ایمان و اسلام اور اس کے ثمرات

خطاب: حضرت مولانا پیرزادہ محمد رضاثاقب مصطفائی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشل)

الحمد للّٰہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین و الصلوٰۃ و السلام علیٰ سید الانبیاء و المرسلین۔
قال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی القرآن المجید و الفرقان الحمید
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔
یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ۔(النساء:۱۳۶)
(اے ایمان والو ایمان رکھو اﷲ اوراس کے رسول پر) (کنزالایمان)
صدق اللّٰہ مولانا العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم الرؤف الرحیم
اللّٰہم نوِّر قلوبنا بالقرآن و زیِّن اخلاقنا بالقرآن واخدلناالجنۃ بالقرآن و نجنا من النار بالقرآن
قال اللّٰہ تعالیٰ و تبارک فی شان حبیبہٖ
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْنَّبِیِّ یٰا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا محبوبَ ربِّ العلمین
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا حبیبَ اللّٰہ
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا نبیَ الرحمۃ
تمام حمد و ثناء تعریف و توصیف اﷲ جل مجدہٗ الکریم کی ذات با برکات کے لیے، جو خالقِ کائنات بھی ہے اور مالک شش جہات بھی۔ اﷲ جل و اعلیٰ کی حمد و ثناء کے بعد حضور نبی اکرم، شفیعِ اُمم، رسولِ محتشم، نبیِ مکرم، اﷲ کے پیارے، امت کے سہارے، رب کے محبوب، دانائے غیوب، مالکِ اُمم، فخرِ عرب و عجم، والیِ کون و مکاں، سیاہِ لامکاں، سیدِ اِنس و جاں، سرورِ لالہ رُخاں، نیّرِ تاباں، سر نشینِ مہ وَشاں، ماہِ خوباں، شہنشاہِ حسیناں، تتمۂ دوراں، سرخیلِ زُہرہ جمالاں، جلوۂ صبح ازل، نورِ ذاتِ لم یزل، باعثِ تکوینِ عالم، فخرِ آدم و بنی آدم، نیّرِ بطحا، راز دارِ ما اوحی،ٰ شاہدِ ماطغیٰ، صاحبِ الم نشرح، معصومِ آمنہ، احمدِ مجتبیٰ، حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور ناز میں اپنی عقیدتوں، ارادتوں اور محبتوں کا خراج پیش کرنے کے بعد!
معزز، محترم،محتشم سامعین، عالی مرتبت علمائے کرام، منتظمینِ فہمِ دین کورس، خواتین و حضرات ! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ!

سب سے قیمتی اثاثہ جو اس دنیا میں کسی شخص کو دیا گیا ہے وہ دولتِ ایمان ہے اور کل قیامت کے دن سب سے بڑی دولت جو مومن کو عطا کی جائے گی وہ دیدارِ الٰہی ہے ۔اگر انسان کے پاس دنیا کی کوئی شئے نہیں ہے ؛ ایمان ہے تو وہ کنگال نہیں ہے اور اگر دنیا کی ساری دولتیں اس کی دہلیز پہ ہے لیکن اس کے دامن میں ایمان کی بہاریں نہیں ہیں تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔اس لیے ایمان ہی ہمارا مقصود ہے اور اﷲ نے ہمیں یہ سعادت مندی جونصیب فرمائی ہم اس کی حفاظت کی کوشش بھی کریں۔
امام بخاری علیہ الرحمہ نے کتاب الایمان میں ایک تابعی کا قول نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے تیس صحابہ سے ملاقات کی ہے؛ مَیں نے ہر ایک کو ایمان کے بارے میں سخت فکر مند پایا ہے۔ ہر شخص کی آرزو تھی کہ ہمارا ایمان سلامت رہے۔ جنہوں نے حضور کی صحبت کا نور پایا اور آقا کریم کے دامن سے نکلنے والی اُن خاص شعاعوں کو اپنے اندر جذب کیا اور حضور کی صحبت کے اُجالوں میں زندگی کے ڈھنگ اور قرینے سیکھے تو وہ بھی اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں معاملہ خراب نہ ہو۔ہمارا خاتمہ ایمان پر ہوجائے۔
انماالاعمال بالخواتیم۔(بخاری) اعمال کا دارو مدار حسنِ خاتمہ پہ ہے ۔کتنے لوگ ہیں جو درجۂ کمال تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں لیکن آخر ٹھیک نہیں ہوتا۔ ان میں ہمارے پاس ’’بلعم بن باعورا‘‘ کی مثال ہے۔ جو بنی اسرائیل کا مستجاب الدعوات ولی تھا، جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھایا کرتا تو ہاتھ اوپر بعد میں آتے قبولیت پہلے ہوجاتی۔ لیکن پھر جب بد بختی نے ڈیرے جمائے تو اﷲ کے نبی کا مخالف ہوگیا اور اﷲ کے نبی سے جب تعلق ٹوٹتا ہے یا نبی کے بارے میں دل میں مَیل پیدا ہوتی ہے پھر اﷲ عبادت کے طول و عرض نہیں دیکھتا۔ ہر شئے برباد ہوجاتی ہے۔ ہر شئے لُٹ جاتی ہے۔ اس لیے کبھی بھی نبی کے بارے میں دل میں مَیل نہ آنے دیں۔ اعظم چشتی نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہتے ہیں ؂
