوں کے طلبا کی یہ شکایتیں روزانہ
موصول ہوتی رہتی ہیں کہ ان میں نصف تعداد ایسے اساتذہ کی ہے جو اردو میڈیم
سے تدریس کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔ اب اس سوال کا جواب انھیں منتخب
کرنے والوں سے لیجیے لیکن سچائی یہی ہے اور اس کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ علی
گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں لازمی اردو بھی بڑی حد تک
ایک سیاسی نعرہ ہی ہے۔ اردو میڈیم اساتذہ کو اکثر کسی نہ کسی وجہ سے اسکول
دوسرے مضامین کی تدریس میں لگا دیتے ہیں۔ یہاں سے سازش کی ابتدا ہوتی ہے۔
دوچار برسوں میں یہ اساتذہ انگریزی اور ہندی کے استاد بن کر رہ جاتے ہیں
اور انھیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ان کی بنیادی ذمہّ داری اردو میڈیم کی
تعلیم تھی لیکن انھوں نے خود کو وہاں سے بے دخل کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دل میں یہ بات گھر نہ کرسکی کہ اردو میڈیم تعلیم سے
جو بچّہ نکلے گا، وہ ہندستان کے تعلیمی نقشے پر کچھ کارگر کام خدمات انجام
دے سکے گا۔ یہ کس قدر حیرت ناک بات ہے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی
ورسٹی جسے مرکزی یو نی ورسٹی کا درجہ حاصل ہے اور جسے اس بات کا فخر بھی ہے
کہ ملک میں اردو میڈیم درس و تدریس کا وہ واحد ادارہ ہے، وہاں سوِل سروس
امتحانات اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے حکومت کے کروڑوں روپے کے
صرفے سے جو کوچنگ سنٹر قائم ہوا، اس کا ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے۔ جامعہ ملیہ
اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کوچنگ سنٹر بھی انگریزی ذریعۂ
تعلیم سے آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کیا یہ ادارے اردو میڈیم میں
اس کام کو انجام دینے کی مہم کا آغاز نہیں کرسکتے تھے؟ ایک اختیاری پرچے کے
انتخاب کے زمانے میں تو یہ کام اور آسان ہے کہ اردو کو مضمون کی حیثیت سے
پڑھائیں اور تمام لازمی نصاب کے لیے مواد اردو زبان میں تیار
کرادیں۔ملیالم،تامل، کنّڑ اورتِلگو میڈیم رکھ کر کامیابی حاصل کرنے والوں
کی تعداد دیکھتے ہوئے ہمیں یہ شرم محسوس ہوتی ہے کہ اردو کے نام پر چلنے
والے ادارے یا اردو آبادی کی خدمت کے لیے مامور افراد آخر کس غفلت میں
مبتلا ہیں۔ یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ مولانا آزاد یونی ورسٹی اردو میڈیم میں
بی۔اے۔ توکراتی ہے لیکن اپنے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں مقابلہ جاتی امتحانات کے
لیے انگریزی کی شرط لگاکر اپنے بچّوں کو خود ہی کا میا بی سے دور کرتی ہے
یا ان کی ترقّی کے راستے مسدود کردیتی ہے۔
حکومتِ ہند نے پچھلی دہائی میں اردو میڈیم اساتذہ کی تدریسی تربیت کے لیے
تین ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور مولانا آزاد
نیشنل اردویونی ورسٹی میں قائم کیے۔ یہ ادارے پورے طور پر تصوّر کی خامیوں
سے اپنی کامیابی سے منہ چڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اردو میڈیم کی تعلیم جہاں
ڈوبتا ہوا جہاز ہے، وہاں اساتذہ کی تربیت کا کون سا ایسا مسئلہ تھا جس کے
لیے ایسے اداروں کی ضرورت تھی۔ممکن ہے کہ اردو میڈیم کو فروغ دینے کا کچھ
واقعتا ارادہ کیا گیا ہو۔ پھر یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کیوں کہ پورے ملک
کے اردو میڈیم اساتذہ کی تربیت کے لیے محض تین ادارے قائم کرنا اونٹ کے منہ
میں زیرہ بھی نہیں ہوسکتا۔ شاید حکومت بھی یہی چاہتی تھی کہ ایسے ادارے
کامیاب اورمؤثرنہ ہوں اور ہاتھی کے دکھانے والے دانت کی طرح بن کر رہ
جائیں۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اگر حکو مت مخلص تھی تو ایسے تربیتی
ادارے ہر کمشنری اور صوبے میں قائم کرسکتی تھی۔ لیکن اس کا یہ مقصد ہی
نہیں، اسے صرف الیکشن کے تحفے اور تحائف بانٹنے سے مطلب ہے۔
اس گفتگو سے اردو میڈیم تعلیم کی جو تصویر اٌبھرتی ہے، وہاں گھٹا ٹوپ
اندھیرا ہے۔ عوامی سطح پر بھی کہیں کوئی موثر پیش قدمی نظر نہیں آتی جیسی
آزادی سے پہلے ہوتی ہی رہتی تھی۔ اردو میڈیم تعلیم کا معیار اگر ہندی اور
انگریزی تعلیم سے بہتر یا مساوی نہ ہو تو اس جہاز کو بہر طور ڈوبنا ہے۔
مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو اردو کی طرف کھینچنا اور ان سے تعلیمی پُل
کا کام لینا ہمارے فرائض میں داخل ہونا چاہیے۔ اردو میڈیم کے استحکام کے
لیے یہ بھی لازم ہے کہ جنوبی اور شمالی ہند کی علاقائی زبانوں میں اردو
جاننے والوں کو پہچانا جائے اور ہندی، انگریزی کے ساتھ ساتھ ان سے بھی ایک
زندہ اور قومی سطح کے لین دین کا رشتہ بنایا جائے۔ کوئی ایسا ادارہ بھی
قائم کیا جاسکتا ہے جہاں اردو میڈیم کے سلسلے سے تدریسی مواد کا عظیم ذخیرہ
جمع ہو تاکہ ایک ادارے کی تیّار شدہ چیز دوسرے کے کام میں لائی جاسکے۔
ٹکنالوجی کے فروغ کے زمانے میں یہ بات ناقابلِ عمل بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ہم
اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجدوں کے بجاے چھوٹے بڑے اداروں کے کاموں سے ایک
استوار رشتہ قائم کرلیں تو اب بھی ہندستان کی کثیر لسانی صورتِ حال میں
