نفسِ ذکیہ - قسط 4

عصر سے کچھ پہلے ہم مکلی کے قبرستان پہنچ گئے۔ جیسا سوچا تھا ویسا ہی پایا…… وہی قدیم، پرسرار ماحول…… پیلے پیلے پتھروں سے بنی قبریں …… جن پر پرانے طرز کے نقش و نگار کندہ کئے گئے تھے۔ قبرستان میں داخل ہوتے ہی ہم نے ایک بورڈ پڑھا جس پر لکھا تھا :

مکلی کا شہرِ خموشاں
بزرگانِ دین، امراء، وزراء اور شاہانِ سلف کے قدیم مقابر

یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا قبرستان تھا۔ ہم بورڈ پڑھ کر قبرستان میں داخل ہوئے۔ ایک طرف ایک جوس بیچنے والا جوس بیچ رہا تھا…… ایک طرف ایک سپیرا سانپ اور نیولے کی لڑائی کروا رہا تھا…… اور دور کہیں سے کسی کے گانے کی آواز آ رہی تھی۔ کوئی بنجارن قسم کی عورت شاید سندھی میں کوئی لوک گیت گا رہی تھی۔ بڑا پر کشش ماحول تھا۔

میں نے جلدی جلدی آگے بڑھ کر کچھ قبروں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ دلاور اور مجدی بھی میرے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ وہاں قبرستان میں بہت سے ہال نما خوبصورت کمرے بھی تھے جن کے اندر شاید ایک ہی خاندان کے افراد دفن تھے۔ میں دل میں سوچنے لگا کہ مجھے یہاں اکیلے ہی آنا چائیے تھا۔ تا کہ میں مزے سے یہاں ان پرسرار قبروں کے بیچ میں بھٹکتا رہتا …… جیسے کوئی روح بھٹکتی ہے۔

غیر ارادی طور پر میرے دل میں ایسے خیال آنے لگے۔ جیسے میں کوئی آوارہ ، بے پرواہ ذات ہوں…… جو ویرانوں ، قبرستانوں میں دیوانہ وار بھٹکتی پھرتی ہے۔ تھوڑا آگے ہمیں ایک بڑا سا گہرا زمین بوس کمرہ نظر آیا……
’’یہ کیا ہے؟؟؟‘‘ میں نے اس زمین میں کھود کر بنے ہال نما کمرے میں نیچے جھانک کر دیکھا اورکہا۔
’’پتا نہیں‘‘ مجدی نے منہ ٹیڑھا کر کے کہا۔

’’یہاں چلہ کیا جاتا ہے…… چلہ……‘‘ دو اور افراد جو اس کمرے میں جھانک رہے تھے میری بات سن کر بولے۔
’’چلہ……!!!‘‘
’’کیسا چلہ؟؟؟‘‘ میں نے انہی سے پوچھ لیا۔

’’ چلہ…… بھائی جان……! رات کو ادھر جادوگر وغیرہ آتے ہیں اور چلہ کاٹتے ہیں‘‘۔ وہی شخص بولا۔
’’ہیں!!!‘‘ میری آنکھیں پھٹ گئیں۔

’’جی جی!!! یہ تو قبرستان ہے…… ادھر تو بہت سے جنات…… بھوت ووت پھرتے رہتے ہیں……‘‘
’’اچھا!‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔

میں غور سے اس زمین میں دھنسے کمرے کو دیکھنے لگا ۔ اس پر چھت نہیں تھی۔ جیسے کوئی بنا چھت کے چھوٹا سا انڈر گراؤنڈ گو دام ہو۔کمرہ چوکور نہیں بلکہ گول تھا۔ اس کی دیواروں میں بڑے بڑے خانے بنے ہوئے تھے۔ جیسے وہ خانے کسی کے چونکڑا مار کر بیٹھنے کے لئے بنائے گئے ہوں۔ ایک طرف کو مجھے کچھ کالا کالا پڑا ہوا نظر آیا۔

