تشکیک ،علم کا پہلا زینہ

DOUBT IS KEY TO KNOWLEDGE یقین کم کن گرفتار شکی باش

تشکیک ، علم کا پہلا زینہ

اقوام عالم کی ترقی علم پر ہی منحصر ہے اورآئندہ بھی رہے گی اس لئے کہ علم کا ترقی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے بشرطیکہ علم کی عملی تطبیق ہو- جس قدر جانکاری بڑھے گی فکر میں بھی تبدیلی ہوتی چلی جائے گی- چونکہ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ معاشرہ سازی میں فکر کا ایک کلیدی کردار ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذاجہاں جیسی فکر پائی جاتی ہو وہاں معاشرہ بھی ویسا ہی ہوتا ہے- پس بہتر ماحول بنانے کےلئے بہترین فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو کہ بہترین علم سے ہی ممکن ہے اور ہر وہ علم، علمِ نافع کہلاتا ہے جو انسان اور انسانیت کی بھلائی کےلئے ہو. اسلام میں علم حاصل کرنے کی بہت اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے - حضرت علی علیہ السلام کے اس قول سے علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ «من علّمني حرفاً فقد صيّرني عبداً» یعنی جس نے مجھےٰ ایک حرف سکھایا گویا اس نے مجھے اپنا غلام بنایا- علم حاصل کرنے اور معلومات بڑھانے کے بہت سے طریقے ہیں لیکن علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں علم میں اضافے کا ایک عجیب طریقہ بتایا ہے -

علامہ اقبال بظاہر کوئی ماہر تعلیم نہیں تھے اور نہ ہی اس پیشہ سے وابستہ تھے ہاں اتنا ضرور ہے کہ انھوں نے کچھ عرصے تک کالج میں بحیثیت استاد فرائض انجام دئیے -لیکن تعلیمی نظام کے حوالے سے انھوں نے جو نظریات بیان کئیے وہ کسی ماہر تعلیم سے کم نہیں- علامہ اقبال عصر شناس تھے انہوں نے عصر حاضر کے مسلمانوں کی بدحالی بھانپ لی تھی اور علاج بھی تجویز کیا - جن میں سے ایک علاج یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں نے علم کا دامن چھوڑ دیا ہے لہذا علم کے ساتھ دوبارہ اپنا تعلق جوڑے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے - علامہ نے جس شعر میں علم حاصل کرنے کا نسخہ بیان کیا ہے اُسی شعر کا ایک حصہ ہم نے اس مضموں کا عنوان قرار دیا کہ " علم چاہتے ہو تو مبتلائے شک رہو " بظاہر یہ ایک مشتبہ جملہ لگ رہا ہے کہ "مکمل یقین کے بجائے شک میں مبتلا رہو" ، لیکن طائر علم کو اپنے دام میں گرفتار کرنے کےلئے یہ ایک بہترین ترکیب ہے -

همای علم تا افتد بدامت
یقین کم کن گرفتار شکی باش
ترجمہ: یقین میں کمی پیدا کر، شک میں مبتلا رہ ، تاکہ طائر علم تہمارے جال میں پھنس جائے.

میں نے جب پہلی بار یہ شعر دیکھا تو میں علامہ کے اس شعر پر یقین کرنے کے بجائے خود علامہ کے شعر پر ہی شک کر بیٹھا کہ شاید علامہ سے اشتباہ ہوا ہے ، اسلامی تعلیمات تو ہمیں یقین محکم کی طرف دعوت دیتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی طالب علم شک میں مبتلا رہ کر علم کی بلندیوں کو حاصل کرے ؟، اس بارے میں غور کرکے بات واضح ہوگئی ، یہاں پر علامہ اقبال طالب علم کو اس شعر کے ذریعے یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ جب تم اپنے درس سے متعلق کسی سے کوئی جانکاری حاصل کرو تو اس جانکاری پر اکتفا نہ کرو بلکہ اس سلسلے میں مزید چھان بین کےلئے کوشاں رہو اور دوسرے منابع سے بھی استفادہ کرو اس طرح تمہارے علم میں بے حد اضافہ ہو جائے گا . مثال کے طور پر کسی طالب علم نے درس کے دوران استاد سے سوال کیا کہ فلاں لفظ کا کیا مفہوم ہے ؟ استاد نے مفہوم بیان کر بھی دیا لیکن اس کے باوجود بھی طالب علم اگر دوسرےذرائع مثلا لغت وغیرہ کھول کر خود بھی دیکھ لے لغت کھولنے سے اور بھی کئی معنی اس لفظ کے ذیل میں مل جائیں گے- لغت کی ورق گردانی کرتے وقت ممکن ہے کچھ نئے لفظوں سے نگاہ ٹکرائے جو معلومات میں اضافہ کا سبب بن جائیں .