اردو ذریعۂ تعلیم مجذوب کی بڑ نہیں مانی جائے گی۔
نصاب اور درسی مواد: مسلسل احتساب کی ضرورت
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نصابِ تعلیم اور درسیات کے
خاکے پر استادہ ہے۔ سارے اصول ، خواب اور تمنّائیں ہم نصابِ تعلیم میں
پیوست کرکے تعلیم کے ایک سیڑھی نما نظام کی تشکیل کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی
تو ہر استاد کو یہ اختیار دینا چاہتے تھے کہ وہ اپنا علاحدہ خاکۂ نصاب اور
درسی کتاب کے نمونے تیار کرے اور انتظامیہ کی طرف سے پیش کردہ کتابوں پر
قناعت کرکے نہ بیٹھ جائے۔ ممکن ہے کہ ہماری زندگی میں کبھی یہ رام راج
آجائے لیکن آج استاد کو نہ یہ سہولت میسّر ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی
متبادل نصاب یا خاکۂ نصاب ہے۔ تعلیمی انتظامیہ نے جن موضوعات کو متعیّن
کردیا اور حکومت نے جو درسی کتابیں تیار کردیں، وہ اسی کا Translatorاور
Facilitator بنا ہوا ہے۔ ہماری قومی تحریک میں تعلیم کے بارے میں جو نیک
تصوّرات پیدا ہوئے تھے، انھیں ہم نے بہت جلدی جلدی میں ضائع کردیے اور
انگریزی تعلیم کے عمومی نسخوں کو زیادہ کار آمد سمجھا جو دوسروں کی ذہنی
سطح اور قومی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تیار ہوئے تھے۔
درسیات، نصابِ تعلیم، درسی کتاب اور دیگر درسی مواد کے بارے میں اگر غور
کیا جائے تو ہمارے تعلیمی نظام کے یہ ایسے مراکزہیں جہاں سے روشنی کم
پھوٹتی ہے اور اندھیرے کی کھیتی زیادہ اہتمام سے کی جارہی ہے۔ اساتذہ کی
طول طویل فوج پر نگاہ ڈالیے اور نصابِ تعلیم یا درسی کتابوں پر تنقید و
تجزیہ کے نام پر چھپے ہوئے اخبار یا رسائل کے تراشوں سے موازنہ کیجیے تو
خود یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اساتذہ اپنے نصاب اور دوسری کتب کا تنقیدی
جائزہ اور محاسبہ کرنے کی بالکل خواہش نہیں رکھتے۔ اساتذہ سے بہتر کون سے
وہ لوگ ہوں گے جنھیں یہ معلوم ہو کہ کون سا متن کس سطحِ زندگی کے طالب علم
کے لیے موزوں ہے؟کون سی تحریر طالب علم کو پسند آرہی ہے اور کون سا مواد
اکبر کے لفظوں میں ـ’ قابلِ ضبطی‘ ہے؟ نصابِ تعلیم اور درسی کتاب بنانے
والے افراد اکثر و بیش تر خواب و خیال کی محبوب وادیوں میں فطری طورپر قید
ہوتے ہیں اور ہمارے طلبا کے لیے اپنی کوششوں سے ایک جنّتی تحفہ لے کرسامنے
آتے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقی جانچ پرکھ اور طلبا کے بیچ پہنچانے کی زمینی
ذمّہ داری اساتذہ کی ہوتی ہے ۔اساتذہ ایسی جگہ پر ہوتے ہیں جہاں حکومت اور
انتظامیہ کے علاوہ ماہرینِ نصاب اور مرتّبین ِکتب کی تسامحات کی اصلاح کرکے
ہمارے بچّوں کی تعلیمی زندگی کو اندھیرے میں جانے سے بچا سکتے ہیں۔ لیکن ان
میں سے اکثر اس ذمّہ داری سے الگ رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور وہ
کسی پنڈت کے رَٹے ہوئے توتے کی طرح بن جاتے ہیں جو چند الفاظ سیکھ کر تمام
عمر خود کو اور دوسروں کو بے وقوف بناتا رہتا ہے۔ ہمارے اساتذہ بھی ماہرینِ
نصاب کے پیش کردہ تصورات کی اپنی سطح سے جانچ پرکھ کیے بغیر ایک عمومی سستی
اور کاہلی کو روا رکھتے ہیں اور کاروبارِ تعلیم کو اپنے اوپروالوں کے اشارے
سے آگے بڑھانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
یونی ورسٹی اساتذہ کا اپنے نصاب کے تنقیدی احتساب سے گریز
میرا کہنا ہے کہ آئے دن یہ باتیں اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں کہ ہمارے نصاب
میں فلاں قسم کی خامی ہے یا درسی کتابوں میں کون سی گڑبڑیاں موجود ہیں ۔ یہ
خامیاں صوبائی مراکز ،این۔سی۔ای۔آر۔ٹی۔ اور بڑی بڑی یونی ورسٹیوں کے درسی
مواد کے مطالعے میں دکھائی دیتی ہیں۔ کئی بار بعض اداروں کو اپنی کتابیں
بازار سے واپس منگانی پڑتی ہیں یا اسے لوگوں کی آنکھوں سے چھپا نا پڑتا ہے۔
پورے ملک کے نصاب اور درسی مواد کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں تشکیل کی
خامیاں، متن کی برائیاں اور تعلیم کے اصولوں کی دھجّیاں اڑانے کاجو رجحان
موجود ہے، اسے روکنے یا سنبھالنے کے لیے اساتذہ بالعموم خاموش دکھائی دیتے
ہیں۔ اسکول سے لے کر یونی ورسٹی تک کے اساتذہ اگر اپنے دامن میں جھانک کر
دیکھیں کہ انھوں نے اپنے نصاب اور درسی مواد کو بنیاد بناکر کتنے مضامین
لکھے؟ غالبؔ اور میرؔ کی خامیوں یا خوبیوں پر ان کا قلم ہمیشہ رواں رہتا ہے
لیکن جن متون کو انھیں اپنے طلبا تک پہنچانا ہے ،ان کی ہر سطح سے جانچ پرکھ
کی کوشش انھوں نے آخرکیوں نہیں کی۔ کیاتیس چالیس برس کی تدریس میں بھی دس
اسباق انھیں نہیں ملے جن کے بارے میں وہ اپنی راے عوام کے سامنے رکھتے اور
یہ بتاتے کہ یہ متون کس حد تک درست، معقول اور موزوں تھے یا اسی طرح غلط،
ازکار رفتہ اور کاروبارِ جَہل کا حصّہ تھے؟
جو قوم عمومی طور پر اپنے نصاب اور درسی مواد کا سخت گیر محاسبہ کرنے کی
خوگر نہیں، اس کے نظامِ تعلیم میں اصلاح کا فطری بیج پنپ نہیں سکتا ۔ہم
ایسی ہی قوم کے فرزند ہیں۔ بادشاہت اور غلامی دونوں ادوار میں تعلیم ہماری
بنیادی ترجیحات میں نہیں رہی جس کے ابھی اوربُرے نتائج ہمارے مقدّر کا حصّہ
ہوں گے۔ اساتذہ کی بے توجّہی نے تعلمی انتظام کاروں اور حکومتوں کو ایک
