ریاکاری کا عذاب
(Shahzad Hussain Bhatti, Attock)
شیخ سعدی رحمتہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک
ریاکار درویش جس کی درویشی محض دکھاوے کو تھی ایک بار بادشاہ کا مہمان ہوا۔
شاہی دستر خوان بچھا تو بادشاہ پر اپنی کم خوری ظاہر کرنے کے لیے ایک دو
نوالے چکھ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ اﷲ والے تو اﷲ کی یاد سے پیٹ بھرتے ہیں
کھانا کم کھاتے ہیں۔ نماز کا وقت ہوا تو ریا کار درویش نے بادشاہ کے ساتھ
نماز پڑھی اور بڑی لمبی نماز پڑھی۔ دکھاؤے کے لیے بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ
دعا مانگتے ہوئے اس قدر ٹسوئے بہائے کہ جبہ دستار گیلی ہو گئی۔ ثابت یہ
کرنا تھا کہ اﷲ والے ایسے نماز پڑھتے ہیں۔ریا کار درویش گھر آیا تو سب سے
پہلے کھانا لانے کو کہا۔ اس کے ایک باشعور بیٹے نے اس سے کہا "آپ کو بادشاہ
نے مدعو کیا تھا۔ کیا آپ نے وہاں کھانانہیں کھایا؟"ریا کار درویش نے اپنے
بیٹے کو جواب دیا: "وہاں اس لیے کم کھایا کہ بادشاہ کے دل میں اپنی
پرہیزگاری کی دھاک بٹھانا مقصود تھا۔ ایک دو نوالے لے کر ہاتھ کھینچ لیا۔
اس لیے گھر آ کے دوبارہ کھا رہا ہوں"۔ بیٹے نے جواب دیا : "پیرو مرشد ! پھر
توآپ نماز بھی دوبارہ پڑھیں کہ وہ بھی آپ نے وہاں بادشاہ کے دل پر عبادت
گزاری کی دھاک بٹھانے کے لیے پڑھی ہو گی خدا کے لیے نہیں"۔
عصر حاضر میں بھی ریا کاری بَامِ عروج پر ہے۔ دکھاوا ہماری رگ رگ میں بھرا
پڑا ہے اور دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اپنی اوقات سے بڑھ کر دکھاوا
کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنی چادر کے مطابق پاؤ ں پھیلاتے تھے۔
اوراپنے وسائل کے مطابق ہی انکے اخراجات ہوتے تھے۔ جو شخص سائیکل پر آفس
آتا جاتا تھا وہ ساری عمر اُسی سائیکل پر آتا جاتا تھا۔ گھر کا ایک کمانے
والا ہوتا تھا اور پورا خاندان اس قلیل سی آمدن پر پلتا تھا۔لوگوں کی
خواہشات محدود تھیں اور وہ اپنے وسائل کا درست استعمال کرتے تھے۔ یہ زمانہ
کوئی زیادہ پرانانہیں بلکہ یہی کوئی چالیس پچاس سال قبل کا تھا۔ پھر وقت نے
کروٹ لی اور وقت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ الیکڑونکس مصنوعات نے
انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ۔جب سختی کی جگہ آسانی نے لے لی تو
لوگ سخت جان سے نازک ہو گئے۔ اگر کسی نے بسیار خوری کر لی یا گھی مکھن کھا
لیا تو اُسے ہضم کر نا مشکل ہو گیا۔ خالص خوراک کی جگہ جعلی خوراک نے لے لی
جسکی وجہ سے بیماریوں نے انسانی جسموں کو اپنا مسکن بنا لیا۔ سو سال زندگی
پانے والے چالیس سال میں ہی بوڑے دیکھائی دینے لگ گئے۔بجلی ، گیس،
الیکڑانکس مصنوعات اور گاڑیوں نے دنیا کو گلوبل ولیج کا درجہ دے دیا۔حرس ،
لالچ، طمہ ،ریاکاری اور جھوٹ نے موجودہ دور میں قدم رکھا تو ہمارے معاشرتی
اقدار نے ایک نیا جنم لیا جس سے لوگوں میں دکھاوا اور ریا کاری کا عنصر
نمایاں طور پر سامنے آیا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنی چادر سے
پاؤں باہر نکالنے شروع کر دیئے۔ حرام اور حلال کا فرق یہاں ہی آ کر مٹا۔
لوگوں کو اپنے ہمسائے کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ لال کرنے کی سوجی۔
بیویوں نے کہا کہ فلاں کے گھر گاڑی ، ٹی وی ، فریج اور الیکڑانکس اشیاء ہیں
تو ہمارے گھر کیوں نہیں؟۔ جیسے بھی کرو۔ چاہے ڈاکے مارو لیکن ہمیں یہ اشیاء
چاہیں۔ خاوندوں پر جب دباؤ بڑھا تو انہوں نے جائز کام بھی ناجائز طریقے سے
کرنے شروع کر دیئے۔
جسکی وجہ سے آج معاشرہ اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں
ہوتا۔ حرام و حلال کا احساس تک مٹ گیاہے۔ہمارے سیاستدان ووٹ کے حصول کے لیے
لوگوں کوسبز باغ دکھا رہے ہوتے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر عوام
کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔کوئی روٹی، کپڑے اورمکان کا لالچ دیتا ہے۔ کوئی
نیا پاکستان بنا رہا ہے ۔ کوئی نئی سٹرکوں اور پلوں کو ترقی کا راز قرار دے
رہا ہے۔ کوئی اسلامی نظام کے نفاز کو ملک کی تقدیر قرار دیتا ہے ۔ اگر کوئی
نہیں دیتاتو اس قوم کو اسکے اصل حقوق! جن کے بنا یہ معاشرہ بے کار
ہے۔معاشرہ فرد سے بنتاہے اور فرد خاندان کی اکائی ہے۔ خاندانوں کے اشتراک
سے معاشرے کا وجود اُبھرتا ہے۔ ہم کیوں اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم
کیوں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کہیں ہم اپنے آپ
سے ریاکاری تو نہیں رہے ؟ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دکھ درد کے مداوا
ہمارے یہ حکمران ہیں جوہمیں ستر سالوں میں عزت کی روٹی تو دے نہیں سکے ۔
علاج معالجہ کی سہولیات آپکے سامنے ہیں۔تعلیم کی تباہی آخری دھانے پر ہے۔
ملاوٹ اور جعلسازی میں کھڑکی توڑ مہارت رکھتے ہیں۔ ہم جمہوریت کا راگ تو
الاپتے ہیں لیکن اسکی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم تقلید تو کرنا چاہتے
ہیں لیکن عمل کرنا مشکل ہے۔ہم اپنی جعلی دھاک دوسروں پر تو بٹھا رہے ہیں
لیکن جس خدا کے ہاں لوٹ کے جانا ہے اسکا سامنا کرنے کی ہماری کوئی تیاری
نہیں ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ روز آخرت ہماری یہی ریا کاری ہمارے لیے سخت
عذاب کا موجب بنے گی۔
مثنوی:
ہنر اپنے بیاں کرتے ہو سب سے
مگر پھرتے ہو عیبوں کو چھپائے
خریدے گا وہ کیا بازار جا کر
جو کھوٹا پیسہ لے کر ساتھ جائے |
|