یار نوں مَیلی اَکھ نہ وِیکھیں
نہیں تے مَرسیں کافر ہوکے
(کلیات اعظم چشتی)
تھا مستجاب الدعوات لیکن اخیر ٹھیک نہیں ہوا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بد دعا کے ہاتھ اُٹھا لیے۔ اس نے سمجھا میرا اﷲ سے ڈائریکٹ رابطہ ہوگیا ہے اور مَیں نبی کے خلاف بھی بد دعا کرسکتا ہوں۔ لیکن اﷲ خلق کو ہدایت کے جتنے بھی اُجالے اور جتنے بھی چشمے دیتا ہے وہ نبی کی وساطت سے عطا فرماتا ہے ۔اعلیٰ حضرت نے اس عقیدے کی وضاحت کی ہے ؂
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں
(حدائقِ بخشش)
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بندہ نبی کے بغیر خدا تک پہنچ جائے۔ بہر حال اس کو غلطی لگ گئی اور اس نے بد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے قرآن کے دامن میں یہ واقعہ موجود ہے۔ پھر زبان لٹک گئی اور اسی شخص کے بارے میں میرے رب نے کہا فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ (سورۃالاعراف، آیت ۱۷۶)اس کی مثال کتے کی مثال ہے۔ تھا مستجاب الدعوات ولی لیکن آخر خراب ہوگیا۔
جتنی دیر تک آخری سانس ایمان پر نہیں آجاتی اتنی دیر تک دھڑکا لگا رہے ڈر لگا رہے ؛ اﷲ خیر کرنا، اﷲ کرم فرمانا، میرا خاتمہ ایمان پہ کرنا ۔اور یہ اہلِ ایمان کو سب سے بڑی فکر ہونی چاہیے۔ اﷲ اکبر! اﷲ تعالیٰ نے ہم کو ایمان کی بہاریں نصیب فرمائی ہیں اﷲ ان کی حفاظت بھی فرمائے۔ اور جب سانس ٹوٹے تو اس وقت شہادتَین لبوں پہ ہو ۔(آمین)
اب ایمان کیا ہے؟ اسلام کسے کہتے ہیں؟ اس پر مَیں آپ کے سامنے حدیثِ جبریل پیش کرنا چاہ رہا ہوں جس کو حضرت امام مسلم نے اپنی روایت سے بیان فرمایا ہے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک کہانی سُنا رہے ہیں ۔ خوبصورت کہانی، دل نشیں اور دل آویز داستاں؛کہتے ہیں:
قال بینما نحن عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم ذات یوم۔ ہم ایک دن حضور علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ،حضور کی صحبت کا شرف پا رہے تھے اُجالے بٹ رہے تھے، انوار اُتر رہے تھے، کرم کی برکھا نازل ہورہی تھی ، اور ہماری آنکھیں تھیں اور حضور کا حسن تھا ،ان کا جلوہ تھا ،تو ایک دن ایسا تھا کہ حضور کی مجلس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے اذ طلع علینا رجل۔ فرماتے ہیں کہ ہم جب بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص آیا۔ اس کی حالت کیا تھی؟ شدید بیاض الثیاب۔اس کے سفید کپڑے تھے، شدید سفید۔ جس کو ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں چَٹّے سفید ۔ اس کے سفید کپڑے تھے۔ شدید سواد الشعر۔اور سیاہ کالے بال تھے، سخت کالے بال تھے۔لا یریٰ علیہ اثر السفر۔ لیکن اس پر سفر کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کیوں کہ جوبندہ سفر سے آیا ہو تو پتا چلتا ہے کہ اس کے لباس میں سَلوَٹیں ہوتی ہیں۔ تو وہ اپنی ہیئتِ قضائیہ سے مسافرنہیں لگ رہا تھا۔ اگر وہ مسافر نہیں تھا تو پھر مدینے کا رہنے والا تھا؟مدینے کی آبادی بہت ساری نہیں تھی ، سارے لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے ۔ اگر وہ مدینے والا تھا مدینے کا باسی تھا تو صحابہ کو جاننا چاہیے کہ یہ شخص کون ہے۔ لیکن کہتے ہیں ولا یعرفہٗ مِنَّا احد۔ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہیں تھا۔مسافر لگتا نہیں تھا؛ مقامی تھا نہیں۔ حتیٰ جلس الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم۔یہاں تک کہ وہ حضورکے پاس آکے بیٹھ گیا۔فاسند رکبتیہ الیٰ رکبتیہ۔اﷲ اکبر! اس نے اپنے گٹھنے حضور کے گٹھنوں کے قریب کرکے جوڑ کے بیٹھ گیا۔اتنا قریب ہواکہ اس کے گٹھنے حضور کے گٹھنوں سے جُڑ گئے۔ اتنی قربت ہوئی۔ پھر آگے اس نے کیا کِیا؟ و وضع کفیہ علیٰ فخذیہٖ۔اوراپنے ہاتھ اپنے رانوں پہ رکھ لیے جس طرح ہم تشہد میں بیٹھتے ہیں،اس طرح ادب سے حضور کے سامنے بیٹھ گیا۔ فقال یا محمد اخبرنی عن الاسلام۔اورپوچھتا ہے کہ حضور مجھے اسلام کے بارے میں خبر دیجیے کہ اسلام کیا ہے۔ تو حضور نے ارشاد فرمایا فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم السلام ان تشہدان لا الہ الا اللّٰہ و ان محمد رسول اللّٰہ۔ اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔ و تقیم الصلوٰۃاور نماز قائم کر و توتی الزکوٰۃ اور زکوٰۃ ادا کر و تصوم رمضان اور رمضان کے روزے رکھ و تحج البیت ان الستطعت الیہ سبیلااور اگر تُو منزل تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے راستے کا زادِ راہ تیرے پاس ہے تو پھر تُو حج کر۔ قال صدقت۔کہنے لگا آپ نے بالکل سچ کہا۔ فعجبنا لہٗ یسئلہٗ و یُصدقہٗ۔صحابہ کہتے ہیں ہم حیران ہوگئے کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے۔ پہلے پوچھتا ہے کہ مجھے اسلام کا بتائیے ،کیا ہے؟ تو حضور نے بتایا تو کہتا ہے آپ نے بالکل سچ کہا ہے، صحیح فرمایا حضورآپ نے ۔ تو ہم حیران ہوئے فعجبنا لہٗ ہم اس پر متعجب ہوئے یسئلہٗ و یُصدقہٗ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے۔قال فاخبرنی عن الایمان۔ پھر اس نے دوسرا سوال کیا مجھے ایمان کے بارے میں خبر دیجیے قال ان تؤمن باللّٰہ کہا ایمان یہ ہے کہ تو اﷲ پر ایمان لائے و ملٰئکتہٖ اور اس کے فرشتوں پر ایمان لائے و کتبہٖ و رسلہٖ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے و الیوم الاخر اور پچھلے دن یعنی قیامت کے دن پر ایمان لائے و تؤمن بالقدر خیرہٖ و شرہٖ۔ اور اچھی بُری تقدیر پر ایمان لائے۔ قال صدقت۔کہنے لگا کہ آپ نے سچ کہا، ٹھیک ہے ،یہی ایمان ہے۔ قال فاخبرنی عن الاحسان۔پھر بولا کہ مجھے احسان کے بارے میں خبر دے دیجیے کہ احسان کیا ہے؟ قال ان تعبد اللّٰہ کانک تراہکہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے یہ تری کیفیت ہو۔ حضرت مولائے کائنات علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک قول النہج البلاغہ میں موجود ہے آپ سے کسی نے پوچھا کہ اے علی! جس رب کو پوجتے ہو کبھی اس کو دیکھا بھی ہے؟ تو حضرت مولائے کائنات رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے لم اعبد ربی لن اراہٗ کبھی کی بات کیا کرتے ہو علی تو سجدے سے سر ہی نہیں اُٹھا تا جب تک اسے دیکھ نہ لیتا۔ اس سے مراد رویتِ قلبی ہے جو حضرت مولائے کائنات کو یہ رویت حاصل تھی ۔ امام اعظم علیہ الرحمۃ نے ۹۹؍ مرتبہ اور ایک روایت میں ہے کہ ۱۰۰؍ مرتبہ اﷲ تعالیٰ کا دیدار فرمایا ہے قلبی دیدار۔رویتِ عینی تو اس کائنات میں سوائے حضور کے کسی کو نہیں ہوئی ہے۔ رویت قلبی ممکن ہے جو اہل اﷲ کو نصیب رہی ہے ۔ تو حضور نے فرمایا ان تعبد اللّٰہ کانک تراہکہ احسان یہ ہے، تصوف یہ ہے، طریقت یہ ہے، خلوص یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہو۔ فان لم تکن تراہ اگر تیری یہ پوزیشن نہیں ہے، یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے دیکھ سکے فانہ یراک۔ تو یہ احساس پیدا کردے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اور یہ احساس بھی کون سا چھوٹا احساس ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ احساس پیدا ہوجائے تو پھر گناہ مشکل کیا نا ممکن بن جاتاہے۔ رمضان کے دنوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے۔ انسان ٹھنڈا پانی پینے لگتا ہے زبان کانٹا بنی ہے ، حلق خشک ہے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں دروازہ بھی مقفل ہے لیکن بندہ نہیں پیتا؛ کیوں؟ اﷲ دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے انسان کو گناہ سے بچا لیتا ہے۔ ساتویں کوٹھری میں انسان گناہ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ یہ احساس کرکے کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب زلیخا نے ساتوں دروازے بند کرلیے تھے اور بُت کے اوپر موٹا پردہ ڈال کے حضرت یوسف علیہ السلام سے بولتی ہے ہَیْتَ لَک(سورۃ یوسف، آیت ۲۳) آجاؤاب تو کوئی بھی نہیں دیکھ رہا۔ حضرت یوسف علیہ السلام بولے قال معاذ اللّٰہ(سورۃ یوسف، آیت۲۳) تُو ساتویں کوٹھری میں لوگوں کی نظروں سے چھپ گئی اوراپنے جھوٹے خدا پر یہ پردہ ڈال کر اس کی نگاہوں سے بھی چھپگئی اور وہ دیکھتا بھی کب ہے؟لیکن میرا خدا تو ساتویں کوٹھری میں بھی دیکھ رہا ہے۔ پھر اتنی روشنیاں برسیں کہ گناہ کیا گناہ کا تصور بھی محال ہوگیا۔ تو یہ احساس بندے کے اندر پیدا ہوجائے کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے تب صرف رمضان ہی میں نہیں کہ کھانے پینے کے وقت رک جائے کہ اﷲ دیکھ رہا ہے، جب وہ رشوت لینے لگے تواسے خیال آتا ہے کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے ۔ نظر بھٹکنے لگے، خیال بہکنے لگے ، سوچ آوارہ ہونے لگے تو وہ خیال کرتا ہے میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو کہا یہ احساس پیدا کر ۔قال اخبرنی عن الساعۃ۔پھر کہنے لگا مجھے قیامت کے بارے میں ارشاد فرمائیے، خبر دیجیے۔قال ماالمسؤل عنھا باعلم من السائل۔ کہا جس سے پوچھا جارہا ہے اس امر میں وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ چوں کہ حضور نے اس سوال کا جواب نہیں دینا تھا ۔ لازمی نہیں ہے کہ جو سوال کوئی پوچھے اس کا جواب بھی دے دیا جائے۔ کیوں کہ امت سے یہ امر مخفی رکھاگیا ہے ۔ حضور نے فرمایا یہ تُوبھی جانتا ہے جتنا مجھے پتا ہے اتنا تجھے بھی پتا ہے۔ اس لیے یہ سوال نہ کرکیوں کہ لوگوں کے سامنے یہ سوال کرنے کی حاجت نہیں۔ اس نے بحث نہیں کی اور کہا کہ اس کی کچھ نشانیاں بتادیجیے۔ قال فاخبرنی عن اماراتہا۔اس کی نشانیاں بتادیجیے قال ان تلد الامۃ ربتہاکہا ایک نشانی تو یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی۔ و ان تریٰ العفاۃ العراۃ الغالۃ رعاء الشآء یتطاولون فی البنیان۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ننگے پاؤں والے اور ننگے بدن والے کنگال اور بکریاں چرانے والے مکان بنانے میں ایک دوسرے سے فخر و مباحات کرتے ہوئے مکان کی بنیادیں ایک دوسرے سے اونچا لے جانے کی کوششیں کریں گے۔ وہ ایک دوسرے سے اونچے اونچے گھر بنائیں گے ۔ ایک نے بنایا دوسرے نے اس سے اونچا بنایا یہ قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ قال ثم انطلق حضرت عمر کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا ۔ فلبثت ملیا۔ہم کافی دیر حضور کے پاس بیٹھے رہے کچھ عرصہ گزرا۔قال لی یا عمر ا تدری من السائل؟کہا اے عمر جانتے ہو وہ سوال کرنے والا کون تھا؟ قلت اللّٰہ و رسولہ اعلم۔عرض کی اﷲ اوراس کا رسول خوب جانتا ہے۔صحابہ کو اندازہ ہوتا بھی تو پھر بھی یہی کہتے بلکہ یقین بھی ہوتا تو بھی یہی کہتے۔ تو فرمایا عمر جانتے ہو من السائل وہ سائل کون تھا؟ قلت اللّٰہ و رسولہ اعلمکہتے ہیں اﷲ اور اس کا رسول جانتے ہیں ۔ قال فانہٗ جبریلکہا یہ جبرئیل امین تھے۔ اتاکم یعلمکم دینکم یہ تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔(بخاری و مسلم، کتاب الایمان)
جبریل نے جو دین سکھایا اس میں پہلی بات یہ تھی کہ جب حضور کے سامنے آؤ تو ادب سے دو زانوں ہوکے بیٹھ جاؤ۔یہ انہوں نے طریقہ سکھایا۔ادب سے حضور کی چوکھٹ پہ آؤ اور سیکھنا چاہتے ہو تو دو زانوں ہوکر بیٹھو!……ایمان ، اسلام اور احسان کی خبر ہوئی۔
حضرت ابنِ عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اس میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے ۔ پہلی (روایت) حضرت عمر سے ہے اور یہ ان کے بیٹے فقیہ صحابی حضرت ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے:بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لا الٰہ الااللّٰہ و ان محمد عبدہٗ و رسولہٗ و اقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوٰۃ و الحج و صوم رمضان۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پہ ہے ۔ اس گواہی پہ کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور دوسرا نماز قائم کرنا ، تیسرا زکوٰۃ دینا، چوتھا حج کرنا اور پانچواں رمضان کے روزے رکھنا۔
