محمد شیر افضل جعفری :دِل و نگاہ کے سب سلسلے ہی توڑ گیا
(Ghulam Ibnesultan, Jhang)
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
بائیس جنوری 1989کو جھنگ شہرکے ملنگ شاعر اور اُردو شاعری میں جھنگ رنگ کے
موجد اور خاتم ممتاز شاعر ،ادیب ، سماجی کارکن ،دانش ور اور ماہر تعلیم
محمد شیر افضل جعفری نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا ۔ان کی وفات
سے جھنگ کے دبستان شاعری کا ایک نیر تاباں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔ان کے
والد میاں احمد بخش چغتائی کا شمار جھنگ میں تحریکِ پاکستان کے پُر جوش اور
فعال کارکنوں اور ممتاز پنجابی شعرا میں ہوتا تھا ۔محمد شیر افضل جعفری نے
یکم ستمبر 1909کو اس عالمِ آب و گِل میں پہلی مرتبہ آنکھ کھولی ۔ان کی وفات
سے نہ صرف اُردو زبان وا دب کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا بل کہ مشرقی
تہذیب و ثقافت کی پہچان بھی رخصت ہو گئی۔ان کے چھ شعر مجموعے شائع ہو چکے
ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے ز بر ست پزیرائی ملی ۔سادگی ،عجز و
انکسار،حریت ضمیر سے جینے کے لیے سدا اسوۂ شبیر کو اپنانے والے اس عظیم
تخلیق کار نے مسلسل آٹھ عشروں تک اپنے افکار کی تابانیوں سے سفاک ظلمتوں کو
کافور کیا اور عوام میں زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں مثبت شعور و
آگہی پیدا کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں
اُترنے والی اثر آفرینی سے معمور ان کی شاعری دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے
اور حریم کبریا سے آشنا کرنے کا ایک موئثر وسیلہ ثابت ہوئی۔دنیابھر میں ان
کے موثر و منفرد اسلوب اور ہر دل عزیز و مستحکم شخصیت کے لاکھوں مداح موجود
ہیں ۔انھیں ان کا دبنگ لہجہ اور الفاظ کی ادائیگی کی ترنگ اب تک یاد ہے
۔میں نے انھیں اس وقت دیکھا جب وہ وجود اور عدم کے مابین فاصلے طے کرتے
کرتے عالمِ پیری میں تھے اور ان کی عمر اسی برس کے قریب تھی ۔سفید شلوار
قمیص میں ملبوس ،بند گلے کا کوٹ پہنے ،سر پر طرہ ،کلاہ و دستار اور پاؤں
میں کھسہ پہنے وہ مشرقی تہذیب و تمدن عمدہ ترین نمونہ بن کر سامنے آتے تھے
۔یہ لباس انھیں خوب سجتا تھا ۔ان کی سفید شیشوں والی نظر کی عینک ان کی
وجاہت میں مزید اضافہ کرتی تھی۔جب وہ ادبی محفلوں اور مشاعروں میں اپنا
کلام پڑھتے تو وہ خود بھی جھومنے لگتے ان کے ساتھ پوری محفل پر بھی وجدانی
کیفیت طاری ہو جاتی ۔انھوں نے بڑے زوروں سے اپنی خداداد ادبی صلاحیتوں اور
تخلیقی فعالیتوں کا لوہا منوایا۔ان کی شاعری میں جو اثرآفرینی ہے وہ قلب
اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر مسحور کر دیتی ہے ۔ اپنی جنم بھومی(جھنگ)
سے محبت ان کے اشعار میں نمایا ں ہے ۔ دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر
واقع ان کی جنم بھومی جھنگ کے تہذیبی و ثقافتی اثرات ان کی شاعری میں
نمایاں ہیں۔ محمد شیر افضل جعفری نے اردو غزل کے روایتی اسلوب کی تقلید کے
بجائے اپنے لیے ایک منفرد طرز ِ فغاں ایجاد کی ۔نئے مضامین اور نئے الفاظ
کے استعمال سے انھوں نے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا۔ اپنے اسلوب کے بارے
میں انھوں نے اپنے بارے میں یہ کہا تھا :
سر زمینِ چناب کو افضل ؔ
آسماں بھی سلام کرتا ہے
جھنگ دیس میں اک سودائی جھومے ڈھولے گائے
بھگوا الفا چال ملنگی شیر افضل کہلائے
یہ ریگ زار یہ ٹیلے ،یہ خشک ویرانے
ہمارے لطفِ نظر سے گلاب رنگ ہوئے
جھنگ میں چیت کے جھونکے آئے
بیری کو بُندے پہنائے
ڈالی ڈالی وجد میں آئی
کَل چڑیوں نے ٹپے گائے
رِم جِھم رِم جِھم اَمرت بَرسا
ہر یالی نے جشن منائے
وقت کے جھنگ رنگ ٹیلوں پر
آدمیت اُگا رہا ہوں میں
دے کے اُردو کو جھنگ رنگ افضل ؔ
ہم نے کوثرمیں چاندنی گھولی
محمد شیر افضل جعفری کے شعر ی مجموعے ’’سانولے من بھانولے‘‘، ’’ شہر سدا
رنگ ‘‘ اور ’’ موج موج کوثر ‘‘ہر مکتبہ فکر کے قاری کے لیے پر کشش ثابت
ہوئے ۔ جدت کے مظہر ان کے منفر د اسلوب اور اردو زبان میں پنجابی زبان کے
الفاظ کی آمیزش کے نئے جرأت مندانہ لسانی تجربات نے ان کی شاعری کو جو صد
رنگی ،تنوع اور ہمہ گیر کشش عطا کی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ان کے متعدد
ایڈیش شائع ہوئے ۔انھیں جو پزیرائی نصیب ہوئی وہ اپنی مثا ل آ پ ہے
۔پاکستان بھر کے تمام اہم کتب خانوں میں ان کے شعری مجموعے موجود ہیں ۔ان
کے اسلوب اور شخصیت پر متعدد تحقیقی مقالے لکھے گئے جن میں سندی تحقیق کے
ایم۔اے ،ایم فل اور پی ایچ۔ڈی سطح کے مقالات بھی شامل ہیں ۔ ممتاز ماہر
تعلیم اورنامور ادیب پر و فیسرمحمد شفیع ہمدم نے علامہ اقبال اوپن
یونیورسٹی ،اسلام آباد سے ایم فل سطح کا جو مقالہ ’’ محمد شیر افضل جعفری
:حیات و خدمات ‘‘ کے عنوان سے لکھا وہ خاصے کی چیز ہے ۔اب تو اسے ایک
بنیادی حوالے کے ماخذ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے ۔ان کی حیات ،اسلوب اور ادبی