ایسی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جس میں غارت گری اور طوائف الملوکی کی کیفیت
کواُبھرنا ہی ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت اپنے سیاسی مفاد کو سادھنے
کے لیے اپنی پسند کے منتخب تعلیمی ماہرین سے کام لیتی ہے۔ حکومت اور
انتظامیہ کا ایسا ٹھوس گٹھ جوڑ ہے جس کے چنگل سے آسانی سے کوئی نکل نہیں
سکتا۔ ہمارے اساتذہ کیوں نہیں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ہر صورت میں کوتاہی
یا عدم مستعدی کی سزا طلبا اور قوم کو ملتی ہے۔ حکومت بدل جائے گی، افسران
تبدیل ہوجائیں گے لیکن استاد، شاگرد اور قوم کو اور کہاں جانا ہے۔ اس لیے
سیاسی مفاد کے غیر تعلیمی عناصر کو اگر استاد چاہے تو اپنی ذہانت سے اسکول
،کالج یا یو نی ورسٹیوں میں داخل ہونے سے پورے طور پر روک سکتا ہے لیکن اس
کام میں اسے اپنی تعلیمی صلاحیتوں کا بہت خوبی کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا۔
یہ وہی استاد کرسکتا ہے جسے معلوم ہے کہ تعلیمی نظام میں حقیقتاً وہی سب سے
معتبر اور ذمّے دار رُکن ہے اور سماج نے اسے ہی نسلِ نَو کی تربیت کی ذمّہ
داری سونپ رکھی ہے۔
استاد اور تعلیمی انتظام کار: اختیار کردہ تفاوت
نصابِ تعلیم اور درسی مواد کی کج ادائیاں اس وجہ سے بھی سنبھل نہیں پارہی
ہیں کیوں کہ ہم میں سے جب کوئی تعلیمی انتظام کار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو
وہ استاد سے زیادہ نام نہادانتظام کار بن کر اپنی شناخت قائم کرنا چاہتا
ہے۔ وہ حاکم کی طرح سے سماج کے سامنے آتا ہے، یہ بات صدرِ شعبہ،پرنسپل،
محکمۂ تعلیم کی سربراہی سے لے کر وائس چانسلر اور وزیرِ تعلیم یا صدرِ
مملکت کے عہدے تک کے لیے میں کہنا چاہتا ہوں۔ اردو آبادی اور بالخصوص اردو
اساتذہ میں سے بہت سارے ایسے افراد ہیں جنھیں وقت نے ان عہدوں پر بٹھایا
لیکن کیا اُن کے بہ طورِ انتظام کار انقلاب آفریں کاموں سے کون واقف ہے ؟ان
عہدوں پر ان کی کارکردگی اور علمی نتائج سے کس کو کتنا فائدہ پہنچا؟گردشی
نظام (Rotational System) نے یہ سہولت بھی پہنچا دی کہ ہم میں سے اب ہزاروں
افراد کو کرسیِ صدارت اور نہ جانے کتنی اونچی منزلیں نصیب ہونے لگی ہیں۔
لیکن کیا ایسے لوگ کچھ خاص تعداد میں موجود ہیں جو یہ کہنے میں حق بہ جانب
ہو ں کہ انھیں جب انتظامی عہدہ میسّر آیا تو انھوں نے ان تمام تعلیمی
اندھیروں کو اپنے نصاب یا درسی کتابوں سے دور کیا اور اپنی قدرت بھر یہ
کوشش کی کہ ان کے بچّے بہترین تعلیمی مواد حاصل کرکے کارہاے نمایاں انجام
دیں۔ اس سوال کے جواب میں زیادہ افراد اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر ہاں نہیں کہہ
سکتے۔ ہم جیسے ہی استاد سے انتظام کارمنتخب ہوتے ہیں۔ اکثر یہ بات ہمارے
ذہن سے نکل جاتی ہے کہ ہماری بنیادی حیثیت ایک مدرّس کی ہے۔ منصب کا جاہ
وجلال کاہے کا، اور کیوں مدرس کی بُردباری کو ضائع ہونا ہے۔ اکثر بڑے منصب
پر بیٹھنے والے اقربا پروری ، حق تلفی اور ناانصافی کے مرتکب قرار پاتے ہیں
اور بعضوں کو اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے لیے جیل تک جانا پڑتا ہے۔ اب یہ
وبا اردو کے گھر تک پہنچ چکی ہے ۔مجھے ذاکر حسین کی ایک تقریر کے چند جملے
یاد آرہے ہیں جہاں انھوں نے استاد اور انتظامی امور کے رشتے پر گفتگو کی
تھی: ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ سے ایک ہم منصب استاد کی حیثیت سے گفتگو
کرسکوں۔ حالات کے پیشِ نظر اگرچہ میں تعلیم کے میدان میں انتظامی امور سے
وابستہ ہوگیا ہوں لیکن میں بنیادی طور پر ایک استاد ہوں اور مجھے اس پر فخر
ہے۔‘‘جب تک اساتذہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے مرکز میں تعلیم اور نصابِ تعلیم
کے احتساب کو پیش نظر نہ رکھیں گے، اس وقت تک نصابِ تعلیم اور درسی کتابوں
میں مسلسل اصلاح اور تنقید و تجزیہ کے کام نہیں ہوں گے اورہم بہ
دستورپچھڑتے ہی چلے جائیں گے۔
نصاب اور درسی مواد: قومی یا علاقائی؟
اردو بلاشبہ ایک بین الاقوامی زبان ہے اور طرح طرح کے جغرافیائی خطّوں میں
ہماری تعلیم گاہیں پھیلی ہو ئی ہیں۔ صرف ہندستان کی بات کریں تو کم و بیش
ہر صوبے میں اردو کی تعلیم کا ابتدائی درجات سے لے کر اعلا درجات کے
اختتامی زینوں تک تعلیم و تدریس کی مشق ہورہی ہے۔ ان کے نصاب اور تدریسی
مواد کا جائزہ لیتے ہوئے جس تعلیمی خلفشار سے ہم گزرتے ہیں، وہ اتنا پریشان
کُن ہے جس کا علاج مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اردو یا دوسری زبانوں کے نصاب میں
یہ مسئلہ بار بار زیرِ بحث آتا ہے کہ نصاب کا رُخ علاقائی ہو یا قومی؟ اس
سوال کے جواب میں جو عملی طَورسامنے آتا ہے،اس کے پیچھے ایک بے راہ روی کی
کیفیت سمجھ میں آتی ہے۔ جو جہاں بیٹھ کر کام کررہا ہے، اس میں ایک تحکمانہ
رویہّ موجود ہوتا ہے۔ جاگیردارانہ نظام نے ہمارے مزاج کو اب تک ٹھیک طرح سے
جمہوری تقاضوں سے لیس نہیں ہونے دیا جس کے سبب نصابِ تعلیم کی تشکیل میں ہم
اکثر و بیش تر کنویں کا مینڈک بن جاتے ہیں۔ جب دوسروں کی دنیا کو اہتمام سے
ہم نہیں دیکھیں گے تو مسائل سنگین تر ہوتے جائیں گے۔ نصاب میں ذاتی پسند
اور نجی ترجیحات یا مخصوص تعصبات کا زوراتنا بڑھتا ہے جس سے اکثر و بیش تر
ہم آنکھ موند کر اپنے نصاب تیار کرتے ہیں اور پورے نظامِ تعلیم کو بگاڑنے
کی نازیبا ذمّہ داری اپنے کندھوں پر ڈالتے ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی کے عہد
میں کوئی کسی کی مرکزیت کیوں مانے گا اور غیر ضروری طور پر اپنوں کی اَن
دیکھی کرکے دوسروں کے فتاویٰ کو بغیر منطق کے کیوں کرقبول کرے گا؟
ہندستان شمال اور جنوب ؛ مشرق اور مغرب میں ہی بٹا ہوا ملک نہیں ہے۔ صوبائی
تقسیمات اور چھوٹے بڑے دبستانوں اور ادبی مراکز میں بھی ہمارا ادبی سرمایہ
منقسم ہے۔ نئے نئے مراکز قائم ہورہے ہیں ۔پرُانی بستیاں سمٹ رہی ہیں اور
اردو کی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ سب کی اپنی توقّعات ہیں اور واضح طور
پر ان کے حقوق کی ادائیکی بھی ہونی ہے۔ ایک طرف ہم جَڑوں میں الجھے ہوئے
ہیں، دوسری طرف ہماری شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان سب میں توازن
قائم کرنا دو دھاری تلوار پر چلنا ہے۔ زبان کا جتنا وسیع تناظر ہے، اسی
اعتبار سے ہمارے فیصلوں میں لچیلا پن ، رواداری اور عدم تعصب کی فضا ہونی
چاہیے۔ ایک متن کے انتخاب میں اگر آپ پر یہ الزام عائد ہوگیا کہ آپ نے
علاقائیت برتی تو ہمارے سارے خواب ایک لحظے میں چکنا چور ہوجائیں گے۔اسی
طرح اگر ہم نے بعض علاقوں کے ادب سے دانستہ گریز کی راہ اختیار کی تو یہ
بھی درست نہیں ہو گا۔
قبولِ عام نصاب کا تصوّر
اردو کا نصاب کن سطحوں پر علاقائی ہونا چاہیے اور کن سطحوں پر قومی ؛ اس پر
ابھی جی لگا کر ہم نے گفتگو ہی شروع نہیں کی ۔ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے
نصابِ تعلیم کے سلسلے سے اردو کے بارے میں جو پیش رفت کی ،اسے روٹین کام یا
میکانیکی عمل سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ قومی اردو کونسل نے جلد بازی
میں بی۔ اے اور ایم۔اے۔ کے نصاب کے بارے میں ایک بڑا کنونشن کیا اور بات
کچھ آگے بھی بڑھی لیکن اس خاکۂ نصاب پر تنقید و تجزیہ اور ترمیم و اضافے کا
معاملہ ہی سامنے نہیں آیا اور لاکھوں کی رقم خاک میں مل گئی۔ کبھی کبھی یہ
آواز بھی اٹھتی رہتی ہے کہ ہمارے نصاب میں کتنا فی صد قومی مواد شامل کیا
جانا چاہیے اور کس قدر علاقائی امر کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے؟ ہم اپنی زبان
کی اہمیت اور قومی تناظر کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن کیا مرکز ی سطح پر ایسی
کوئی کوشش کیوں نہیں کی جاتی کہ علاقائی امور پر بھی قومی سطح پر گفتگو کا
آغاز ہوسکے۔ یہ تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ علی گڑھ اور دہلی کے افراد کے
بیچ تمل ناڈو اور کرناٹک کے اساتذہ کو بٹھایا جائے اور نصابِ تعلیم بنانے
میں دونوں کی علاقائی ضرورتوں کا بالمشافہ جائزہ لیا جائے۔ یہ صرف مرکز اور
بڑے اداروں میں بیٹھے افراد کا حق نہیں کہ وہ طے کردیں کہ دلّی اور لکھنؤ
کے کون سے پچاس مصنّفین کی تحریریں شاملِ نصاب ہوں گی اور کون سے ایک یا دو
مصنفین کرناٹک اور تامل ناڈو سے منتخب کیے جائیں گے۔ کیا یہ تشویشناک بات
نہیں کہ دہلی یا مرکزی یونی ورسٹیوں کے نصابِ تعلیم میں آج تک ایک ایسی
کھڑکی بھی نہیں بنائی جاسکی جس سے ہم اس ادارے کے باہر کی نصابی سرگرمیوں
کا جائزہ لے سکیں اور اگر کوئی معقول بات ہمارے باہر بھی ہورہی ہے تو اسے
اپنی باہوں میں سمیٹ لیا جائے۔
علی گڑھ مسلم یو نی ورسٹی، جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ
اسلامیہ کے شعبۂ اردو کے بی۔ اے۔ ، ایم۔اے۔ اور ایم۔فل کے نصابات کا ایک
تقابلی جائزہ لیجیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ تین دنیاؤں کی سیر ہے۔ تینوں
اداروں میں صرف مقامی طالب علم نہیں پڑھتے بلکہ وہ ملک کے طول و عرض سے
منتخب ہوکر وہاں پہنچتے ہیں۔ بلاشبہ طلبا کی رسد کے اعتبار سے یہ تینوں
شعبے کُل ہند حیثیت کے حامل ہیں لیکن ان کا طریقۂ تدریس ایک دوسرے سے کمالِ
بے گانگی کے اصولوں پر قائم ہے۔ جب یہ مشہور اور بڑے شعبے تعلیم و تدریس کے
امور پر یک را ے نہیں ہوسکتے تو اُن سے کون یہ امید کرے گا کہ تین ہزار
مربع میل کے رقبے میں پھیلی اردو آبادی کے معاملاتِ نصاب میں کوئی اتفاق
راے یا ٹھوس صلاح و مشورے کی مستقبل میں گنجائش پیدا ہوگی۔ اساتذہ کی تعداد
کے اعتبار سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا شعبۂ اردو اس عظیم ذمہ داری کے
لیے قائدانہ حیثیت اختیار کرسکتا تھا لیکن افسوس کہ اس موضوع پر سلیقے کے
چار پرچے بھی وہاں سے سامنے نہیں آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکزی حیثیت
کی ان یونی ورسٹیوں کو ہرسال ایک سے می نار اس موضوع سے کریں اور نصاب کے
مسائل پر سالانہ وھائٹ پیپر جاری ہو لیکن ہمیں غالبؔ، میرؔ اور راشدؔ یا
افسانہ، غزل اور تنقید کی زلفِ گرہ گیر سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ ہمیں یہ یاد
ہی نہیں رہتا کہ نسلِ نَو کی موزوں تربیت کے بغیر ہمارا سارا کام ضائع
ہوجائے گا اور آنے والے وقت میں ہماری کتابوں کو ٹھیک سے سمجھنے والا کہاں
سے آئے گا؟
توازن کی ضرورت
مشرق اور مغرب کے تعلّق سے مہاتما گاندھی اور اقبال کی باتیں مجھے یاد آتی
ہیں۔ گاندھی کی مشرقیت کی دلدادگی کو سب مانتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ یہ بات
کہتے رہتے تھے کہ باہر کی تروتازہ ہواؤں کے لیے اپنی کھڑکیاں اور دروازے
کھلے رکھنا ہے۔ نصابِ تعلیم کے معاملے میں جدید اور قدیم یا قومی اور
علاقائی کی بحث بھی اسی تناظر میں قائم ہونی چاہیے۔ انتخاب اور فیصلے کی
گھڑی میں جمہوری تقاضوں پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ جاگیردارانہ تہذیب کے
لواحقات کو جھٹک کر ہمیں منطق اور استدلال کی بنیاد پر نصابِ تعلیم کی
تعمیر و تشکیل کرنی چاہیے۔ سب سے ضروری یہ امر رہے کہ جب بھی نتیجہ خیز
گفتگو کی باری آئے تو ہر علاقے کے اصحابِ علم کی صلاح اور متن کے انتخاب
میں مدلّل گفتگولازم ہے۔ اگر جی جان سے ، ایمان داری سے اور خود ساختہ
فضائل و مناصب کے زرہ سے نکل کر غور و فکر کریں تو ہمیں کامیابی کیوں کر
نہیں ملے گی؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم نے پورے
ملک کے لیے ایک آئین بنایا۔ کئی برس تک اس آئین کے لیے ملک کے گوشے گوشے سے
ماہرین بلا ئے گئے اور اٌن کے درمیان مباحثے و مجادلے ہوئے۔ ایک طرف آئین
مکمل ہوا ،دوسری طرف ہم نے وہ مباحث اور اختلافات بھی عوام تک پہنچانے کی
غرض سے شائع کردیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس موضوع پر کس کی راے اُس خاص
وقت میں کیا تھی؟ یہ ایک جمہوری آبادی کا بہترین طریقۂ کار تھا۔ پتا نہیں،
ہماری اردو آبادی سے ایسا جمہوری ذہن کا کوئی آدمی کب اٌبھر کر سامنے آئے
گا۔ ناامیدی کفر ہے لیکن ایسے ماحول کی تمنّا ہمارے دلوں میں رہنی ہی
چاہیے۔
اردو کی مقابلہ جاتی اورکاروباری جہتیں
کسی بھی دوسری جدید زبان کی طرح اردو بھی اپنے بولنے والوں کے لیے روزی
روزگار کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ دروازے صرف درس وتدریس تک ہمیں پہنچائیں تو
واقعتا غضب ہوجائے۔ اردو پڑھ کر ہم کسی بھی شعبۂ حیات میں جا سکتے ہیں اور
اپنی زبان کی طاقت پہ وہاں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں؛ ایسے بھروسے کے بغیر
کوئی طالب علم ہماری زبان کو کیوں پڑھنا چاہے گا؟ یہ صحیح ہے کہ زبان کی
تعلیم و تدریس کے بہت سارے مقاصد ہوتے ہیں اور اظہار کی رنگا رنگی کا یہ
واقعی ایک منبع ہے۔ لیکن روزگار کی ماری دنیا سب سے پہلے یہی سوال قائم
کرتی ہے کہ اپنی زبان کے سہارے آخر کہاں تک بڑھو گے؟’’پڑھو فارسی بیچو
تیل‘‘ کا مقولہ ہم ابھی بھولے بھی نہیں ہیں۔ اردو پر تو اور کئی طرح کے
سوالیہ نشانات ہیں۔ ایسے میں ہر شعبۂ اردو اور ہر استاد یا طالب علم کو اس
سوال کا جواب دینا ہی پڑتا ہے کہ اردو پڑھ کر ہم کہیں بے روزگار تو نہیں ہو
جائیں گے؟ اردو درس و تدریس کہیں ہمارے پاؤں میں زنجیر تو نہیں ڈال دے گی؟
اس زبان کو پڑھ کرہم بھوکوں مرنے کے لیے مجبور تو نہیں ہو رہے ہیں؟
اگر ایسے سوالوں کا شافی جواب نہ دیا جائے تو ہمارا طالب علم کیوں کر اپنی
تعلیم ہماری جماعت میں بیٹھ کر مکمل کرنا چاہے گا۔ پورے ملک میں اردو کے
طلبا اس انتشارِ ذہنی کا شکار ہیں اور ان کی بڑی تعداد اپنی کاروباری زندگی
میں پسپائی میں مُبتلا ہوتی جارہی ہے۔ اگر پرائمری اسکولوں میں ملازمت کا
تھوڑا بہت راستہ نہ ہوتا تو اردو کے طالب علم ہمارا دامن پکڑ لیتے اور یہ
سوال پوچھتے کہ آخر ایم۔اے اور پی ایچ۔ ڈی۔ کی منزلوں تک پہنچا کر آپ نے
ہمیں اس لائق بھی نہ رکھا کہ ہم مزدوری اور کاشت کاری کر سکیں۔ کیا یہ
نتیجہ اخذ کرنا جبر معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ ہائے اردو کے طلبہ کی زندگی روشن
رفتار سے دوڑتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ؟ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جو اہرلال
نہرو یونی و رسٹی یا علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دہلیز تک پہنچنے
والے بچّوں کویہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں جوش و جذبے کی کمی ہے یا
اپنی طرف سے وہ کوشش کرنے والے طالب علم نہیں ہیں۔ لیکن دوچار یا دس برس
پڑھانے کے بعد ہم انھیں بہت معمولی ملازمتوں تک پہنچا رہے ہیں تواس کا مطلب
یہ بھی ہوا کہ بہ قولِ اقبال ہم شاہیں بچّوں کو خاکبازی کا سبق سکھا رہے
ہیں۔ اس لیے اقبال ہی کی طرح ہمیں بھی ان خداوندا نِ مکتب سے زبردست شکایت
ہے۔
سول سروس امتحانات میں اردو کے لیے مواقع
دوسرے مضامین کی حالت کیا ہے اور روایتی ڈگریوں کی وہاں کیا صورتِ حال ہے؛
یہ ابھی ہمارے موضوعِ گفتگوسے باہر ہے لیکن اردو کے بڑے شعبے اپنے طلبہ میں
ایم۔اے۔ پی ایچ ۔ڈی۔ کے بعد کی منزلوں کے بارے میں زیادہ بیداری نہیں پیدا
کررہے ہیں اور نہ ہی عملی سطح پر ایسی تیّاریاں ہو رہی ہیں۔ ہر استاد کو
معلوم ہے کہ تمام طالب علم لکچرر نہیں بن سکتے ہیں۔ وہ ہمارے شاگرد ہیں، اس
لیے انھیں روزگار کے متبادلات کی طرف متوجّہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہمیشہ پہلی
کوشش اعلا ملازمتوں کے سلسلے سے ہونی چاہیے۔ یونین اور صوبائی پبلک سروس
کمیشن کے امتحانات ہمارے شعبہ ہاے اردو کے طلبہ کے لیے ایک بہترین شاہ راہ
ہیں جہاں وہ کم از کم ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو کو آزما سکتے ہیں۔
جب سے یونین پبلک سروس کمیشن میں ایک اختیاری مضمون کا فیصلہ ہوا ہے، تب سے
اردو والوں کے لے مزید آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں لیکن کس شعبۂ اردو کو یہ
خیال آیا کہ سول سروس امتحان کے نصاب کو سامنے رکھ کر اپنی یونی ورسٹی کے
نصابِ تعلیم میں ترمیم و اضافہ کرلیں۔ کچھ نہیں تو سول سروسکے مدّ نظر ایک
یا دو اسپیشل پرچے ہی ترتیب دے دیے جاتے تو ہماری جماعت سے چار بچّے ان
اعلا ملازمتوں کی طرف بھی جا سکتے تھے۔ اس سے بھی موزوں یہ ہوتا کہ اہم
یونی ورسٹیوں میں ایک و وکیشنل کورس بھی بنایا جا سکتا تھا جس کے نصاب میں
یونین اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے پورے نصاب کو شامل کردیا جاتا اور
جانچ پرکھ کا بھی وہی انداز ہوتا جو کمیشن کے امتحانات میں دیکھنے کو ملتا
ہے۔ سولفظ، دو سو لفظ اور پانچ سو یا ہزار لفظ میں کسی بات کو کس طرح
پھیلائیں گے اور سمیٹ لیں گے؛ اس کی تربیت اوراحتساب کا باضابطہ انتظام کیا
جانا چاہیے تا کہ طلبہ کا مرانی کی منزلوں تک پہنچ سکیں۔
یو۔جی۔سی۔ کی جانب سے جونیر رسرچ فیلو شب اور لکچرشب کے لیے امتحانات کی اب
تین دہائیاں مکمل ہونے کو آئیں۔ کیا بدنصیبی ہے کہ اس کے نصاب میں اب تک
کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی البتّہ طریقۂ امتحان میں یا سوال پوچھنے کے
انداز میں وقفے وقفے سے تھوڑی بہت تبدیلیاں ہوئیں۔ بعض شعبہ ہاے اردو نے
یو۔جی۔سی۔ کے نصاب کو سامنے رکھ کر اپنے نصاب از سرِ نوبنائے یا ضروری
تبدیلیاں روا رکھیں لیکن زیادہ شعبہ ہاے اردو شتر مرغ کی طرح ریت میں
سرگاڑے آج تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے طلبہ کو کسی مقابلہ جاتی امتحان میں
اپنی پچھلی پڑھائی سے کوئی مدد نہیں ملتی اور انھیں خود کو از سرِ نو کھڑا
کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کسی نے مختصر اور مختصرترین جوابات لکھنے کی باضابطہ
مشق کرائی؟ بیس اور تیس لفظوں میں کیسے جواب لکھے جائیں، اس کے بارے میں
مستقل غور و فکر کی ضرورت پیدا ہوئی؟ غفلت شعاری ہماری عادت کا حصّہ ہے جسے
ہم نے یہاں بھی آزما رکھا ہے۔
اسکول اساتذہ کے لیے علاحدہ نصاب تیار کرنے کی ضرورت
جب سے مرکزی اور صوبائی سطحوں پر اسکول کی مختلف سطحوں کے اساتذہ کی تقرری
کے لیے امتحانات شروع ہوئے ہیں، کیا آج تک کسی شعبۂ اردو میں ایسے بچّوں کی
تربیت کے لیے باضابطہ کوئی انتظام کیا گیا؟ ان امتحانات کے نصاب بھی بی۔اے۔
یا ایم۔ اے۔ کی بنیاد پر بنائے گئے لیکن داخلی داؤ پیچ بہت ہیں۔ تعلیم کے
مضمون کی شمولیت بھی وہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا ہم جلدی سے ایک ایسا برج
(Bridge) کورس تیار نہیں کر سکتے تھے یا ایک خصوصی پرچہ نہیں بنا سکتے تھے
جہاں ایسے امتحانات میں شامل ہونے والے بچّوں کی ضرورتوں کا دھیان رکھا جا
تا؟ انھی وجوہات سے ہر طرح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ہمارے طلبہ کا
تناسب افسوس ناک حد تک کم ہے اور قومی ترقّی کی راہ میں ہماری زبان پس
ماندگی کا ایک معیار بن کر ہمارا منہ چڑھاتی رہتی ہے۔
صحافت اور ماس میڈیا
کہنے کو ہمارا زمانہ مواصلاتی ترقّی کا ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ
میڈیا میں اردو کے طلبہ کے لیے بہت سی گنجایشیں پیدا ہوئی ہیں۔ شاید اسی
لیے اردو کے بہت سارے شعبے آزادانہ طور پر صحافت اور ماس میڈیا کے کئی کورس
چلا رہے ہیں۔ لیکن ان کی تعلیم کا معیار اتنا پست اور آزادانہ طور پر ماس
میڈیا کے دوسرے شعبوں کے مقابلے حقیر ہے جس سے ہمارا اندھیرا کم نہیں ہونے
والا ہے۔ آپ جب ماس میڈیا یا صحافت پڑھانے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں تو
آپ کو ذرائع ابلاغ کی عمومی ضرورتوں اور معیار کا پاس کیوں نہیں رہتا ہے؟
نئی دنیا کے تقاضوں سے صرفِ نظر کرکے ہم اپنے طلبہ کو بھوکے مرنے کے لیے
مجبور کر رہے ہیں۔ نام لینے کی ضرورت نہیں لیکن ایک فہرست سازی کی جا سکتی
ہے کہ شعبۂ اردو سے جُڑے ہوئے ماس میڈیا کے کورس کے فارغین آخر ہماری صحافت
میں کہاں ہیں؟ ان میں سے کون سے نامور صحافی بنے؟ کون کون مجھولے اور چھوٹے
اخباروں یا چینلوں میں تھوڑی سی رقم کے عوض وقت گزاری کررہے ہیں؟ کیا یہ
دیکھنے کا محل نہیں کہ ہماری تعلیم کے باوجود ہمارے طلبہ زندگی کی شاہراہ
پر برق رفتاری کے ساتھ خود کو آگے کیوں نہیں بڑھا سکے؟
آج بڑے چینلوں پر انگریزی داں طبقے کا بول بالا ہے۔ انگریزی کے سینکڑوں
نامور صحافی وقت کی دھار کو سمجھتے ہوئے ہندی اور اردو زبانوں میں بھی
بولنے کی حد تک کام کرنے لگے۔ پانچ سال پہلے جن کے منہ سے اردو یا ہندی کا
ایک لفظ نہیں نکل سکتا تھا، وہ اب ان زبانوں میں بھی سارے کام کر لے رہے
ہیں۔ اسے ہی پروفیشنل ازم کہتے ہیں۔ ہمارے شعبۂ اردو سے نکلے وہ کون سے
صحافی ہیں جنھوں نے اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی صحافت کے دروازے
کھٹکھٹائے۔ بڑے بڑے چینلوں میں تو اور بھی کثیر لسانی مہارت کی ضرورت ہوتی
ہے۔ ہمارے سابقین میں پچاس برس پہلے ایسے بہت سارے صحافی تھے جو کئی زبانوں
میں قسمت آزمائی کر سکتے تھے۔خواجہ احمد عباس، کلدیپ نیر، ظفرپیامی،
جمناداس اختر سے لے کر شافع قدوائی تک ہمارے صحافت پیشہ گان کی مختلف
زبانوں میں کام کرنے کی مہارت دکھائی دیتی ہے۔ لیکن آج کی تاریخ میں شعبہ
ہاے اردو کی طرف سے چل رہے ماس میڈیا کے کورسوں میں اپنے بچّوں کو ہو نہار
اور نئے جہانوں کی سیر کرنے والا بنانے کی کوئی مہم شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔
فلم اور ٹیلی ویژن
فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا جتنی وسیع ہے ، اسی طرح وہاں اردو پڑھ لکھ کر
پہنچنے والوں کے لیے روزگار کے بہترین مواقع بھی میسّر ہیں۔ آزادی سے پہلے
کی نسل میں ایک بڑی تعداد ہمارے شعرا اور نثر نگاروں کی دکھائی دیتی ہے۔
فلم انڈسٹری میں نغمہ نگار، ہدایت کار، منظرنامہ نگار، مکالمہ نویس اور کچھ
نہیں تو ایکٹر اور ایکٹریس کے تلفّظ درست کرنے کے لیے پرائیویٹ ٹیوٹر جیسے
شعبوں میں ہمارے بزرگ اہلِ قلم بہت تیزی سے اپنے لیے جگہیں حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئے۔ کہنے کو وہ نسل غیر کاروباری تھی اور ان کی رسمی تربیت بھی نہ
ہو سکی تھی لیکن آج شعبۂ اردو کے تربیت یافتگان قومی سطح پر بے روزگاروں کی
تعداد میں اضافہ کرنے میں زیادہ مصروف ہیں۔ ٹیلی ویژن کے فروغ نے فلم
انڈسٹری کے کاموں کو مقدار کے اعتبار سے کافی بڑھا دیا ہے لیکن اردو کے
ایم۔ اے، پی ایچ۔ ڈی اور ماس میڈیا کے تربیت یافتگان اس انڈسٹری کی ترقّی
سے کوئی فائدہ ہی نہیں اٹھارہے ہیں۔ اس انڈسٹری کے لیے اردو ادب کی صلاحیت
کے علاوہ اور کون کون سی خوبیاں چاہیے، اس کی بنیاد پر ہمیں اپنے طلبہ کو
تیّار کرنا فرض تھا۔ آپ اس المیے کا ذرا جائزہ لیجیے کہ حکومت نے ایک جھٹکے
سے چوبیس گھنٹے کا ڈی۔ ڈی۔ اردو چینل تو لانچ کردیا لیکن کشمیر سے کنیا
کماری تک کے اردو ماہرین کے پاس ایسے تربیت یافتہ افراد نہیں تھے جو بہترین
پروگرام بنا سکتے تھے اور اردو کے تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی
اضافی فائدہ حاصل کر سکتے تھے۔ آخر آخر یہ چینل اردو والوں کو دہاڑی مزدور
کی طرح استعمال کرکے چل رہا ہے اور اردو کے پروگرام غیر اردوداں پروڈیوسروں
کے ہاتھ میں قید ہو گئے ہیں۔ حکومت کی سازشوں کو جانے دیجیے مگر اس سچائی
سے کون انکار کرے گا کہ شعبہ ہاے اردو نے اس انڈسٹری کو دھیان میں رکھتے
ہوئے اپنے طلبہ میں ہزار دو ہزار کی ایک مخصوص فوج آج تک تیّار نہیں کی۔
مثالیں ہزاروں دی جا سکتی ہیں اور اپنے قائدین کی کوتاہیوں کی طول طویل
فہرست بنائی جا سکتی ہے۔ جس شعبہ ہاے حیات میں ہاتھ ڈالیے، ہماری مجرمانہ
غفلت شعاری اور بدتوفیقی کے مظاہر بکھرے پڑے ہیں۔ جن کاموں کو ہمیں کرنا
چاہیے تھا، وہ ہم نے نہیں کیے۔ جن کے نہیں کرنے سے ہمارا قومی فائدہ تھا،
انھیں ہم نے جی لگا کر کیا۔ مستقبل کی فصیلوں پر جو توجّہ کرنی تھی، وہاں
آنکھ موندے ہوئے غافلوں کی فہرست میں خود شامل کرتے رہے اور ہر بار قومی
مفاد کے مقابلے ذاتی مفاد کو اوّلیت دیتے رہے۔ نتیجہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ
ساری کوششیں ہارنے والے کھلاڑی کا طَور ہیں۔ آزادی کے بعد ہم سیاسی طور پر
پسپا ہوئے تھے جسے بڑی مشقّت سے جمہوری اداروں کے سہارے خودکو آگے بڑھانے
میں ہم کامیاب ہوئے لیکن اب کو تاہیاں اپنی طرف سے ہیں یہ التباس پیدا
ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے پاؤں پر کلھاڑی مارنے جیسے کاموں کیامیں مہارت حاصل
کرلی ہے؟ اسی لیے اردو سے محبّت کرنے والے کسی شخص کو ایسا لگتا ہو کہ اردو
مرتی ہوئی تہذیب کی نمائندہ ہوتی جارہی ہے تو ہمیں کیوں سینہ کوبی کرنی
چاہیے؟
نسلِ نو کی کم معیاری : ایک لمحۂ فکریہ
آج ہر طرف یہ شور مچا ہوا ہے کہ اساتذہ کا تعلیمی معیار پست ہوتا جا رہا
ہے۔ بزرگ اساتذہ تو بہ طورِ وردیہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یونی ورسٹیوں،
کالج اور اسکولوں میں جو نسلِ نو پڑھانے کے لیے آئی ہے، وہ علمی اعتبار سے
حددرجہ پست ہے۔ ایسے مواقع ہمیں بھی ملتے ہیں اور ایک افسوس ناک صورت حال
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بزرگ اساتذہ جب شکایت کرتے ہیں تو ان سے ہمارا یہ
سوال ہوتا ہے کہ ان نئے اساتذہ سے آپ کاجُرم کسی جہت سے کم تر نہیں ہے کیوں
کہ انھیں یونی ورسٹیوں میں پڑھا کر لائق بنانے کی آپ کی ہی ذمہ داری تھی
جسے شاید آپ نے پورا نہیں کیا۔ الزام کی دوسری جہت یہ بھی ہے کہ اس جاہل
نسلِ نو کو یونی ورسٹیوں میں پڑھانے کے لیے کن کن لوگوں منتخب کیا؟ وہ خود
سے پڑھانے کے لیے تو نہیں چلے آئے؟ اسی طرح تحقیقی مقالوں کے معیار کی
گراوٹ پر ہمارے بزرگوں کی لن ترانیاں خوب سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن انھیں یاد
ہی نہیں رہتا کہ وہ تحقیقی مقالے انھی بزرگوں کی نگرانی میں مکمّل ہوئے
ہیں۔ آپ کی موافق رپورٹ کے بعد ہی انھیں ڈگری ملی ہے۔ کئی بزرگ اساتذہ کے
تحریری اور مدلّل شفارش اور سوال وجواب کے بعد رسرچ اسکالر کو یہ ڈگری دی
جاتی ہے۔
اگر تحقیقی مقالہ بُرا ہے تو جن کی نگرانی میں وہ مقالہ جمع ہوا، ان کی
تنخواہ سے پانچ دس انکری مینٹ کیوں نہیں کاٹ لیے جاتے؟ بزرگ اساتذہ سے میرا
ایک اور بھی سوال ہے کہ ان کی نسل میں کیا ایسے جہالت مآب اساتذہ نہیں ہیں
جنھیں ایک صفحہ درست اردو لکھنے نہیں آتی۔وہ صحیح تلفّظ کے ساتھ ایک صفحہ
پڑھ نہیں سکتے اور ان سے پچاس اور سو گنی صلاحیت کے بچے سڑکوں پر بھٹکنے کے
لیے مجبور ہیں۔ اپنی صف کے جہلا کے لیے رواداری اور ستر پوشی اور اپنے طلبہ
جن کے پاؤں کے نیچے زمین بھی نہیں، ان کے بارے میں سخت اور اہانت آمیز رویہ
رکھنا انصاف کی بَلی چڑھانا ہے۔
اردو کی تدریس کا ایک بڑا مسئلہ اساتذہ کے انتخاب میں برتی جارہی برائیوں
میں بھی زبردست طریقے سے سامنے آتا ہے۔ انتخابی کمیٹیوں میں جب ہمارے بزرگ
اساتذہ بیٹھتے ہیں تو اس وقت اقرباپروری، دوست نوازی اور مستثنیات کو چھوڑ
کر رشوت خوری میں نہایت خشوع و خضوع سے مبتلا ہوتے ہیں۔علّتیں اور بھی ہیں
جن کے نازیبا ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں لیکن انتخابی کمیٹیوں میں صرف
ایک چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا، وہ صلاحیت ہے۔ جب کسی کو منتخب کرتے ہوئے
آپ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ اس کی ادبی اور علمی یا تدریسی صلاحیت کس قدر
ہے؛ اور آپ نے انتخاب کی دنیوی رسومیات کو ملحوظِ نظر رکھا تو چالیس برس
وہی شخص کا روبار جَہل کو پھیلائے گا۔ اس وقت اس باب میں آپ کا اعتراض
نہایت نامعقول مانا جائے گا۔
اختتامیہ
اردو درس و تدریس کے مسائل اُسی طرح سے طولانی اور پیچیدہ ہیں جیسے اردو
آبادی کے مسائل ؛ رکاوٹیں بھی اسی انداز کی ہیں لیکن جمہوری نظام میں
مسئلوں کے علاج الگ الگ نہیں ہوتے۔ ایک مبسوط نقطۂ نظر کو اختیار کیے بغیر
ہمارے مسائل آسانی سے حل نہیں ہوں گے۔ ان مسئلوں سے لڑنے کے لیے ہاتھی کے
دکھانے والے دانت کی طرح حکومتوں نے بڑے بڑے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ اردو
اکادمیاں اکثر صوبوں میں قائم کی گئی ہیں۔ مرکزی سطح پر قومی اردو کونسل
جیسا بڑا ادارہ ہے۔سنٹرل انسی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز، میسور جیسے ادارے
آزادانہ طور پر کام کررہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان اداروں میں آپسی تال
میل یا صلاح و مشورے کا کوئی رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حکومت کے ایسے
اداروں کے مقاصدہرگزیہ نہیں ہو سکتے جن میں بنیادی تبدیلیوں کی گنجائش شامل
ہو۔ ایسے اداروں کی قیادت اب سیاسی پناہ گزیں یا حاشیہ برداروں کے ذمّے
ہوگئی ہے۔ اس نقص میں پورا ہندستان ایک جیسا ہے۔ کبھی گجرال کمیٹی کی ہم
رَٹ لگاتے تھے، اب سچّر کمیٹی کی سفارشات پیشِ نظر ہیں۔ کوئی ایسا ادارہ
چاہے وہ سرکاری ہویا غیر سرکاری، ہمیں دکھائی نہیں دیتا جو اردو کے مسائل
کے بارے میں سو فیصد سنجیدہ ہو۔ آزادی سے پہلے انجمن ترقیِ اردو کی بیش بہا
خدمات رہیں اور کُل ہند ادارے کے طور پر انجمن نے مولوی عبدالحق کی رہنمائی
میں وہ مقام حاصل کیا۔ اب زیادہ کام میکانکی انداز میں طے پا رہے ہیں۔ اس
لیے اردو آبادی کا تناسب بھی بہت کم ہورہا ہے اور اب مسئلوں سے الجھنے والے
حضرات بھی جاں سوزی کے ساتھ کم دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے اداروں میں یہ بات بھی
کم ہوتی جا رہی ہے کہ وہ اپنے کاموں کا جائزہ لیں اور شفّافیت کے ساتھ یہ
بتائیں کہ ہم نے کون سے کام مکمل کرلیے اور آیندہ کیا کر گزرتا ہے۔
ہندستان کی جنگِ آزادی کے دور میں وکیلوں اور بیرسٹروں نے تحریک کا رُخ موڑ
دیا تھا۔ ایک مدرّس ہونے کے ناطے میرے دل میں ہمیشہ ایک بات گھر کیے بیٹھی
ہے کہ ہمارے اساتذہ آیندہ کی جدّوجہد میں قومی قیادت سنبھالیں گے۔ اردو کے
مسائل پر غور کرتے ہوئے میری چاہت یہ ہے کہ ہماری یونی ورسٹی کے اساتذہ
سنجیدگی کے ساتھ یہ خواب دیکھیں کہ اپنی مادری زبان کے تمام مسئلوں کو وہ
حل کرنے کے لیے اپنی فرض شناسی کا حق ادا کر سکیں گے۔
اردو کے حقیقی مسائل اور ان کے علاج کے اصل نسخے ان کے پاس موجود ہیں۔ صرف
یہ کوشش ہوجائے کہ اساتذہ اپنی سُستی اور کاہلی کو چھوڑ کر حقیقی مسائل کے
لیے سرجوڑ کر بیٹھنا شروع کردیں۔ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ مسائل آسان
نہیں اور جادو کی کوئی چھڑی گھُما کر اس سے نتیجہ نکال لیں گے، یہ نا ممکن
ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک کاموں کا یہ سلسلہ چلنا چاہیے۔ ہمارے شعبہ ہاے
اردو اور یونی ورسٹیوں کے لیے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور سماجی قبولیت کے
حصول کے لیے یہی سب سے مناسب راستہ ہے ۔جب تک ہم اپنے دامن میں جھانکیں گے
نہیں اور اپنی قومی ذمّہ داری کو ایمان کے ساتھ نہ سنبھالیں گے، اس وقت تک
ہمارے مسائل بڑھتے ہی رہیں گے۔ عام سرکاری اداروں سے ہماری یونی ورسٹیوں کا
دائرہ ٔکار ہر اعتبار سے بڑھا ہوا ہے۔ اگر قومی جذبہ اور استاد کی ذمہ داری
کا احساس بھی ایک بار پھر سے پیدا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اردو اور
اردو عوام کے تمام مسائل بہر طور حل ہوکر رہیں گے۔ گذشتہ سطور میں اسی خواب
سے جگانے کے لیے چند باتیں گوش گزار کی گئیں۔ عرض داشت کا رُخ ذرا حدِّ ادب
سے بڑھ گیا ہو تو بہ قولِ غالبؔ :
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں مُعاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
|
|