پردہ_حکم_خداوندی

سجل کو ووکیشنل سنٹر سے واپسی پہ۔۔۔کافی دیر ہوچکی تھی۔۔ کام بہت زیادہ تھا ۔۔ پیسوں کی ضرورت بھی آن پڑی تھی۔۔ تو اوور ٹائم لگالیا تھا ۔۔

سجل بس اسٹاپ پہ کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی ،وہ ہر دوسرے لمحے اپنے سیدھے ہاتھ پہ بندھی سادی سی گھڑی پہ ٹائم دیکھتی اور مزید پریشان ہوجاتی۔۔۔اسے آدھا گھنٹہ ہونے والا تھا مگر بس کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔۔۔وہ بس دعائیں کرتی جارہی تھی۔۔۔اسکا سراپا سر تا پا پردے میں چھپاتھا۔۔۔پھر بھی اسکا اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔۔۔

چہار سو اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔سڑک پہ خواتین کی موجودگی کم کم ہی تھی۔۔۔اور اسکے علاوہ اسے کسی بس اسٹاپ کا علم تھا نہ ہی کسی دوسری بس کا۔۔۔وہ سوچوں میں گم تھی۔۔۔

دو برس پہلے ہی اسکے والد صاحب ریٹائر ہوئے تھے انہیں ایک خطرناک بیماری نے آن دبوچا تھا۔۔۔وہ دمے کے مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔۔۔کوئ کام نہیں کرسکتے تھے۔۔۔گھر میں سجل کے علاوہ ایک چھوٹی بہن اور بھائ تھے دونوں ہی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔۔۔سجل اسی دوران بی ایس بصری فنوں(visual arts) مکمل کرکے فارغ ہوئ تھی ۔۔۔ابو کی بیماری کے باعث انہیں جلد ہی ریٹائرمنٹ مل چکی تھی۔۔اب ساری ذمہ داری سجل کےکندھوں پہ آگئ۔۔۔اسکی قسمت اچھی تھی اسے ووکیشنل سنٹر سے ملازمت کیلئے کال آگئ تھی۔۔۔ وہاں زیادہ تر خواتین کام کرتی تھیں۔۔اسکا کام بھی آسان تھا اور تنخواہ بھی معقول۔۔نیز ٹیوشنز سے بھی اللہ پاک گزر بسر کروارہے تھے۔۔۔
ابو کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئ تھی۔۔۔ بہترعلاج کیلئے کسی زیادہ اچھے ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہوگیا تھا اور پیسے اتنے موجود نہیں تھے اسلئے اسے اوور ٹائم کا سہارا لینا پڑا۔۔۔

پہلی بار اسے اتنی دیر ہوئ تھی۔۔۔ابھی وہ اپنی سوچوں میں محو تھی کہ اک بائیک جس پہ دو تین لڑکے سوار تھے۔۔۔زناٹے کے ساتھ اس کے قریب سے گزری۔۔وہ لڑ کھڑاتے ہوئے فورا پیچھے ہوئ تھی۔۔۔اسکے پورے وجود میں سرد سی لہر دوڑ گئ۔۔۔جسم کپکپانے لگا۔۔۔

"آپ کہیں تو ہم گھر چھوڑ دیں ۔۔۔ بس پتہ بتانے کی زحمت اٹھانی ہوگی آپکو۔۔۔"!!
بائیک پہ سوار کسی ایک بندے نے ہانک لگائ تھی...
سجل کو ایسا لگا کہ کسی نے اسکے کانوں میں سیسہ انڈیل دیا ہو۔۔۔
وہ ہونق سی کھڑی اپنے سراپے پہ نظر ڈالنے لگی ہر چیز پردے میں چھپی تھی پھر بھی ایسے فقرے۔
اس نے اللہ باری تعالی کو پکارنا شروع کردیا۔۔۔۔اسے یقین تھا کہ حکم خداوندی پہ سر خم کرنے والو کو وہ کبھی تنہا نہیں چھوڑتا انکو ہر بری نظر سے ضرور بچاتا ہے۔۔۔
اس نے دعاؤں کا ورد شروع کردیا تھا۔۔۔