خدمات پر مختلف ادبی مجلات نے خاص نمبر شائع کیے جو اس یگانۂ روزگار تخلیق
کار کو خراج تحسین پیش کرنے کی عمدہ کا وش ہیں۔ان میں سے ممتاز بلوچ کی
ادارت میں جھنگ سے ادارہ ادبی جھوک جھنگ کے زیر اہتمام شائع ہونے ادبی مجلے
’’ جھوک ‘‘ کا محمد شیر افضل جعفری نمبر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ مجلہ
جھوک کی اس تاریخی اشاعت سے جھنگ میں اردو شاعری کے ارتقا سے متعلق ایک
درخشاں عہد کو محفوظ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔اس خاص اشاعت میں دنیا
بھر کے تمام اہم دانشوروں کے مضامین شامل ہیں جنھوں نے اس عظیم ادیب کی
مستحکم شخصیت اور بلند ادبی مقام کو بہ نظر تحسین دیکھا ہے ۔
گورنمنٹ کالج جھنگ کا یہ ایک منفرد اعزاز و امتیاز ہے کہ یہاں سے فارغ
التحصیل ہونے والے طلبا نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ۔ پروفیسر
عبدالسلام(نوبل پرائز)،مجید امجد،ڈاکٹر وزیر آغا،سردار باقر علی خان ،خواجہ
یونس حسن،صاحب زادہ رفعت سلطان ،امیر اختر بھٹی ،رانا سلطان محمود ،غلام
علی چین، اﷲ دتہ سٹینو ،سید مظفر علی ظفر ، معین تابش ،سجاد بخاری
(ایڈووکیٹ)،شفیع ہمدم ،شفیع بلوچ،خادم مگھیانوی،کبیر انور جعفری ،سید جعفر
طاہر ، احمد تنویر ،مظہر اختر، خیر الدین انصاری ،رام ریاض ، حکمت ادیب،ظفر
سعید ،اور متعد د ہستیاں ایسی ہیں جن کی خداداد صلاحیتوں کے اعجاز سے حالات
کی کایا پلٹ گئی۔ان عظیم لوگوں کے کارہائے نمایاں کا ہر سطح پر اعترف کیا
گیا۔گورنمنٹ کالج جھنگ کا علمی و ادبی مجلے ’’کارواں‘‘جو کہ 1926سے مسلسل
شائع ہو رہا ہے نوجوان طالب علموں میں ادبی اور تخلیقی ذوق پروان چڑھانے
میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ۔محمد شیر افضل جعفری کا ابتدائی کلام
زمانہ طالب علمی کی یاد دلاتا ہے ۔اس عرصے میں ان کا کلام ’’ کارواں ‘‘،
روزنامہ عروج جھنگ ،ادبی دنیا ،ساقی اور ادب لطیف میں چھپتا رہا ۔ان کی
شاعری سے محبت ،چاہت ،خلوص اور دردمندی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔اردو کو مقامی
رنگ اور مقامی الفاظ سے آشنا کر کے نھوں نے جو منفرد لسانی تجربہ کیا وہ ان
کے اسلوب کی پہچان بن گیا ۔اس تخلیقی عمل کے ذریعے و ہ اجتماعی لا شعور کی
بیداری اور اسے پیرایۂ اظہار عطا کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں ۔ان کے
اسلوب کا یہ پر لطف اور پر کشش انداز قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔اسے پڑھ
کر جو ادبی حظ حاصل ہوتا ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن ہی نہیں ۔ان کے
الفاظ ہی ان کی پہچان بن جاتے ہیں،زندگی اور اس کی مقتضیات کے بارے میں
انھوں نے جو حقیقت پسندانہ طرز عمل ایجاد کیا اسے ان کی طرز خاص سے تعبیر
کیا جاتا ہے ۔وہ زندگی کی تنہائیوں کو بے لوث محبت کے اثر سے گل و گلزار
بنا دیتے ہیں ۔زندگی کے بارے میں ان کا تصور اس اساس پر استوار ہے کہ فرد
کو اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اس وسیع و عریض کائنات کے مظاہر فطرت کے
ساتھ ایک حیاتیاتی ربط و تعلق استوار کرنا چاہیے۔اس طرح وہ زندگی کی حقیقی
معنویت اور حسن کے جلووں کے علاوہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام
استعاروں کے متعلق آگاہی حاصل کر سکتا ہے ۔محمد شیر افضل جعفری نے زندگی کو
جس روپ میں دیکھا اس کا پرتو ملاحظہ فرمائیں:
پھول پھول زندگی ،رنگ رنگ زندگی ہیر ہیر زندگی ،جھنگ جھنگ زندگی
دھڑکنوں کے تال پر ناچتی سہاگنیں بانہہ بانہہ زندگی ، ونگ ونگ زندگی
دل رُبا گوالنیں رس بھری کٹوریاں دودھ دودھ زندگی ، کنگ کنگ زندگی
محمد شیر افضل جعفری نے اپنے منفرد لسانی تجربے کو جھنگ رنگ کا نام دیا اور
اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اردو زبان میں پنجابی الفاظ کو شامل کرکے اردو
زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ان کے اس تجربے سے اردو زبان کی
ثروت میں اضافہ ہو گا ۔ان کا کہنا تھا کہ اردو کہ جھنگ رنگ میں نہلانے کا
تجربہ ان کی ذاتی اختراع ہے جس پر انھیں ہمیشہ ناز رہا ۔یہ بات بلا خوف
تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے لسانیات میں جمود کا خاتمہ
ہو ا اور یکسانیت سے نجات ملی ۔اردو ادب کے قاری کو ان افکار کے وسیلے سے
ندرت اور تنوع کے جہان تازہ کی ایک جھلک دکھائی دی ۔
انھوں نے مستقبل کی اردو کے بارے میں جو پیشین گوئی کی تھی اور جس نئی زبان
کا خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ان کے اشعار میں جھلکتی ہے :
چرخے کی سر پنجابی اور ترانہ جھنگی ہے مستقبل کی اردو بھی افضل کی نیرنگی
ہے
چڑھتے چنھاں سے لے کے لہکتی جوانیاں اردو کو جھنگ رنگ میں نہلا رہا ہوں میں
ایک جری ،زیرک اور فعال تخلیق کار کی حیثیت سے محمد شیر افضل جعفری نے
اخلاقی اقدار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ۔وہ ادب پارے کی افادیت