’’ارے یار وہ دیکھو! وہ کسی نے لکڑیاں جلائیں ہیں‘‘۔ میں نے کہا ۔
’’ہاں!‘‘
’’اس کا مطلب ہے واقعی یہاں رات کو کوئی آتا ہے اور لکڑیاں جلا کر یہاں بیٹھتا ہے‘‘۔ دلاور نے وضاحت کی۔
’’ہم م م……‘‘
’’چلو بھئی چلو یہاں سے……‘‘ مجدی بولا اور پیجھے کو ہٹا۔ مگر مجھے تو اب اس جگہ میں اور ذیادہ دلچسپی ہو گئی تھی۔
’’رکو یار! دیکھنے تو دو……‘‘ میں نے کہا اور وہیں رکا رہا۔مجدی اور دلاور آگے بڑھ گئے۔

’’آ جاؤ یار اب…… تمہیں بھی چلہ کاٹنا ہے کیا؟‘‘ دلاور نے پیجھے مڑ کر مجھے پکارا اور مسکرانے لگا۔
’’چلو یار کھانا کھاتے ہیں…… دوپہر سے بھوکے ہیں……‘‘ مجدی نے یہ کہہ کر اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگ میں سے کچھ بسکٹ کے پیکٹ اور جوس نکالے۔

میں بھی ان کی طرف بڑھا اور جوس اور بسکٹ لے لئے۔
’’ایساکرتا ہوں میں کھانا لے کے آتا ہوں۔ تم لوگ یہیں بیٹھو……‘‘ میں نے کہا اور چلتا بنا۔
’’مگر کہاں سے لاؤ گے؟؟؟‘‘
’’یار مجھے یاد ہے …… یہاں ایک مزار ہے ۔ اس کے پاس سے مل جائے گا کچھ نا کچھ کھانے کو……‘‘۔ بچپن میں جب میں یہاں آیا تھا تو اس مزار پر بھی گیا تھا اس لئے مجھے یاد تھا۔

میں اکیلا قبرستان کے ایک طرف بڑھنے لگا۔ کچھ دیر ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے اپنے بائیں طرف ایک خوبصورت مقبرہ نظر آیا۔ بڑی کشش تھی اس عمارت میں۔ خود با خود ہی میرے قدم اس طرف مڑ گئے۔

یہ ایک بڑا خوبصورت مقبرہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی چھوٹی سی حویلی ہو۔ وہی پرانے طرز کے پر کشش اور پیچیدہ نقش و نگار…… بالکونی…… بر آمدہ……وہ مقبرہ چار دیواری میں تھا۔ اندر چھاڑیاں اگی ہوئیں تھی۔میں تنہا اس کی چار دیواری کے اندر چلا گیا۔ بالکل سناٹا تھا۔ اس طرف کسی کا گزر نہیں تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ جیسے ہی میں ایک قدم لیتا پاؤ ں کے نیچے سوکھی جڑی بوٹیوں کے ٹوٹنے کی پرسرار آواز آتی۔

اب مجھے حقیقی معنوں میں وہ احساس ہونے لگا جس کی تلاش میں میں یہاں آیا تھا۔دنیا میں اکیلے پن کا احساس…… گوشہ نشینی کا احساس…… کنارہ کشی کا احساس……

کوئی مجھے وہاں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کر رہا ہو۔ میں نے ایک ایک کر کے مقبرے کے صحن میں بنی چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں جو مقبرے کے اندرونی حصے میں جاتیں تھیں۔ جہاں قبریں بنی ہوئیں تھیں۔ میں گھور گھور کے اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے مقبرے پہ بنے نقش و نگار کا جائزہ لیتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔

مقبرے کے اندر داخل ہونے سے پہلے میں تھوڑا رکا۔ ایک انجانہ سا خوف میرے تن بدن میں سرائیت کر گیا۔ مقبرے کے اندرونی حصے میں باہر کی نسبت اندھیرا تھا۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور ایک قدم مقبرے کے اندر رکھ دیا اور وہیں جم کے کھڑا ہو گیا۔ ہمت نہیں ہو رہی تھی کے اندر تک چلا جاؤں…… بالکل سناٹا تھا۔ مجھے ڈر سا لگنے لگا۔ میں وہیں کھڑا گھور گھور کر ان قبروں کو دیکھنے لگا۔وہاں کوئی پانچ بڑی بڑی قبریں بنی ہوئیں تھی۔ چھت بہت اونچی تھی۔ چند ایک روشندان بھی اس میں بنے تھے مگر شام ہونے کی وجہ سے بہت کم روشنی اندر آ رہی تھی۔

