فطر کے لغوی معنی ہیں : " روزہ
کھولنا " رمضان شریف کے روزے پورے ہوجانے کی خوشی میں اور روزوں میں ہونے
والی کوتاہیوں کی تلافی کیلئے شریعت نے ایک صدقہ مقرر فرمایا ہے اس کو صدقہ
فطر کہتے ہیں۔ اس صدقہ فطر کے زریعے غریب مسلمانوں کی امداد کی جاتی ہے
تاکہ وہ اپنی ضرورتیں پوری کر کے عید کی خوشی میں شریک ہوسکیں۔اس کا حکم
پہلی بار عید سے دو روز پہلے رمضان 2 ہجری میں دیا گیا۔
صدقہ فطر کا حکم: صدقہ فطر جمہور سلف کے نزدیک واجب ہے۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال : (فرض رسول ۔ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
زکاۃ الفطر صاعاً من تمر ، أو صاعاً من شعیر، علی العبد والحر ، والزکر
والأنثی ، والصغیر والکبیر من المسلمین ) ترجمۃ : "حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ : " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کا ایک صاع ،
یاجو کا ایک صاع صدقہ فطرہرغلام اور أزاد مرد اورعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان
پر فرض کیاہے " ۔
صدقہ فطر کی حکمت :
1-روزہ دار کے روزہ کو ان تمام آلائشوں اور خاميوں سے پاک کرنے کيلیے جو
روزہ کی حالت ميں فضول اور نا زيبا اور فحش گفتگو سے اسکے روزہ کے ثواب پر
اثر انداز ہوتی ہيں۔ تاکہ وہ روزے کا بھرپور ثواب حاصل کرسکے۔
2-غريبوں اور مسکينوں کی دل جوئی کيلیے اور عيد کے دن کم از کم ان کو اچھی
طرح کھانا ميسر آجائے ۔عن عباس رضی اللہ عنہ قال (فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ
الفطر طہرۃ للصائم من اللغو و اللعب و طعمۃ للمسا کین )
ترجمہ:"حضرت عبداللہ ان عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر فرض فرمايا
تاکہ روزہ دار فضول اور نا زيبا قسم کی باتوں سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کو
کھانا میسر آجائےْ "۔
3-ماہ رمضان میں روزے، قيام اور نيک اعمال کی ادائيگی ميں اللہ کی توفیق
اور اس کی مدد پر اس کا شکر ہے ۔
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟
صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت
چھوٹا ہو يا بڑا، امير ہو يا غریب، شہری ہو یا دیہاتی، جس کسی مسلمان کے
پاس اس کی اور اس کے گھر والوں کی ایک دن اور ایک رات (عيد کا دن اور عید
کی رات ) کی خوراک سے فاضل ہو تب اس کے لیے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ عن
ابن عمر رضی اللہ عنہ قال :(فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر صاعا َ من تمر أو
صاعاَ من شعیر علی العبد والحر والذکر والانثی والصغیر و الکبیر من
المسلمین ) ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ : نبی ﷺ نے
کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت
اور چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔"
غير المکلف (یعنی جن پر شرعی تکلیف نہ ہو مثلاََ پاگل، یتیم) انکے جو شرعی
ولی ہیں وہ ان کے مال میں سے ادا کریں گے۔ اور ان لوگوں کی جن کی کفالت کی
ذمہ داری عائد ہوتی ہے مثلاََ بیوی، بچے، والدین ،ان کی طرف سے خود ادا
کریگا ۔ قال رسول الله ﷺ: (أدوا الفطر عمن تمونون ) -
1-يہ حکم عام ہے اور اس میں کسی مالداری کی شرط نہیں ہے۔لہٰذا ہر مسلمان پر
خواہ وہ غنی ہو یا فقیر صدقہ فطر واجب ہے ۔ يہ امام شعبی ،عطاء ابن سیرین،
عبداللہ بن مبارک، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل کا مسلک ہے۔
2- مالکیہ کے نزدیک اگر انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو لیکن اسے قرض مل سکتا
ہو تو اس کے لیے قرض لے کر صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔
3- شافعیہ اور حنبليہ کے نزدیک اگر صدقہ فطر اس کی اور اس کے گھر والوں کی
ایک دن اور ایک رات (عيد کا دن اور عید کی وات ) کی خوراک سے فاضل ہو تب اس
کےلےْ صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ان حضرات کے نزدیک صدقہ فطر ایک بدنی
صدقہ ہے مالی صدقہ نہیں اس لیے اس کے نصاب کا ہونا ضروری نہیں )-
4- امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب کے نزدیک صدقہ فطر کے لیے انسان کا صاحب
نصاب (دو سو درہم چاندی یا اس کی قیمت کا ملک ) ہونا ضروری ہے۔ انکی دلیل
يہ ہے کہ جس شخص کے لیے صدقہ لینا جائز ہے اس پر صدقہ دینا واجب نہیں
ہوسکتا وہ اپنی دلیل میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کرتے
ہیں کہ :"نبی ﷺ نے فرمایا "سب سے اچھا صدقہ وہ ہے جو غنا کی حالت میں ہو"۔
صدقہ فطر کی مقدار :
گندم کے علاوہ باقی تمام چیزوں کے صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع
(تقریباََڈھایْ کیلو ) فی کس ہے ۔۔
اوپر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں يہ گزرچکا ہے کہ" نبی ﷺ نے
کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر ہر غلام اور آزاد، مرد اور
