آخرت توحید و رسالت کے بعد
اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام انبیاء
علیھم السلام اور رسولوں کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا
سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں اللہ نے ہمیں
آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ کون ایمان لا کر اچھے اعمال کرتا ہے اور جس
طرح اللہ نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے بعد
قیامت کے دن دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں اللہ کے سامنے اپنے
اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ جس نے انبیاء علیھم السلام تعلیمات پر
ایمان لایا اور ان کی اطاعت کی اور اعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب
ہوگا اور جس نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا اسے نعمتوں بھری
ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ جہنم میں جائے گا اور دردناک
سزا بھگتے گا۔ اصل زندگی کا گھر آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس سفر میں
ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں
بلکہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے۔ بقول اقبال:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگي
اور قرآن کی زبانی:
سورة الجاثية ( 45 )
قُلِ اللهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى
يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكَثَرَ النَّاسِ لَا
يَعْلَمُونَ {26}
ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشات ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔
پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں،
مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
قرآن حکیم میں وقوعِ آخرت کے ایسے زوردارعقلی دلائل دیے گئے ہیں کہ
سلامت ہوش گوش رکھنے والا فرد انکار کی جرات نہیں کر سکتا ہاں یہ اور
بات ہے کہ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتاہے دیتا ہے۔
آج ہم قرآن حکیم کے بیان کردہ وقوعِ آخرت کے عقلی دلائل کا تذکرہ کریں
گے۔
•پہلی دلیل
سورة الأعراف ( 7 )
۔۔۔كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ {29}
جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔
بات بالکل واضح ہے جب ہمارا کوئی وجود نہ تھا، ہم کچھ بھی نہ تھے اور
اللہ نے ہمیں پیدا فرما دیا، وجود بخشا اور ہماری اس دنیا میں موجودگی
اس بات کا ثبوت ہے تو جس طرح ہمیں اللہ نے اب پیدا فرمایا ہے اسی طرح
دوبارہ بھی پیدا فرمائے گا۔ اللہ تو خلاق العلیم ہے اس کی تو کسی سے
نسبت ہی کیا، کیا ہم کسی انسان کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس
نے جب ایک کام ایک مرتبہ کر لیا ہے تو دوبارہ نہ کر سکے گا۔ یہ کمپیوٹر
جو ہم اس وقت استعمال کر رہے ہیں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے
بنانے والے اسے دوبارہ نہیں بنا سکتے۔ اور اگر کوئی یہ کہے تو کیسی
بیہودہ بات ہے؟
مزید آیات ملاحظہ فرمائیے:
سورة يس ( 36 )
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا
هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ {77} وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ
قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ {78} قُلْ يُحْيِيهَا
الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ
{79}
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ
صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا؟ ۔ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے
اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے۔ کہتا ہے "کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے
گا۔ جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں؟" اس سے کہو، انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے
پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ خلیق کا ہر کام جانتا ہے۔
سورة القيامة ( 75 )
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى {36} أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً
مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى {37} ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى
{38} فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى {39}
أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى {40}
کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا
وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟
پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء
درست کئے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔ کیا وہ اس پر
قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر دے۔
سورة عبس ( 80 )
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ {17} مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ
{18} مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ {19} ثُمَّ السَّبِيلَ
يَسَّرَهُ {20} ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ {21} ثُمَّ إِذَا شَاء