،ادیب کی شخصیت اور تخلیق فن کے مرحلے کو ایک ایسی مثلث کا نام دیتے تھے،جس
کا ہر زاویہ اور ہر کو نہ باہم مربوط ہے اور اسی ربط وارتباط کی بدولت
تخلیقی فن کار لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کرتا ہے ۔ان کی زندگی میں مصلحت
اندیشی کا کوئی دخل نہ تھا ۔وہ حق گوئی اور بے باکی کی عملی تصویر تھے ۔وہ
اکثر یہ بات زور دے کر کہتے تھے کہ خالقِ کائنات کے حضور ایک سجدہ جو انسان
کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے وہ اسے قصرِ فریدوں اور در کسریٰ کے سامنے
ہزار بار سجدہ ریز ہونے سے بچا لیتا ہے ۔انھوں نے زندگی بھر فغانِ صبح گاہی
کو اپنا شعار بنائے رکھا ۔وہ جانتے تھے کہ سوائے اﷲ ہُو کے امان کہیں نہیں
مل سکتی ۔مولا علیؑ خیبر شکن کے ساتھ ان کو قلبی عقیدت اور والہانہ محبت
تھی ۔اس عقیدت کا اظہار ان کی شاعری میں بھی متعدد مقامات پر ہوا ہے ۔وہ
اپنے سچے جذبات کو بر ملا بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے :
دل ہے اور دھڑکنوں کے ہلکورے کیوں نہ دل بو ترابؑ کو سورے
قافلے سرد سرد آہوں کے ہم نے تاروں کی چھاؤں میں ٹورے
فطرت جس انداز میں لالے کی حنا بندی میں مصروف ہے وہ محمد شیر افضل جعفری
کی شاعری کا ایک اور اہم موضوع ہے ۔ان کی شاعری کے فکری پس منظر کا بہ نظر
غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و ذکاوت
اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے افکار کی جولانیاں اس طرح دکھائی
ہیں کہ مطالعہ فطرت ،سماجی زندگی اور تہذیب و معاشرت کے جملہ پہلو اس میں
رچ بس گئے ہیں۔وہ زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کے خواہاں تھے ۔ان کے
تخلیقی تجربے اور ادبی فعالیت میں حرف صداقت لکھنے کو بڑی اہمیت حاصل ہے
۔انھوں نے عربی ،فارسی اور اردو زبان کے کلاسیکی ادب کا وسیع مطالعہ کیا
تھا ۔انگریزی ادب تک ان کی رسائی اپنے بیٹوں کے ذریعے ممکن ہوئی جنھوں نے
انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا۔ان کے بیٹے عباس ہادی ،عباس مہدی اور میثم
مالک اشتر نے عالمی ادبیات کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا تھا ۔انھوں نے اپنے
والد کو عالمی کلاسیک کے تراجم مہیا کیے اس طرح محمد شیر افضل جعفری کے لیے
یہ کام آسان ہو گیا کہ وہ عالمی کلاسیک کا مطالعہ کر سکیں۔اگر چہ انھیں
انگریزی زبان پر عبور حاصل نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ انگریزی زبان میں
کی جانے والی گفتگو کا مفہوم سمجھ لیتے تھے۔یہ ان کی اکتسابی مہارت تھی جس
کا ان کے احباب بر ملا اعترف کرتے تھے۔ان کی شاعری میں خیالات کی جو تونگری
ہے اس کے پس پردہ ان کاعالمی کلاسیک کا وسیع مطالعہ ،مشاہدہ اور تجربہ کار
فرما ہے ۔بالخصوص جب وہ فطرت نگاری کی طرف آتے ہیں تو ان کے اشعار میں
استعمال ہونے والا ہر لفظ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بن جاتا ہے ۔قاری چشم
تصور سے وہ تمام مناظر،کردار اور ماحول دیکھ لیتا ہے جس کا احوال انھوں نے
اشعار میں بیان کیا ہے ۔سراپا نگاری میں بھی انھیں ید طولیٰ حاصل تھا ۔
اپنے اشعار میں وہ ایسے اثمار و اشجار کا بیان کرتے ہیں جو اب ناپید ہوتے
چلے جا رہے ہیں ۔اس لحاظ سے وہ تہذیبی اور ثقافتی تحفظ کو یقینی بنانے کے
آرزومند دکھائی دیتے ہیں ۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
جواں سال شاخوں پہ ڈہلوں کے بندے کریروں کا عالم نگینہ نگینہ
نباتات پر حسن و روماں نچھاور بروٹی بروٹی ،حسینہ حسینہ
دیہاتی زندگی کی تمام رنگینیاں نو جوانوں کے دم سے ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ
صداقت ہے کہ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے شہروں سے بن زیادہ پیارے
ہیں ۔دیہا توں میں پنگھٹ ،چوپال، درختوں کے سائے میں پینگوں پر جھولنے والی
دوشیزائیں اپنی سادگی اور شان دل ربائی سے پوری محفل کو مسحور کر دیتی ہیں
۔دیہاتوں میں آج بھی چشم غزال عام ہے اور بلاشبہ نگاہوں کے تیر بھی انتہائی
دل نشیں ہیں ۔اس حسین اور دلکش منظر نامے کو لفظی مرقع نگاری کے اعجاز سے
محمد شیر افضل جعفری نے سد ا بہار بنا دیا ہے ۔دیہاتی دوشیزائیں پیمانِ وفا
باندھتے وقت سر سبز و شاداب نہالوں کی ثمر بار اور کومل ٹہنیوں کے ساتھ
اپنے پراندے کی ڈوری باندھ کر اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ جس طرح یہ نرم و
نازک شاخ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور تناور تنے میں بدل جائے گی
اسی طرح اس کا پیار بھی روز بہ روز پختہ تر ہوتا چلا جائے گا ۔الہڑ
دوشیزائیں جب پینگوں پر بیٹھ کر اوپر جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ
وہ اپنی سنگت کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کرنے کی متمنی ہیں ۔اس موضوع
پر محمد شیر افضل جعفری نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو نہایت دل نشیں انداز
