عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

پہلی آیت :۔
محترم قارئین ! اﷲ رب العزت نے اپنے تمام انبیاء و رسل کو ایک جگہ جمع کرکے وعدہ لیا کہ اگر تمھاری نبوت کے دوران میرا آخری نبی آجائے تو تمھیں نہ صرف اس پر ایمان لانا ہوگا بلکہ ہر طرح سے ا س کی مدد بھی کرنا ہوگی۔ یعنی اس کے دور نبوت میں تمھاری نبوت نہیں چل سکے گی۔ اس بات کا تذکرہ رب ذوالجلال نے قرآن مقدس میں اس طرح کیا ہے کہ
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ آتَیْتُـکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ‘ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ (آل عمران 81:)
جب اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمھیں کتاب و حکمت سے دوں ، پھرتمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمھارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمھارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اسکے اقراری ہو اوراس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا: ہمیں اقرار ہے۔فرمایا: توا ب گواہ رہو میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں یہی آیت درج کر کے جو ترجمہ کیا ہے ملاحظہ ہو چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ آتَیْتُـکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ‘ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ
(ترجمہ) اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا تمہیں اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں ‘‘
(حقیقت الوحی صفحہ 133,134مندرجہ قادیانی خزائین جلد 22صفحہ 133,134)
مرزا قادیانی مزید ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’خداتعالی نے اﷲ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اﷲ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر میں حضرت محمد ﷺ کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے ‘‘
(حقیقت الوحی صفحہ 145مندرجہ قادیانی خزائین جلد 22صفحہ 145)
دوسری آیت :۔
اﷲ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں متقین کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے جنچیزوں کو ایمان کی شرائط کے طور پر بیان کیا ہے، ان میں سابقہ انبیاء علیہم السلام اور ان پر نازل ہونے والی کتب، نبی رحمتﷺاور قرآن مقدس پر ایمان لانا ہے۔ اگر کوئی نبی بعد میں بھی آنا ہوتا تو اﷲ تعالیٰ یہاں پر اس کا تذکرہ ضرور فرما دیتے۔ جہاں تک تعلق ہے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تو وہ بطور امتی ہی نازل ہوں گے ۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ 6:)
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
تیسری آیت:۔
ایک اور مقام پر اﷲ رب العزت نے اپنے پیارے پیغمبر سید الاولین والآخرین امام الانبیاء ، خاتم النبین ﷺ کا نام لے کر آپ کوآخری نبی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
(الاحزاب:60)
تمہارے مَردوں میں سے محمد ﷺکسی کے باپ نہیں، لیکن آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔
ان تمام آیات کریمہ سے مسئلہ ختم نبوت بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ منکرین ختم نبوت ’’خاتم النبین‘‘ کامعنیٰ ’’نبیوں پر مہر لگانے والا‘‘ کرتے ہیں۔اگر یہ مفہوم تسلیم کر لیا جائے تو معنیٰ یہ کرنا پڑے گا کہ نبی رحمت ﷺ نے پہلے انبیاء کی تصدیق وتائید کرکے ان پر مہر لگا دی ۔ بعد میں نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کو تو آپ نے کذاب اور دجال قرار دیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خاتم النبین کا صحیح مفہوم تو نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہی بنتا ہے، کیونکہ نبی رحمت نے اپنے فرامین میں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْکہہ کراس مفہوم کو واضح کردیا ہے۔
آئیے ! اب مرزا قادیانی کی طرف سے اس آیت کا کیا جانے والا ترجمہ بھی ملاحظہ کریں چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں مگر وہ رسول اﷲ ہے ختم کرنے والا نبیوں کا ۔
یہ آیت صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی ﷺ کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا ‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 331مندرجہ قادیانی خزائین جلد3صفحہ 431)
مرزا قادیانی مزید ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’ الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبینا فی قولہ لا نبي بعدی ببیان واضح للطالبین؟ ولو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم لجوزنا انفتاح باب وحی النبوۃ بعد تغلیقھا وھذا خلف کما لا یخفی علی المسلمین وکیف یحئ نبی بعد رسولنا صلی اﷲ علیہ وسلم وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النبین ؟
ترجمہ: ۔ کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کانام بغیرکسی استسناء کے خاتم الانبیاء رکھااورآنحضرت ﷺنے لانبی بعدی سے طالبوں کے لیے بیان واضح سے اس کی تفسیر کی ہے کہمیرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو وحی نبوت کے دروازہ کے بند ہونے کے بعد ان کاکھلنا جائز قرار دیں گے، جو بالہدایت باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں۔ اور ہمارے رسولؐ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے جب کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ہے اور اﷲ نے آپ کے ذریعے نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔
(حمامۃ البشری صفحہ34مندرجہ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 200)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی خود ہی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’آنحضرت ﷺ نے بار بار فرمادیاکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے ۔ اپنی آیت کریمہ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین سے بھی کی تصدیق کرتا تھا ۔ کہ فی الحقیقت ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہو چکی ہے ‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ صفحہ 199,200مندرجہ قادیانی خزائین جلد13حاشیہ صفحہ 217,218)
