خودی کو بیچ غلامی میں نام پیداکر
(Md Jahangir Hasan Misbahi, Mastung)
اقبال نے بطورنصیحت اپنے بیٹے جاویدکے لیے
ایک نظم کہی تھی اُسی نظم کا یہ شعر ہے کہ؎
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود کو بیچ غریبی میں نام پیدا کر
لفظ خودی کے معانی خودغرضی،انانیت ،غروروتکبر،خودشناسی وغیرہ ہیں۔لیکن
اقبال کے نزدیک خودی سے مراد غرورو تکبر، انانیت وغیرہ نہیں،بلکہ خودی
سےمراد خودداری ،لیاقت وصلاحیت،دیانت داری وغیرہ ہے،کیوں کہ اقبال جس ماحول
میں پلے، بڑھے اور جوان ہوئے وہ انتہائی پست فکری اور ذہنی غلامی کازمانہ
تھا،لوگ چندسکوں کے عوض اپنے ایمان و عقیدہ اوروطن عزیز کی آزادی کو بھی
قربان کردیتے تھے،چنانچہ اِنھیں سب باتوںسے دل برداشتہ ہوکراِقبال نے اپنے
بیٹے کےپردے میں پوری قوم کو یہ پیغام دیاکہ اے لوگو!اپنی فطرت کو
پہچانو،اپنی صلاحیت کو بروئےکار لاؤ، اورجس فرض منصبی کے لیےاللہ رب العزت
نے تمھیں بھیجاہے اُسےاداکرو،اور اس کے لیے اگر تمھیں گھربار بھی چھوڑنا
پڑے تو چھوڑدو،اور تخت وتاج سےبھی کنارہ کش ہونا پڑےتوہوجاؤ،لیکن کبھی بھی
اپنے ملک وملت اور ایمان وعقیدےکاسودا نہ کرو۔ اس طرح اقبال نے فطرت سلیمہ
پر قائم رہتے ہوئے شان ایمانی اوروطن دوستی کے ساتھ جینے کا نسخۂ کیمیا
عطاکیا،اور یہی طرزِزندگی اشرف المخلوقات کا خاصہ ہے۔
لیکن آج کل معاملہ اُس کےبرعکس ہے،ہم لوگ اَنانیت،خودی،خودغرضی
اورغروروتکبر کی زنجیروںمیں اس قدرجکڑگئے ہیںکہ نہ حق سننے کے لیے
تیارہیں،نہ حق بولنے کے لیے اورنہ ہی حق لکھنے کے لیے۔ بالخصوص مذہبی
قائدین اِس طرح کی بیماریوں میں کچھ زیادہ ہی گرفتارنظر آرہے ہیں۔ (الاماشاء
اللہ)اس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ایک طرف علمی و نظریاتی اختلافات کو
بنیاد بناکرہم آپسی رنجش اور ذاتی دشمنی کوہوا دے رہے ہیںتو دوسری طرف اِن
اختلافات کی وجہ سےعوام و خواص میںبھی عجیب سی بےچینی پائی جارہی ہے، جب کہ
یہ دونوں باتیںتحفظ دین اور بقائے اسلام کےلیے سخت نقصان دہ ہیں۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگرکوئی شخص بنیادی عقائدمیں سےکسی ایک بھی
عقیدے کا صریحاً انکارکرتا ہےتواِس بنیادپر اُسے دین سے خارج ماناجائے۔
لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ دین کےفروعی مسائل میں علمی ونظریاتی
اختلافات کی بنیادپر اُسے دین سے خارج سمجھا جائے؟ جب کہ ہمارے اکابر نے
علمی اختلافات کو نہ صرف سراہاہے،بلکہ اُسے قبول بھی کیاہے، اوریہ بھی
کہاہے کہ فروعات میںعلمی اختلاف رحمت ہے،چنانچہ فرمایاہے کہ’’میری اُمت کا
اختلاف رحمت ہے۔‘‘ (کنزالعمال،حدیث:۲۸۶۸۶)۔پھر آج اِن اختلافات کی وجہ سے
ایک دوسرے پرلعن وطعن کیوں؟
اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ،امام شافعی،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی
اللہ عنہم اپنے اپنے مذاہب کی بنیادپر فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف
رکھتے ہیں،پھر بھی وہ ہمارےلیے محترم ہیںاور اہل سنت و جماعت کے امام
ہیں،اُن کے مقلدین بھی بہت سے علمی اختلاف رکھتے ہیں، وہ بھی سنی صحیح
العقیدہ ہیں،لیکن ہم سب جب کہ ایک ہی مذہب کےمقلد ہیں، اس کے باوجود محض
فروعات مسائل میں اختلافات رکھنے کی بنیادپر ایک دوسرے کو اہل سنت و جماعت
کے دائرےسے خارج کرنےپرتُلے رہتےہیں!!!نیزاسلاف کرام نے بھی فروعی مسائل
میں اختلافات رکھتے ہوئے ایک دوسرے کوسنیت سے خارج نہیں کیا توآج اُن کے
مقلدین و معتقدین محض فروعات میں اختلافات کی بنیادپر ایک دوسرے کوسنیت سے
خارج کیوں کررہے ہیں؟اور پھریہ کہ ان چاروں امام کے اختلافات صرف سنن و
مستحبات ہی تک محدودنہیں تھے،بلکہ وہ واجبات وفرائض میں بھی اختلافات رکھتے
تھے،یہاں تک کہ تکفیرجیسے اہم مسائل میں بھی ایک دوسرے کےمخالف نظریات کے
حامل تھے، مثلاً یزیدبن معاویہ کو امام احمدبن حنبل کافر کہتے ہیں، امام
ابوحنیفہ سکوت اختیارکرتے ہیں،اور امام محمد غزالی بدترین فاسق وفاجر
سمجھتے ہیں کافر نہیں ۔کیایہ قاعدہ کلیہ کہ’’ان میں سےہر ایک صواب پر ہے
اِمکانِ خطا کے ساتھ اور خطا پر ہےاِمکانِ صواب کے ساتھ‘‘ صرف اُنھیں ائمہ
کرام کے لیےمختص تھا، یاقیامت تک آنےوالے علما و محققین بھی اِس قاعدۂ
کلیہ کے ذیل میں آتے ہیں؟
لہٰذا فروعی مسئلے میں اختلافات رکھنے کی بنیادپر کافر ،گمراہ یادین سے
خارج کہنے والوں سے ہم پوچھنا چاہتےہیں کہ یہ چاروںامام اپنے اپنے اختلافات
کی بنیادپر ایک دوسرے کے نزدیک کس خانے میں ہیں،اور وہ خودبھی اُن ائمہ
کرام کے بارے میں کیا حکم رکھتے ہیں؟کافر،گمراہ ،یا دین سے خارج ؟بلاشبہ ان
تمام فروعی اختلافات کے باوجود یہ چاروں امام برحق، عادل، قابل اعتماد
اورسچے- پکے مومن تھے،بلکہ آج کے حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی مومنوں سے
کہیںاعلیٰ درجے کے مومن تھے۔
فروعی اختلافات کی باتیں کریں تو صحابۂ کرام،تابعین،تبع تابعین ضوان اللہ
علیہم اجمعین سے لے کر اِس عہد تک سیکڑوں فروعی اختلافات ہوئے ہیں،لیکن اُن
اختلافات کی بنیادپرایک دو سرے کو گمراہ،فاسق،کافر،یادین سے خارج سمجھا
جائے،یہ نہ صحابۂ کرام کا عمل رہا،نہ تابعین کا ،نہ تبع تابعین کا اور نہ
ہی ماضی قریب میں کسی اہم علماومشائخ کا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتھاکہ جاؤ،اوریہ اعلان کردو کہ جس کسی نےبھی
لَاإِلٰہَ إِلَّااللہُ پڑھ لیا وہ جنتی ہوگیا۔لیکن جب حضرت عمررضی اللہ عنہ
سے اُن کاسامنا ہوا،اوراُنھوں نے یہ سناتونہ صرف منع کردیابلکہ حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوپکڑ کربارگاہِ نبوی میں لے بھی گئے ،اورعرض کیاکہ
یا رسول اللہ! یہ اعلان سن کر لوگ واجبات و فرائض اداکرنا ترک کردیںگے۔اس
پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی،تو یہ اعتراض کرنے والےکے ذہن کا فتورہی
ہوسکتاہے،جب کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حسن نیت یہ تھی کہ مسلمان واجبات و
فرائض میں کوتاہ وسست نہ ہوجائیں اور دین کا اصل چہرہ مسخ نہ ہو جائے۔تو
کیا آج کے عہد میں یہ ممکن نہیں کہ بظاہر فروعات میں اکابر سے اختلاف کرنے
والا شخص حقیقت میں اپنے حسن نیت کی بناپر اکابرسےاختلاف رکھنے والاہی
قرارنہ پائے،بلکہ جس جہت سے وہ مسئلے پر غور کررہا ہے،ممکن ہے کہ وہ اکابر
کے نظریات کی تائید کے لیےمعادن ومددگار ثابت ہو۔
خوداعلی حضرت علیہ الرحمہ کایہ عمل رہا ہے کہ اُنھوںنےنہ صرف فروعی مسائل
شرعیہ میںاکابر سے مختلف حکم نافذ کیا ہے، بلکہ تکفیر جیسے اہم مسائل
میںبھی(علامہ فضل حق خیرآبادی وغیرہ سے)اختلاف کیاہے،اور شیخ ابن عربی قدس
سرہٗ جنھیں ملاعلی قاری نےکافروںکے زمرے میں شمارکیاہے،فتاویٰ رضویہ میں
جگہ جگہ اُن کو القابات خیرسے یادکیاگیا ہے، پھرصدرالافاضل اور صدرالشریعہ
علیہما الرحمہ نے بعض مسائل میںاعلی حضرت سے اختلاف کیاہے،بلکہ اُن
کےمریدوشاگردمولانا برہان الحق جبل پوری نے بھی عورتوںکے مزارات پر جانے کے
مسئلے میں اختلاف کیاہے،اورمزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نےاس کتاب کی تصحیح
بھی کی اورتصدیق بھی،البتہ! اس کے بعد اپنایہ نظریہ بھی واضح کردیا کہ
’’مگر بحال زمانہ میں اسے ناجائز وحرام سمجھتا ہوں۔‘‘
چنانچہ اِن تمام حقیقتوں کو جان لینے کے بعد بھی اگرہم اَنانیت ،خودغرضی،
مفادپرستی،اور کبروغرور سے کنارہ کش ہونے کے لیے تیارنہیں،تو یہ جان لیں کہ
ہم اہل سنت وجماعت کا دائرہ پھیلانے کی بجائےاُسے تنگ کررہےہیں،اس کاواضح
ثبوت یہ ہے کہ ہماری نئی نسلیں اہل سنت و جماعت میں آنا چاہتی ہیں لیکن وہ
کس اہل سنت وجماعت میں داخل ہوں،یہ فیصلہ نہیں کرپارہی ہیں، کیوں کہ آج کل
تو اہل سنت و جماعت کا ہربڑاعالم کفر، گمراہیت اور ارتداد کے نرغے میں
ہے۔آخرچاروناچار ہماری نئی نسلیں ایسی راہ چننے پر مجبور ہیںجو اُن کے لیے
کسی بھی جہت سے مناسب نہیں ،اور حدتو یہ ہے کہ جس گھر میں کبھی میلاد شریف،
اور یادِبزرگاں کے نغمے گونجا کرتے تھے،اب اُنھیں گھروں میں اِن جیسے تمام
مباح اور جائز اعمال پر پابندی عائد کی جارہی ہے،بلکہ اکثر وہ اعمال حسنہ
جو ایک مومن کےلیے اللہ و رسول ،اور صالحین سے قریب ہونےکاذریعہ سمجھےجاتے
ہیں،اُنھیں بھی شرک وبدعات سمجھ کر ترک کیا جارہا ہے۔ آخر اِن سب کے ذمے
دار کون ہیں؟ہماری نئی نسلیںیا ہم جواَنانیت کےخول سے نکلناہی نہیں چاہ رہے
ہیں ؟
مزید حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ ہمیں اس کابھرپور احساس ہے کہ انجانے
میں ہی سہی ہم سے کچھ غلطی ہوگئی ہے ، لہٰذا بہتر بات تو یہ تھی کہ ہم سچے
دل سے اپنی غلطی کا اقرار کرلیتے بات ختم ہوجاتی ،مگرایسانہیں کرتے،
اورسارا زور اِس بات پر لگانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم سے یہ غلطی ہوئی،
توآخر کس کی وجہ سے؟یعنی تمام تر الزامات فردِ مخالف کے سرمنڈ دیتے ہیں،
یہ کیا ہے؟ یہ آدمیت تو نہیں ہے،بلکہ آدمیت تو یہ ہےکہ خطانہ ہوپھربھی
حضرت آدم کے انداز میں یہ کہےکہ’’ اے ہمارے رب! ہم نے ہی اپنے اوپرظلم
کیاہے ، اگر تو ہمیں معاف نہیں فرمائےگا اور ہم پر رحم نہیں کھائےگاتو ہم
ضرور نقصان اٹھانے والوں میں ہوجائیںگے۔‘‘(اعراف:23) اوریوسف علیہ السلام
کے انداز میںیوں کہےکہ’’میں اپنے نفس کوبےقصور نہیں مانتا ہوں، بےشک نفس
بُرائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے،اس کے سوا جس پر اللہ رحم فرمادے، بےشک
میرا رب بخشنےوالابڑامہربان ہے۔‘‘(یوسف:53)