میں اشعار کے قالب میں ڈھالاہے۔انھیں پڑھ کر قاری جھومنے لگتا ہے :
ٹہنیوں کی گسنیوں میں ریشم کی ڈوریاں ہیں پینگوں پہ لہلہاتی چونچال چھوریاں
ہیں
الہڑ سوانیاں ہیں،اُٹھتی جوانیاں ہیں چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیا ں
ہیں
معاشرتی اور سماجی زندگی میں لا تعداد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔محمد
شیر افضل جعفری نے صرف ان واقعات پر توجہ مرکوز کی جن میں یہ استعداد تھی
کہ وہ تخلیق ادب کا موضوع بن سکیں ۔ان کے اشعار میں ان کے تخلیقی تجربے ایک
انفرادی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں وہ اپنے خونِ جگر اور آہِ سحر کے
اشتراک سے سِل کو دِل بناکر پیش کرتے ہیں ۔ان کے ہاں سوز و ساز رومی اور
پیچ و تاب رازی کی عجیب کیفیت ہے جو ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی دکھانے
پر قادر ہے ۔جب برصغیر برطانوی استبداد کے خون آشام پنجوں میں جکڑا ہو ا
تھا اس وقت بھی محمد شیر افضل جعفری نے حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔انھوں
نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا
شعاربنایا۔ان کی شاعری میں عشق کا جوتصور ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عقل پر
عشق کو بالادستی حاصل ہے ۔جس زمین و آسماں کو بے کراں خیال کیا جاتا ہے عشق
کی اک جست نے اس کا تمام قصہ طے کردیا۔عشق آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتا
ہے جب کہ آج تک عقل محو تماشائے لب بام ہے ۔قوت عشق سے ہر پست کو بالا کرنے
کی استعداد حاصل کی جا سکتی ہے ۔یہ درست ہے کہ اگر عقل مصلحت سے کام لے تو
یہ عقل کی پختگی کی علامت ہے اس کے بر عکس اگر عشق میں بھی مصلحت کے تقاضوں
کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ عشق تا حال
خام ہے ۔
عشق کے موضوع پرمحمد شیر افضل جعفری کی شاعری میں ایک قابل فہم اندازفکر
موجود ہے ۔ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل میں اترتی چلی جاتی ہے ۔
عشق آفاق میں خلاق حیات جاوید عالم نیست میں کیا صاحب ہست آیاہے
بشر اگر عشق سے دعا لے سراب سے آب جو نکالے
عشق جب وقت کو جھنجھوڑتا ہے حادثے کانپ کے گر جاتے ہیں
بے زری دان کے لائق نہ سہی عشق میں جان بھی پن ہوتی ہے
عشق میں چوٹ ہی کھائی ہم نے آگ سے پیاس بجھائی ہم نے
عشق میں کونج کی فریاد کے ٹکڑے افضل مست بلبل کی مدھر تان میں ڈھل جاتے ہیں
جب نگار قضا سنورتا ہے عشق لہرا کے رقص کرتا ہے
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اعلیٰ انسانی اقدار کی زبوں حالی نے
انسانیت کو نا قابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے ۔ابن الوقت ،مفاد
پرست ،دروغ گو اور کینہ پرور درندو ں نے بے بس و لاچار انسانیت پر جو کو ہ
ستم توڑا ہے اس کے مسموم اثرات سے رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر اور آہیں بے اثر
ہو کر رہ گئی ہیں ۔المیہ یہ ہے کا اب تو سادیت پسندی (Sadism)کو بھی ایک ہر
دل عزیز مشغلہ سمجھا جاتا ہے ۔محمد شیر افضل جعفری نے اپنے سب ملنے والوں
میں ہمیشہ خوشیاں بانٹیں ۔جو لوگ ان کے پاس اشک آور گفتگو کرتے انھیں بھی
وہ صبر و رضا کی اس طرح تلقین کرتے کہ جلد ہی ان کی گفتگو تبسم انگیز ہو
جاتی ۔جب وہ بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے ۔کسی کی عیب جوئی اور تنقیص سے
انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ایک مرتبہ ایک چربہ ساز ،سارق،کفن دزد متشاعر ان
کے پاس اپنی شاعری کا مسودہ لے کر حاضر ہو ا ۔وہ چاہتا تھا کہ اس پر ایک
مقدمہ لکھوا کر اسے کتابی صورت میں شائع کرائے۔محمد شیر افضل جعفری نے ایک
گھنٹہ مسلسل اس مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد اس خفاش منش متشاعر کواس کی
مہمل اور لا یعنی شاعری کا بے ربط اور فرسودہ مسودہ واپس کرتے ہوئے کہا :
’’ابھی اس شاعری کے مسودے کو کھبھلاٹھ کے نیچے سنبھال کر رکھو۔‘‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شاعر ی اس قدر نا پختہ ہے کہ اس کا منظر عام پر
آنا خود شاعر کے حق میں نقصان دہ تھا ۔جس طرح مرغی اپنے کمزور چوزوں کو
پروں کے نیچے سنبھال کر اسے بیرونی ناسازگار ماحول سے بچاتی ہے اسی طرح اس
شاعر کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ایسا خام کلام ابھی باہر نہ نکالے اور اسے
چھپا کررکھے ۔اس کی اصلاح پر توجہ دے اور کسی استاد کی با قاعدہ شاگردی
اختیار کرے تا کہ اسے اپنی شاعری کو پوشیدہ نہ رکھنا پڑے ۔ایک مختصر جملے
میں وہ لفاظ حشراتِ سخن کو آئینہ دکھاتے اور گلشن ادب کو ان کی غاصبانہ
دستبرد سے محفوظ رکھنے کی سعی میں مصروف رہتے ۔جید جاہل ان کو دیکھ کر ایسے
غائب ہو جاتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ اصلاح اور مقصدیت کو ہمیشہ پیش نظر
رکھتے تھے۔
حضرت سلطان باہو ؒ(1630-1691)کے ساتھ انھیں بہت عقیدت و محبت تھی ۔جب ڈاکٹر
