خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔اس کو
دنیا میں بھیجا۔انسان کا دنیا میں آنے کا صرف ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ
انسان اپنی نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے اور اسی کی
عبادت کرے۔’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ اْلاَنْسَ اِلَّا لِےَعْبُدُوْنِ
‘‘اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی زندگی کا نچوڑ صرف خدا کی عبادت
ہے جس نے انسان کو انسان بنایا۔
انسان کو دنیا میں بھیجنے کے بعد اس کو دو راستے بتائے گئے ایک حق کا راستہ
اور دوسرا باطل کا راستہ۔خود خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’وھدینٰہ النجدین‘‘کہ
ہم نے انسان کی دو راستوں کی طرف راہنمائی کی۔جہاں تک حق کے راستے کی بات
ہے تو یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اﷲ تعالیٰ نے انعام کیا۔ان لوگوں میں
نبی،صدیق،شہدااور صالحین شامل ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خدا کے احکامات
کو بند آنکھوں اور کھلے ذہین سے تسلیم کیا۔
مطلب یہ کہ جہاں خدا کا حکم آگیا وہاں پر آنکھیں بند کر کے بغیر چوں چرا
کیے عمل کیا اور حق کے علم بردار ٹھہرے۔ان لوگوں نے رحمن کی ہر بات کے
سامنے اپنی ہر بات کو پس پشت ڈال دیا۔اگر کہا نماز پڑھوتو پڑھ کر
دکھائی۔اگر کہا گیا زکوٰۃ ادا کرو ،حج کرو،روزے رکھو،تو انہوں نے پہلے یہ
کیا ،پھر پوچھا:آیا ہم نے کچھ کم تو نہیں کر دیا رحمن کے احکام سے……؟؟؟ان
کو دنیا میں بھی عزت ملی اور وہ آخرت میں بھی سر خرو ہو ں گے۔
دوسرا راستہ طاغوت کا ہے ،شیطانی راستہ ہے ،جہاں ہر طرف باطل ہی باطل ہے
۔جو انسان اس راستے میں پڑ گیا اس نے اپنی دنیا اور آخرت برباد کر
لی۔دیکھنے میں یہ راستہ زیادہ خوشنما اور سہل ہے لیکن حقیقت میں یہ گنا ہوں
کی ایسی دلدل ہے جس سے نکلنا مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔
طاغوتیطاقتیں اور انسان کا نفس امارہ مل کر گھناؤنے کھیل کھیلتے ہیں اور
انسان مکمل طور پر ان کی گرفت میں آجاتا ہے۔پھر انسان کی حالت اس کٹھ پتلی
کی سی ہو تی ہے جس کی ڈور دوسروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور پھر وہ جب چاہیں
جس طرح چاہیں اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔جب انسان اس کیفیت کو پہنچتا ہے تو
پھر اس کا دل گناہوں کی بدولت سیاہ ہو چکا ہو تا ہے۔اس ہارے ہوئے جواری کی
طرح ہو تا ہے جو اپنا سب کچھ کھو کر بھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان انسانیت کے درجے سے گر جاتا ہے جو کبھی
’’لَقَدْ خَلَقْنَا اْلاَنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِےْمِ‘‘تھا
وہ’’اَسْفَلَ سٰفِلِےْن‘‘کے درجے کو پہنچ جاتا ہے پھر اس کو گناہ میں لذت
آنے لگتی ہے ۔وہ اپنے گناہ کو اس طرح انجوائے کرتا ہے جس طرح بچے کھلونوں
کے ساتھ کھیل کر کرتے ہیں۔
پھر وہ نہیں دیکھتا کہ میرے سامنے ۸ سالہ بچی ہے یا ۵۰ سالہ عورت ،۵ سال کا
بچہ ہے یا ۲۰ سال کی معذورلڑکی۔اس پر ہوس کا نشہ ہو تا ہے اور نشہ کو ئی
بھی ہو دماغ خراب کرتا تو ہے نا۔
پھر وہ انسان درندگی کی ایسی گھٹیا اور نہ بیان کرنے والی داستانیں
چھوڑجاتا ہے کہ بس عقل تسلیم ہی نہیں کرتی جو باتیں سن کر لوگ توبہ تو بہ
کرتے ہیں ان کا موں کو کر کے وہ دلی فخر محسوس کرتا ہے۔
اس کے دل پر،اس کی آنکھوں پر ،اس کے کانوں پر ایسی مہر لگا دی جاتی ہے کہ
پھر اس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں ہوتا۔جس طرح گندے تالاب کی مچھلی کو صا ف
تالاب کا پانی راس نہیں آتا اسی طرح نفس امارہ کی پو جا کرنے والے کو بھی
نیک لوگ اور نیکی کے کام راس نہیں آتے۔انسان اپنی گھناؤنی حرکات سے اس
اسٹیج پرپہنچ جا تا ہے جہاں وہ انسان سے حیوان بلکہ حیوان سے بھی بد تر ہو
جاتا ہے۔
خدا تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:’’ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا
کیے ہیں ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں،اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان
سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں،یہی لوگ ہیں جو
چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ۔ یہی لوگ غافلوں میں سے
ہیں۔(الاعراف:۱۷۹)
بظا ہر اس کے پاس آنکھیں ہو تی ہیں لیکن وہ صرف بدہی دیکھتے ہیں ،کان ہوتے
ہیں لیکن صرف فحش باتیں ہی سنتے ہیں،ان کے پاس دل بھی ہوتا ہے مگر وہ صرف
گندے اورسفلی خیالات سے بھرا رہتا ہے۔
اس کی روح مکمل طور پر گھائل ہو جاتی ہے جس پردنیا کی کوئی بھی دعا اثر
نہیں کر سکتی۔نہ اس کی عقل ہادی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کادین اس کا راہبر
ہوتا ہے،پھر وہ ہوتا ہے،اس لے گناہ اور اس کے دل کے گندے ہوس بھرے خیالات
ہوتے ہیں۔
یہ کھیل بڑا مزیدار اور دل ربا معلوم ہوتا ہے،انسان نئے نئے گناہ کر کے فخر
محسوس کرتا ہے ، لیکن اس کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے،جو باطل اس کا ہا تھ
پکڑ کر اس کو اس دلدل میں داخل کراتاہے وہ عین درمیان میں آکر انسان کا
ساتھ چھوڑ جاتاہے اور پھر وہی ہوتا ہے:
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
لیکن اس وقت انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا وہ صرف اپنے کئے پر پچھتا سکتا ہے
مگر ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘‘۔
اس وقت اگر اس کو باطل کی سفلی دلدل سے کوئی نکال سکتا ہے تو وہ حق ہے۔
جب عقل پہ پردہ پڑ جائے
اور فہم ذہن سے نکل جائے
پھر خرد الجھن میں بٹ جائے
کچھ پتا چلے نہ ہی سمجھ آئے
پھر انسان حیوان بنے
اگر انسان باطل کو چھوڑ کر حق کا راستہ اپنا لے تو وہ اپنا کھو یا ہو ا
مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے،ہاں اس کے لیے اس کو لمبا عرصہ درکار ہوگا
لیکن وہ گنا ہوں کی دلدل سے ضرور نکل آئے گا۔
کیونکہ اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔
٭……٭……٭ |