چوتھی آیت :۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
(الاحزاب ۳۳:۴۰)
ترجمہ :۔آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا
محترم قارئین !اسی آیت کا تذکرہ کرتے ہوئے آنجہانی مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ایسا ہی آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور آیت ولکن رسول اﷲ و خاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت ﷺ پر ختم کر چکا ہے اور صریحلفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں ‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 88مندرجہ قادیانی خزائین جلد 17صفحہ 174)
محترم قارئین !یہ تو تھیں چند آیات مبارکہ عقیدہ ختم نبوت کے متعلق۔ اب آئیے ! ذرا ان فرامین نبویہ ﷺکا بھی مطالعہ کریں جن میں عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت موجود ہے۔

پہلی حدیث:۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
((فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ، وَنُصِْرْتُ بِالرُّعْبِ ،وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ،وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ طَھُوْرًاوَمَسْجِدًا، وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً ، وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ))
(صحیح مسلم کتاب المساجدحدیث نمبر: 523،دارالسلام حدیث:1167)
ترجمہ :۔کہ مجھے چھ چیزوں کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے مجھے جامع کلمات دئے گئے ہیں اور رعب کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے مال غنیمت کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے ، میرے لئے ہی تمام زمین پاک ،مطہراور مسجد بنا دی گئی ہے اور مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہے اور میرے ساتھ نبوت کا اختتام ہو گیا ہے ۔
دوسری حدیث:۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
((لِی خَمْسَۃُ اَسْمَاءُ: اَنَامُحَمَّدٌوَاَنَااَحْمَدُوَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَمْحُوْااللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ وَاَنَا الْحَاشِرَالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی قَدَمِی وَاَنَاالْعَاقِبُ))
(صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر:3532،4896)
یعنی میرے پانچ نام ہیں۔میں محمد‘احمد‘اورماحی ہوں(یعنی مٹانے والاہوں)کہ اﷲ تعالیٰ میرے ذریعہ کفرکومٹائے گااورمیں حاشرہوں کہ تمام انسانوں کا(قیامت کے دن) میرے بعدحشرہوگا۔ اورمیں’’عاقب‘‘ہوں یعنی خاتم النبیین ہوں‘میرے بعدکوئی نیا نبی دنیامیں نہیں آئیگا۔
تیسری حدیث:۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
(( اَنَامُحَمَّدٌ ،وَاَنَااَحْمَدُ ،وَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَُمْحَی بِیَ الْکُفْرَ ،وَاَنَا الْحَاشِرُالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی عَقِبِی ، وَاَنَاالْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِی لَیسَ بَعْدَہُ نَبَیٌّ))
ترجمہ:۔ میں محمد ہوں،میں احمد ہوں ،میں ماحی ہوں یعنی اﷲ تعالی میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا ،اور میں حاشر ہوں ،لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل ،حدیث نمبر: 2354،دارالسلام حدیث نمبر6105،6107)
چوتھی حدیث:۔
سیدنا جابررضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
((مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنیٰ دَارًا فَاَتَّمَھَا وَاَکْمَلَھَا اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُوْنَھَا وَیَتَعَجَّبُوْنَ مِنْھَا وَیَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ فَاَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَآءَ صَلَواتُ اللّٰہِ وَسَلاَمُہ‘ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ))
(صحیح مسلم کتاب الفضائل حدیث نمبر :،,2287دارالسلام، 5953 )
ترجمہ :۔ میری مثال اور دوسرے انبیائے کرام کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے ایک گھر بنایا اور اسے پورااور کامل بنایا سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے کہ وہ خالی رہ گئی لوگ اس گھر کے اندر داخل ہوکر اسے دیکھنے لگے اور وہ گھر ان کو پسند آنے لگا وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھ دی گئی رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میں ہی اس اینٹ کی جگہ آیا ہوں اور میں نے انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ ختم کر دیا ہے ۔
پانچویں حدیث:۔
سیدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:
((لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلٰثِیْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ اَنـَّـہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ ))
(صحیح مسلم، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ 7342، صحیح بخاری 3609)
قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قریباً تیس دجال وکذاب پیدا نہ ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک گمان کرے گاکہ وہ نبی ہے۔
چھٹی حدیث :۔
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ :
((وَاِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِیْ اُمَّتِیْ لَمْ یُرْفَعْ عَنْھَا إلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ قَـبَائِلَ مِنْ اُمَّتِیْ الَاوْثَانَ وَإِنَّہ‘ سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہ‘ نَبِیُّ اللّٰہِ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرُاللّٰہ))
(سنن ابوداود ، کتاب الفتن والملاحم :4252 ، جامع ترمذی ، کتاب الفتن 2145)جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے روز قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی اور قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔ اور بے شک عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اﷲ کا نبی ہے۔ جبکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اور وہ غالب ہوں گے ۔جو ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے حتی کہ اﷲ کا حکم آجائے۔