سید نذیر احمد گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے تو انھوں نے ممتاز اشاعتی
ادارے پیکجزلمیٹڈ،لاہور کے زیر اہتمام ابیات باہوؒ کا ایک مستند نسخہ مرتب
کیا ۔اس مسودے کی تیاری میں انھوں نے محمد شیر افضل جعفری سے بھی مشاورت کی
اور ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود نادر و نا یاب مخطوطوں پر بھی کام
کیا۔ابیات باہوؒ کا معیاری یہ ایڈیشن سلطان باہو ؒ کے ابیات کے چند اہم
بنیادی مآخذ میں شامل ہے ۔محمد شیر افضل جعفری کو حضرت سلطان باہو ؒکے
متعدد ابیات زبانی یاد تھے ۔جب وہ ان ابیات کو بلند آواز سے پڑھتے تو ان پر
رقت طاری ہو جاتی اور بعض اوقات وہ زار و قطار رونے لگتے ۔جھنگ کے ممتاز
ادیب ،شاعر اور دانش ور امیر اختر بھٹی نے مجھے بتایا:
’’ حضرت سلطان باہوؒ کے مزار پر واقع مسجد کے صحن میں بیری کا ایک چار سو
سال پرانا تناور درخت ہے ،اس درخت پر ہر موسم میں سال بھر خوش ذائقہ بیری
کے پھل لگتے ہیں ۔ ایک روایت یہ ہے کہ بیری کا یہ پودا حضرت سلطان باہوؒ نے
اپنے ہاتھوں سے اس جگہ لگایا تھا ۔ ان کے بارے میں یہ بات اس علاقے کے بچے
بچے کی زبان پر ہے کہ جس شادی شدہ بے اولاد جوڑے کے گھر اولاد نہ ہوتی ہو
وہ اس بیری کے درخت کے نیچے قبلہ رُو ہو کر اﷲ کریم کے حضور سر بہ سجود ہو
کر جھولی پھیلا کر رو رو کر دعا مانگے اور اولاد کے لیے اﷲ کریم سے التجا
کرے۔اگر جھولی میں بیر گرے تو بیٹا پیدا ہو گا اور اگر پتا گرے تو بیٹی
پیدا ہو گی۔محمد شیر افضل جعفری کے بیٹے کی اولاد نہ تھی وہ دربار حضرت
سلطان باہوؒ پہنچے اور مسجد میں ڈیرے ڈال دئیے ۔ایک ہفتہ وہاں قیام کیا
،نماز باجماعت پڑھی اور تہجد بھی پڑھی ۔چادر مسلسل پھیلی رہی اور
دعاؤں،فغانِ صبح گاہی اور التجاؤں کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ایک دن نماز تہجد
سے فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دو سرخ رنگ کے پکے ہوئے سرخ بیر اس قدیم
بیری کے درخت کی بلند ٹہنی سے گرے اور ان کی جھولی میں آگرے ۔انھوں نے سجدۂ
شکر ادا کیا اور گھر آکر اپنی بہو اور بیٹے کو یہ نوید سنائی ۔انھوں نے بیر
کھا لیے اسی سال ان کا پوتا پیدا ہو ااس کا نام حضرت سلطان باہوؒ کی نسبت
سے ’’چن سلطان ‘‘ رکھا گیا ۔اگلے برس بھی ایک بیٹا پیدا ہو اجس کا نام اسی
حوالے سے ’’چنن سلطان‘‘رکھا گیا ۔‘‘
میں نے محمد شیر افضل جعفری کے ان پوتوں سے ملاقات کی ہے ۔دونوں نو جوان
بڑے سعادت مند اور نیک ہیں ۔محمد شیر افضل جعفری کی شاعری میں بھی حضرت
سلطان باہوؒ سے قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت کا اظہار کیا گیا ہے ۔ان کے دل
میں اس عظیم صوفی شاعر اور روحانی بزرگ کے لیے محبت کے بے پایاں جذبات کا
اظہار اس طرح کیا گیا ہے :
باہوؒ نے رگ جاں میں نشے کو ٹٹولا ہے اس راز کو بالآخر اک مست نے کھولا ہے
باہوؒ کی ترائی میں دل زار کا عالم فردوس کی آغوش میں صحرائے عرب ہے
باہو ؒ کے دربار میں لائیں خمرے حق ہُو کی سوغاتیں
سال 1926میں فروغِ علم و ادب کی روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی عظیم
تاریخی مادرِ علمی گورنمنٹ کالج جھنگ کا یہ منفرد اعزاز و امتیاز ہے کہ
یہاں ہر عہد میں ایک قابل رشک ادبی ماحول پروان چڑھتا رہا ہے ۔ عظیم روایات
کی حامل اس قدیم اور عظیم تاریخی مادرِ علمی کے پہلے پرنسپل رانا عبدالحمید
خان نے اس کالج میں کُل ہند ادبی محافل کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔ ان
علمی وادبی محافل میں پُورے بر صغیر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا و
طالبات کو شرکت کی دعوت دی جاتی ۔ان میں علی گڑھ ،دہلی ،کلکتہ ،ڈھاکہ ،
کھلنا ،چٹا گانگ ،مدراس ، جیسور،ممبئی،پشاور ،کراچی ،لاہور ،کوئٹہ ،جموں ،
بنارس،اور لس بیلا سے طلبا و طالبات باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ گورنمنٹ
کالج جھنگ کے طلبا و طالبات نے نہ صرف پُورے بر صغیر میں مطالعاتی دورے کیے
بل کہ نو آبادیاتی دور میں اس ادارے کے طلبا و طالبات کے ایک نمائندہ وفد
کو سرکاری خرچ پر ایک ماہ کے لیے بر طانیہ روانہ کیا گیا ۔ اس دورے میں
گورنمنٹ کالج جھنگ کے طلبا و طالبات اور اساتذہ نے آکسفورڈ اور کیمبرج کا
دورہ بھی کیا ۔میر تقی میر ؔ کے مزار کے نا پید ہونے اور اس عظیم شاعر کے
مرقد پر لکھنو ریلوے سٹیشن کی تعمیر کی نشان دہی سب سے پہلے ان مطالعاتی
دوروں میں کی گئی۔محمد شیر افضل جعفری نے ان یادگار ادبی محفلوں میں اپنا
کلام سنا کر اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا ۔ پروفیسررانا عبدالحمید خان
،ڈاکٹر سید نذیر احمد ،پروفیسر غلام رسول شوق ،پروفیسر حکیم محمد حسین
اورپروفیسر محمد حیات خان سیال نے ممتاز ادیبوں سے معتبر ربط کے ذریعے فروغ
علم و ادب کی اس درخشاں روایت کو پروان چڑھانے میں گراں قدر خدمات انجام
