یادگارِ حالی: حالی کی ایک مثالی سوانح کا نقطہء آغاز

حالی کی وفات کے سو برس پورے ہوئے ۔ملک کے مختلف گوشوں میں حالی اور شبلی کی وفات کا صد سالہ جشن اہتمام سے منانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ ایسے میں صالحہ عابد حسین کی تحریر ’’یادگارِ حالی ‘‘ کے مندرجات پر گفتگو ایک کار آمد ادبی طَور مانا جا سکتا ہے ۔ ۱۹۵۰ء میں پہلی بار’’یادگارِ حالی ‘‘ شایع ہوئی ، اس وقت تک حالی کی سوانح کے بارے میں کوئی دوسری مستند کتاب سامنے نہیں آئی تھی ۔آج ساڑھے چھ دہائیوں کے بعد اور حالی کی وفات کے سو برس گزرنے کے باوجود شایداس سے بہتر حالی کی کسی نے سوانح نہ لکھی ۔اپنی زبان کے سب سے بڑے سوانح نگار کے ساتھ یہ سلوک کہ اس کی سوانح لکھنے کی مجبوری اس کے اہلِ خاندان تک سمٹ آئے ،اسے قوم کی طرف سے ایک ظالمانہ جبر ہی کہا جائے گا ۔غالب اور سر سیّد کو حالی ملے، شبلی کو سیّد سلیمان ندوی مل گئے ،دوسروں نے بھی شبلی کی سوانح پر توجّہ کی لیکن حالی کی طرف اس باب میں ہمارے ادبی سماج نے خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی ۔اس اعتبار سے اس کتاب کے دیباچے میں مصنّفہ کی بار بار یہ توقّع کہ اس کام کو کسی بڑے اور مستند ادیب کو کرنا چاہیے تھا ،وہ خواب آج بھی شرمندۂ تعبیر ہے۔
حالی کی شخصیت کو ہم ان کی شاعری کی طرح سادہ سمجھتے رہے ہیں ۔انھوں نے غالب اور سر سیّد کی سوانح لکھنے کے دوران اپنی زندگی کی جو جھلک پیش کی ،ا س میں بھی ایک سادہ سی زندگی کے مظاہر اُبھرتے ہیں ۔اسے بے ریا اور غیر آرایشی تو کہہ سکتے ہیں لیکن بے نمک اور غیر پُرکار سمجھنا نامناسب ہوگا۔حالی کی شخصیت سادہ توہے لیکن اس کی تعمیر وتشکیل میں پرت در پرت کی کیفیت ہے۔ ان کی تصنیفات اس قدر مختلف النوع ہیں جن کی رنگا رنگی اور بو قلمونی کے مقابلے میں اردو کا کوئی دوسرا مصنّف شاید ہی ہم سَری کا دعوا کر سکے ۔غالب اور سر سیّد کی شخصیا ت بہت پیچ دار ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ ان کے سوانح نگار کی شخصیت ان کے بر عکس اس قدر سادہ ہے کہ اس آئینے کے سامنے آتے ہی غالب اور سر سیّد دونوں ہی اسی طرح سادگی اور پُرکاری کا پیکر نظر آتے ہیں اور اُن کی زندگی کے پوشیدہ اوراق کُھلنے لگتے ہیں۔
صالحہ عابد حسین ’یادگارِ حالی ‘جیسے بڑے کام کی اہل ہیں یا نہیں، اس کی بحث طویل تر اس لیے نہیں ہوسکتی کیوں کہ وہ خود بھی بار بار اس خواہش کا اظہار کرتی ہیں کہ حالی کی سوانح کسی مستند اور بزرگ اہلِ قلم کو لکھنا چاہیے تھی ۔ کم از کم کسی ایسے بڑے لکھنے والے کو اس کام میں ضرور شامل ہونا چاہیے تھا جس کا تعلّق براہِ راست حالی کے خاندان سے نہ ہو۔اس طرح حالی کی سوانح معروضی نقطۂ نظر اور بے لاگ طریقے سے مکمّل دکھائی دیتی لیکن یہ مفروضہ ہی رہ گیا، اور ہمارا انداز یہ رہا: بھاری پتھّر تھا ،چوم کر چھوڑا ۔ہمیں یہ یاد ہونا چاہیے کہ صالحہ عابد حسین نے اس سوانح کو تقریباً چونتیس پینتیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا ۔ انھوں نے خود اقرار کیا ہے کہ دو ڈھائی برس کی مسلسل محنت کے بعدیہ کتاب مکمّل ہوئی ۔ جب صالحہ نے یہ کتاب لکھی، اس وقت وہ ہماری زبان کی کوئی معتبر لکھنے والی نہیں تھیں۔ ابھی ابھی ان کی تصنیفات و تالیفات کی شریانیں پھوٹ رہی تھیں ۔اس اعتبار سے بھی یہ بات زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک نو عمر مصنّفہ کو اتنی بڑی ذمّہ داری کیا صرف اس لیے اٹھا لینی چاہیے تھی کیوں کہ اس موضوع پر معتبر تصنیف کی ضرورت تھی اور اُس وقت تک ایسی کوئی مکمّل تحریرسامنے نہیں آسکی تھی ؟
اصل معاملہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سوانحِ حالی کی تحریر و تسوید صالحہ کے حصّے میں دو کھُلے اسباب سے آئی ۔ خاندانِ حالی کا چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے بعض بنیادی مآخذات تک پہنچنے میں انھیں جو آسانی تھی ، وہ شاید ہی کسی دوسرے فرد کو ہو سکتی تھی ۔صالحہ نے اپنے خاندانی مآخذات کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا اور ان کا ضرورت کے مطابق اعلان بھی کیا ۔سوانحِ حالی کے مرتّب کی حیثیت سے ان کا دوسرا بنیادی استحقاق یہ ہے کہ وہ حالی کے انداز میں ہی غور و فکر کرنے والی رہیں ۔سادہ زبان میں اپنے اسلاف کے کارناموں کو بے کم و کاست مرتّب کر دیا جائے ،اسی نقطہء نظر کے ساتھ وہ اس سوانح میں آگے بڑھتی ہیں ۔ صرف ایک معاملے میں مجھے سوالیہ نشان ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ صالحہ عابد حسین محقّق نہیں تھیں حالاں کہ اس کتاب کی تصنیف کے مرحلے میں انھوں نے تحقیقی اصولوں پر نظر رکھی اور سوانح کو گپ ہانکنے کا ذریعہ بننے سے تقریباً صد فیصد بچا لیا۔ بعد میں انھوں نے انیس کے سلسلے سے بھی تفصیل سے کام کیے اوراپنی زندگی کے بارے میں تو ایک ایک لفظ جمع کر دیا لیکن ہر جگہ تحقیقی آنچ کی ایک کسر رہ جاتی ہے جس کا وہ سادہ حقیقت نگاری سے تدارک کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس کے بر عکس حالی مآخذات کی خرد بین جانچ، ہم عصر دستاویزات سے اس کا تطابق اور ایک بہترین وکیل کے انداز میں جرح کرتے ہوئے سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرتے ہیں ۔ حالی اور صالحہ عابد حسین میں فرق تو ہونا ہی چاہیے ۔ یہ فرق اور مرتبے کا اونچ نیچ غالب اور سر سیّد کے مقابلے میں بھی حالی کے ساتھ رہا لیکن کون ہے جو یہ کہہ دے کہ غالب اور سر سیّد کے معیار و مرتبے سے رتّی برابر نیچے رہ کر حالی نے اپنی عظیم سوانحی کتابیں مکمّل کیں ۔صالحہ عابد حسین کا ذہن اگر تحقیقی ہوتا تو اس سوانح میں کئی اور گوشوں کی شمولیت ممکن تھی جس سے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوتا۔
صالحہ عابد حسین کی نثر نگاری کا حالی سے موازنہ مقصود نہیں کیوں کہ وہاں مرتبے کا فرق واضح ہے لیکن صالحہ عابد حسین بہت حد تک نَپی تُلی اور رطب ویابس سے پاک زبان لکھتی ہیں۔ غیر افسانوی ادب کے لیے وہ موزوں زبان معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن جب حالی پر کتاب لکھی جائے گی تو لازماًحالی کی نثر کی یاد آئے گی۔حالی کی نثر سے روشنی لیے بغیر حالی پر تصنیف پیش کرنامشکل ہے۔ ہماری زبان میں نثرِ حالی نے جومستقل رنگ قائم کیا ،اگر صالحہ عابد حسین نے اس کے کچھ روشن قمقموں کو اپنے لیے مشعلِ راہ کے طور پر نہ محفوظ کر لیے ہوتے تو ہم آج شایداُن کی پذیرائی نہیں کررہے ہوتے۔
’یادگارِ حالی ‘کا ظاہری ڈھانچا بڑا سادہ ہے ۔ڈرامہ’ انارکلی ‘ میں’ عشق‘،’ رقص‘ اور’ موت‘ جیسے ایک ایک لفظ کے عنوانات سے امتیاز علی تاج نے ابواب بندی کر کے ایک سحر کارانہ اصول کا نفاذ کیا تھا ؛ صالحہ عابد حسین نے اسی طرح صرف تین عنوانات عطفی ترکیبوں سے قائم کیے ۔ ’نشو ونما‘،’آب و رنگ‘ اور ’برگ وبار‘۔ ۷۷سال کی زندگی اور تھوڑے سے لفظوں میں سمٹے یہ عنوانات۔ حالی کی زندگی میں انھیں بڑے بڑوں سے سابقہ پڑا۔غالب، شیفتہ، سرسیّد ،محمّد حسین آزاد ،شبلی ،ذکاء اﷲ لیکن صالحہ نے اتنے سادہ لفظوں میں ابواب بندی کی ہے جس سے ہمیں یقین آجاتا ہے کہ انھیں اپنی حدود کا اندازہ تھا اور’ حیاتِ جاوید‘ کی طرح سے سرسیّد کی زندگی کے ایک ایک پل پر نگاہ رکھ کر فہرست کو ایک کتابچہ بنا دینے کا انھیں کام نہیں کرنا تھا ۔ کتاب کا نام رکھتے ہوئے ہی شاید انھوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کے لیے مثالی فارمٹ ’یادگارِ غالب‘ کا ہے ۔ یعنی صراحت کے بجاے اجمال کو پیشِ نظر رکھا جائے گا ۔لیکن وہاں آنکھوں دیکھی باتیں بھی بہت تھیں اور یہاں ساری باتیں سُنی اور لکھی ہوئی تھیں؛اس اعتبار سے فرق تو آنا ہی چاہیے ۔لیکن جب ان تین عنوانات کی بلاغت پر ہماری نگاہ جاتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ صالحہ نے کس طرح حیاتِ حالی کے ایسے عنوانات متعیّن کیے جو واقعتاحالی ہی سے مخصوص ہو سکتے تھے ۔ محمد حسن عسکری نے حالی کو ’بھلا مانس غزل گو‘ کہا تھا۔ ان کی لگاتار شایع ہو نے والی اس تصویر کا بھی ذکر کیا جس میں ان کے گلے میں مستقل طور پر مفلر بندھا ہوتا تھا ۔ حالی کی شخصیت میں اضطرار نہیں تھا۔ان کے مزاج کا انضباط اورٹھہراو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اعلانیہ طور پر نہ وہ راگ ورنگ کے قائل ہیں اور نہ اپنے کارناموں کی بڑائی پہ مُصر۔ حق تو یہ ہے کہ وہ پوری عمر دوسروں کو بڑا کہتے رہے اور ان کی بڑائی کے اسباب اہتمام کے ساتھ پیش کرتے رہے ۔ سر سیّد کی وفات کے بعد بھی انھوں نے جو مضامین لکھے، ان کے مطالعے کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عہدِ سر سیّد کے طے شدہ باقی ماندہ کاموں کو وہ انجام دے رہے ہیں ۔غالب کی وفات پر تو وہ پہلے ہی کہہ چکے تھے :
شعر میں ناتمام ہے حالی غزل اس کی بنائے گا اب کون
ایسی سادگی کا اعلان کرنے والی شخصیت کو اس قدر سادہ عنوان کے ساتھ پیش کر دینا ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس کی داد حالی کے اصل قدر داں ضرور دیں گے۔