عورت ،چھوٹےاور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے ۔"
گندم کے صدقہ فطر کی مقدار کے متعلق کوئی ایسی واضح حدیث نبی ﷺ سے ثابت
نہیں ہے جسکی صحت پر سب کا اتفاق ہو۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں جب گندم کی
فراوانی ہوگی تو بہت سے صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ اس کا نصف صاع جو کے ایک
صاع کا قائم مقام ہوسکتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور
اور ایک صاع جو فرض فرمایا ۔ پھر لوگوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے
نصف صاع کو اختیار کرلیا۔(متفق عليہ)
حضرت ابن عمر ہی کی دوسری روايت ہےکہ نبی ﷺ کے زمانہ میں لوگ جو، کھجور،
کشمش يا پنیر کا ایک صاع صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرکے زمانہ میں جب
گندم کی فراوانی ہوگی تو ان چيزوں کی جگہ گندم کا نصف صاع صدقہ فطر دیا جا
نے لگا ۔(ابو داؤد)
امام ابو حنیفہ گندم کا نصف صاع صدقہ فطر کے مسلک پر تقریباََتمام صحابہ
کرام کا اتفاق قرار دیتے ہیں ۔
صدقہ فطر میں دی جانیں والی چيزيں:
مختلف احادیث میں صدقہ فطر کے لیے ان چیزوں کا ذکر ہوا ہے :گندم، جو،
کھجور، کشمش، آٹا، ستو ۔
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال(کنا نخرج زکاۃ الفطر اذ کان فينا رسول
اللہ ﷺ صاعاَ من طعام أو صاعاَمن تمر أو صاعاَ من شعیر أو صاعاَ من زبیب أو
صاعاَ من أقط ) متفق علیہ
ترجمہ :"حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ کے زمانہ
میں ہم کھانے یا کھجور یا کشمش یا پنیر کا ایک صاع (فی کس ) بطور صدقہ فطر
دیا کرتے تھے۔
1-امام ابو حنیفہ کے نزديک ہر اس چیز کا صدقہ دینا افضل ہے جو سب سے قیمتی
ہو ۔ امام صاحب کے نزدیک صدقہ فطر میں قیمت بھی دی جا سکتی ہے بلکہ قيمت کا
دینا افضل ہے۔
2-امام شافعی کے نزديک ہر اس چیز کا صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے جس پر عشر ہو
۔ جیسے چاول ،چنے، دال وغیرہ ۔ گندم کا صدقہ فطر دینا افضل ہے۔قیمت کا دینا
جائز نہيں۔
3-امام مالک کے نزدیک ہر اس چیز کا صدقہ فطر دینا جائز ہے جو لوگوں کی عام
خوراک ہو ۔ البتہ کھجور کا صدقہ دینا سب سے افضل ہے۔ قیمت کا دینا جائز ہے
مگر مکروہ ہے ۔
4-امام احمد کے نزدیک ہر پھل یا غلہ جو غذا کے کام آتا ہو، صدقہ فطر میں
دیا جا سکتا ہے البتہ کھجور کا صدقہ دینا افضل ہے ۔ قیمت کا دینا جائز نہیں
صدقہ فطر کےادا کرنے کا وقت :
صدقہ فطر کا عید کے روز صبح کی نماز کے بعد عیدگاہ کی طرف جانے سے پہلے
اداکرنا مستحب ہے ۔ (عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال : فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ
الفطر ۔الحدیث۔ وفیہ قال : امر أن توْدی قبل خروج الناس إلی الصلاۃ) تر جمہ
: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ صدقہ
فطر لوگوں کے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے ادا کردیا جائے ۔ (متفق علیہ)
لیکن حضرت ابن عباس کی روایت ہے (عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال
:من اداھا قبل الصلاۃ فھی زکاۃ مقبولۃ ، ومن اداھا بعد الصلاۃ فھی صدقۃ من
الصدقات ) (ابو داؤد)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : "جس
نے يہ زکاۃ (صدقہ فطر ) عید کی نماز سے پہلے ادا کی، تو وہ ایک قبول ہونے
والی زکاۃ ہے، اور جس نے یہ نماز کے بعد ادا کی تو وہ صدقوں ميں سے ایک
صدقہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے صدقہ فطر کا نماز کے بعد ادا کرنا اگرچہ صحیح
ہے، لیکن مکروہ ہے۔
1-امام احمد ، اسحاق اور ثوری کے نزديک یہ وقت رمضان کے آخری دن کا سورج
غروب ہو نے کے بعد ہے۔
2-امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب کے نزدیک يہ وقت عيد کے روز طلوع فجر کے
بعد ہے۔
3-امام مالک اور امام شافعی سے دونوں روایتیں ہیں۔
صدقہ فطر عید سے دو دن پیشگی دینا جائز ہے ۔ (عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال
: فرض رسول اللہ ﷺ صدقۃ الفطر من رمضان ،،،، وقال فی آخرہِ ( وکانوا یعطون
قبل ذٰلک بیوم أو یومین ) البخاری ۔
"حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے رمضان کے آخر میں صدقہ فطر فرض
فرمایا ----- اور لوگ یہ صدقہ عید سے ایک یا دو دن پہلے دے دیا کرتے تھے "۔
_امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا رمضان سے بھی پہلے دینا جائز ہے ۔ امام
شافعی کے نزديک اسکا شروع رمضان سے دينا جائز ہے ۔ (الفتح الربانی )
_امام بخاری کے نزديک صدقہ فطر کا پیشگی جمع کرنا جائز ہے ۔ غربا ء کو دینا
جائز نہيں ۔
زکاۃ کی طرح صدقہ بھی غير مسلم فقيروں کو نہيں دیا جائے گا ۔
1-قولہ تعالی : ( یا ایھا الذ ین آمنوا لا تلھکم اموالکم ولا اولا دکم عن
ذکر اللہ ومن یفعل ذٰ لک فا ولٰئک ھم الخاسرون ) ترجمہ : اے ايمان والوں !