دیں۔محمد شیر افضل جعفری اس فقید المثال ادبی ماحول کے بنیاد گزارو ں میں
شامل تھے۔وہ جوہر قابل کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے اور نوجوانوں کے
ادبی ذوق کو صیقل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے ۔ہر نئے عیسوی سال کے
آغاز پر اس تاریخی مادر علمی میں کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات کا انعقاد
اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صور ت اختیار کر گیا ہے ۔ان تقریبات میں
ڈھاکہ، کراچی سے پشاور تک کے کالج اور جامعات کے طلبا و طالبات بڑے جوش و
خروش سے حصہ لیتے ہیں ۔مجموعی طور پر اول آنے والی ٹیم کو حضرت سلطان باہوؒ
گردشی نشان ظفر عطا کیا جاتا ہے ۔خالص چاندی اور جواہرات سے بنا ہو ا یہ
نشان ظفر دو لاکھ روپے سے زائد مالیت کا ہے ۔اگر کسی تعلیمی ادارے کے طالب
علم مسلسل تین برس یہ اعزاز جیت کر لے جانے میں کامیاب ہو جائیں ، تو یہ
بیش قیمت نشان ظفر اس تعلیمی ادارے کو مستقل طور پر مل جاتا ہے ۔قیام
پاکستان کے بعد سے ان تقریبات میں محمد شیر افضل جعفری کو ہر سال مہمان
خصوصی کے طور پر بلایا جاتا تھا۔تقریب کے اختتام پر ان سے جب کلام سنانے کی
فرمائش ہوتی تو پنڈال میں سے ’’دائی ۔۔۔دائی۔۔۔دائی۔۔۔‘‘ کی آوازیں آنے
لگتیں ۔’’دائی‘‘ ان کی مشہور نظم ہے جو انھوں نے چنیوٹ کی ایک خوبرو دائی
کے بارے میں لکھی تھی ۔سر راہ زمین پر بیٹھ کر بھٹی پر دانے بھون کر فروخت
کرنے والی اس حسین و جمیل دائی کی عزت نفس ،انا ،خود داری اور حسن پر حقیقی
ناز سے ہر شخص متاثر تھا ۔انھوں نے لکھا تھا :
چنیوٹ کی دائی کے دعوے ہیں خدائی کے
ان کی نظم دائی سراپا نگاری اور مشاہدے کا عمدہ نمونہ ہے ۔اس نظم کے چند
اشعار پیش خدمت ہیں :
سندر کومل نازک دائی جھلمل جھلمل کرتی آئی
پھاگن کی سرشار فضا میں لال پری نے لی انگڑائی
تڑ تڑ کر تڑنے لگے پھلے تاروں کی دنیا شرمائی
ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں منعقدہ کل پاکستان مشاعرہ میں محمد شیر
افضل جعفری مہمان خصوصی تھے ۔پرنسپل بہت سخت گیر اور کڑے نظم و ضبط کے باعث
بد نامی کی حد تک مشہور تھا ۔اُس نے کالج کے ایک سو پچھتر اساتذہ کو حکم
دیا کہ پنڈال کے گرد گھیر ڈال کر کھڑے ہو جائیں ا ور کسی بھی طالب علم کو
کسی صورت میں اپنی نشست سے ہر گز اُٹھنے نہ دیں۔حکم حاکم مرگ مفاجات اس
نادر شاہی حکم کی تعمیل کی گئی ۔محمد شیر افضل جعفری اس تمام صورت حال کو
دیکھ کر بہت دل گرفتہ دکھائی دیتے تھے ۔جب مشاعرہ ختم ہوا تو انھیں خطبہ ٔ
صدارت پڑھنے کی دعوت دی گئی ۔محمد شیر افضل جعفری مضطرب طلبا کی نفسیاتی
کیفیت کو سمجھتے تھے ۔انھوں نے مائیک پر آکر اپنے دبنگ لہجے میں کہا:
’’میں تمام اسیران پنڈال کی رہائی کا اعلان کرتا ہوں ‘‘
یہ کہہ کر وہ خاموشی سے سٹیج سے اترے اور گھر کے لیے روانہ ہو گئے ۔سارا
پنڈال فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا ۔تمام بچے اس عظیم ادیب کو خراج تحسین
پیش کر رہے تھے جس نے انھیں مسلسل چار گھنٹے کی عقوبت سے رہائی دلائی ۔اس
غیر نفسیاتی طرز عمل کو اپنانے والے پرنسپل کے ساتھ انھوں نے تمام رابطے
منقطع کر لیے ۔جلد ہی اس پرنسپل کا تبادلہ ہو گیا اور محمد شیر افضل جعفری
پھر سے ادبی نشستوں کی روح رواں بن گئے ۔اب ایسے شفیق اور ہمدرد انسان کہاں
؟
اپنی زندگی میں محمد شیر افضل جعفری نے مال و دولت دنیا کو بتان وہم و گماں
سمجھتے ہوئے اس سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔در کسریٰ پہ صدا کرنا ان کے مسلک کے
خلاف تھا ۔وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈروں میں جامد و ساکت
بتوں کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں ۔وہ یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ
آج کے دور کا لرزہ خیز اعصاب شکن ا لمیہ یہ ہے کہ معاشرہ بے حسی کا شکار ہو
گیا ہے ۔چلتے پھرتے ہوئے مردے انسانی وقار کے درپئے آزار ہیں ۔پتھروں
،چٹانوں اور جامد و ساکت مجسموں کے روبرو دکھی انسانیت کے مصائب و آلام
بیان کرنے والے تخلیق کار کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی روح قبض ہو رہی
ہے ۔ان کی زندگی میں ایک شان استغنا تھی ۔وہ یہ بات زور دے کر کہا کرتے تھے
کہ جو سکون دولت کو ٹھکرانے میں ہے وہ اس کے لیے سرگرداں ہونے میں کہاں
؟۔ہوس نے انسان کو جس انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے وہ اس پر
رنجیدہ تھے ۔ان کی شاعری میں فن کار کی انااور عزت نفس کا بیان قاری کو
اپنی گرفت میں لے لیتا ہے :
مائل نقرہ و طلا نہ ہوا فقر مرہون کیمیا نہ ہوا
تخت طاؤس کو یہ حسرت ہے کیوں قلندر کا بوریا نہ ہوا
ہر قلندر کے در عظمت پر تاج محتاج کرم رہتا ہے
میں گدائے در قلندر ہوں ناز بردار کج کلاہ نہیں
وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان کے ساتھ قلبی وابستگی کے جذبات سے سرشار یہ