أَنشَرَهُ {22}
لعنت ہو انسان پر، کیسا سخت منکر حق ہے یہ۔ کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا
کیا ہے؟ نطفہ کی ایک بوند سے۔ اللہ نے اسے پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر
مقرر کی، پھر اس کے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر
میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے وہ اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کردے۔
درج بالا تین آیات میں انسان کو اس کی پیدائش یاد دلا کر بتلایا جارہا
ہے کہ جس خدا نے ایک خوردبینی کیڑے سے بڑھا کر تمہیں اتنا بڑا انسان
بنا دیا اس پر مثالیں کیسے چسپاں کرتے ہو وہی ہے جو تمہاری بوسیدہ
ہڈیوں کو جب چاہے گا دوبارہ زندگی بخش کر اٹھا کھڑا کر دے گا۔
آپ ذرا اس مثال پر غور فرمائیے کہ اللہ کی شان خلاقی کیا ہے؟
کوئی شخص اگر کہیں سے لکڑی لے کر دروازہ، میز یا کرسی بنا دے تو سادہ
سی بات ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں وہاں وہ ایک لکڑی
کا دروازہ کھڑا کر دے گا تو کیسا عجیب معجزہ ہے؟ یقین جانیے اگر ہم غور
کریں تو انسان کی پیدائش ایک بہت بڑے معجزے سے کم نہیں۔ سبحان اللہ۔
نطفے کی ایک بوند سے کیا مخلوق بنا دی اور اس کے اندر اپنی نسل کے بقا
کا نظام رکھ دیا۔ کیا انسان نے بھی کبھی ایسی کوئی چیز بنائی ہے جو
اپنی نسل برقرار رکھے۔ اور اس ماہر خلاق کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ
ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندگی نہ بخش سکے گا کیسی حماقت ہے۔
آپ ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ آنے والی نسلوں کے جسموں کے ذرات کہاں
پڑے ہیں؟ زمین میں ہی ناں؟ تو وہ کون ہے جو ان ذرات کو جمع کر کے ہر
لمحے تخلیق کا کام کر رہا ہے؟ انسانوں، جانوروں، پرندوں، حشرات، نباتات
اور نجانے کن کن مخلوقات کے کتنے ہی ارب بچے ایک لمحے میں پیدا فرمانے
والا کون ہے؟ تو جو چند ارب یا کھرب گزر گئے کیا اللہ ان کے جسموں کے
ذرات کو ایک ہی وقت میں جمع نہ کر سکے گا وہ تو آج کے ترقی یافتہ انسان
سے یہ فرما رہا ہے کہ جن فنگر پرنٹس کو تم آج کمپیوٹر کے دور میں شناخت
کے لیے استعمال کرتے ہو میں ان کو بھی ویسا ہی بنا دوں گا اور ہر ایک
کو اس کی مکمل شناخت کے ساتھ اٹھاؤں گا۔ اتنا تو سوچ لیجیے کہ جس کی دی
ہوئی شناخت (فنگر پرنٹس یا رجسٹریشن) کو ہم آج استعمال کرنے کے قابل
ہوئے وہ خود ہم سے بے خبر کیونکر رہ سکتا ہے۔ کیا اس کے کاغذات میں
ہماری کوئی رجسٹریشن اور ہمارا کوئی ریکارڈ نہیں ہوگا؟
سورة القيامة ( 75 )
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَهُ {3} بَلَى
قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ {4}
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکیں گے؟
کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر
ہیں۔
اور وہ تو یہ فرماتا ہے کہ تم چند ارب انسانوں کو پیدا کرنا اور موت کے
بعد دوبارہ زندہ کرنا اللہ کے لیے بس ایسے ہی ہے جیسے کسی ایک کو:
سورة لقمان (31 )
مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۔۔۔ {28}
تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ زندگی بخشنا تو (اس کے
لیے) بس ایسا ہے جیسے کسی ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا)۔
اور ذیل کی آیت تو یہ کہا جا رہا ہے کہ تم اگر پتھر یا لوہا یا اس سے
بھی سخت کوئی چیز بن جاؤ پھر بھی اللہ اس پر قادر ہے کہ تمہیں اٹھا کر
رہے گا۔
سورة الإسراء ( 17 )
وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا
لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا {49} قُل كُونُواْ حِجَارَةً أَوْ
حَدِيدًا {50} أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ
فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ
مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُؤُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ
قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيبًا {51} يَوْمَ يَدْعُوكُمْ
فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ
قَلِيلاً {52}
وہ کہتےہیں”جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے
سرے سے پیدا کر کے اُٹھائے جائیں گے؟“______ان سے کہو”تم پتھر یا لوہا
بھی ہو جاؤ، یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبولِ
حیات سے بعید تر ہو“(پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے)۔ وہ ضرور پوچھیں
گے”کون ہے جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟“جواب میں کہو”وہی
جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا۔“ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے”اچھا، تو
یہ ہوگا کب“؟تم کہو”کیا عجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو۔ جس روز وہ
تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل
آؤ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت
میں پڑے رہے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ مضمون دائرہ عام ہی میں ہے اور حقوق طبع سے
آزاد ہے کوئی بھی شخص اس کو تبدیل کیے بغیر کہیں بھی شائع کر سکتا ہے۔ |