تحریر : بیا بٹ، بوریوالا
امتحانوں کے بعد فراغت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بندہ ہر چیزسے اکتاہٹ محسوس
کرتا ہے۔ بوریت کیا کروں اب؟ ثمن نے موبائل بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پٹخا اور
لیٹ گئی۔ گھر کے سارے کام کیے، کھانا بنایا اور پچھلے ایک گھنٹے سے موبائل
پر انٹرنیٹ میں مختلف چیزیں دیکھتے دیکھتے اب وہ بور محسوس کر رہی تھی۔
لیٹے لیٹے دماغ پھر امتحانات کی مصروفیت کی طرف جا نکلا ’’تب وقت کم لگتا
تھا گھنٹے منٹوں کی طرح گزرتے تھے اور اب منٹ گھنٹوں سے بھی طویل لگ رہے
تھے‘‘۔ سوچتے سوچتے اس کی نظر سامنے دیوار پہ لگے انرجی سیور پر ٹک گئی۔
سفید روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔ ایک دم جیسے آس پاس کے منظر دھندلا
گئے تھے۔ ثمن نے آنکھیں دوپٹے سے صاف کی اور دوبارا روشنی کو دیکھنے لگی۔
انرجی سیور کے ارد گرد شاید کسی مکڑی نے اپنی رہائش گاہ بنائی ہوئی تھی۔
ایسا لگتا تھا کسی نے باریک باریک رسیوں سے انرجی سیور کوجکڑ رکھا ہو۔ ایک
دم سے اس کا دل بجھ سا گیا۔ ایک لمحے کو اسے لگا کہ جیسے اس کا دل اس انرجی
سیور کی جگہ ہے جسے بہت سے اﷲ سے غفلت کے جالوں نے جکڑ کر زکر الہٰی سے دور
کیا ہوا ہو۔ خوف کی ایک لہرسے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ اس وقت ثمن کا
دل چاہا کہ وہ اپنے رب کے سامنے اپنی تمام خطاؤں کی توبہ کرے۔ روئے گڑ
گڑائے او راپنے رب کوراضی کرے۔ شاید وہیں کاٹھ کر وضو کیا اور قرآن پاک
پڑھنے کے ارادے سے آگے بڑھتی گئی۔ اب کوئی بوریت کوئی وقت کی قید نہیں تھی۔
آگہی نے میرے دل پہ لگے سب جالوں کو صاف کردیا تھا۔ روشنی اندر کہیں بڑھتی
ہی جارہی تھی۔ ثمن نے مسکراتے ہوئے قرآن پاک اپنے ہونٹوں سے لگا لیا تھا۔ |