صالحہ عابد حسین نے’یادگارِ حالی ‘ لکھتے ہوئے اختصار کا جو پیمانہ وضع کیا، اس کا عملی فائدہ یہ ہوا کہ حیاتِ حالی میں ان کے عہد ، معاصرین اور ادبی کارناموں کی بھری پُری بزم سجانے کی لازمیت سے و ہ بچ گئیں ۔ اکثر سوانح اور خودنوشتیں، لکھنے والوں کی اس بے احتیاطی سے لفظ و بیان کا لا مختتم جنگل بن جاتی ہیں اور اپنے زمانے کے مشہور اصحابِ قلم ، سیاست اور سماج کے ماہرین ،وقت کے رُخ کو موڑ دینے والے اصحاب کی زندگیوں کاچٹخارے دار مرقّع بن جانے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ یہ سب محقّقّین اور قارئین کے لیے بیش بہا ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس شخص کے حالات لکھے جا رہے ہیں، اس کی زندگی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی ہے ۔ دنیا جہان کا حال تو ہے لیکن جس کے بارے میں کتاب مکمّل ہو رہی ہے، وہی گم شدہ ہے ۔صالحہ عابد حسین نے نہ صرف حالی کی شخصیت کو سمجھا بلکہ سوانحی تحریروں کے اس عمومی عیب پر بھی ان کی خاص نگاہ تھی ۔اسی لیے اس کتاب میں سر سیّد پہ الگ سے باب قائم کرنے کی انھیں ضرورت نہیں پڑی اور نہ ہی غالب پر ۔کیمرے میں ان دونوں کی شبیہیں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں ۔ ارتکاز بہر حال حالی پر ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کتاب کی ضخامت محدود ہے اور قصّہء حالی کو بے وجہ پھیلانے سے گریز کیا گیا ہے۔
صالحہ عابد حسین نے ایک اور احتیاط قائم کی۔ اپنے خاندان کے حالات بیان کرتے ہوئے انھوں نے شاید ہی ایسا ایک جملہ لکھا ہو جس میں اپنے خاندان کی کوئی بات رنگ وروغن کے ساتھ سامنے آتی ہو۔ اختصار اتنا ہے کہ یہ نوبت ہی نہ آنے پائے کہ حقیقت سے بڑھ کر کوئی بات کی جائے۔ صالحہ عابد حسین کا بہ حیثیتِ سوانح نگار یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے اپنے خاندانی حالات تو پیش کیے لیکن اس کے مرکز میں وہ حالی ہیں جو غالب کا شاگرد، سر سیّد کا رفیق اور محمد حسین آزاد کا ہم جلیس ہے یعنی یہ صالحہ کے حالی نہیں، ہم سب کے حالی ہیں۔ یہیں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ سرسیّد کی ترغیب سے ان کے رفقا نے جس طرح اپنے آپ کو قومی کاموں میں ہمہ تن مصروف رکھا تھا، حالی کی سوانح نگاری کے دوران صالحہ عابد حسین نے اِسی سُنہرے اصول کو فصیلِ وقت کا عنوان بنایا۔ ایسے میں حالی کے خاندان اور آباواجداد کے سلسلے سے طول بیانی یا ڈینگیں ہانکنے کی خواہش ان میں کیوں کر پیدا ہوتی؟ ’یادگارِ حالی‘ کا پیشِ لفظ ابوالکلام آزاد نے لکھا جنھیں اپنی خود نوشت لکھنے کی خواہش ہوئی تو اسلاف کے سلسلے سے ہی پوری ایک جلد رقم کرگئے۔ صالحہ عابد حسین نے ابوالکلام آزاد سے جو بات نہیں سیکھنی چاہیے تھی، وہ نہ سیکھی اور اپنی سوانح کو مثالی اصولوں کے تابع رکھا۔
’یادگار ِ حالی‘ سوانحی کتابوں میں مقبولیت حاصل کر نے میں کامیاب رہی ہے۔دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میں مصنّفہ نے لکھا ہے :’’پانچ سال کے عرصے میں کسی ایسی اردو کتاب کا جو نہ گھٹیا قسم کا ناول ہے، نہ کسی مشہور ادیب کا شہ پارہ؛ پورا ایڈیشن نکل جانا بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے ‘‘۔پانچویں اشاعت کے موقعے سے ۵ مارچ ۱۹۸۶ء کو نیا دیباچہ لکھتے ہوئے مصنّفہ نے اس کتاب کے پڑھنے والوں کا ا س انداز میں شکریہ ادا کیا ہے : ’’میں خوش ہوں کہ اس کتاب کے بعد ہندستان اور پا کستان کے کئی ادیبو ں ،تحقیق کرنے والوں اور مضامین لکھنے والوں کے دل میں حالی کے بارے میں سوچنے ،اُس پر لکھنے ،اسے سمجھنے کا شوق پیدا ہوا اور میں سب سے زیادہ شکر گزار ہوں اپنے اُن نوجوان پڑھنے والوں کی جنھوں نے ا س کتاب کو پڑھا اور غا لباً کچھ نہ کچھ حاصل کیا ‘‘۔۱۹۸۶؁ءکے بعد اس کتاب کی مزید اشاعتیں بھی سامنے آئیں ۔انجمن ترقّیِ اردو، ہند، دہلی کی جانب سے پانچویں ،چھٹی،ساتویں اور ۲۰۰۱ء میں آٹھویں اشاعت کی تفصیل یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ کتاب بار بار پڑھی جاتی رہی ۔ممکن ہے، ۲۰۰۱ء ؁ کے بعد بھی اس کی نئی اشاعت سامنے آئی ہو ۔پاکستان اور دوسرے اداروں سے اس کتاب کے جو ایڈیشن نکلے ہوں گے ، وہ الگ ہیں ۔کسی بھی کتاب کا پچاس ساٹھ برس میں اس طرح بار بار پڑھا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ لکھنے والے نے جس مقصد سے یہ کتاب لکھی، غالباً پڑھنے والوں نے سچ مچ اسے آنکھو ں سے لگایا ۔
حالی کی حیات کے بہت سارے گم شدہ اور نا معلوم پہلو اس کتاب میں جمع ہو گئے ہیں جن کے مطالعے سے حالی کی قدروقیمت اور ان سے محبّت میں اضافہ ہوتا ہے ۔صالحہ عابد حسین نے واقعات بیان کرنے میں حالی کی عام انسانی شخصیت کو خاص طور پر اہمیت عطا کی ہے۔ یہاں حالی کی پھیلی ہوئی زندگی کے عمومی رنگ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے یہ بات اُبھر کر سامنے آسکے کہ حالی نے کس انداز سے اپنی علمی زندگی کی نشوونما کی۔ صالحہ عابد حسین کی خوبی یہ ہے کہ شخصیت کے تشکیلی مراحل پر نظر رکھتے ہوئے معمولی اور عمومی معاملات کو بھی انھوں نے نگاہ میں رکھا او ر اُس کے آئینے میں حالی کی زندگی کے ارتقائی مراحل واضح کیے جن میں سے چند اہم واقعات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے :
(الف) اٹّھارہ سال کی عمر میں حالی نے عربی میں ایک کتاب لکھی ۔یہ ان کی پہلی تصنیف تھی۔ اس کتاب میں حالی نے مولوی صدیق حسن خاں بہادر جو ایک وہابی مولوی تھے، ان کی تائید میں منطقی مسئلہ قائم کیا تھا۔حالی کے اُس وقت کے استاد جو حنفی مسلک کے عالِم تھے ، انھوں نے اس کتاب کو دیکھ کر ناراضگی کا اظہار کیا اور کتاب کے اوراق کو چاک کرکے ضائع کر دیا ۔
(ب) حالی مذہب سے تو کبھی بے گانہ نہیں تھے لیکن ابتدائی زمانے میں اس کا رنگ کافی گاڑھا تھا جو بعدمیں سر سیّد کے اثر سے روشن خیالی میں تبدیل ہوا ۔اُسی زمانے میں شیفتہ کے ساتھ غالب کے یہاں حالی کاآنا جانا شروع ہوا۔ غالب کی زندگی کا کچھ اپنا ڈھب تھا۔غالب کی نمازوں سے غفلت اور شراب و کباب سے رغبت ایک مولوی صفت حالی کو کیوں کر پسند آسکتی تھی؟ حالی نے غالب کو ایک تفصیلی خط لکھ مارا جس میں انھیں عاقبت کی فکر کرنے اور نمازِ پنج گانہ کی طرف رجوع ہونے کی وکالت کی گئی تھی۔ خط ملنے کے بعد غالب کو تکلیف پہنچی اور غالب نے شعر میں شکوہ کیا۔ حالی نے بھی شعر میں معذرت کی لیکن غالب نے شیفتہ کو دوسرا جوابی قطعہ بھیجا ۔حالی نے پھر معذرت میں چند فارسی اشعار ارسال کیے۔ اس کے بعدجاکر یہ بحثا بحثی ختم ہوئی۔
(ج) حالی ہریانہ کے حصار میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازم تھے۔ اسی زمانے میں غدر کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے اس مصیبت کی گھڑی میں اپنے اہلِ خاندان تک پہنچ جانا ضروری سمجھا۔ سخت مشکل حالات میں پانی پت کے لیے روانگی اختیار کی۔ وہ ایک گھوڑی پر سفر کررہے تھے لیکن ڈاکوؤں نے راستے میں مال و اسباب کے ساتھ اس گھوڑی کو بھی لوٹ لیا۔ اس کے بعد وہ پیدل سفر کرکے کسی طرح پانی پت پہنچے۔ راستے میں بے انتہا صعوبتیں اٹھائیں جن کا اُن کی صحت پر ناموافق اثر ہوا۔ ان امراض کے اثرات ان پر زندگی بھر رہے۔
(د) بزرگوں کے دباو میں حالی کی محض سترہ برس کی عمر میں شادی ہوگئی۔ حالی کی تعلیم ادھوری تھی اورشادی کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوگئی لیکن ان کی دلی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں۔ ان کی اہلیہ صاحبِ ثروت خاندان سے تھیں اور میکے گئی ہوئی تھیں۔ حالی نے چپ چوری دلّی بھاگنے کا ارادہ کیا اور کسی کو بتائے بغیر پیدل دلّی کی طرف نکل پڑے۔ راستے کی مصیبت کون کہے اور واقعتا وہ کتنی مشقّتوں میں مبتلا ہوئے ہوں گے؛ اس کا محض اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ دلّی میں حسین بخش کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ بہت بار بھوکے سونا پڑا اور تکیے کی جگہ سر کے نیچے اینٹ رکھنی پڑی۔
(ہ) حالی کی اہلیہ شیعہ تھیں اور وہ خود سُنّی عقیدے سے تعلّق رکھتے تھے۔ حالی اپنے صاحب زادے اور سالے کے ساتھ یکم محرّم کو تانگے میں بیٹھ کر کسی جگہ گئے ۔ سوِ اتّفاق کہ تانگا اُلٹ گیا۔ واپسی پر حالی کی اہلیہ نے اس طرح سب کو بُرا بھلا سنایا:’نبی کے نواسے پر تو قیامت کا وقت پڑ رہا ہے، اُن کے بچّے بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہیں اور تم سواریوں میں بیٹھے سیر کر رہے ہو۔ اچھّا ہوا ،تانگا اُلٹ گیا۔‘‘ حالی کے صاحب زادے اور اُن کے سالے کو محترمہ کا یہ انداز اور ایسی سخت باتیں پسند نہیں آئیں لیکن حالی نے بجاے ناراض ہونے کے، اپنی بیوی کو ہی حق پر مانا اور یہ قبول کیا کہ آج کے دن سواری پر بیٹھ کرہمیں نہیں نکلنا چاہیے تھا۔
(و) سر سیّد کی کوششوں سے حالی کو ریاستِ حیدر آباد سے وظیفہ ملا تا کہ وہ یک سوئی کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام کرسکیں۔ حالی سے جب وظیفہ کی رقم کے بارے میں سر سیّد نے دریافت کیا تو قناعت شعار حالی نے پچھتّر روپے کی وہی رقم بتائی جو انھیں عربک اسکول میں مدرّسی کے سلسلے سے ملتی تھی۔ وظیفہ چوں کہ تصنیف و تالیف کے لیے دیا گیا تھا، اس لیے حالی نے اسکول کی ملازمت سے استعفا دے دیا اور پانی پت میں بیٹھ کر باقی ماندہ تصنیفی کاموں میں اس وظیفے کے سہارے منہمک ہورہے۔
حیاتِ حالی کی ان کڑیوں کو جوڑ کر صالحہ عابد حسین نے حالی کی ایک ایسی شخصیت ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے بارے میں اگرچہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، اس کے باوجود اس سوانح عمری میں زندگی کے کچھ گم شدہ اوراق لازمی طور پر ہا تھ لگ جائیں تاکہ ہر پڑھنے والے کو حالی کے لیے کچھ نہ کچھ نئے سرے سے حاصل ہوجائے۔ صالحہ عابد حسین نے حالی کی حیات و شخصیت سے زیادہ توجّہ ان کے کارناموں پر مرکوز رکھی ہے، اس کے باوجود حالی کے مزاج اور ان کی شخصیت کے خاص خاص امور اختصار کے ساتھ تذکرے میں شامل ہوگئے ہیں۔ حالی کی شخصیت کی یہ صفات ہمیں ان سے اور محبّت کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ صالحہ عابد حسین کی زبان میں چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