میں نے ایک اور قدم اندر بڑھایا اور پھر ایک اور قدم…… قبریں میرے بالکل سامنے تھیں…… میں نے قبروں کو آگے بڑھ کر چھو لیا۔ اب میں قدرے بے خوف ہو چکا تھا…… اور کسی پر تجسس شخص کی طرح قبروں کو اوپر نیچے سے غور غور سے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی آرکیولوجسٹ ہوں…… اب واپس جانا تھا۔ میں بے پرواہی سے پلٹا اور……

’’آ آ آ……‘‘۔ میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکل گئی۔
میرے پیچھے مقبرے کے دروازے کے بائیں جانب کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ میں قبر پر ہی گر گیا۔ میری سانسیں اکھڑ گئیں۔

وہ کوئی بہت اونچے قد کا، کالا سا چوغا پہنے ہوئے بیٹھا تھا…… گلے میں بہت سی مالائیں…… آنکھیں بند…… کاندھے پر ایک پرانا ہرے رنگ کا کپڑا پڑا ہوا تھا۔ میں تو سیدھا سیدھا اندر آ گیا تھا۔ اپنے دائیں بائیں میں نے دیکھا ہی نہ تھا۔ میں ڈر کے مارے کانپنے لگا۔ کیسے میں بھاگ کر باہر نکلتا وہ دروازے پر ہی تو بیٹھا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور دوڑ کر قبروں کے پیچھے چلا گیا۔ مجھے لگا کہ ابھی وہ اٹھ کے میری طرف بڑھے گا مگر وہ تو ساکت اپنی جگہ پہ بت بنا بیٹھا تھا۔

’’یا اﷲ مدد!‘‘ میرے منہ سے نکلا …… خوف کے مارے میرا دم نکلا جا رہا تھا۔ سانسیں چڑھیں ہوئیں تھیں۔
’’یہ کون ہے؟؟؟‘‘
’’یہاں اکیلا بیٹھا کیا کر رہا ہے؟؟؟‘‘
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ میں وہیں دبک کر بیٹھ گیا کہ دروازے کی اور بڑھنے کی تو میری ہمت نہ تھی۔ وہ ملنگ نما شخص اسی حالت میں جما ہوا تھا۔ جیسے اسے پتا ہی نہ ہو کہ اس کے آس پاس بھی کوئی ہے۔ کوئی چیخا ہے…… کوئی گرا ہے……کوئی بھاگا ہے……

میں گھور گھور کے اسے دیکھ رہاتھا اور مقبرے سے نکلنے کے لئے ہمت جمع کر رہا تھا۔

چند منٹ بعد میں نے کچھ ہمت کی اور اپنی جگہ کھڑا ہوا۔ بار بار خیال آتا کہ ابھی یہ اٹھے گا اور مجھے دبوچ لے گا۔مگر پھر میں ہمت کرتا اور اپنے آپ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا……

میں ایک قدم آگے بڑھے…… چار و نا چار مجھے اس ہی دروازے سے نکلنا تھا۔ دروازہ میرے عین سامنے تھا اور وہ بھی ساتھ ہی بیٹھا تھا…… میں نے ایک اڑان بھری …… بہت بڑے بڑے قدم اٹھا کر بھاگا اور اس کے قریب پہنچ کر باہر چلانگ لگا دی۔ میں باہر سیڑھیوں پر گِر گیا۔ پر اپنے درد کی پرواہ کئے بغیر وہاں سے اٹھا اور باہر کو دور تک بھاگتا چلا گیا۔

’’ذولقر…… ذولقر!!!‘‘ کوئی پیچھے سے مجھے زور زور سے پکار رہا تھا۔ میں اورتیز بھاگنے لگا۔ مجھے لگا جیسے وہی میرا پیچھا کر رہا ہے۔
’’ذولقر ذولقر…… رکو…… کہاں بھاگ رہے ہو؟؟؟‘‘ اب میرے کانوں نے یہ آوازیں پہچان لیں۔
میری رفتار دھیمی ہونے لگی۔ میں لڑھکتا ہوا ایک قبر کے پاس جا رکا اور وہیں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ میں گہری گہری سانسیں لے رہاتھا۔ مجدی اور دلاور بھی بھاگتے بھاگتے میرے پاس پہنچ گئے۔

’’کیا ہوا!!! کہاں بھاگ رہے تھے؟؟؟‘‘ مجدی اور دلاور کا سانس بھی پھولا ہوا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر مجھ سے پوچھنے لگے۔
’’کیا ہوا؟؟ بولو؟؟؟‘‘ ان دونوں کی آنکھیں پھٹی ہوئیں تھیں۔ ماتھے پر بل پڑے ہوئے تھے۔
’’بولو ذولقر…… کیوں بھاگ رہے تھے؟؟؟ ‘‘ وہ دونوں بھی میرے ساتھ ہی قبر پر ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گئے۔

’’چلو چلیں یہاں سے…… ‘‘
‘‘بہت ہو گئی تفریح……‘‘ دلاور نے بے زار ہو کر کہا اور منہ سے گالیاں بھی نکالنے لگا۔
مغرب کا وقت ہونے کو تھا۔
قبرستان سے نکلتے نکلتے اندھیرا ہو جاتا۔
’’چلو! جلدی اٹھو……‘‘ مجدی نے کہا۔ دونوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے ساتھ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آیا ہے۔انہوں نے مجھے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا۔ میں جان لگا کر مشکل سے اٹھا اور چھوٹے جھوٹے قدم لیتا ان کے ساتھ ایک طرف کو بڑھنے لگا۔

مزار قریب ہی تھا اور اس پر روشنی بھی ہو رہی تھی۔ ہم سب نے اپنی رفتار بڑھائی اور مزار کی طرف بڑھنے لگے۔ سب کے دماغ بند تھے۔ ہم تینوں چپ چاپ ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے چل رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔

گرمیوں کے دن تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ہم بچے تو روزے نہیں رکھتے تھے۔ مگر امی ابو رکھتے تھے۔ بازار میں آم آئے ہوئے تھے۔ پاکستان کے لذیز آم تو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ مجھے بھی آم بہت پسند تھے اور ابو کو بھی……
ابو نے میرا ہاتھ پکڑا اور افطاری سے پہلے بازار کی طرف نکلے۔ میں بھی بڑا خوش تھا کہ ابو کے ساتھ بازار جا رہا ہوں۔ مزے مزے کی چیزیں خریدوں گا۔ اپنی پسند کی ہر چیز پر ہاتھ مار مارکے ابو کو کہوں گا کہ مجھے یہ بھی دلائیں …… وہ بھی دلائیں…… چیز ملتی نہ ملتی یہ الگ بات تھی……

ابو جی نے آم ، آلو بخارے اور کچھ اور مزیدار فروٹ خریدے۔ میں تو اسی پر خوش تھا کہ آج آم کھانے کو ملیں گے۔ سال میں ایک ہی بار تو آموں کا موسم آتا ہے…… اور آج پہلا دن تھا کہ ہمارے گھر آم آ رہے تھے۔

ابو نے آموں کے ساتھ دودھ کی کچی لسی بھی بنوائی تا کہ ہم بچوں پر آموں کی گرم تاثیر سے دانے وانے نہ چڑھ جائیں۔

آدھے گھنٹے بعد افطاری کا ٹائم تھا۔ ابو جلدی جلدی آم کاٹ رہے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کا روزہ تو تھا نہیں…… ابو افطار سے پہلے ہی ہمیں پھل کاٹ کاٹ کر دے دیتے اور ہم شکریہ ادا کئے بغیر جو کچھ ابو دیتے منہ میں ٹھونس لیتے……

دل تو چاہ رہا تھا کہ سارے آم میں خود ہی کھا جاؤ ں مگر باقی چھوٹے بہن بھائی بھی حصہ دار تھے۔
آذان کی آوازیں آئیں اور امی ابو اور ہم سب بچے بھی کھانے پینے کی چیزوں پر ٹوٹ پڑے۔ ابو امی اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ کسی بچے کو کوئی چیز کم ذیادہ نہ ملے۔ سب کا برابر کا حصہ ہوتا۔ مگر میں کیونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا لہذا جلدی جلدی کھاتا …… اور اکثر چھوٹے بچوں کی چیزیں بھی ہڑپ کر جاتا…… آج بھی میں اسی چکر میں لگا تھا کہ ذیادہ سے ذیادہ آم میں کھا لوں…… ابو مجھے دیکھ رہے تھے اور کچھ کہے بغیر خود پھل اٹھا اٹھا کر چھوٹے بھائی بہن کو دے دیتے……

آم کی آخری قاش چھوٹے بھائی کا حصہ تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر اٹھانا چاہا اور میں نے اس سے پہلے اچک کر اس کا چکھ لے لیا۔ ابو کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔
’’پٹاخ!!!‘‘ کی آواز کے ساتھ ابو نے میرے سر پر پیچھے سے ایک ہاتھ مارا۔ میں وہیں کا وہیں جم کر کھڑا ہو گیا۔ میرا منہ لٹک گیا۔ چبانا بھول گیا۔ آنکھوں میں پانی بھر آیا۔

’’چھوٹے بھائی کو کچھ نہیں دو گے؟؟؟‘‘ ابو نے ڈانٹ کر کرخت آواز میں کہا۔ میں نے آم کی قاش ٹیبل پر واپس رکھ دی۔ اور اپنے چہرے کے اس طرف ہاتھ رکھ لیا جہاں ابو بیٹھے تھے کہ کہیں ابو منہ پر تھپڑ نہ مار دیں۔

’’……جیسے ہی وہ ہاتھ بڑھاتا ہے یہ اٹھا کے کھا لیتا ہے……‘‘ ابو نے پھر ڈانٹا۔ میں چھوٹے بھائی کا حصہ اس کے ہاتھ بڑھانے سے پہلے ہی کھا جاتا۔
میرے رونے کی آواز نہیں نکلی مگر آنکھوں سے ایک موٹا آنسو گر گیا۔
’’بیٹا ایسے نہیں کرتے……‘‘۔ میں نے امی کی طرف دیکھا کہ شاید وہ میرے حق میں کچھ بولیں مگر انہوں نے بھی نصیحت کر دی۔

میں پیٹھ پھیر کر چھوٹے جھوٹے قدم چلتا کمرے سے باہر نکلا۔ ابو امی مجھے پیچھے سے دیکھتے رہے۔ پھر افطاری میں مشغول ہو گئے۔ گرمیوں کے روزے ویسے ہی بہت بڑے ہوتے ہیں۔

آم کا ٹکڑا میرے منہ میں ہی تھا۔ اب دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ اسے چبا کر حلق سے نیچے اتار لوں۔ گھر کے تمام افراد افطاری میں ہی مشغول تھے۔ میں ہی اکیلا رو رہا تھا۔ مجھے کچھ اور نہ سوجا اور میں دروازہ کھول کے گھر سے باہر نکل گیا۔

گھر سے باہر نکلتے ہی میں نے آہیں بھر بھر کے رونا شروع کر دیا۔ میری یہی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے جذبات سب سے پوشیدہ رکھوں……
مغرب کا وقت تھا۔ اندھیرا روشنی پر غالب آ رہا تھا۔ یہ وقت ویسے بھی بڑا پرسرار ہوتا ہے اور رمضانوں کے دنوں میں افطاری کے وقت باہر نکلو تو ایسا سناٹاتا ہوتا ہے جیسے دنیا میں کوئی انسان جیتا ہی نہ ہو۔ ہمارا علاقہ تو ویسے بھی ویران تھا۔ کیونکہ یہاں ابھی اتنی آبادی نہیں ہوئی تھی۔
پہاڑی قسم کا علاقہ تھا…… اور جا بجا کیکر اور دوسرے جنگلی درخت اور پودے اُگے ہوتے تھے۔

میں کوئی نو سال کا بچہ ہونگا اس وقت…… گھر سے ناراض ہو کر روتا ہوا اکیلا نکل آیا تھا۔ سڑکیں سنسان پڑیں تھیں…… سب لوگ افطاری کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

میں تن تنہا کیکر اور جنگلی پودوں کے بیچ گزرتی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر چلنے لگا۔
’’میں اب اس گھر میں واپس نہیں جاؤ گا……‘‘ میں رو رو کر اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔
’’یہ لوگ مجھے پیار نہیں کرتے……‘‘
’’مجھے کھانے بھی نہیں دیتے……‘‘ میں نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے گالوں پر بہتے آنسو صاف کئے۔

’’اﷲ تعالی! آپ نے مجھے ایسے گھر میں کیوں پیدا کیا ہے؟؟؟‘‘
’’اب میں وہاں واپس نہیں جاؤ گا……‘‘ رونے کی وجہ سے میں مکمل جملہ بھی نہ کہہ پاتا۔
’’کوئی میرا خیال نہیں رکھتا…… کوئی مجھے سے پیار نہیں کرتا……‘‘میں چھوٹاسا بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر اﷲ سے شکوہ کرنے لگا۔
’’اﷲ تعالی ! مسجد میں بھی وہ لڑکا میرے ساتھ گندی گندی حرکتیں کرتا ہے……‘‘مجھے اس لڑکے کا مجھے ہراساں کرنا بھی یاد آ گیا۔ میں خوب سسکیاں لے لے کے رو رہا تھا۔
’’اﷲ تعالی!آپ نے مجھے کیوں پیدا کیا ہے……‘‘
’’آپ مجھے کیوں نہیں بچاتے؟؟؟‘‘

’’بس میں اب ادھر ہی رہوں گا…… میں گھر نہیں جاؤں گا ‘‘ ۔مجھے ایک طرف ایک بڑی سی خالی جگہ نظر آ گئی جو سڑک کے کنارے ہی بنی ہوئی تھی۔ میں وہاں ایک بہت بڑے پہاڑی پتھر کے پیچھے جا کے بیٹھ گیا۔ پتھر کے پیچھے سڑک تھی اور جس طرف منہ کر کے میں بیٹھا ہوا تھا وہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں اور چھوٹے بڑے پہاڑی پتھر پڑے تھے۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ میں دبک کر پہاڑی پتھر کے پیچھے بیٹھ گیا۔

’’بس میں یہیں چھپ کر بیٹھا رہوں گا…… یہی میرا گھر ہے‘‘ ۔
’’میرا کوئی نہیں ہے ……‘‘ ۔میں آسمان پر نمودار ہونے والے ستاروں کو دیکھنے لگا۔

رات ہو گئی۔ اب مجھے تھوڑا تھوڑا ڈر لگنے لگا۔کبھی کبھی لوگوں کے چلنے کی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی جو شاید مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر واپس آ رہے تھے۔ جونہی مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی میں بت بن کر بیٹھ جاتا کہ کہیں ابو نہ ہوں اور وہ مجھے ڈھونڈ نہ لیں۔

مجھے ڈر بھی لگا رہا تھا کہ اب تک تو ابو مجھے ڈھونڈنے نکل بھی گئے ہونگے اور اگر انہوں نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے فوراََ ماریں گے۔

میں وہیں بیٹھا کا بیٹھا رہا۔ اب تک تو رو دھو کردل کی بھڑاس خوب نکل چکی تھی۔ اﷲ میاں سے بھی خوب شکوے شکایات ہو چکیں تھی۔ سمجھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جاؤں……
وہیں دبک کر کب تک بیٹھا رہتا!!!

میں نے سوچا کہ ابو کے ڈھونڈنے سے پہلے ہی خود گھر چلا جاتا ہوں۔ وہاں چھت پر جا بیٹھوں گا۔ جب گھر والے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائیں گے تو نیچے آ جاؤں گا اور کہہ دوں گا کہ میں تو چھت پہ تھا باہر تھوڑی گیا تھا…… اس طرح امی ابو کی مار سے بھی بچ جاؤں گا اور وہ لوگ بھی مجھے دیر تک ڈھونڈتے رہیں گے۔

میں نے ایسا ہی کیا اور چھپ چھپ کر گھر کے پاس پہنچا ۔ دروازہ کھلا ہی تھا۔ میں خاموشی سے گھر میں گھس کر چھت پر جا بیٹھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85368 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More