آ ٓزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔ قومیں آزادی
کی خاطر بے شُمار قربانیاں دے کر اُسے حاصل کرتی ہیں۔ ہمارا پیارا وطن
پاکستان بھی ایسی بے پناہ قربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں آد میں آنے والی
یہ واحد اسلامی نظریاتی مملکت ہے لیکن اِس کی بنیاد میں دَس لاکھ فرزندانِ
اسلام کاخون شامل ہے۔ اِس کے حُصول کے لئے آگ وخون کے کئے کئی دریا عبور
کرنا پڑے۔ بے شُمار کم سِن بچوں کو اُن کی ماؤ ں کے سامنے نیزوں میں پرویا
گیا۔ ہزاروں عفت اورحیاء کی پیکر خواتین کی عزت وعصمت کی قربانیاں دینا
پڑیں۔اس کی خاطردنیا کی سب سے بڑی ہجرت بھی ہوئی۔ تب جاکر یہ وطن عزیز
اسلامیان پاکستان کو نصیب ہوا۔
جتنی قربانیاں اس وطن کی خاطر پیش کی گئیں اُن کی مثال دنیا کی تاریخ میں
ملنا مُحال ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامیانِ برصغیر نے اتنی قربانیاں
کیوں پیش کیں؟ کیا ان کا مقصد صرف انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرنا
ہی تھا؟
مثل مشہور ہے کہ پرائی جنت سے اپنی جہنّم اچھی۔ آزادی اﷲ تعالٰی کی عظیم
نعمت ہے۔ اس کی قدر اُن سے پوچھیں جو اِس سے محروم ہیں۔ اسلامیانِ برصغیر
نہ صرف انگریز اور ہندو کی غُلامی سے چُھٹکارا چاہتے تھے بلکہ وُہ ایسا خطہ
ءِ زمین کے خواہاں تھے جہاں وہ اسلامی اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔
ہمارے آباؤ اجداد ایسا وطن چاہتے تھے جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ عدل و
انصاف کی فراوانی ہو۔ امیر وغریب میں فرق کم سے کم تر ہو۔ اقتصادی ومعاشرتی
حق سب کو میسر ہو۔ جہاں گنگاپیا رکی بہتی ہو۔سدا جس میں محبت وسلامتی رہتی
ہو۔جہاں کسی کوبھی کوئی غم نہ ہو۔ آنکھ کبھی کسی کی نم نہ ہو۔جہاں اپنے
پرائے سب شاد رہیں ۔ دل خوشیوں سے سب کے آباد رہیں۔
کیا وہ سب ارمان پورے ہو گئے؟ کیا اُن سب خوابوں کو تعبیر مل گئی؟ وطن عزیز
پاکستان کو وجود میں آئے ستّرسال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عوام
اپنوں ہی کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ یہود وہنود اور دیگر دشمنوں
سے دُکھ ملتا تو اور بات تھی، یہاں اپنوں ہی نے لوٹ مچا دی۔
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
افسوس کہ جس ارض وطن کے لئے بے شُمار قربانیاں پیش کی گئیں، اُسی میں عوام
کا جینا دوبھر کردیاگیا۔ جنکی خاطر وطن عزیز کو حاصل کیا گیا وہ سب خواب نہ
پورے ہوئے۔ وہ اَرمان سب ادھورے رَہ گئے۔
قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے خطیب برصغیر جناب سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے
پاکستان کے حالات کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا: ــــنوجوانو!