عظیم ادیب اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اس کے افکار کی ضیاپاشیوں کا
سلسلہ تاابد جاری رہے گا ۔مایوس دلوں کو ایک ولولۂ تاز دینے والے اس جری
تخلیق کار کا نام جریدہ ٔ عالم پر ہمیشہ ثبت رہے گا ۔ان کی شاعری پوری دنیا
کے انسانون کے لیے حوصلے او رمسرت کی نقیب ہے ۔وہ خود کو جھنگ کا حیدری
ملنگ کہلانا پسند کرتے تھے ۔ ان کے لسانی تجربات کی اہمیت مسلمہ ہے اس کے
باوجود انھوں نے خالص اردو میں بھی زباں و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کو
ثابت کیا ہے ۔ اپنے مقبول اسلوب کے باوجود انھوں نے کبھی زبان دانی کا
دعویٰ نہ کیا یہ ان کے عجز اور انکسار کی دلیل ہے ۔ وہ جھنگ کو شہر سدا رنگ
کا نام دیتے تھے اور اس علاقے کے باشندوں سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی
کا بر ملا اظہار کرتے تھے ۔ اپنی ایک نظم ’’بلوچ جھنگ کے ‘‘میں انھوں نے اس
علاقے کے بلوچ قبیلے کے نو جوانوں کی جرأت و ہمت کو زبردست خراج تحسین پیش
کیا ہے ۔ اردو زبان و ادب پران کی شاعری اور شخصیت کے نقوش انمٹ ہیں ۔ اپنی
تخلیقی فعالیت کے بارے میں انھوں نے کہا تھا :
جھنگ کے حیدری ملنگ میں ہے
خاکساری بھی کجکلاہی بھی
تخلیقِ فن کے لمحات میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی صلاحیت سے متمتع
ایک جری ،فعال ،مستعد اور زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے محمد شیر افضل جعفری
نے اپنے منفرد اسلوب اور نئے لسانی تجربات سے اردو زبان کے دامن میں جو گل
ہائے صدر نگ سمو دئیے ان کا کرشمہ دامن ِ دِل کھینچتا ہے ۔ان کے اسلوب میں
اکثر تلمیحات کا تعلق سر زمین پنجاب سے ہے ۔اس خطے کی رومانی داستانوں سے
انھیں گہری دلچسپی تھی۔ان کی شاعری ان کی طویل عمر کی ریاضت کی مظہر ہے :
نطق پلکوں پہ شرر ہو تو غزل ہوتی ہے
آستیں آگ میں تر ہو تو غزل ہوتی ہے
ہجر میں جھوم کے وجدان پہ آتا ہے نکھار
رات سُولی پہ بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
کوئی دریا میں اگر کچے گھڑے پر تیرے
ساتھ ساتھ اُس کے بھنور ہو تو غزل ہوتی ہے
ہاتھ لگتے ہیں فلک ہی سے مضامیں افضل ؔ
دِل میں جبریل کا پر ہو تو غزل ہوتی ہے
انسانی ہمدردی ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی ۔انسان شناسی میں وہ
کمال رکھتے تھے ۔انھوں نے چالیس برس درس و تدریس میں گزارے ۔نفسیاتی مسائل
پر انھیں عبور حاصل تھا ۔انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے ان کی خدمات
کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ان کے اسلوب اور شخصیت پر انسانی ہمدردی
کا واضح پرتو دکھائی دیتا ہے ۔وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے آرزو
مندتھے اورہر شخص کے بہی خواہ اور غم خوارتھے ۔ان کا کہنا تھا کہ شادی و غم
جہاں میں توام ہے ،اسی لیے وہ سب کے دکھ درد میں بلا امتیاز شریک ہوتے اور
ان کے دل شکستہ کی ڈھارس بندھاتے ۔دردمندوں ،ضعیفوں اور مفلوک الحال طبقے
سے انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا اس پر آخری وقت تک قائم رہے ۔ ارضِ
پاکستان بالخصوص پنجاب کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے وہ شیدائی تھے ۔اپنے
لباس ،غذا اور رہن سہن میں وہ مشرقی تہذیب کے نمائندہ تھے ۔اپنی شاعری اور
تدریس کے ذریعے انھوں نے تہذیبی میراث کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے آنے
والی نسلوں کو منتقل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔وہ اس بات کی جانب توجہ
دلاتے تھے کہ اقوام اور ملل تو سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آکر نیست و
نابود ہو سکتی ہیں مگر تہذیب پھر بھی باقی رہتی ہے ۔اگر تہذیبی میراث کے
تحفظ اور اسے نسل نو کو منتقلی میں مجرمانہ تساہل کیا جائے تو معاشرہ پتھر
کے زمانے میں چلا جائے گا ۔
اگرچہ ان کی آمدنی کم تھی اور آخری عمر میں محض پنشن کی قلیل رقم پر گزر
اوقات ہوتی تھی اس کے باوجود ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ آئی ۔انھوں
نے ادیبوں کی فلاح کے کسی ادارے سے کبھی مالی امداد کی درخواست نہ کی ۔اپنی
عزت نفس اور خود داری کا بھرم قائم رکھنا ان کا ہمیشہ مطمح نظر رہا ۔ان کی
خوابیدہ صلاحیتوں اور فہم و ادراک کا ایک عالم معترف تھا ۔ان سے محبت کرنے
والے کشاں کشاں ان کے پاس آتے اور ان کی عالمانہ گفتگو سے فیض یاب ہوتے ۔جو
بھی ان سے ملنے آتا وہ دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ۔ان کا مہمان خانہ ہر وقت
ملاقاتیوں سے بھرا رہتا ۔چائے کا مسلسل دور چلتا رہتا ۔اس کے ساتھ ساتھ
عرض ہنر اور ادبی گفتگو بھی جاری رہتی ۔اس قسم کی ادبی نشستوں کا انعقاد ان
کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ان محفلوں میں شرکت کے لیے صلائے عام تھی۔یاران
نکتہ داں نے ان سے بھر پور استفادہ کیا اور اپنے فکر و فن کو نکھارا۔محمد
شیر افضل جعفری کی بصیرت افروز گفتگو ان کے قلبی اور روحانی وجدان کی مظہر
