ڈاکٹر جمیل اپنی لیبارٹری میں کام میں مگن تھا سوچ و بچار
نے اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ کر دیا تھا اس نے بیس سال کی طویل
جدوجہد اور ریسرچ سے ایک ایسی دوا ایجاد کر لی تھی جو خلیات میں حیران کن
تبدیلی لانے والی تھی اس کی تحقیق مکمل ہو چکی تھی اب اسے آزمانے کا وقت
تھا مگر کس پہ آزمائے۔؟ یہ ایک سوالیہ نشان تھا۔وہ افراد کے نام سوچتا اور
پھر خود رد کر دیتا کیونکہ وہ کسی کو اس راز میں شریک کرنے کا۔حوصلہ نہیں
پا رہا تھا کافی کشمکش کے بعد وہ ایک فیصلے پہ پہنچ گیا۔ اس نے یہ دوا خود
پہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔اس خیال نے اس میں ایک نئی توانائی بھر دی ہاں وہ
خود اپنی ایجاد سے فائدہ اٹھائے گا اور پھر شہرت اور دولت اس کے در کی
باندی ہوگی۔ اس نے تمام انتظام مکمل کیے ۔اور پھر کانپتے ہاتھوں سے وہ
محلول سرنج میں بھرا اور اپنی رگ میں اتار لیا۔ایک لمحے کے لیے اسے لگا اس
کی رگوں میں آتش اتر گئی۔ اور پھر یک بستہ سردی کی لہر نے اس کی رگوں میں
بہتے خون کو جیسے منجمند کر دیا۔۔اب تیسرا مرحلہ شروع ہونا تھا اس کی بوڑھی
جھریوں بھری کھال میں کھنچاؤ پیدا ہوا اور اس کی پرتیں چٹخ کے اترنے لگیں
جیسے خزاں میں درختوں کی چھال اترتی ہے اس نے لبوں کو بھینچ کر تکلیف کی
شدت برداشت کی بس اب آخری لمحہ تھا کامیابی قریب ترین تھی۔ اس نے قد آدم
آئینے میں اپنے بے لباس جسم کو دیکھا پرانی کھال اتر چکی تھی اب اس کے
خلیات نے ریکوری کی طرف پلٹنا تھا اور اس نے زندگی اور جوانی کو من چاہے
وقت تک قید کرلینا تھا۔جیسے ہی اگلا انجکشن اس کی رگوں میں پیوست ہوا ۔وقت
کی رفتار تھم گئی ۔ ڈاکٹر کے چہرے پہ تکلیف کے باوجود ایک مسکراہٹ نمودار
ہوئی ۔ ایسی تسخیری مسکراہٹ جس میں بلا کی رعونت تھی اس کا جی چاھا قہقہے
لگائے ۔ ایکدم ڈاکٹر کی نظر انجکشن وائل پہ گئی اور خالی انجکشن اس کے ہاتھ
سےچھوٹ گیا ۔ساتھ ہی اس کا جسم پانی بن کر بہنے لگا ۔۔دراوزہ کھلا اور اس
کی اسسٹنٹ ڈاکٹر ماریا اندر داخل ہوئی سوری سر یہ آپ کی دوا پیٹر صفائی
کرتے وقت میرے کیبن میں بھول گیا اور ۔۔۔بقیہ لفظ اس کے منہ میں رہ گئے ۔اور
آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔فرش پہ بہتے رقیق اجزا اس کے پاؤں کی انگلیوں کو
چھو رہے تھے۔ |