جس وطن کے بارے میں آپ اپنے اپنے سینوں میں اسلام کے نفاذ کی امید لگائے
بیٹھ ہیں، وہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ جو قائدین تحریکِ پاکستان
اپنے آپ پر اسلام نافذنہیں کرسکتے وہ اتنی بڑی سلطنت پر کیسے نافذ کریں گے؟
پاکستان میں حکومت صرف چند خاندانوں میں ہی گھومتی رہے گی، عام آدمی کو اِس
سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ پاکستان میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا
جائے گا۔ پاکستان مشرقی ومغربی دو حصوں میں وجود میں آرہا ہے، ایک وقت آئے
گا کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آئیں گے اور دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں
گے۔ پاکستان کے پانی کے ذرائع انڈیا کے قبضے میں ہوں گے، وہ جب چاہے گا
پاکستان کا پانی روک کر اُسے بنجربنا دے گا ، نتیجۃً پاکستان انڈیا سے
الحاق کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔
سب جانتے ہیں کہ پیش کی گئی تمام پیش گوئیاں حرف بحرف سچ ثابت ہوچکی ہیں ۔
صرف آخری پیش گوئی ابھی باقی ہے۔ انڈیا پاکستانی دریاؤں پر سینکڑوں ڈیم
مسلسل بنا رہاہے۔اس پر پاکستانی حکمرانوں کامایوس کن ردّ عمل بھی ہمارے
سامنے عیاں ہے۔ اگر یہی حال رہا تو آخری پیش گوئی بھی جلد پوری ہوکررہے گی۔
ابنِ انشاء جیسا حسّاس مزاح نگار بھی پاکستان کے قیام سے پہلے اور بعد کے
حالات کاموازنہ کرتے ہوئے برملا یہ کہنے پر مجبورہوا: عزیزو! انگریزوں نے
کچھ اچھے کام بھی کئے لیکن اُن کے زمانے میں خرابیاں بہت تھیں۔ کوئی حکومت
کے خلاف بولتا تھا یا لکھتا تھا تواُس کو جیل بھیج دیتے تھے۔ اب نہیں
بھیجتے۔ رشوت ستانی عام تھی آج کل نہیں ہے۔ دکاندار چیزیں مہنگی بیچتے تھے
اور ملاوٹ بھی کرتے تھے۔ ٓج کل کوئی مہنگی نہیں بیچتا، ملاوٹ بھی نہیں کرتا۔
انگریزوں کے زمانے میں امیراور جاگیردار عیش کرتے تھے، غریبوں کو کوئی
پوچھتا بھی نہیں تھا۔اب امیر لوگ عیش نہیں کرتے اور غریبوں کو ہر کوئی اتنا
پوچھتا ہے کہ وہ تنگ آجاتے ہیں۔۔۔ آزادی سے پہلے ہندو بنئے اورسرمایہ
دارہمیں لوٹاکرتے تھے۔ ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان
بنئے اور سیٹھ لوٹیں۔ الحمد ﷲ کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔
وطنِ عزیز پاکستان میں مساجد ومدارس میں معصوم جانوں کو خون میں نہلانے
والے کون ہیں؟ پھولے جیسے بچوں کو سکولوں میں تڑپانے والے کون ہیں؟ ننھے
منھے بچوں پر گھروں وکارخانوں میں تشدّد کرنے والے کون ہیں؟
عوامی مقامات پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے کون ہیں؟ کھانے پینے کی
اشیاء اور جان بچانے والی ادویہ میں ملاوٹ کرنے والے،رمضان المبارک اور
دیگر مقدس ایام میں گراں فروشی کرنے والے، رشوت واقرباء پروری کرنے والے،
انصاف کا خون بہانے والے، عوام کو انصاف کے حصول کے لئے دربدر رُلانے والے
سب کون ہیں؟
ماں کوبچوں سمیت خودکشی پر مجبور کرنے والے، گھر کے اخراجات چلانے کے لئے
خون اور گُردے بیچنے پر مجبور کرنے والے سب کون ہیں؟
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
ہمیں ہمیشہ ناعاقبت اندیش رہنماؤں سے پالا پڑتا رہا۔ ایسے حکمران ہم پر
مسلّط رہے جن کی دولت کے انبار پانامہ اور سوئٹزرلینڈ جیسے غریب ممالک پر
قربان ہیں حالانکہ خود اُن کے اپنے عوام غربت وافلاس کے ہاتھوں مجبور
ومقہور ہیں۔ اُنہی کا کرشمہ ہے کہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور
اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بے وقعت وبے آبرو ہے اور
وطن عزیز کاہر بچہ کم ازکم سوا لاکھ روپے کامقروض ہے۔اُن حکمرانوں نے ہی
قوم کو ہمیشہ اپنی شناخت سے محروم رکھا۔ نہ قومی زبان کو پنپنے دیا اور نہ
ہی قومی سوچ پیدا ہونے دی۔
موجودہ حالات نے عوام کو اس قدر مایوس کردیا ہے کہ وہ سوچنے پر مجبور ہو
گئے کہ کاش پاکستان وجود میں ہی نہ آتا۔کیونکہ بقول اقبالؒ:
کیاکروں اوروں کا شکوہ اے امیرِ مُلکِ فقر
دشمنی میں بڑھ گئے اھلِ وطن اغیار سے
اغیار کی غلاُمی اور ظلم ستم سہنے کے عادی تو ہو ہی چکے تھے، کم ازکم اپنوں
کے ستم سے تو بچ جاتے۔
آخرمیں اس بارے میں شاعر ِانقلاب جناب حبیب جالب کے چند اشعار پیش ِخدمت
ہیں:
پھول شاخوں پر کھلنے لگے، تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے ، تم کہو
چاک سینوں کے سِلنے لگے، تم کہو
اِس کھُلے جھوٹ کو، ذہن کی لُوٹ کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا
تُم نے لوٹا ہے صدیوں ہماراسُکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تُمہار ا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تُم نہیں چارہ گر ، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا |