تیرویں صدی عسیوی کا دور اس ہی طرح باری تھا مسلمانوں پر
جس طرح آج کی صدی باری ہے مسلمانوں پر، اس وقت کا ایک مشہور واقعہ ہیں کہ
لوگ اسلام کو بھلا کر عیش پرستی میں مبتلا ہو رہے تھے۔اﷲ کے نیک بندے لوگوں
کو سمجھا رہے تھے کہ دیکھو تو یہ کرو اﷲ سے معافی مانگ لو اﷲ کو ناراض نہ
کرو لیکن وہ لوگ بھی کچھ ہمارے جیسے ہی تھے ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی
وہ اپنی عیاشیوں میں مصروف رہے بلکہ آگے ہی آگے نکلتے گئے اور دین سے دور
سے دور ہونے لگے اﷲ کے نیک بندے اپنی پوری کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح یہ لوگ
اﷲ کی طرف لوٹ آئیں لیکن کہاں۔حتی کہ وہ وقت بھی آپہنچا کہ کئی نیک اور دین
دار لوگ الگ ہو گئے اور بستی سے دو ر جا بسے اور بہت کو نامعلوم افراد نے
شہید کردیا،جب کہ لوگوں کو کیا فکر تھی وہ تو اپنی عیاشیوں میں آوارہ گردی
میں مست تھے کچھ عرصہ تو ایسے ہی گزر گیا۔پھر کچھ عرصہ بعد کسی درویش نے ان
لوگوں کی شراب و مسرور کی محفلوں میں آکر آوازیں لگانی شروع کر دیں۔
خون،لاشیں،عذاب۔ خون، لاشیں،عذاب۔ لوگ بھلا کیا سمجھتے۔وہ اسے دیوانہ سمجھ
کر نظر انداز کر دیتے۔ لیکن جب معمول بننے لگا تو لوگوں کو تھوڑا بہت خوف
محسوس ہونے لگا۔۔۔ آخر کار ایک دن وہ بھی آیا کہ لوگوں نے متفقہ فیصلہ کر
کے اس دیوانے کو گھیر کر مارنا شروع کر دیا پہلے وہ شخص کچھ ہنسا اور پھر
بڑی حسرت سے کہنے لگا افسوس! میں نے سمجھا نے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اب تو
خون، لاشیں،عذاب۔ لوگ خوفزدہ ہوئے لیکن پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے کہ اب
کوئی ہمیں ڈرانے کیلئے نہیں آئیگا۔کوئی ہمیں سمجھانے بھی نہیں آئے گا ۔اب
ہم اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں گے۔۔۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ اﷲ کو ناراض
کر کے انسان خوش رہ سکے مطمئن ہو سکے۔!پھر کچھ ہی عرصہ کے بعد تاتاری فتنہ
پھیلتا پھیلتا اس علاقہ تک پہنچا علاقہ کے لوگوں نے ڈراور خوف کے مارے شہر
کے دروازے بند کر لئے۔کچھ عرصہ تک لوگ سمجھتے ہوئے دبکے ہوئے شہر میں قید
رہے۔پھر کوئی اﷲ کا بندہ آیا اس نے شہر کے لوگوں کو یاد کروایا کہ کتنے نیک
لوگ اﷲ والے تمہیں سمجھاتے رہے تو بہ کی تاکید کرتے رہے لیکن تم نے ان کی
قدر نہ کی۔ یہاں تک کہ وہ تم سے مایوس ہو کر تمہیں چھوڑ کر چلے گئے۔کاش تم
نے ان کی مان لی ہوتی۔۔۔ یہ شخص رخصت ہونے لگا تو لوگوں نے منت سماجت شروع
کر دی خدا کیلئے ہمیں اس عذاب سے نجات دلاؤ وہ شخص کہنے لگا تم نے پہلے کسی
کی بات نہ مانی اب اس عذاب سے نجات چاہتے ہو؟!تم نے اﷲ کو ناراض کیا ہے؟اب
اﷲ کا عذاب بھی بھگتو۔ لوگ منت سماجت کرتے رہے تو اس بندے نے لوگوں کو ایک
نیک بند(بزرگ) کا پتہ بتلایا کہ فلاں جگہ ایک بزرگ رہتے ہیں۔ان کے پاس جا
کر ان سے دعاء کروا کر تم نے اﷲ والوں کو بھی اس قدر ناراض کر دیا کہ وہ سب
بھی بستی چھوڑ کر بستی سے دور جا بسے۔لوگ جیسے تیسے ان بزرگ کے پاس پہنچے
تو کہنے لگے کہ حضرت کچھ دعا کریں کہ اﷲ ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے۔بزرگ نے
لوگوں سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم نے اﷲ کو اس قدر ناراض
کر دیا ہے کہ کئی نیک لوگ اور بہت سے بزرگ بھی شہید کر دیئے گئے۔تم نے اﷲ
کو ناراض کیا ہے تو اﷲ کو جا کر مناؤ۔اﷲ ہی کچھ کر سکتا ہے۔لوگ ضد کرنے
لگے۔حضرت آپ دعا کر دیں۔بزرگ نے ناراضگی کے عالم میں مصلہ لیا اور پہاڑ کی
چوٹی کی طرف چلنے لگے لوگ پیچھے آنے لگے تو لوگوں کو روک دیا۔پہاڑ کی چوٹی
پر پہنچ کر انہوں نے مصلہ بچھایا اور نماز میں مشغول ہو گئے۔پہاڑ کی دوسری
جانب دشمن کی فوج نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا دشمن نے ان کو جاسوس گمان کر کے
مارنا چاہا لیکن کسی سے کمان نہ کھینچی گئی ہلاکو خان تک بات پہنچی تو اس
نے تیر چلائے لیکن کوئی تیر نشانے پر نہ لگا غصے سے آگ بگولہ ہو کر ہلاکو
خاں تلوار لیے گھوڑے پر سوار ہو کر چلا گھوڑے کے پاؤں زمین نے جکڑ لئے تو
پیدل دوڑا زمین نے اس کے پاؤں جکڑ لئے تو بدحواس ہو کر وہیں تلور چلائی
شروع کر دی اورآخر کار پکارنا شروع کردیا،،اے عظیم جادو گر ہمیں معلوم نہ
تھا کہ اس زمین پر تمہارا قبضہ ہے۔ہم یہاں سے جا رہے ہیں ہم آئندہ یہاں کا
رخ نہیں کریں گے زمین نے پاؤں چھوڑے تو اپنی فوج کو لیکر وہاں سے رفعت ہو
گیا۔لوگوں نے سکھ کا چین لیا اور جب بزرگ کاشکریہ ادا کرنے کیلئے ان کے
جھونپڑے کے پاس پہنچے تو لوگوں نے انہیں دعا مانگتے سنا اے اﷲ تو جانتا ہے
کہ میری تو کچھ اوقات نہیں تو نے لاج رکھ لی۔ یہ کوئی قصہ کہانی نہیں بلکہ
تاریخی حقیقت ہے یہ بزرگ تھے جن کو آج دنیا مولانا روم ٖؒکے نام سے جانتی
ہے۔ میں کس طرح تمہیں اپنا سینہ چیر کر دکھاؤں۔ میرا خون جلتا ہے۔میرا دل
خون کے آنسو روتا ہے۔میرا جگر چھلنی ہوجاتاہے اس دکھ سے۔لوگوں میں تمہیں کس
طرح بتاؤں کہ مجھے آج بھی حالات وہی نظر آرہے ہیں۔بزرگان دین علماء کرام ،کب
سے سمجھا رہے ہیں۔اﷲ کی طرف لوٹ آؤ۔ توبہ کر لو۔ توبہ کر لواﷲ ناراض ہو چکا
ہے۔اﷲ کومنالو کو راضی کر لو۔لیکن افسوس! ہم نے کیا کیا؟ہم نے ایک نہ سنی۔
ہم نے کسی نصیحت پر کان نہ دھرا۔۔۔ ہم نے کسی کی بات کی طرف توجہ نہ کی۔ ہم
نے دین داروں کا مذاق اڑایا۔ جو لوگ اﷲ کے گھروں کو بچانے کیلئے نکلے ہم نے
اپنی آنکھوں سے ان کو چھلنی ہوتے دیکھا،ان کی لاشوں کو تڑپادیا گیااور ہم
تبصریوں تک محدود رہے ۔(گویا اپنی باری کے انتظارمیں کھڑے رہے)ہم نے اپنے
سامنے اﷲ کے گھروں کو شہید ہوتے دیکھا۔ہم نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ہم نے اﷲ اور
اس کے رسولؐ کے دین کے پروانوں کو راستوں میں بکھرتے دیکھا۔ہمارے کانوں پر
جوں تک نہ رینگی۔ہم نے اپنے کانوں سے سنا۔ اپنی آنکھوں سے پڑھا کہ اسلام
دشمنوں نے دھمکی تھی کہ ہم پاکستان کا امن و امان تباہ و برباد کر دیں
گے۔لیکن ہر الزام ہم نے اپنوں پر تھونپا۔ہمیں معلوم ہے کہ قادیانی اسلام کے
مسلمانوں کے پاکستان کے اور پاکستانیوں کے ازلی اور جانی دشمن ہیں۔لیکن پھر
بھی ہم نے سانپوں کو ہی اپنا سمجھا جو ابھی بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں
جو ملک میں ہیں یا ملک سے باہر، حکومت ان کی چل رہی ہے جب ہم نے یہ سب کچھ
کیا۔ ہوتے دیکھا اور تماشائی بنے رہے تو کیا ہم پر آسمان سے پھول برسائے
جائیں گے۔نہیں میرے پیارو، نہیں یہ جو در غیر سے قاتل یہاں آئے بیٹھے ہیں
ان کے نام کچھ بھی ہوں بلیک واٹر ہوں امریکی سفارتخانہ کے اشاروں پر
دندنانے والے ہوں یاپھر ان کی شہہ پر شیر بننے والے اڑوس پڑوس کے غنڈے
ہوں۔یہ کچھ نہیں ہیں ۔لیکن خدا کیلئے اپنے اصلی دشمن کو پہچانو۔۔اپنے اﷲ کو
راضی کر لو مساجد و مدارس کو آباد کرنے والوں میں اپنا نام لکھوالو،ہم اپنی
آنکھوں سے آگ دیکھ رہے ہیں۔لاشیں بکھرتی دیکھ رہے ہیں۔گھر اجڑتے دیکھ رہے
ہیں۔اﷲ کی عذاب کی کئی صورتیں ہیں پہلے دہشتگردی اب حادثادت کئی جہاز گرتا
ہے تو کئی روڈایکسیڈنٹ یہ عذاب نہیں اور کیا ہے؟دنیا بھر کے مسائل اپنی طرف
آتے دیکھ رہے ہیں۔کب تک۔میرے عزیز و کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔ کب تک۔ ابھی
وقت ہے اﷲ کو منالو۔ابھی وقت ہے اﷲ کو راضی کر کے حالات بدلوانے کا۔ابھی
وقت ہے توبہ کا۔ میرے دوستو توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔کہیں دیر نہ ہو جائے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ ہم سب کو ہدایت نصیب کریں (آمین) |