ادبِ اطفال عہد نو کی اہم ضرورت

بچے کسی بھی معاشرے یا قوم کی ہمہ جہت ترقی میں شاہ کلید خیال کئے جاتے ہیں بشرطیکہ ان کی ذہنی ،علمی اورادبی نشوونما بہتر انداز میں کی جائے ، ادب اطفال ان معمار مستقبل کے لیے نہایت ہی ضروری ہوتا ہے یہ کہنے یا بتانے کی قطعاََ ضرورت نہیں کہ بچوں کے ادب پر جتنی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت آج محسوس ہو رہی ہے ،اس سے پہلے کبھی اتنی زیادہ نہ تھی ،کیونکہ اس وقت جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ،ترقی کی اس دوڑ میں جہاں وقت کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے ،وہیں یہ المیہ بھی رہا ہے کہ ہم بچوں کو جہاں ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں وہیں ہم انہیں کتب بینی سے دور کر رہے ہیں۔

کتب بینی سے دوری درحقیقت ادب سے دوری ہے اور ادب سے دوری دراصل علم سے دوری ہے ، میرے ناقص خیال میں اس کی دو وجوہات ذہن میں آتی ہیں ۔

اول یہ کہ کیا یہاں بچوں کے لیے جدت سے لیس نت نئے موضوعات پر مبنی تخلیقی ادب پر توجہ دی جا رہی ہے؟؟؟دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں اس معاشرے نے کوئی کردار ادا کیا ہے؟؟؟

اگر میں اول الذکر کی بات کروں تو میرا جواب ہاں میں ہو گا کیونکہ اس وقت بچوں کے ادب پر کافی زیادہ کام ہو رہا ہے ،ادب اطفال کا تناور پودا مختلف تنظیموں کی بدولت پہلے سے زیادہ پھل پھول رہا ہے ،جو کہ ایک مثبت بات ہے ،بچوں کے ذہن کے مطابق معیاری ادب تخلیق کیا جا رہا ہے ،اور میں یہ بات فخریہ انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ ہر علمی و ادبی کانفرنس میں یہاں بچوں کا ادب کا سیشن ضروری سمجھا جاتا ہے ،جو کہ حالات حاضرہ میں بچوں کے ادب پرہونے والی پیش رفت میں ایک مثبت بات ہے ،مجھے ہر وہ کانفرنس ادھوری محسوس ہوتی ہے ،جس میں ادب اطفال کا سیشن نہ ہو،کیونکہ یہ مستقبل کے معماروں کا حق بھی ہے اور ہمارا فرض بھی ،اردو سخن کانفرنس نے بھی پہلی کانفرنس میں یہ ضروری سمجھا کہ ادب اطفال نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم بچوں کے ادب کے لیے اچھوتے موضوعات کا انتخاب کرتے ہوئے معیاری ادب پر دلجمعی سے کام کریں ۔

اگر میں اپنی دوسری بات کو بیان کروں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں اس معاشرے نے کوئی توجہ دی بھی ہے کہ نہیں ؟اس پر میرا جواب ہاں بھی ہے،اور نفی میں بھی۔

یہ دوہرا جواب کنفیوژن پیدا کر رہا ہے تو غور فرمایئے کہ بچوں کے لیے جہاں نصابی تعلیم ضروری ہے ،اس کے ساتھ سکولز میں اس طرح کی لائبریریز بھی قائم ہونی چاہئے جس میں بچوں کے رسائل و جرائد اور خوبصورت کتب کا ذخیرہ ضروری ہونا چاہیئے تاکہ بچے اس سے مستفید ہو سکیں ،مگر بدقسمتی سے حکومت اس کی طرف توجہ نہیں دے رہی ،کوئی ایسی لائبریریاں بن رہی ہیں نہ ہی ماہانہ بنیادوں پہ بچوں کے رسائل سکولز میں مہیا کیئے جا رہے ہیں اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ نسل ِ نو کی آبیاری کے لیے سرکاری سطح پر کوئی بھی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جا رہے ہیں جو کہ نہ صرف یہ مستقبل کے معماروں کے ساتھ ظلم ہے بلکہ حکومتی نااہلی بھی۔البتہ پرائیویٹ سیکٹر میں کہیں کہیں یہ مثبت سرگرمی پروان چڑھ رہی ہے کہ بچوں کو اس حوالے سے گائیڈنس دی جا رہی ہے جو کہ اچھی روایت ہے مگر یہ کام آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔

ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے جب کسی بھی بک فیسیٹیول میں بچوں کی کتابیں دھڑا دھڑ بک رہی ہوتی ہیں اور اس بات کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے ،کہ اگر بہتر انداز میں ان معصوم ذہنوں کی آبیاری کا پروگرام ترتیب دیا جائے تو اس کے خوشگوار نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔

یہاں اہل قلم تشریف فرما ہیں جن پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ بچوں کے ادب کی آبیاری کرنا بہت اہم اور ضروری کام ہیں ،بلکہ یہاں میں بھی وزیراعظم صاحب کی بات کو دہراؤں گا کہ اس وقت اس میدان میں ــضرب قلم کی ضرورت ہے ،ادب اطفال بچوں کے لیے ہے مگر بچوں کے ادب کی خوبصورت تخلیق کے پیچھے ایک بابا نما بچہ ہوتا ہے ،اور آج ہمارے درمیان میں بھی بچوں کی آبیاری کرنے والے دماغ موجود ہیں جو کہ ہمارا سرمایہ اور ہمارا فخر ہیں ۔

میری اہل قلم سے درخواست ہے کہ زمانہ تبدیل ہو گیا ہے ،انٹرنیٹ،کیمپیوٹر اور موبائل کا دور ہے ،اس لئے پرانے رجحانات کے ساتھ نئے آئیڈیاز اور سائنسی موضوع کا انتخاب کیا جائے اور سادہ پیرائے میں آسان الفاظ کا استعمال کیا جائے ۔

ہمارے ہاں کچھ سینئر قسم کے ایسے ادیب بھی پائے جاتے ہیں جو بچوں کے لئے لکھنے سے دور بھاگتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک ادب اطفال ایک معمولی کام ہے جس کے کرنے سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ،میرے خیال میں بڑا ادیب وہ ہے جو ادب اطفال تخلیق کرتا ہو،اور بچوں کا ادب تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں ۔

ادب اطفال پر اگر حکومت کی بات کی جائے تو یہ جان کر افسوس اور مایوسی ہوتی ہے کہ سرکاری سطح پر بچوں کے ادب کووہ پذیرائی نہیں ملی ہے جو کہ اس کا حق تھا اور نہ ہی بچوں کے ادیبوں کے لیے کچھ سرکاری حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ،مراعات تو دور کی بات ہے ۔

سرکاری سرپرستی میں ادب اطفال پر توجہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ قوم کے معماروں کے مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہے ،حکومت کو سرکاری سطح پر بچوں کی بہترین ذہنی نشو ونما کے لئے ٹی وی پر پروگرام ترتیب دینے چاہئیں اور کارٹونز بنانے چاہئیں تاکہ میرے ملک کے مستقبل کی بہترین پرورش اورذہن کے بند دروازے کھل جائیں اور وہ حقیقی معنوں میں ایک روشن ستارہ بن کر ملک کا نام روشن کریں ۔
(اردو سخن کانفرنس دوہزار سترہ میں پڑھا گیا)
 
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201494 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.