جیسے ہی موسم میں گرمی اُترتی ہے فضائیں آم
کی خوشبو سے مہکنے لگتی ہیں۔پھلوں کے اس شہنشاہ کے آگے موسم کے باقی سارے
پھل جیسے اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ناشتے‘ دوپہر اور رات کے کھانوں کے
دسترخوان ‘کچے آموں کی چٹنی اور اچار سے لے کر پکے ہوئے آموں‘ تک سے سجے
ہوئے نظر آتے ہیں۔
آم کو آج سے چار ہزار سال پہلے دریافت کیا گیا۔ امیر خسرو کے ایک شعر سے
پتا چلتا ہے کہ ایرانی اس پھل کو”نغزاک “کہتے تھے۔ رنگ‘ خوشبو اور ذائقے
میں آم کا کوئی ثانی نہیں ‘ توران او ر ایران کے بعض خوش خوراک اسے خربوزے
اور انگوروں پر فوقیت دیتے ہیں۔
قدیم انڈیا میں ہر خاص و عام کی زندگی کے مختلف ادوار (پیدائش سے موت تک)
میں خاصا عمل دخل ہوا کرتا تھا یعنی ہر اہم موقع پر آم کا استعمال کیا جاتا
تھا۔ لوگوں کی حکمتوں اور دلچسپ تصو ّ رات نے اس پھل کو ”عام“ بنادیا۔
آم سے مشابہہ پھل کے نمونے ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے دریافت ہوئے ہیں ۔اس کے
علاوہ ابن بطوطہ اور ابن ہنکال کے سفر ناموں میں بھی آم کے درختوں اور پھل
کا ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایک چائنیز سیاح ہوان
سان آم کو قدیم انڈیا سے باہر کی دنیا میں لے کر گیا۔مغل شہنشاہوں کو یہ اس
کے پھل مشرقی ایشیاءمیں چھوٹ جانے کا بڑا افسوس تھا اور غیر ملکی یہ دیکھ
کر حیران رہ گئے کہ شہنشاہ اور ان کے درباری ایک خطیر حصّہ اس پھل پر خرچ
کرتے ہیں۔ پورا دربار پھل کی سیاسی زبان پر مہارت رکھتا تھا۔مورخین کے
مطابق اکبر کی حکومت میں دربھنگہ اور مشرقی انڈیا میں آم کے ایک لاکھ درخت
لگائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر اور شاہ جہاں کو ہندوستانی آم نہایت
مرغوب تھے‘ اس حوالے سے جہانگیر کا یہ قول مشہور ہے۔”کابل کے پھل میٹھے
ہونے کے باوجود ان میں سے ایک بھی میرے مطابق آم کے ذائقے کا ہمسر نہیں
ہے۔“شاہ جہاں کو بھی آم بے حد مرغوب تھے کہا جاتا ہے کہ دکن میں ایک بار
بادشاہ نے ولی عہد پر ان کے پسندیدہ درخت کے آم کھانے کا الزام لگایا اوراس
موسم کی پوری فصل کٹوا دی۔
برصغیر پاک و ہند میں سب سے رسیلے آم پائے جاتے ہیں۔ لنگڑا‘ سندھڑی‘ انور
رٹول‘ چونسہ‘ دسہری‘ ہمساگر‘ ثمر اور بہشت نامی آموں کے رنگ ہرے‘ پیلے‘
سرخ‘ چتکبرے اور کھٹے ّمیٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے خوشبودار‘ خوش رنگ پھول
انگوروں کے پھولوں سے مشابہہ ہوتے ہیں جو بہار کے موسم میں کھلتے ہیں۔ درخت
پر اس کے پتے ظاہر ہونے کے ایک ماہ بعد اس میں کچے پھل آ جاتے ہیں جنہیں
اچار وغیرہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر پھل کو تیار ہونے سے
پہلے ہی توڑ کر ایک مخصوص طریقے سے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔اس طریقہ کار سے
تیار کئے گئے آم زیادہ لذیذ ہوتے ہیں اور برسات میں کھانے کے لئے مناسب
بھی۔
عام طور پر آم کے درختوں میں سالہا سال تک پھل لگتے ہیں ۔آم کا ایک درخت کم
از کم 4سال تک پھل دیتا ہے۔ درخت کے گرد دودھ اور گڑ ُ کا شیرہ بھی ڈالا
جاتا ہے جس سے پھل مزید میٹھا ہوتا ہے۔
آم پورے برصغیر پاک و ہند میں کثرت سے نظر آتے ہیں ‘ اپنے موسم میں آم سے
زیادہ کسی اور پھل کی خریداری نہیں کی جاتی۔پاکستان میں بھی عمدہ آموں کی
کاشت ہوتی ہے جسے پورے دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔ |