کا فی عرصہ پرانی ایک بات یاد آ رہی ہے ایک دوست کے ہاں
گیا ہو ا تھا ان کے گھر کے قر یب تقریبا ً 30 کلو میٹر دور ایک پہاڑی سلسلہ
شروع ہو تا ہے جس کی سیر کے غرض سے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر دوپہر کے
بعد عصرکے قریبی وقت کے نزدیک اس کے گھر سے روانہ ہو تے ہیں راستے میں کہیں
کہیں ہر یا لی تھی اکثرجگہوں پر خشک میدان تھا کچھ دیر کے بعد ہم پہا ڑی
سلسلے میں داخل ہو گئے اس دن مو سم بھی ابر آلود تھا بس ہم نے پہلا پہاڑ
عبور ہی کیا تھا کہ مو سلادھاربارش نے ہما را استقبال کیا خیر گرمیوں کا مو
سم تھا ہم کچھ بھیگ تو گئے پر پہاڑ کو کاٹ کر بنا ئی جانے والی سٹرک کی وجہ
سے ہم کچھ دیر کٹے پہاڑ کے اوٹ بیٹھ گئے جس کی وجہ سے ہم زیادہ بھیگنے سے
بچ گئے بارش روکنے کے بعد میرے دوست نے بتا یا کہ ہمیں اب فوراً واپسی کی
راہ لینی ہو گی کیونکہ راستے میں پڑنے والی ندی کا پل بھی نہیں اور بارش کا
پا نی یہاں پر مختلف ندیوں سے بہاتے ہو اس ند ی سے ایک ساتھ گز رتا ہے وہ
ریلے کی شکل اختیا رکر لیتا ہے اور مغرب کا وقت بھی ہو نے والا ہے ندی
اجالے میں پار کر لیں اندھیرہ چھا گیا تو کا فی مشکل ہو گی ہم دونوں وہا ں
سے چل دیے جب ندی کے پاس آئے تو ند ی سے کا فی شور سے پا نی بہاے رہا تھا
ہم دونو ں اﷲ کا نا م لے کر ندی پارکرنے کے لئے قدم بڑھا نا شروع کر دیے
خیر اﷲ اﷲ کر کے ہم نے ندی پا ر کر لی اب کیچڑ کی وجہ سے آہستہ آہستہ رفتار
سے اپنا سفر طے کر نے لگے اب ندی پا ر کرتے ہو ئے دن بھی ڈھل گیا تھا اب
راستے میں مکمل اندھیرا چھا گیا تھا ان دونوں اس پہاڑی علاقے کی سڑک کی
تعمیر ہو رہی تھی جس کی وجہ سے سڑک تعمیر کرنے والی کمپنی کا کمیپ ہمیں
راستے میں پڑتا تھا جب ہم کیمپ کے پاس آئے تو میرے دوست کا ایک جا نے والا
اس کیمپ کے آگے مل گیا اس سے دعاسلام کے رکے تو اس کے کیمپ سے ایک آواز
مسلسل ہما رے کا نوں میں گو نج رہی تھی میرے دوست نے اس آدمی سے پوچھا یہ
کیس آواز ہے ایسا لگتا ہے کوئی کسی کو ما ر رہا ہے یا کوئی چیز زمین پر
مسلسل دے ماری جا رہی ہے وہ ہمارے سوال کرنے پر قہقہ لگا کر ہنس دیا ہم
دونوں اب اس کے منہ کو تک رہے ہیں ایسی کیا با ت ہے یہ ہنس رہا ہے اس نے
اپنی ہنسی کو بریک لگائی اوراس نے بتایا یہاں پر ایک مز دور ہے جو سارا دن
پتھر توڑتا ہے جب سب شام کو کام سے فارغ ہو کر آتے ہیں کھانا وغیر ہ کھا کر
سب ایک ساتھ جمع ہو جا تے ہیں تواس مزدور نے ایک جگہ مقر ر کی ہو ئی جس پر
وہ آرام سے لیٹ جا تا ہے اور سب مزدور اس کے بنا ئے گئے چھتر جو ہو
بہوتھانے کے چھتر سے مشاہبت رکھتا ہے باری باری اس کی تشریف پر چھترول کر
تے ہیں ہمیں یہ بات سن تعجب ہو اور ہنسی بھی آئی بھلا یہ کیا مشغلہ ہے
چھترول کروانے کا ہم نے یہ سوال اس آدمی سے کیا تو اس نے جو اباً ہمیں
بتلایا کہ دراصل یہ مزدور کہتا ہے کہ میں نے ڈاکو بنا ہے جسکے لئے وہ تھا
نے سے ما رکھا نے کی تربیت کر رہا ہے کہ کسی بھی واردات کے بعد اگر پکڑا جا
ؤ تو تھا نے کی چھترول پرتو صحت جر م سے انکاری رہوں اور اس غرض سے اپنی
قوت برداشت میں آـضافہ کر رہا ہے ہم نے سوچا بھلا یہ کو ئی با ت ہے یہ تو
عجیب احمق انسان ہے کہ ڈاکوں اور چور بنے کے لئے مار کھا نے کی تربیت کی
کیا ضرورت ہے اور اس کام کے لئے کسی تجربے کی کیا ضرورت ہے بچپن میں کی جا
نے والی چھو ٹی موٹی چوری چکاری ہی انسا ن کا چورڈا کو بنے کا اصلی تجربہ
ہوتی ہیں اس کے علاوہ کچھ بڑا ہو ا تو ڈانڈا پستول لے کر کام کی شروعات کی
جا تی ہے بس پھر چورسپاہی کا کھیل شروع ہو جاتا ہے اس پکڑا پکڑی میں
مارکھاکر تجربے میں مزید آضافہ کیا جا تا ہے اب اس احمق کو دیکھوشروعات ہی
مار کھا نے سے کر رہا تو اس نے کا میا ب خا ک ہو نا ہے اس بچا رے بھولے
زتربیت ڈاکو کو کیا پتہ کہ مارکوٹائی سے بچنے کے لئے ایک چوروں کی نا نی
تلاش کی جا تی ہے جو چوروں اور ڈاکیوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے ویسے تو
بالی وڈ کی ایک فلم تھی جس میں چوروں کی را نی ہو تی ہے پر وہ الگ قسم کے
تعلق رکھتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اور حقیقت میں چوروں کی رانی نہیں نا
نی ہو تی ہے اب تک بات ہو رہی ڈاکوں بنے کی اور اصلی ڈاکو کی ہمارے معاشرے
میں ڈاکو کی ایک اور قسم بھی ہے پہلے والی قسم کی چوری کرنے کی تربیت بچپن
سے ہو چکی ہوتی ہے اور بچپن میں وہ گندے بچوں کی فہر ست میں شامل ہو تے ہیں
پر یہ والے ڈا کو بچپن میں نہا یت ہی شریف اچھے بچے ہو تے ہیں پڑھائی میں
اچھے ہو تے ہیں ماں باپ ان پر پیسہ بھی خرچ کر تے ہیں اور ساتھ ہی ان کے
لئے ڈھیر ساری دعائیں کر تے ہیں پیر سے ان کی کا میا ب کے لئے تعویز بھی لا
ئے جا تے ہیں بچپن میں یہ اسلحہ اور دیگر گندی چیز وں سے بھی دور رہتے ہیں
اب آپ بھی حیران ہو رہے ہو نگے گے یہ کیسے ڈا کو ہیں جن کے پاس اسلحہ بھی
نہیں ہو تا پھر بھی یہ لو گوں کو لوٹ لیتے ہیں ان کے والدین دعا کر تے ہیں
پیسہ خرچ کر تے ہیں پھر بھی یہ ڈا کو کیسے بن گئے ہیں اب ذرا غور فر ما ئیں
جب ایک بچہ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک بہترین نمبروں سے پاس ہو
تا ہے والدین کا دعا ئیں اور پیسہ اور استا تذہ کی محنت کے بل پر وہ کسی
عہدے کو حاصل کرنے میں کا میا ب ہو جا تا ہے اس کے والدین کے خواب پور ے ہو
جاتے ہیں جب وہ اپنے عہدے کا نا جا ئز اورغلط استعما ل کرتے ہو ئے عام مصوم
ہم وطنوں سے پیسے بٹو رتا ہے اب آپ ہی خو د فیصلہ کر یں جب ایک ڈاکو اسلحہ
کے زور اور بدمعاشی کی بنیا د پر لوٹ ما ر کر تا ہے اور یہ اپنے عہد ے کی
وجہ سے لو ٹ ما ر کر تا ہے تو اس میں اور اس میں کیا فر ق رہے جا تا ہے وہ
ڈاکو تو ایک جا ہل ان بڑھ اور شاید اس کے لئے والد ین نے دعا نہیں بد دعا
کی ہو گی جس کے نتیجے سے وہ ڈاکو بنا پر ان کو کیا ہو ان کے لئے والد ین
ڈھیرساری دعائیں ما نگی ہو نگی اور اعلی تعلیمی اداروں سے لی گئی تعلیم اور
تربیت نے یہی کچھ تو نہیں سیکھایا ہو گا کہ ایسے ہی لو ٹ ما ر کر نی ہے اب
اس ڈاکو کی کما ئی نا جا ئز ہے تو ان حضرات کی کمائی نا جا ئز اورحرام ہے
جو عام لوگوں کو لوٹ کر کما ئی جا ئے جب روزی حرام طر یقے سے کما نی تھی تو
یہ سب کرنے اور اتنی محنت کی کیا ضرورت تھی پھر بن جا تے کو ئی چور اور ڈا
کو مجھے تو اس احمق ڈاکو اور ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا جو واردات سے
پہلے ما ر کھا نے کی تربیت حا صل کر تا ہے اور یہ وردات کے کر نے لئے تعلیم
حاصل کر تے ہیں محنت کر تے ہیں پھر یہ سب عجیب ڈاکو ہیں
|