اب کوئی شخص یہ بتادے کہ حضرت آدم نے کیا غلطی تھی اور حضرت یوسف سے کیا
خطا سرزد ہوئی تھی ؟ اس کے باوجودآپ دونوں اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ
واستغفار کرتے نہیں تھکتے،اور ایک ہم ہیں کہ اپنی غلطی کا احساس ہونے پر
بھی نادم اورشرمندہ ہونے کی بجائےاُس کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے میں
لگے ہوئےہیں۔
چنانچہ جب تک ہمارے اپنے دل ودماغ پر فطرت سلیمہ(آدمیت)کا غلبہ نہیں
ہوگااوررَبَّنَا ظَلَمْنَااوروَ مَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ جیسی آیات سےہم
عبرت حاصل نہیں کریں گے،اُس وقت تک اَنانیت و خودی کے چنگل سےنکلنابڑا مشکل
ہے ،اورجب تک ہم خودی، اَنانیت ،اوربدگمانی کے خول سے باہر نہیں نکلیںگےاور
اسلاف کرام کی طرح ایک دوسرے کے لیے خیر کا سچاجذبہ اپنےدلوں میں نہیں
پیداکریںگےاُس وقت تک ہمیں نہ خوش عقیدگی راس آئےگی اور نہ ہم خوش عقیدگی
کے نور کوعالم میں پھیلاپائیںگے۔اس لیے ہم سب پر لازم ہے کہ اسلاف کرام کی
حیات سے روشنی حاصل کریں اور جس طرح اُنھوںنےعظیم عالم ہوتے ہوئے بھی کچھ
دنوں کے لیے مشائخ کی صحبت اختیارکی،اسی طرح ہم بھی مشائخ کی صحبت
اختیارکریں اور اُن مشائخ کو اپنا رہبرورہنمامان کرکم سے کم دوبرس کی مدت
اُن کی صحبت میں ضرور گزاریں،اوراُن مشائخ کی صحبت میں جب تک رہیں ’’مردہ
بدست زندہ‘‘ والی کیفیت کے ساتھ رہیں،یعنی اپنی مرضی کو اُن کی مرضی پر
قربان کردیں۔
یہ حق ہےکہ کچھ دنوںہی کے لیےسہی جب ہم کسی ایسی ہستی کی خدمت میں رہ
لیںگےجو ہر طرح کی ظاہری و باطنی آلودگیوں سے پاک وصاف ہو،تو اُن کاکچھ نہ
کچھ اثرہماری زندگی پرضرورپڑےگا۔ اس طر ح مشائخ کی غلامی کے صدقے میں ہمارے
بیچ کھڑی کبرونخوت کی دیوار ٹوٹےگی،تعصب وعناد کی عینک اُترےگی، انانیت
وخودی کا خول چاک ہوگا اورسب سے بڑی بات یہ کہ دل و دماغ میں حسن ظن اور
خوش اعتقادی کاکمزورپودابھی ایک تناوردرخت کی صورت اختیارکرلےگاجس کی
چھاؤںمیں زہرہلاہل بھی قندمعلوم ہوگا ، اورتیروتلوار کی بوچھاریں بھی
پھولوں کی بارش معلوم ہوںگی ۔
ایک اور غلط فہمی جوعام طورسے ہمارے درمیان پھیل گئی ہے ،وہ یہ کہ اب ایسی
کوئی ہستی نہیں آنے والی جو انسانی دل ودماغ میں انقلابی صور پھونک سکے،جب
کہ قرآن کریم بارباریہ اعلان کررہا ہے کہ’’جب کبھی کوئی آیت(نشانی) منسوخ
ہوتی ہے یا کوئی آیت(نشانی) ختم ہوتی ہے توہم اُس سے بہتر، یااُسی کی طرح
کوئی دوسری آیت نازل کردیتے ہیں ،کیا تجھےعلم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر
ہے۔‘‘ (بقرہ:106)، صالحین کی جماعت قیامت تک آتی رہے گی اور لوگوں کو خوش
عقیدگی اور خوش گمانی کا درس دیتی رہےگی۔غرض کہ ہم یاتو اپنی خودی(انانیت
اورکبرونخوت) سےتوبہ کریں،یاپھراِقبال کے تصورِخودی (معرفت نفس)پرمضبوطی سے
جم جائیںاور فتنہ وفساد کاذریعہ نہ بنیں، اور یہ صالحین کی غلامی اختیارکیے
بغیر ممکن نہیں۔
لہٰذاروحِ اقبال سے معذرت کے ساتھ دوسرے مصرعے میںیہ تصرف کیے بغیر نہیںرہ
پاتاکہ ؎
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی کو بیچ غلامی میں نام پیدا کر |
|