( ۱) ’’حالیؔ کو خطاب ملا تو اُنھیں بجاے خوشی کے، اُلجھن سی محسوس ہوئی۔ اُس زمانے کا دستور تھا کہ جس شخص کو گورنمنٹ خطا ب سے ’’سرفراز ‘‘کر تی تھی، اسے ہر دربار اور دوسری سرکاری تقریبوں میں حاضری دینی اور حکّام کی پذیرائی کرنی پڑتی تھی ۔حالیؔان چیزوں سے گھبراتے تھے۔‘‘
(۲) ’’اپنے فرائض کا اتنا گہرا احساس تھا کہ اُس نے اپنے خاندان کی کفالت کی خاطر عمرِ عزیز کے تقریباً تیس سال مختلف جگہ کی ملازمتوں میں گزار ے۔جو کام بھی سپرد ہوا خواہ وہ کسی دفتر کی کلرکی ہو یا کسی رئیس کے بچوّّں کی اتالیقی ،ترجموں کی ا صلاح ہو یا اسکول کی مدرّسی ؛اُسے پوری توجہّ، محنت اور دیانت کے ساتھ انجام دیا ۔‘‘
(۳) ’’کھانے سے زیادہ ان چیزوں کو دوسروں کو کھلاکر خوش ہوتے تھے اور فصل میں بڑے اہتمام سے عزیزوں اور دوستوں کی آم اور خربوزے کی دعوتیں ہوا کرتی تھیں ۔‘‘
(۴) ’’ اگر کسی کی بات نا مناسب یا غلط سمجھتے تھے تو ایسی محبّت اور نرمی سے سمجھاتے تھے کہ اسے ذرا ناگوار نہ ہو ۔مولوی ظفر علی خاں نے اپنے اخبار ’’ دکن ریویو ‘‘میں مولاناشبلی ؔکی کسی کتاب پر دو ایک مضمون لکھے اور اس میں ’’بے جا شوخی ‘‘ سے کام لیا ۔یہ بات حالیؔ کو نامنا سب معلوم ہوئی ۔ایک مرتبہ وہ ملنے آئے تو مولانا حالیؔ نہایت شفقت سے انھیں بڑی دیرتک سمجھا تے رہے اوروہ اس قدر شرمندہ ہوئے کہ سر نیچے سے اُوپر نہ اُٹھا سکے ۔‘‘
(۵) ’’جہاں جاتے وہاں سے تحفے کی چیزیں ضرور لے کر آتے اور خاندان بھر میں تقسیم کر کے خوش ہوتے ۔خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کی پسند اور ضرورت کی چیزیں لانے کا بڑاشوق تھا ۔اور جب وطن سے باہر جاتے تو اپنے ہاں کی چیزیں مثلاً پانی پت کی بالائی ،پانی پت کے بنے ہوئے چاندی کے خو ب صورت اور سڈول موتی ،سروتے اور وہاں کا بنا ہوا کپڑا ؛تحفے کے طور پر دوستوں کے لیے لے جاتے تھے ۔‘‘
(۶) ’’ہمیشہ لڑکو ں اور بچّوں کے خط کا جواب اُسی پابندی سے دیتے جیسے بڑے آدمیوں کے خطوں کا۔ اُن کا طرزِ تحریر یوں بھی سادہ ،شستہ اور آسان ہے لیکن عورتوں اور بچّوں کے خط لکھتے تو خاص طور پر وہ لہجہ اور زبان استعمال کرتے تھے جس کو وہ ا چھّی طرح سمجھ سکیں ۔اور ساتھ ہی اس کی کوشش بھی کرتے تھے کہ بہت خوش خط اور صاف صاف لکھیں تاکہ انھیں پڑھنے میں آسانی ہو۔‘‘
(۷) ’’پانی پت میں ایک مرتبہ حالی ؔکسی جگہ سے تانگے میں بیٹھے گزر رہے تھے کہ دیکھا ایک بھنگی کا چھوٹا سا لڑکا نالی میں گرا پڑا ہے اور کیچڑ اور گندگی میں لت پت پڑ اچِلاّ رہا ہے ۔آس پاس بہت سے آدمی جمع کھڑے دیکھ رہے تھے اور رام رام کر رہے تھے مگر کوئی اُسے اُٹھاتا نہیں۔ مولانا نے فوراً اپنا تانگا ٹھیرایا۔پاس گئے اور بڑی آہستگی سے اسے نالی میں سے نکالا ۔اپنے ہاتھ سے اس کے کپڑے اُتارے اور اُس کے ماں باپ کا پتا پُوچھ کر خود وہاں چھوڑ کر آئے ۔‘‘
(۸) [بہ قولِ عطا ء اﷲ(ملازمِ حالی)]’’ ایک مرتبہ سردی کے موسم میں میں نے شکایت کی کہ رات کو بڑی سردی لگتی ہے ۔مولوی صاحب نے فوراً اپنی رضائی جو اَبھی نئی بنوائی تھی ،کھونٹی سے اتار کر مجھے دے دی ۔میں نے کہایہ تو ابھی کل ہی آئی ہے، مجھے کوئی پُرانی رضائی دے دو ۔کہنے لگے ،نہیں یہ تم لے لو۔ ہم اور بنوا لیں گے۔‘‘
(۹) ’’اکثر عید بقر عید کے موقعے پر خاندان بھر کی لڑکیاں بالیاں مولانا کے ہاں جمع ہوتیں۔ رات گئے تک سب کے ہاتھوں پاؤں میں مہندی لگتی رہتی ۔جب سب کی مہندی لگ چکتی تو ایک لڑکی ایسی رہ جاتی جس کا ایک ہاتھ مہندی لگنے اور کپڑا باندھا جانے سے باقی رہ جاتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ اس وقت مولانا حالیؔ اوپر اپنے کمرے سے اپنی چلم بھرنے نیچے کے گھر میں آجاتے اور پوچھتے: ’’ بھئی، اب تک کیا ہورہا ہے ؟‘‘ لڑکیاں کہتیں !بابا سب کی مہندی لگ گئی ،بس اس کا ایک ہاتھ رہ گیا ہے ۔کہتے اچھا لاؤ ہم لگا دیں گے (یا ہاتھ باندھ دیں گے)۔ اور خود لڑکی کے ہا تھ میں مہندی لگا کر اس پر کپڑا باندھ کر خوش ہوتے ہوئے واپس چلے جاتے ۔‘‘
حالی کی انھی انسانی خصوصیات نے انھیں قبولِ عام کا درجہ عطا کیا ۔وہ انسانی اور سماجی فرائض کے سلسلے سے ہمیشہ بیدار رہے اور علم و ادب کے معاملے میں عظمت اور مقام حاصل کر لینے کے بعد اپنے عمومی سماج سے دوسروں کی طرح نہ صرف دوری اختیار کرنے سے گریزاں رہے بلکہ انھوں نے کوشش کی کہ وہ ایک عام آدمی کے طور پر اپنے فرائض سے غافل نہ ہوں ۔کسی نابغۂ روزگار کے لیے بالعموم یہ نہایت مشکل کام ہوتا ہے کیوں کہ علم اور دانش وری کے کاموں کا جَبر بڑی آسانی سے اسے’ غیر معمولی ‘اور ’خاص ‘کے قبیلے میں ڈال دیتا ہے ۔اکثر و بیش تر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو ’بڑا‘بن گیا،وہ پھر ’چھوٹوں‘کے حلقے میں کیوں کرواپس ہوگا؟حالی کی ذات میں ایسی دانش ورانہ اشرافیت کا ایک ذرّہ بھی شاید شامل نہیں تھا ۔وہ بڑے تو بنے لیکن انھوں نے عام آدمی کے منصب سے کبھی بھی علاحدگی اختیار نہیں کی ۔