اس طرح کسی اور ذریعے کی طرف رجوع کرکے اپنے مطلوبہ مسلے کا حل تلاش کرنے کے دوران بہت سی نئی راہیں پیدا ہوجائیں گی جو کسی بڑے علمی مقام تک پہنچنے کےلئے کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں ،اس کا ایک اور فایدہ یہ ہے کہ یہ علمی ذخیرہ لمبے عرصے تک حافظہ میں رہے گا، عموماً انسان کوئی چیز سرسری طور پڑھ کر جلدی ہی بھول جاتا ہے،علم حافظہ میں رہے گا تو یہ عمل کی طرف ہمیشہ دعوت دیتا رہے گا ورنہ اگر بھول گئے تو پھر عمل کا خدا حافظ، میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ میرے ساتھ ایسا کئی بار ہوا اور شاید یہ سب کے ساتھ ہوتا ہو کہ کوئی بات جو ھمیں پہلے معلوم ہوچکی تھی پھر آہستہ آہستہ اُس پر فراموشی کی دھول جمتی گئی، اور جب وہی بات ہم دوبارہ سنتے یا پڑھتے ہیں تو ہم پھر سے عمل پہ از سر نو آمادہ ہو جاتے ہیں ، میرے خیال سے ایسا اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ ہم نے اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی تھی جس کی وجہ سے وہ بات ذہن کے اندر ہی لیکن فراموشی کے سیکشن میں چلی گئی تھی -پس کسی چیز کے متعلق زیادہ چھان بین اور تلاش و جستجو سے علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اُس چیز کو یاداشت کرنے میں بھی معاونت ملے گی-

واضح رہے کہ علامہ اقبال نے ہر معاملے میں شک کرنے کی تجویز پیش نہیں کی بلکہ صرف علم کے معاملے میں ایسا کہا ہے - ورنہ جب عمل کی باری ہو تو علامہ صاحب عمل کے بارے میں اسی شعر کے دوسرے حصے میں یوں فرماتے ہیں کہ :
عمل خواهی یقین را پخته تر کن
یکی جوی و یکی بین و یکی باش
ترجمہ: اگر عمل چاہتے ہو تو اپنے یقین کو پختہ تر کر دے
ایک کو ڈھونڈ ، ایک کو دیکھ ، اور ایک ہی بنا رہ

اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب عمل کی باری ہو تو یقینِ محکم کے ساتھ عمل انجام دے ، فکر و نظر میں بس ایک خدا کو بسا لے ، اپنی پوری زندگی میں یکتا رہ یعنی کبھی بھی دوغلاپن زندگی میں نہ آنے پائے -

آخر پر یہ بات بھی عرض کرتے چلیں کہ جسم، جان کی بدولت باقی ہے اور جان، علم سے زندہ ہے ،علم سے ہی انسان کی ارزش و اہمیت معلوم ہوتی ہے:
تن بجان زندہ است و جان زندہ بعلم
دانش اندر کان جانت گوھر است

انسانی زندگی میں علم کا کیا مقام ہے اور کن فواید کا حامل ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی یہاں پر گنجایش نہیں ہے، اللہ ہمارے علم میں زیادتی کے ساتھ ساتھ عمل کی توفیق بھی عنایت فرمائے -
Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 17364 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More