انسان جب اسلام کے دامن میں آجاتا ہے تو احکامِ اسلام اس پر لازم ہوجاتے ہیں لیکن پچھلے کفر کے سارے جتنے گناہ ہیں وہ اسلام سے دُھل جاتے ہیں، پاک ہوجاتے ہیں۔ ماقبل کے گناہوں کا کفارہ ہے اسلام۔ اس پر ایک روایت دیکھیے جس کو امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے یہ حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جب ان کے سینے میں اسلام کی چمک اور روشنی پیدا کی اور اسلام کی حقانیت کو ان کے دل نے قبول کرنا چاہا تو پھر وہ حضور کی خدمت میں آگئے……کتنے خوش نصیب لوگ تھے کہ جب ان کا جی چاہتا تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوجایا کرتے تھے۔تو کہتے ہیں میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتیت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا فقلت ابسط یمینک فلأبایعک عرض کی حضور ذرا اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں مَیں آپ کے ہاتھ پہ بیعت کرنا چاہتا ہوں، مَیں اسلام کی بیعت آپ کے ہاتھ پہ کرنا چاہتا ہوں فبسط یمینہتو حضور نے اپنا دستِ راست، اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا جب آگے کیا تو حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فقبضت یدی میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا قال ما لَکَ یا عمرو؟ عمرو کیا ہوا تمہیں؟ مجھے تم نے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے ہاتھ بڑھایا تو تم نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ کیا ہوا تمہیں؟ ما لک؟کیا ہوا؟ قلت مَیں نے کہا اردت ان اشترط ۔ مَیں چاہتا ہوں کہ میں کچھ شرط لگالوں۔ کسی شرط پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ قال تشترط بماذالگا کیا شرط لگاتا ہے۔ قلت کہتے ہیں مَیں نے کہا ان یغفر لی میری شرط یہ ہے کہ پھر میری بخشش ہوجائے، مجھے بخش دیا جائے۔ قال حضور علیہ السلام نے فرمایا اما علمت یا عمرو! ان الاسلام یغفر ماکان قبلہٗ ۔ تمہیں اس بات کا پتا نہیں کہ اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کومعاف کردیتاہے۔ جب کوئی بندہ مسلمان ہوجاتا ہے تو پھر سارے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔ وان الہجرۃ تہدم ماکان قبلہا۔ ہجرت ما قبل کے سارے گناہوں سے معافی کا سبب ہے۔ وان الحج یہدم ماکان قبلہٗاور تیسری بات حضور نے فرمائی کہ حج ماقبل کے سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ تو پھر کہتے ہیں کہ مَیں نے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔یہ محبت والے لوگ تھے نا!…… ایک بزرگ ہوتے تھے پرانے دور میں ۔ اور پرانے دور کے ہمارے جو بزرگ لوگ ہوا کرتے تھے وہ بڑے فنون کے ماہر ہوا کرتے تھے تو وہ ہاتھ پکڑنے کے بڑے ماہر ہوا کرتے تھے اور وہ جس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے کوئی چھڑا نہیں سکتا تھا تو بڑے بڑے مقابلے بھی ہوتے تھے ایک کمزور سا آدمی تھا اس نے کہا میرا بازو پکڑو نا۔ پھر مَیں چُھڑا کے بتاتاہوں ۔ بس لوگ اکٹھے ہوگئے اکھاڑا لگ گیا ۔ وہ کمزور سا آدمی اس اﷲ والے کوپہچاننے والا تھا ۔ جب مجمع لگ گیا تو انہوں نے اپنا ہاتھ دیا ۔ سارے کہتے تھے کہ اس کی موت آئی ہوئی ہے ۔ یہ کمزور سا آدمی یہ کیسے مقابلہ کرے گا بعض نے کہا ہوسکتا ہے کوئی فن ہو اس کے پاس ۔ لیکن جب اس نے اپنا ہاتھ بزرگ کے ہاتھ میں دیا۔ انہوں نے پکڑا۔ کہا زور سے پکڑلیا۔ اور وہ زور نہیں لگارہا چھوڑانے کے لیے۔ کہا چھوڑاؤنا ۔ کہا اتنے لوگ گواہ ہیں میرا ہاتھ پکڑلیا ہے اب قیامت کے دن بھی نہیں چھوڑنا۔اب تم نے اس کی لاج رکھنی ہے۔ اﷲ اکبر!
تو ایسا ہاتھ دیا حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہتے ہیں کہ حضور میری شرط ہے کہ اب میری بخشش بھی ہوجائے تو فرمایا کہ اے عمرو بن عاص کیا تمہیں پتا نہیں کہ اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اﷲ اکبر!
حضرت امام بخاری و امام مسلم اپنی سند سے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ الایمان بضع و سبعون شعبہ ۔ ایمان کے ستر سے کچھ زیادہ شعبے ہیں و افضلھا لا الہ الااللّٰہ ہے و ادنٰھا اماطۃ الاذیٰ عن الطریق اور کم سے کم مرتبہ یہ ہے ،سب سے نیچے والا شعبہ یہ ہے کہ کوئی گری پڑی چیز راستے سے اٹھا دے، راستے کو صاف کردیناوالحیاء شعبۃ من الایمان اور حیاء ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔(رواہ بخاری ومسلم، کتاب الایمان)
