پہلےاس نے آٹھ سال کے بیٹےعامرکو پھینکا،
پھر تین سال کی بیٹی کالی کواور پھر وہ خود ایک حمل کے ساتھ کنویں میں کود
گئی، چند چیخیں بلند ہوئیں، شورمچا، لوگ اکٹھے ہوئے لیکن تب تک کافی
دیرہوچکی تھی، تھر کی ایک اور بھوکی پیاسی ماںاجتماعی خودکشی پرمجبورہوگئی،
مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ چار سال میں تھر میں 300 خواتین اپنے بچوں
سمیت خودکشی کرچکی ہیں،مجھے اس کی بھی پروا نہیں کہ 2017 کے ان چند دنوں
میں تھر میں موت کا رقص تیز نہ سہی مدھم رفتارسے جاری ہےاوروجہ وہی بھوک ،افلاساورغربت
ہے،مجھے تو رنج اس بات کا ہے ایک غیر طبعی موت ہی انسان کو ہلا دینے کے لئے
کافی ہوتی ہے تو پھر یہ ہمارے کیسے حکمران ہیں جوانسانوں کی اجتماعی خودکشی
پر بھی کچھ نہیں کرتے ۔
میرے دیس میں ان دنوں برفباری کے چرچے ہیں، بارش کی باتیں ہیں،گرم گرم
پکوان، خشک میوے، سوپ ،یخنی،گاجرحلوے کے تذکرے ہیں لیکن ہم نےکبھی سوچا کہ
سخت سردیمیں تھروالے کیسے تھر تھرکانپتے ہوں گے ہمارے لئے برف زدہاور یخ
بستہ موسم لطفہے تو تھر باسیوں کے لئے یہ اجل کا پیام ہے ،ہمارے لئے بارش
رحمت ہے تو ان کے لئے یہ زحمت بن جاتی ہے۔ ہمارے بعض ہم وطنوں کے تن پرجب
کپڑا نہ ہو، پیٹ میں روٹی نہ ہواور زبان کئی کئی دن تک خشک ہو تو موسم کے
یہ چونچلے ہمیں زیب نہیں دیتے ۔
مجھےموسم سے لطف اندوز ہونے پراعتراض نہیں مجھے اعتراض ہے تو اتنا کہ جب ہم
کراچی ،لاہور،پشاور اور کوئٹہ کے مسائل کی بات کرتےہیں تو تھروالوں کو بھی
یاد کرلیا کریں بھلے تھوڑا ہی سہی۔کیا ہمارے جمہوری اورغیر جمہوری، لیگی
اور پیپلےحکمران سیاست کی دفلی بجانے کے لئے ہی رہ گئے ہیں،سندھ کے بزرگ
سائیں گئے تو نیم بزرگ آ گئےلیکن تھر والوں کی قسمت نہیں بدلی، وہی مسائل،
وہی پریشانی،اور وہی دہائیاں،اگر کسی میڈیا گروپ نے اجتماعی خودکشی کے ان
حالیہ واقعات کو زیادہ نمایاں کیا بھی تو ہمارے سندھ کے انجینئر سائیں جنہں
پیش رو کی طرح دبئی یاترا کا شوق ہے کو کچھ ہوش آئےگی۔ موصوف متاثرہ ضلع کا
دورہ کریں گے، ایک آدھ بیان دیں گے، سیاسی مخالفین اور میڈیا والوں کو
تنقید کا نشانہ بنائیں گےاور پھر کئی مہینوں تک اس ضلع کو یتیم کرجائیں گے
بس یہ ہے تھروالوں کے لئے کل جمہوری ثمرات۔
مجھے تویہ پڑھ کر جھرجھری آ گئی تھی کہ کیسے پینتس سالہ صابری دوہت نے اپنے
ہاتھوں سے اپنے بچوں کو اندھیرے کنویں میں پھینکا ہو گا؟ وہ جنہیں اس نے
کئی مہینے تک اپنے پیٹ میں پالا ،پھر سینے سے لگایا اور پھر آنکھوں پر
بٹھایااور جب ان کے سنہرے دن آنے لگے تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر
گوشوں کو موت کی نیند سلا دیا اور خود بھی ان کے ساتھ جا کر سو گئی کہ کہیں
بچے اکیلے میں ڈر نہ جائیں ۔ایک جانب یہ صورتحال ہے اور دوسری جانب
روٹی،کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے والی جماعت کے سرخیل آصف زرداری ہیں جن
کا دبئی کے راستے امریکا جانے کا پروگرام ہے وہاں وہ ٹرمپ کی حلف برداری کی
تقریب کے بعد فروری میں اوباما کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھیں گے ۔بے نظیر
کا لاڈلا بلاول بھی ان کے ساتھ ہو گا ،کتنی عمدہ منصوبہ بندی ہے لیکن تھر
کی ماں کے لئے کوئی منصوبہ نہیں، تھرکے بچوں کے لئے کوئی منصوبہ نہیں، تھر
کے بے روزگاروں کے لئے کوئی منصوبہ نہیں۔ سرکاری گوداموں میں اناج ہے اور
صحت کے بجٹ کی مد میں 55 ارب روپے بھی،اس کے باوجود کیا سندھ حکومت اتنی
اہل بھی نہیں کہ چند لاکھ افراد کی غذائی قلت دور کرنے کا کوئی منصوبہ ہی
ترتیب دےدے،اگر نہیں تو پھروفاقی اور صوبائی حکومتیں چلانے کے تجربے کا آخر
عوام کو کیا فائدہ ؟ |