حالی کی خاموشی،گوشہ نشینی اور سادگی و شرافت سے توسب لوگ واقف ہیں لیکن اس کتاب کے صفحات پر اُن کی قوّتِ مشاہدہ کی گہرائی اور دقیق معاملوں میں معقول اور نتیجہ خیز اندازِ فکر سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔یہ ذاتی ،سماجی،قومی اور تعلیمی ہر شعبے کے سلسلے سے دکھائی دیتا ہے ۔یہاں حالی ہمیں ایک دانش ور اور وقت کے نبّاض کے بہ طور نظر آتے ہیں ۔حالی اپنے عہد کے سب سے بڑے اذہان غالب اور سر سیّد کی صحبتوں کے پروردہ تھے، اس لیے زندگی اور عہد کو سمجھنے کا ان میں ایک خاص ملکہ پیدا ہوگیا تھا۔ علمی امور سے لے کر ذاتی معاملات تک اُن کے نتائج ان کی عظمت کا واضح اشاریہ ہیں۔اس سلسلے سے صالحہ عابد حسین کی کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
-I [بہ قولِ حالی]’’جتنے گناہ بے کار آدمی کرتے ہیں، اتنے کام والے نہیں کرتے اور جتنے بیمار بے کار آدمی رہتے ہیں، اتنے کام والے نہیں ہوتے۔‘‘
-II ’’بھائی صاحب، اگر نوکری فی الحقیقت کرنی منظور ہے تو چند روز آسائش و آرام کو بالکل بھول جاؤ۔ تحمّل ، بردباری اور اطاعت و محنت اختیار کرو اور ہمیشہ ترقّی یا تبدیلی کی درخواستیں کرنے سے بھی پرہیز کرو۔۔۔‘‘[حالی کا خط اپنے صاحب زادے کے نام]
-III [بہ قولِ حالی]’’اپنے فرائض کو نہایت تندہی اور سر گرمی سے انجام دیا کرواور کا م سیکھنے اور لیا قت بڑھانے میں حد سے زیادہ کو شش کرنی چاہیے۔‘‘
-IV [بہ قولِ حالی]’’ اردو پر قدرت حاصل کرنے کے لیے صرف دلّی یا لکھنؤ کی زبان کا تتبع ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ عربی اور فارسی میں کم سے کم متوسط درجے کی لیاقت اور نیز ہندی بھاشا میں فی الجملہ دست گاہ بہم پہنچائی جائے ۔اردو زبان کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے، ہندی بھاشا پر رکھی گئی ہے ۔اس کے تمام افعال اور تمام حرف اور غالب حصّہّ اسما کا ہندی سے ماخوذ ہے ․․․․․․․․․․․․․․․ پس اردو زبان کا شاعر جو ہندی بھا شا مطلق نہیں جانتا اور محض عربی فارسی کے تان گاڑی چلاتا ہے ؛وہ گو یا اپنی گاڑی بغیر پہیوں کے منزلِ مقصود تک پہنچانی چاہتا ہے اور جو عربی فارسی سے نابلد ہے اور صرف ہندی بھا شا یا محض مادری زبان کے بھروسے پر اس بوجھ کا متحمّل ہوتا ہے، ایک ایسی گاڑی ٹھیلتا ہے جس میں بیل نہیں جوتے گئے ․․․․․‘‘
-V ’’حالیؔ علی گڑھ کالج کو انگریز حکّام یا چند امراو رؤسا کی ملکیت بنا دینے کے مخالف تھے اور اسے قوم کی امانت سمجھتے تھے جس کی باگ ڈور قوم کے مخلص اور قابل لوگوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔‘‘[بہ زبانِ صالحہ عابد حسین]
-VI ’’اُن کی راے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس قدر تحریکیں اب تک ہندستان کی بھلائی کے لیے دیسیوں کی طرف سے ہوئی ہیں ،میرے نزدیک ان میں سے کوئی ایسی تحریک جس سے ملک کو حقیقی فائدہ پہنچنے کی امید ہو،سودیشی تحریک سے بہتر نہیں ہوئی۔‘‘[بہ زبانِ صالحہ عابد حسین]
-VII سفارشوں کے لیے لوگ بہت ستاتے تھے ۔ اُن سے جہاں تک ہو سکتا، سفارش کر دیتے تھے لیکن کوشش کرتے تھے کہ صرف ایسے آدمی کی سفارش کریں جو واقعاً اس کا مستحق بھی ہو ۔اپنی ہر دل عزیزی سے بے جا فائدہ اٹھانا اُن کو پسند نہ تھا ۔اپنے قریبی عزیزوں کی سفارش سے جہاں تک ہو سکتا، بچتے تھے ۔ [بہ زبانِ صالحہ عابد حسین]
صالحہ عابد حسین نے اس سوانح کی ترتیب میں حالی کی مکمل شخصیت اور کارناموں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔اس لیے ایک کُلّیت پسند (Totalitarian)نقطۂ نظر اُبھر کر سامنے آتا ہے ۔سوانحی کتاب کے لیے یہ نقطۂ نظر لازمی ہے کیوں کہ کسی شخص کو اس کے مکمل کاموں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔حالی کے ایک کام سے دوسرے کام کس طرح جُڑے ہوئے تھے اور چھوٹے چھوٹے اجزا سے مل کر حالی کی شخصیت کس طرح تکمیل پاتی ہے ،اس کا اندازہ اس سوانح میں پورے طور پرہو جاتا ہے ۔یہاں حالی ہمیں آدھے ادھورے نہیں ملتے ۔حالی کی شخصیت اور کارناموں کووہ کس سلیقے اور کمال اختصار کے ساتھ پیش کر سکتی ہیں ،اس کی دلیل ذیل کے چند اقتباسات میں ملاحظہ کیجیے۔ یہ ہے صالحہ عابد حسین کا خاص نپا تُلا انداز:
(i) ’’اوّل دن سے آخری دم تک حالیؔایک مزدور کی طرح کام میں لگے رہے ۔ملازمت کے فرائض کے علاوہ مطالعہ، تصنیف و تالیف اور بہت سے متفرّق کاموں کو جو انھوں نے اپنے ذمّے لے رکھے تھے ،صحت اور بیماری ،طاقت اور کمزوری ہر حالت میں بڑی پابندی اور محنت سے انجام دیتے تھے ۔کوئی کتاب لکھنے کا ارادہ ہوتا تو پہلے اس کی پوری تیّار ی کرتے ۔اس کے لیے مسالہ فراہم کرنے میں اپنی جان لڑاتے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’عربی کا ایک قول ہے کہ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ کام کتنے دنوں میں ہوا ،البتہ یہ سب دیکھتے ہیں کہ کیساہوا ؟‘‘ان کا اصول تھا کہ جو کام کیا جائے، پوری توجّہ اور محنت کے ساتھ کیا جائے ۔‘‘