تمہارے مال اور اولاد تمہیں اللہ تعالیٰ سے غا فل نہ کرديں ۔ اور جو بھی
ایسا کریگا تو وہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ۔
2-قولہ تعالی : ( انما اموالکم واولادکم فتنة واللہ عندہ اجر عظیم ) ترجمہ
: تمہارے مال اور اولاد يقیناََ تمہارے لئے آزمائش ہیں اور اللہ تعالی کے
پاس بڑا اجر ہے ۔
3-قولہ تعالی :( کلآ ان الانسان لیطغی 0 ان راٰہ استغنی ) تر جمہ : بے شک
انسان سرکش ہوجاتا ہے ۔ جب وہ اپنے آپ کو خوشحال دیکھتا ہے ۔
1-حضور ﷺ سے پوچھا گیا: آپ کی امت میں کون لوگ زیادہ برائى میں ہیں ؟ آپ نے
فرمایا : دولت مند !اور آپ ﷺ نےفرمایا جلد ہی تمہارے بعد کچھ لوگ آئینگے جو
دنیا کی رنگا رنگ نعمتیں کھائینگے ۔ طرح طرح کے عمدہ گھوڑوں پر سوار ہونگے۔
رنگ برنگ کی حسین و جمیل عورتوں سے نکاح کرینگے اور رنگ برنگ کےاعلیٰ لباس
زیب تن کرینگے۔ انکے پیٹ تھوڑے سے نہیں بھرینگے۔ اور ان کے نفس زیادہ پر
بھی قناعت نہیں کرینگے۔ دنیا پر گر پڑینگے۔ صبح وشام دنیا میں مگن ہونگے۔
اور دنیا ہی کو اپنا خدا بنالیں گے اسی کا حکم مانیں گے۔ اور اپنی خواہشات
کے پیچھے چلیں گے۔ تو محمد بن عبداللہ ﷺ کی طرف سے تمہیں اور تمہاری اولاد
اور اولاد کی اولاد کو بھی قسم ہے کہ اگر تم وہ زمانہ پاؤ اور ایسے لوگوں
کو دیکھو تو انہیں سلام نہ کہو۔ اور ان کے مریضوں کی بیما ر پرسی نہ کرو۔
اور ان کے جنازے کے پیچھے نہ چلو۔ اور ان کے بڑوں کی عزت نہ کرو۔ تو جو تم
میں سے ایسا کریگا، تو وہ اسلام کو گرانے میں ان کی مدد کریگا ۔
2-حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : دنیا کو دنیا داروں کے لیے رہنے دو۔ جس نے
دنیا میں گزران سے زیادہ لیا اس نے اپنی نا سمجھی سے اپنی بربادی کو دعوت
دی۔
3-حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: انسان کہتا ہے میرا مال۔ میرا مال۔ لیکن حقیقت
میں تیرا مال وہ ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا اور جو پہن کر پرانا کردیا۔
اور جو صدقہ کرکے باقی رکھا۔
ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سےعرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ کیا بات ہے مجھے مرنا
پسند نہیں ۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہارے پاس مال ہے۔ اس نے عرض کیا
۔ہاں یارسول اللہﷺ ،آپ ﷺ نے فرمایا: اپنا مال آگے بھیجو۔ اس لیے کہ مومن کا
دل مال کے ساتھ رہتا ہے اگر اسے آگے بھیج دے گا تو خود بھی آگے جانے کی
خواہش کریگا۔ اگر پیچھے رکھے گا تو اس کے ساتھ پیچھے رہنے کی خواہش کریگا
(مکاشفۃ القلوب/ امام محمدبن محمد الغزالی ) |