ہوتی تھی ۔ان کی باتیں سن کر سامعین ایک عالم نو کا چشم تصور سے مشاہدہ کر
لیتے ۔ان سے مل کر زندگی سے حقیقی محبت کے جذبات پروان چڑھتے۔ملاقاتی یو ں
محسوس کرتاکہ وہ اپنی گفتگو سے طائر سدرہ تک شکار کرنے کی صلاحیت کی کیفیت
پیدا کر دیتے ہیں اور سامعین کا مرحلہ ء شوق ہے کہ طے ہی نہیں ہو پاتا ۔
کتابوں کی اشاعت کو وہ ادبی خدمت قرار دیتے تھے ۔وہ اسے منفعت بخش کاروبار
نہیں سمجھتے تھے ۔جب وہ اپنا شعری مجموعہ ’’موج موج کوثر ‘‘شائع کرنے کی
فکر میں تھے تو خیر الدین انصاری نے مشورہ دیا ’’یا تو اس کتاب کا مسودہ
کسی ناشر کو فروخت کر دیا جائے یا خود کتاب چھاپ کر اس کو فروخت کیا جائے
۔‘‘یہ سن کر محمد شیر افضل جعفری کا رنگ متغیر ہو گیا وہ غم زدہ لہجے میں
بولے ؛’’اپنے اشعار کو میں اپنی معنوی اولاد خیال کرتا ہوں ۔ان کی فروخت کے
بارے میں تو سوچنا ہی میرے لیے اذیت اور عقوبت کی بات ہے ۔رہ گیا کتاب چھاپ
کر اسے فروخت کرنے کا معاملہ تو یہ بات بھی مجھے گوارا نہیں کیوں کہ کتاب
کو فروخت کرنے کے لیے اپنی خود داری اور عزت نفس کو نیلام کرنا پڑتا ہے ۔‘‘
اس کے بعد موج موج کوثر چھپی اور احباب اور ادیبوں میں اعزازی تقسیم ہو گئی
۔اپنا سب کچھ علم و ادب کے لیے وقف کر دینے والے اس عظیم تخلیق کار کی
زندگی اس قسم کی درخشاں روایات کی امین رہی ۔
دنیا دائم آباد رہے گی ۔ادبی نشستوں اور مشاعروں کے انعقا دکا سلسلہ بھی
جاری رہے گا لیکن اپنے فکری اور فنی تجربات اور منفرد اسلوب کے ذریعے جہان
تازہ تک رسائی کے نئے امکانات کی جستجو کرنے والاایسا زیرک تخلیق کار بڑی
مشکل سے پیدا ہوتا ہے ۔ان کے فنی تجربے، تخلیقی فعالیت اور ادبی محافل کے
انعقاد کا شوق جہاں ان کے تخلیقی وجود کا اثبات کرتے تھے وہیں ان کی بدولت
نئی نسل کے لیے ایک لائحہ ء عمل بھی سامنے آتا تھا ۔انسانی آزادی کا اتنا
پر جوش حامی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ان کو اس بات کا شدید رنج تھا جدید
دور کا معاشرہ اخلاقی اور روحانی اعتبارسے رو بہ تنزل ہے ۔لوگ حرف صداقت
لکھنے سے گریزاں ہیں ۔مسلسل شکست دل سے وہ بے حسی ہے کہ کسی کے بچھڑ جانے
کا مطلق احساس نہیں ہوتا ۔جب احساس زیاں عنقا ہونے لگے تو یہ بات ذہن نشین
کر لینی چاہیے کہ افراد معاشرہ اب درندگی اور سفاکی کی سمت گامزن ہیں ۔ا س
اعصاب شکن ماحول میں بھی محمد شیر افضل جعفری نے سات عشروں تک طوفان حوادث
میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ۔ایسے عظیم انسان فنا کی دستبرد
سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔انسانی زندگی کو حقیقی معنویت اور مقصدیت سے متمتع
کرنے والے اس نابغۂ روزگار ادیب کے بار احسان سے ہر محب وطن پاکستانی کی
گردن خم رہے گی۔انھوں نے خود کہا تھا کہ
میری زندگی تو خاموشی سے گزر گئی مگر میرے بعد مجھے لوگ ضرور یاد کریں گے ۔
میری موت تے ہوسیں جنج ورگی سُنجی زندگی چُپ چُپیتی اے
(میری موت کے بعد میری خدمات کو دیکھ لوگ مجھے پہچانیں گے۔میری زندگی تو
خاموشی سے گزر گئی لیکن میری وفات کے بعد میر ی تخلیقی کامرانیوں پر لوگ
جشن منائیں گے )
اردو شاعری کا دبستان جھنگ جس نے افق ادب کو گزشتہ آٹھ عشروں سے منور کر
رکھا تھا اب اپنی تمام تر رعنائیوں اور چکا چوند سے محروم ہو چکا ہے ۔چاند
چہرے شب فرقت پر وارے جا چکے ہیں اورتمام آفتاب و ماہتاب قبروں میں اتارے
جا چکے ہیں ۔ضلع جھنگ میں ادبی محافل کی وہ گھن گرج جسے راجہ حسن اختر جلیل
اور قدرت اﷲ شہاب جیسے ا دب شناس اور ذوقِ سلیم سے متمتع ضلعی انتظامیہ کے
مستعد افسروں کی اعانت حاصل رہی اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے ۔اس شہر سدا رنگ
سے وابستہ ادبی نشستوں کی یادیں اور ممتاز ادیبوں کے دبستان سے متعلق تمام
حقیقتیں اب خیال و خواب بن چکی ہیں ۔اس شہر سدا رنگ کے در و دیوار حسرت و
یاس کی تصویر بن گئے ہیں۔محمد شیر افضل جعفری اور ان کے ممتاز معاصرین کی
رحلت کے بعد گلشن ادب میں کھلنے والے گل ہائے رنگ رنگ کی صورت ہی بدل گئی
ہے اور رعنائی خیال عنقا ہے ۔ محمد شیر افضل جعفری کی وفات سے اردو زبان
ایک بے لوث خادم سے محروم ہو گئی ہے۔ ان کے مخلص احباب اور مداحوں کا کہنا
ہے کہ محمد شیر افضل جعفری کی رحلت کے بعد دِل کی ویرانی کا کیا مذکو ر
ہے۔وہ کچھ اِس ادا سے بچھڑے کہ ویران ادبی محفلوں میں آس اور حوصلے کے چراغ
ماند پڑ گئے عزم کے قافلے تھم سے گئے ۔ ہجوم یاس کی جان لیوا تاریکیوں اور
مہیب سناٹوں میں لوح ِ دِل پر ثبت پر ان کی یادوں کے ابد آ شنا نقوش ضو فشا
ں ہو کر طلوعِ صبح ِ بہاراں کی آ س بندھاتے ہیں ۔ جذبات و احساسات کی حزیں
کو نپلیں تقدیر کے ستم سہنے کے بعد مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر
دیتی ہیں اور مجید امجد کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے:
سلام اُن پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تُو چاہے
|
|