ساتویں حدیث:۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے :
خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُخَلِّفُنِیْ فِی النِّسَآءَ وَالصِّبْیَانِ؟ قَالَ أمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃَ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَم ؟ غَیْرَ اَنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
(صحیح مسلم ، کتاب الفضائل 6218، صحیح بخاری 4416)
رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ جب آپ ؐ غزوہ تبوک کو تشریف لے گئے تو حضرت علی ؓنے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺآپؐ مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا: تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہارا درجہ میرے ہاں ایسا ہی ہو جیسے حضرت ہارون ؑکا موسیٰ ؑکے ہاں تھا۔مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
آٹھویں حدیث:۔
سیدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
((کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھََلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہ‘ نَبِيٌّ اَخَرُ وَإِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنَ الْخُلَفَآءُ فَیَکْثُرُونَ))
(صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء حدیث :3455،سنن ابن ماجہ ،حدیث: 2871)
ترجمہ: بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے۔ جب بھی ان کا کوئی نبی فوت ہو جاتا تواس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر نائبین بکثرت ہوں گے۔
نویں حدیث:۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
((لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ))
(سنن ترمذی ابواب المناقب ،حدیث : 3686حسن)
ترجمہ:۔اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا
دسویں حدیث:۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺنے فرمایا:
((اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ))
(جامع ترمذی کتاب الرویا رواہ انس بن مالک حدیث: 2272)
رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔
اس حدیث مبارکہ میں نبی اور رسول دونوں کی نبی آخر الزمان ﷺکے بعد آنے کی نفی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411)
مرزاغلام احمد قادیانی نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ
’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لاناس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306)
محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے ا ور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم ﷺکے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔
محترم قارئین ! ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺآخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا (اسی لیے ہم بھی آئندہ صفحات میں مرزا قادیانی کو قادیانی کذاب اور قادیانی دجال کے نام سے لکھیں اور پکاریں گے)۔ اگر کوئی انسان اتنے واضح اور بین دلائل کے باوجود عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہوتا ہے اور نبی رحمت ﷺکے بعد کسی اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411)
مرزاغلام احمد قادیانی نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ
’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لاناس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306)
محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے ا ور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم ﷺکے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔
محترم قارئین ! ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺآخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا (اسی لیے ہم بھی آئندہ صفحات میں مرزا قادیانی کو قادیانی کذاب اور قادیانی دجال کے نام سے لکھیں اور پکاریں گے)۔ اگر کوئی انسان اتنے واضح اور بین دلائل کے باوجود عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہوتا ہے اور نبی رحمت ﷺکے بعد کسیاور کو شریعتی یا غیر شریعتی ، ظلی یا بروزی نبی مانتاہے تو وہ نہ صرف کھلم کھلا قرآن و حدیث کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے، کیونکہ اس پر اجماع صحابہ اور اجماع امت ہے، جس کی واضح دلیل تو یہ ہے کہ دور نبوی میں ہی جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اورنبی کریم ﷺکے پاس پیغام بھیجا کہ میں آپ کو نبی مانتا ہوں لیکن اس نبوت میں میں بھی حصہ دار ہوں ۔ آدھی زمین نبوت کے لیے میری ہے اور آدھی آپ کی تو نبی کریم ﷺنے جواب میں اسے کذاب کے لقب سے پکارا اور پھر طلیحہ اسدی جس نے کلمہ بھی پڑھا تھا اور شرف صحابیت بھی حاصل ہوا لیکن بعد میں مرتد ہو کردعویٰ نبوت کردیا تو دور صدیقی میں ان کے خلاف کھلا اعلان جنگ کیا گیا اور ان مرتدین سے کئی جنگیں ہوئیں ۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کے جرنیل صحابہ شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب کو وحشی بن حرب ؓنے واصل جہنم کیا اور طلیحہ اسدی سچی توبہ کرکے دوبارہ مسلمان ہوگیا۔نیزنبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی یمن میں اسودعنسی نے دعویٰ نبوت کیاتو حکم نبوی ؐ کے تحت اسے بھی فیروزدیلمی نے واصل جہنم کیا۔الغرض یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اب جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ دجال اور کذاب ہوگا وہ اوراس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوں گے اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اپنے دور خلافت میں کیا۔
عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 215271 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.