حضرت عبداﷲ ابن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا المسلم من سلم المسلمون من لسانہٖ و یدیہٖ و المھاجر من ہجر ما نھیٰ اللّٰہ عنہٗ کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور جس کی زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔جب ہم کسی کو کہتے ہیں نا’’ السلام علیکم‘‘ ۔ تو اس کا معنی یہی ہے کہ ہم اس کو ضمانت دیتے ہیں کہ میرے بھائی میری طرف سے تجھے ضمانت ہے۔ میری طرف سے تُو محفوظ ہے۔ تیرے اوپر سلامتی ہو تیرا مال تیری جان تیری آبرو میری طرف سے محفوظ ہے بے فکر ہوجاؤ،اور وہ بھی جواب میں کیا کہتا ہے ’’وعلیکم السلام‘‘ ۔ اگر تُو مجھے امن کی ضمانت دیتا ہے تو مَیں بھی کہتا ہوں وعلیکم السلام، میری طرف سے بھی تجھے کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ یہ تھی اسلام کی ’’روح ‘‘اور آج کا ایک بندہ مصافحہ کرتا ہے اور ساتھ ہی بم بلاسٹ کردیتا ہے ۔ کہتا ہے السلام علیکم اور ساتھ میں بم بلاسٹ کردیتا ہے۔یہ دین کہاں سے آیا ۔ جو دین چودہ صدی قبل آمنہ کے لال(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے دیاتھا وہ یہ دین نہیں تھا وہ یہ دین ہے جب کوئی کہے السلام علیکم تو پھر امن کی ضمانت دے ۔ یہ نہیں کہ اوپر سے سلام اور نیچے سے جڑیں کاٹ دیں…… تو کہا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔اور مہاجر وہ ہے جو اﷲ کی حرام کردہ چیز سے ہجرت کرجائے۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت سُنیے۔ اور یقینا یہ روایت سُنتے ہی آپ کو ٹھنڈ پڑجائے گی ۔ اور یہ روایت آپ پہلی بار نہیں سُنیں گے آپ میں سے ہر شخص نے سیکڑوں بار سُنی ہوگی۔ فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا لا یومن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من و الدہٖ و ولدہٖ و الناس اجمعین (بخاری)اتنی دیر تک کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی اولاد، اپنے والدین اور پوری کائنات کے ہر شخص سے زیادہ میرے سے پیار نہ کرنے لگ جائے ۔ اس حدیث کو کتاب الایمان میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ’’ایمان‘‘ یہ ہے کہ حضور سے پیار ہو اور اگر حضور سے پیار نہیں ہے تو ’’ایمان‘‘ نہیں ہے۔ ایمان ’’محبتِ رسول‘‘ کا نام ہے۔
ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے روایت آپ نے علما سے بار بار سُنی ہوگی ۔ عرض کرتا ہے متَی الساعۃ؟ قیامت کب آئے گی ؟کہا ما اعددت لھا تُونے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟تو اس نے عرض کی حضور مَیں اﷲ اور اس کے رسول سے پیار کرتا ہوں ۔’’اﷲ اور اس کے رسول سے پیار کرتا ہوں۔‘‘ تو حضور نے فرمایا المرء مع من احب (مسلم )آدمی جس کے ساتھ پیار کرتا ہے اس کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا ۔ تو صحابہ کہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی خوشی اگر ہمیں زندگی میں ہوئی تھی تو اس حدیث کو سننے سے ہوئی تھی کہ بندہ جس سے پیار کرتا ہے کل قیامت کے دن اس کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔صحابہ چوں کہ پیار حضور کے ساتھ کرتے تھے انہیں یہ چاہ بڑھ گئی کہ آج بھی حضور کے قدموں میں رہتے ہیں کل بھی حضور کے قدموں میں زندگی نصیب ہوجائے گی۔
حضرت ابوامامہ الباہلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں ایک شخص نے حضور کی خدمت میں عرض کی ما الایمان؟ حضور ایمان کیا ہے ؟ قال: اذا سرتک حسنتک و سائتک سیٔتک فانت مومن ۔(المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع) جب تجھے نیکی کرنے سے خوشی ملے اور برائی کرنے سے تکلیف پہنچے تو تُومومن ہے۔ یہ علامت بیان فرمائی حضور نے۔ اگر تجھے خوشی ملے نیکی کرنے پر، اچھائی کرنے پر خوشی ملے تو سمجھ تُو مومن ہے۔ اور بُرائی کوئی ہوجائے تو تُو پریشان ہوجائے ۔ جس طرح کہ روایت میں آتا ہے کہ بندۂ مومن اور بندۂ منافق میں فرق یہ ہے کہ بندۂ مومن جب گناہ کرتا ہے تو یوں محسوس کرتا ہے کہ جس طرح پہاڑ کے نیچے آگیا ہے۔ ابھی گِر جائے گا کچل دے گا ۔ جلدی جلدی تلافی کرتا ہے توبہ سے۔ اور جب منافق گناہ کرتا ہے تو اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جس طرح مکھی بیٹھی تھی بدن پر ہلکے سے اشارے سے اس کو اُڑا دیا۔ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے۔ مَیں اور آپ اپنے ایمان کا جائزہ بھی ساتھ ساتھ لیتے جائیں کیا ہماری یہ کیفیت ہے؟کہ گناہ کرنے کے بعد ہمارا احساس اس درجے تک پہنچ جائے کہ ہم پہاڑ کے نیچے آگئے ہیں؟ یا ایک مکھی کے اُڑانے کی سی کیفیت ہی ہے ہمیں۔ اور گناہ صرف یہ نہیں ہے کہ کسی کا قتل کرے، کسی کا دل دکھائے یہ بھی گناہ ہے۔نماز ترک کرنا بھی گناہ ہے۔نظر کا بھٹکنا بھی گناہ ہے۔خیال کا بہکنا بھی گناہ ہے ۔ فضول لفظ زبان سے نکالنا بھی گناہ ہے۔اس لیے ہم گناہ جب کرلیں تو کیا ہماری یہ کیفیت ہوتی ہے؟کہ ہم پہاڑ کے نیچے آگئے ہیں۔ اور اگر یہ کیفیت نہیں ہوتی تو ہمیں سوچنا چاہیے اور اپنے ایمان کی مضبوطی کا ساماں کرنا چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ ہم نے جو جو سنا اس کا جائزہ لیتے چلے جائیں کہ حضور کی محبت اگر اس درجہ پہ ہے کہ ہر شئے سے زیادہ ہمیں حضور محبوب ہیں ، حضور علیہ السلام کا پیار سب سے فائق ہے اور بڑھا ہوا ہے تو پھر مبارک ہو۔ اور اگر یہ کیفیت نہیں ہے ایک طرف رسول اﷲ کا فرمان آئے اور ایک طرف ہماری برادری آجائے اس وقت امتحان ہوتا ہے کہ ہم کدھر کھڑے ہیں۔ شادی بیاہ کا موقع ہے مَیں نے حاجی نمازی بھی دیکھے ہیں وہ کہتے ہیں جی مُنڈے ہی نہیں مانتے۔ ان مُنڈوں کے منہ پر تھپڑ نہیں مارا جارہا ؟ ایک طرف سول اﷲ کا فرمان ہے ایک طرف مُنڈے نہیں مانتے ؟ پتا تو اسی موقع پہ چلنا ہے کہ ترا وزن کس پلڑے میں جاتا ہے؟
اتنی دیر تک انسان کامل مومن نہیں ہوسکتاجب ہر شئے سے زیادہ حضور پیارے نہ ہوجائیں۔حضور ہر شئے سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔
محمد ہے متاعِ عالمِ ایجاد سے پیارا
پدر مادر برادر مال و جاں اولاد سے پیارا
محمد کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
حضور سے اپنی محبت کا رشتہ جوڑیں اور مضبوط تر رشتہ کریں محبت کے اک الگ تقاضے ہیں اور وہ مضمون ایک لمبا ہوجائے گا ۔ ان تقاضوں کی بھی سمجھیں اور حضور کے ساتھ اپنے پیار کے ربط کو مضبوط کرلیں جو حضور تک نہیں پہنچا وہ خدا تک نہیں پہنچاہے۔
تو فرمایاکہ جب تجھے نیکی خوشی دے اور برائی سے تجھے تکلیف پہنچے تو تُو مومن ہے۔قیل یا رسول اللّٰہ فمالاثم؟ کہ حضور گناہ کیا ہے؟ قال اذاحاک فی نفسک شئی فدعہ۔ فرمایا جب تیرے سینے میں کوئی چیز کھٹکے تو پھر اس کو چھوڑ دے۔ جب تیرے سینے میں کوئی چیز کھٹکے، چبھن پیدا ہوکہ یہ چیز ٹھیک نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ حرام بھی واضح ہے اور حلال بھی واضح ہے اور اس کے درمیان کچھ شبہے والی چیزیں ہیں؛جو شبہے والی چیز میں پڑ گیا وہ حرام میں ہی پڑ گیا۔اپنی حفاظت کریں۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ہم اشتباہ کی وجہ سے جائز کام کو بھی چھوڑ دیا کرتے تھے کہ کہیں اس میں خرابی نہ آجائے۔ اس لیے اپنی حفاظت کریں۔
اب آئیے اس عنوان سے آخری روایت آپ کے سامنے رکھ کے ہم دعا کی طرف بڑھیں گے ۔ حضور علیہ السلام کی طرف سے دی گئی خوش خبری ۔ حضرت انس روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ سواری پر حضور کے ردیف تھے۔ چلتے چلتے حضور نے فرمایا یا معاذ! اے معاذ!قال لبیک یا رسول اﷲ و سعدیک ۔ کہا حضور مَیں حاضر ہوں، غلام حاضر ہے۔یہ لبیک یا رسول اﷲ کا جو لفظ ہے کثرت کے ساتھ صحابہ کرام سے منقول ہے۔جب بھی حضور پکارتے وہ لبیک یا رسول اﷲ پکارتے ہوئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔تو کہا لبیک یا رسول اﷲ و سعدیک حضور میں حاضر ہوں۔ حضور علیہ السلام نے کوئی گفتگو نہیں فرمائی ۔ تھوڑی دور آگے گئے تو پھر فرمایا یا معاذ! اے معاذ! قال لبیک یا رسول اﷲ و سعدیک ۔ حضور مَیں حاضر ہوں کیا حکم ہے ارشاد فرمائیں۔حضور پھر خاموش ہوگئے۔تھوڑے قدم سواری چلی تو حضور نے پھر فرمایا یا معاذ!…… امنڈتے ہوئے پیار کی کہانیاں تو دیکھیے کوئی یوں بھی پیار کیا کرتا ہے! محبت کے یوں اسلوب بھی ہوا کرتے ہیں!پھر کہا یا معاذ! کہا لبیک یا رسول اﷲ و سعدیک ۔ حضور میں نوکر حاضر ہوں ارشاد فرمائیے۔ قال ما من احد یشھد ان لا الہ الااﷲ و ان محمد رسول اﷲ صدقاً من قلبہٖ الا حرمہ اﷲ علی النار ۔ حضور نے فرمایا جو شخص صدق دل سے، سچے دل سے لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ پڑھ لیتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پہ دوزخ کی آتش کو حرام کردیتا ہے۔ قال: یا رسول اﷲ ! حضرت معاذ ابن جبل نے عرض کی یا رسول اﷲ ا فلا اخبربہ الناس فیستبشروا؟ کیا میں یہ بات لوگوں کو نہ بتادوں ؟ یہ بات میں زمانے کو بتا نہ دوں؟ تو لوگ خوش ہوجائیں گے ۔ اتنی بڑی خوش خبری جب انہیں ملے گی تو وہ خوش ہوجائیں گے ۔ یہ بات میں لوگوں کو نہ بتادوں ؟ قال: اذا یَتَّکِلُوْا۔ فرمایا وہ اسی پہ بھروسہ کرلیں گے ۔ تو حضرت سیدنا معاذ ابن جبل نے پھر ساری زندگی یہ حدیث بیان نہیں کی۔ جب آخری وقت آیا تو اس وقت کہا لوگو! میرے پا س ایک امانت ہے۔ اور مَیں چاہتا ہوں کہ وہ تمہیں بیان کر ہی جاؤں۔ تو پھر انہوں نے آخری موقع کے اوپر و اخبر بہا معاذ عند موتہ تأثُّماً۔(بخاری، کتاب العلم)گناہ کے ڈر سے کہ حضور کی کوئی بات چھپانا نہیں چاہیے تو انہوں نے اس حدیث کو بیان کردیا۔ کہ جس نے سچے دل سے لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲپڑھ لیا وہ جنت میں جائے گا۔ اعلیٰ حضرت کو سُنیے وہ کہتے ہیں ؂
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
وسعتیں دی ہیں خدا نے دامنِ محبوب کو
جرم کھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے
حضور نے فرمایا شفاعتی لأہل الکبائر من امتی میں قیامت کے دن بڑے بڑے گناہ گاروں کی سفارش کرکے انہیں جنت میں لے جاؤں گا۔ کیسی کرم نوازیاں برسیں گی اُس دن! حضور کے صدقے سے سب کچھ ہوگا۔ ان کے صدقے سے کرم دوبالا ہوگا۔ وہ کسی نے یہ شعر پڑھا کہ
وہ اپنا مقدمہ کیسے ہار سکتا ہے
جس کے حضور وکیل ہوں
اور میں نے اس کو ٹوک دیا میں نے کہا یار! وکیل نہ کہو۔ وکیل بمعنیٰ ایڈوکیٹ(Advocate)؛ بات مقدمے کی چل رہی ہے ۔ وکیل بمعنیٰ نگہ بان ؛ یہ تو درست ہے لیکن یہاں تم وکیل بمعنیٰ ایڈوکیٹ کررہے ہوتو یہ درست نہیں ہے ۔ کیوں؟اس لیے کہ جو وکیل ہوتا ہے وہ جج کو کہتا ہے کہ میرے مؤکل نے یہ جرم’’ نہیں‘‘ کیا لہٰذا چھوڑدو۔ اگر جرم ثابت ہوتو سزا پکی ہے۔ جو وکیل ہے وہ اپنے مؤکل کے بارے میں جج کو کہتا ہے کہ میرے مؤکل نے یہ جرم نہیں کیا لہٰذا چھوڑا جائے ۔ اور جو شفیع ہوتا ہے وہ کہتا ہے سب کچھ کیا ہے؛مگرمیرا آنا دیکھا جائے۔ حضور قیامت کے دن وکالت نہیں فرمائیں گے شفاعت فرمائیں گے۔ جدھر جدھر ہاتھ اٹھتے چلے جائیں گے بخشش ہوتی چلی جائے گی۔ حضور نے فرمایا مجھے اﷲ نے دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیاہے۔ اﷲ نے فرمایا محبوب! آدھی امت کا حساب لے لیں یا آدھی کو یوں ہی معاف کردیں۔ یا پھر حقِ شفاعت لے لو۔ حضور فرماتے ہیں مَیں نے شفاعت کا حق لیا ہے۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ حضور نے شفاعت کا حق کیوں لیا ہے۔ اسی لیے کہ حضور شفاعت کرکے پوری امت کو بخشوالے چاہیں۔
ماہ صیام کے حسین لمحے ہیں۔ اور یہ پانچ دن اﷲ نے ہمیں نصیب فرمائیں اور یہ خوب صورت دن تھے اور پانچوں دنوں حضور کے کرم اور حضور کے فضل اور اﷲ کی رحمتوں کے اجالے یہاں پھیلتے رہے۔ دو دن شدید بارش کے باوجود بھی میں خوش ہوا کہ لوگ محبت کے ساتھ یہاں تشریف لاتے رہے۔ آج دعا کا دن ہے اور اﷲ کے حضور ہمیں اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگنی ہے اور اپنے وطنِ عزیز کے لیے بالخصوص دعا مانگنی ہے۔ دعا مانگیں تو پورے یقین سے مانگیں ۔ علما کہتے ہیں دعا ہر صورت میں قبول ہوتی ہے۔ لیکن قبولیت کی صورت چار ہیں: (۱)یا تو بندہ جو مانگتا ہے وہی مل جاتا ہے۔ (۲) یا ایسے ہوتا ہے جو مانگتا ہے وہ نہیں ملتا بلکہ انسان کو اس کے بدلے میں کچھ اور دے دیا جاتا ہے بندے نے کچھ مانگا مگر وہ اس کے لیے مناسب نہیں تھا اس کے بدلے کچھ اوردے دیا گیا ۔ (۳) یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ جو مانگتا ہے فی الفور نہیں ملتا کچھ وقت کے بعد ملتا ہے۔ (۴)اور یا پھر ایسا ہو ہے کہ جو مانگتا ہے وہ بھی نہیں ملتا اس کے بدلے میں بھی کچھ نہیں دیا جاتا، لیکن اس کے بدلے میں آنے والی کوئی مصیبت ہو تو اﷲ ٹال دیتا ہے۔…… اور ایک بات یہ بھی علما نے بیان فرمائی کہ اس دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کردیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اس دعا کا بدلہ دیا جائے گا ؛ پھر بندہ سوچے گا میری دنیا کوئی دعا قبول ہی نہیں ہوتی ساری دعاؤں کے بدلے آخرت ہی میں دیے جاتے۔
٭٭
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 121746 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.