(ii) ’’قابل اور ہونہار نوجوانوں کی بڑی قدر اور ہمّت افزائی کرتے تھے ۔ آج کل کے کئی بڑے بڑے ادیب اور شاعر ایسے ہیں جن کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی سب سے پہلے حالیؔ نے کی ۔کوئی اچھّی تحریر نظر سے گزرتی تو اس کی تعریف کرتے اور لکھنے والے کا دل بڑھاتے ۔مولانا محمد علی اور ان کے ا خبار ’’ہمدرد‘‘ کی بڑی تعریف اور قدر کرتے تھے۔ مولوی ظفر علی کے اخبار ’’ زمین دار‘‘ اور ان کی اس وقت کی قومی خدمات سے خوش ہوکر ان کی تعریف میں ایک نظم لکھی ۔مولوی عبدالحق کے اخبار ’’افسر‘‘ کی تعریف اور اس کے مضامین کی داد اُن کے بہت سے خطوں میں ملتی ہے جو انھو ں نے مولوی عبد الحق کو لکھے ہیں ۔‘‘
(iii) ’’مولانا حالیؔ کی بڑی خواہش تھی کہ کم سے کم انھیں زندگی کے اس آخری زمانے میں سکون و اطمینان میسر آجائے تاکہ جو کام ان کے ذہن میں ہیں، انھیں انجام دے سکیں۔ وہ اپنا عربی و فارسی کلام مرتّب کرنا چاہتے تھے۔ اردو زبان کی تذکیر و تانیث کے اصول مرتّب کرکے اس کے متعلّق ایک کتاب لکھنے کا اُن کا خیال تھا۔ اس کے علاوہ ان کی خواہش تھی کہ اردو میں اعلا درجے کے ڈرامے اور ناول لکھے جائیں اور دوسری زبانوں کے بلند پایہ ناول اور ڈرامے ترجمہ کیے جائیں جو اردو میں نمونے کا کام دے سکیں۔ مولوی عبدالحق صاحب کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود اُن کا جی چاہتا ہے کہ کوئی ڈراما لکھیں۔ غرض بہت سے مفید کام ان کے ذہن میں موجود تھے۔ لیکن بڑھاپا، بیماری، کمزوری اور خانگی تفکّرات اس کا موقع نہیں دیتے تھے کہ اطمینان سے کام کرسکیں۔‘‘
(iv) ’’انھوں نے قدامت پسندی، روایت پرستی، نفرت، تعصّب، جہالت اور بے عملی کے بُتوں کو توڑنے کا عزم کیا تھا۔ وہ شعر و ادب کے پُرانے اور نکمّے سانچے توڑ کر نئے سانچے گڑھناچاہتے تھے۔‘‘
(v) ’’اُنھوں نے اپنے روحانی استادوں اور زندہ استادوں سے اپنی طبیعت اور صلاحیت کے مطابق استفادہ کیا تھا ۔میرؔ سے دردِ دل لیا اور دردؔ سے تصوّف کی چاشنی۔ غالب سے حسنِ تخیّل ،ندرتِ فکر ،اور شوخیِ گفتار سیکھی اور سعدیؔ سے بیا ن کی سادگی اور معنٰی کی گہرائی ۔ اور شیفتہ ؔ سے ’’سیدھی سچّی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دل فریب بنانے‘‘ کا فن اور ان سب کی ترکیب سے حالیؔ کی غزل کا ہیولیٰ تیار ہوا۔‘‘
اسی خصوصیت نے اس سوانح حیات کو غیر ضروری تفصیل اور رنگ و روغن سے دور رکھا اور سادہ گوئی پرمصنّفہ کا ایمان قائم رہا ۔حالی کے مزاج ،شخصیت اور اندازِگفتگوسے صالحہ عابد حسین کس درجہ متاثر ہیں ،اس پر غور کرنے کے لیے مذکورہ اقتباسات کے انداز کو بہ غور ملاحظہ کرنا چاہیے جہاں حالی کا رنگ چمکتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔صالحہ کے اس انداز کی داد دینے سے پہلے اس کتاب میں پیش کردہ حالی کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے تاکہ صالحہ اور حالی کی نثر کی متوازی لہروں کو ایک ساتھ پَرکھا جا سکے ۔حالی کی زبان میں ایسے چند جملے پیش ہیں جنھیں صالحہ نے اپنی کتاب میں بہ طورِ اقتباس شامل کیے ہیں:
(الف) ’’ میرا ارادہ ہے بہ شرطِ حیات وبہ شرطِ صحت رخصت کے زمانے میں کوئی نیا کا م شروع کروں ۔ اب تک جو منصوبہ ذہن میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ دلّی میں ایک بڑا مطبع قائم کیا جائے جس میں ہندستان کے عمدہ مصنّفوں کی کتابیں چھپوائی جائیں اور قدما کی عربی اور فارسی تصانیف جو اَب تک نہیں چھپیں یا بُری طرح چھپی ہیں، نہایت اہتمام کے ساتھ چھپوائی جائیں اور ایک رسالہ ماہواری بہ طور میگزین کے شایع کیا جائے جس میں ہندستانیوں کو یورپ کی ترقّیّات کی طرف مائل کیا جائے اور ہندستان کے روز افزوں تنز ّ ل سے ان کو آگاہ کیا جائے اور تجارت و صنعت و حرفت کی جہاں تک ہو سکے، ترغیب دی جائے ․․․․․․․․․‘‘
(ب) ’’شمس العلما مولانا شبلی ؔکا تقرّر مددگار معتمد امورِ مذہبی کے عہدے پر عزیزی غلام الثقلین کی تحریر سے معلوم کر کے بے انتہا مسرّت ہوئی۔ اگر آپ اُن سے ملیں تو میری طرف سے بعد سلامِ نیاز کے کہہ دیجیے گا کہ اگر چہ آپ کے علم و فضل و لیاقت کے مقابلے میں یہ عہدہ چنداں امتیاز نہیں رکھتا مگر بہر حال لاہور کی خدمت سے جس پر مسٹر آرنلڈ آپ کو بلانا چاہتے تھے ،میرے نزدیک بہت بہتر ہے ۔ خصو صاً اس لیے کہ آپ کو تصنیف و تالیف کا یہاں زیا دہ موقع ملے گا اور قوم کو زیادہ فائدہ پہنچا سکیں گے ۔‘‘ [مکتوب بہ نام مولوی عبدالحق]
(ج) ’’عمر کے دن ختم ہوتے چلے جاتے ہیں اور کوئی کام ضروری و غیر ضروری سر انجام نہیں دے سکتا۔ سب سے ضروری کام اس وقت یہ تھا کہ دنیا کے تمام تعلّقا ت قطع کرکے جو چند انفاس زندگی کے باقی ہیں، ان میں خدا کی یاد کی جائے مگر اپنے کلام کا چھپوانا میرے حق میں شیطانی وسوسہ ہوگیا ہے۔ ہرگز طبیعت گوارا نہیں کرتی کہ جو کلام اب تک شایع نہیں ہوا اور جس کے چھپوانے اور شایع کرنے کی میرے بعد کسی سے امید نہیں ہے، اس کو یوں ہی چھوڑ کر چلا جاؤں۔‘‘
حالی کو اپنے عہد میں کس حد تک قبولِ عام کا درجہ حاصل تھا اور اُس وقت کے اہم اور صائب الراے شخصیات نے حالی کے سلسلے سے کیا کیا کہا ،صالحہ نے اس کا کوئی گوشوارہ تیّار کرنے سے گریز کیا اور اس طرح سوانح کو بے جا طویل ہونے سے بچایا لیکن اس کتاب میں جگہ جگہ ایسے جملے اور اقتباسات پھر بھی نظر آجاتے ہیں جو انتخاب کا درجہ رکھتے ہیں اور جن کے مطالعے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حالی کے معاصرین انھیں کس حد تک پسند کرتے تھے اور وہ کیوں جیتے جی ایک دبستان اور مرکز ِ فکر بن گئے تھے:
٭ ایک دفعہ بچپن میں ہم نے یہ سُنا کہ انگریز مولانا حالیؔ کا دماغ خرید لیں گے اور ان کے انتقال کے بعد اس کا آپریشن کر کے دیکھیں گے کہ اس میں کیا خا ص بات ہے جس کی وجہ سے انھوں نے ایسے بڑے بڑے کام انجام دیے۔‘‘ (بہ زبانِ صالحہ عابد حسین)
٭ ’’ اباّ جانی، اگر خدا مجھ سے یہ سوال کبھی کرے گا کہ میرے جتنے بندوں سے تو ملا ہے، اُن میں سے کون ایسا ہے جس کی پرستش کرنے کے لیے تیرا دل تیار ہو جائے تو میرے پاس جواب حاضر ہے کہ وہ شخص الطاف حسین حالی ہے․․․․․‘‘(بہ قولِ سیّد محمود خلف سر سیّد احمد خاں)
اردو ادب کے طالب علم کی حیثیت سے حالی کے کارناموں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا ہنرور دوسرا کون ہے؟ سوانح نگار، نقّاد، مسدّس نگار، شخصی مرثیہ گو، جدید نظم نگار، پُرانی اور نئی دونوں غزل کا ماہر، بہترین مقالہ نویس؛ یعنی ہر شعبے میں حالی اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ان کا مدِّمقابل کوئی دوسرا نہیں۔ سرسیّد کے بعد جو دوسرا نیا زمانہ حالی کے سامنے آنے والا تھا، اس کا بہترین نبّاض حالی کے علاوہ کون ہے؟ ابوالکلام آزاد، پریم چند، اکبرالہٰ آبادی اور اقبال؛ ان میں سے وہ کون ہے جس کی ادبی تربیت حالی کی تحریروں نے نہ کی ہو؟ قومی جذبے کی نئے تناظر میں پیوستگی سرسیّد کے راستے پر چل کر ممکن نہیں تھی۔ حالی نے سرسیّد سے روشنی لے کر ہی سہی لیکن قومی زندگی میں ایک نیا سویرا دیکھا تھا۔ اسی راستے پر اُن کے بعد والوں نے چل کر ایسی کامیابیاں حاصل کیں جن کا ابھی تک ٹھیک طریقے سے اعتراف بھی نہیں کیا گیا ہے۔ حالی کی تنقیدی نثر پر کلیم الدین احمد بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔ غیر افسانوی نثر کا حالی نے وہ مثالی اسلوب وضع کیا جس کا کوئی دوسرا نمونہ ہماری تاریخ نے آج تک پیش نہیں کیا۔ محمد حسین آزاد اس عہد کے سب سے بڑے انشا پرداز ہیں۔ ان کے شاہ کار ’آبِ حیات‘ میں بھی زبان کبھی کبھی لڑکھڑاتی ہے یا ایک لمحے کے لیے بلند و پست کا ذائقہ فراہم کرجا تی ہے لیکن ’’حیاتِ جاوید‘‘ یا ’’یادگارِ غالب‘‘ کے صفحات پلٹتے جائیے، ایک بہتی ہوئی ندی کا سلسلہ ہے جو پہاڑوں سے اُتر چکی ہے اور جسے آخرکارسمندر تک جانا ہے۔ اس میں بے وجہ بے قر اری اور اُتھل پُتھل آنے سے کہیں زمین کا جگر خوں نہ ہو جائے۔ایک ہم وار اور غیر اضطراری کیفیت میں پورا متن مکمل ہوا ہے۔
’’یادگارِ حالی‘‘ ہمارے عہد کی معتبر کتا ب ہے اور حالی کی واحد مکمّل سوانح لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حالی کے شایانِ شان ہے؟ میرا جواب ہر حال میں ’نہیں‘ میں ہوگا۔ حالی کے بڑے کارناموں اور ان کے وقیع اثرات کے بارے میں ایسی چھوٹی سی کتا ب ہمارے دل پہ ایک بوجھ کی طرح سے ہے۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ حالی کے اثرات اگر صالحہ عابد حسین نے زیادہ وضاحت سے پیش کر دیے ہوتے تو ہم میں سے کتنے اسے خاندانی کمالات کی فہرست سازی مان لیتے۔ صالحہ کے برادرِ بزرگ خواجہ غلام السیّدین نے ایک بار حالی کی ایک نظم سے کوئی ترکیب لے کر کسی قومی مسئلے پر اپنی رائے پیش کی تھی تو آلِ احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں محبّت سے ہی سہی ، یہ پھبتی بھی کَسی تھی کہ یہ اصطلاح تو بہت موزوں ہے، ہر چند سیّدین صاحب کو اس کے لیے اپنے خاندان سے باہر جانے کی ضرورت نہ پڑی۔
[شعبۂ اردو، پٹنہ یونی ورسٹی کے سے می نار منعقدہ ۲۲-۲۳ فروری ۲۰۱۴ء میں پیش کیا گیا۔]
٭٭٭
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 138114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.