تھوڑی دیر گزری تھی اک اور بائیک گزری جس پہ بھی اک دو لڑکے سوار تھے۔۔
سجل کا وجود پسینوں سے شرابور ہوگیا تھا۔۔ چہرہ فق ہوچکا تھا اسکی حالت غیر ہوتی جارہی تھی سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ کس سمیت بھاگے... قدم تھے کہ جمود۔۔۔بڑی مشکل سے خود کو جنبش دی اور اک قدم پیچھے کی جانب بڑھی تھی۔۔
مگر یہ کیا اسکے کانوں نے جوجملے سنے خود اس سے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔

"بھائ۔۔ہم ہوس۔۔بد نظری۔۔فحش آرائ میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ مسلمان ہیں۔۔اس سچائ کو یکسر بھولا بیٹھے ہیں۔۔نہایت افسوس کی بات ہے !!!
خواتین جو بے پردہ سر بازار مردوں کو بد نظری کے موقعے فراہم کرتی ہیں۔۔۔وہ دردناک عذاب کی مرتکب ہیں اور ساتھ ساتھ ہم جیسے مرد بھی اس میں شامل ہیں۔۔۔مگر یہاں بات باپردہ عورت کی ہے۔۔۔وہ عورت جو حکم خداوندی کو بجا لاتی ہے اور ہم اسے بھی نہیں بخشتے اور اس پہ بھی ایسے واہیات فقرے کستے ہیں۔۔۔میں اتنا دیندار۔۔۔عبادت گزار تو نہیں مگر پردے کی عزت ضرور کرتا ہوں۔۔۔آپ حضرات جب بہنا پہ آوازیں کس رہے تھے تو میں نے دیکھ کیا تھا۔۔۔کافی رنجیدیگی سے دوچار ہوا۔۔۔کہ ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ پردہ جیسی معتبر چیز کی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔۔جسطرح ہم یہ بات برداشت نہیں کرسکتے کہ کوئ ہماری ماں۔بہن۔۔۔بیٹی پہ ذرا سی بری نظر بھی ڈالے۔۔اسی طرح ہر عورت ہے۔۔اور باپردہ عورت کا درجہ زیادہ بلند ہے۔۔انکا عزت واحترام لازم ہے۔بہر حال۔۔۔آپ چلئے بہنا سے معافی مانگیے اور آئندہ کیلئے خیال رکھئے اور ان سب حرکات سے خدارا پرہیز کیجئے۔۔۔"!!!

دوسری بائیک والا ۔۔۔پہلی بائیک کے لڑکوں کو تنبیہہ کر رہاتھا ساتھ سمجھاتا جاتا۔۔۔ حلیے سے وہ اک عام نوجوان تھا۔۔۔ہلکی سی ڈاڑھی ۔۔۔پینٹ شرٹ میں ملبوس۔۔پردے کی عزت واحترام کرنے والا۔۔۔

وہ لڑکے واقعی شرمندہ ہوگئے تھے۔۔
سجل کی جانب آئے۔۔
"معاف کر دیجئے بہنا۔۔۔بھول ہوگئ۔۔۔آئیندہ اس چیز کا خاص خیال رکھیں گے۔۔اپنی ماں بہنوں کی طرح ہر عورت کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھیں گے"

سجل نے سر کو خم دیا جس سے ظاہر تھا کہ اس نے معاف کردیا۔۔۔

سجل نے اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اس نے پردے کی لاج رکھی اور اسکی بڑائ لوگوں کے دلوں میں ڈالی۔۔

وہی بائیک والا سجل کے قریب آیا اور کہنے لگا
"بہنا بس اسطرف سے آئیگی کیونکہ کہیں آگے روڈ پہ کچھ کام چل رہا ہے۔۔"

سجل نے گردن کو جنبش دی اور آگے بڑھ گئ۔۔۔اسے سمجھ آگیا تھا کہ بس کے اب تک نہ آنے کی اصل وجہ کیا تھی۔۔۔

وہ بہت خوش تھی اور مطمئن بھی۔۔۔اسکا اعتماد بحال ہوا تھا۔۔۔اس نے اللہ کا کروڑہا شکر ادا کیا کہ اس نے پردے جیسی نعمت کی توفیق دی۔۔اسے یہ حدیث مبارکہ یاد آگئ تھی۔۔وہ دل ہی دل میں اللہ کی بے حد ممنون تھی جس نے اسے باعمل بنایا تھا۔۔


حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے اور بلاشبہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان دیکھنے لگتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ سے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 626 از طبرانی)

##حیا مسکان ##

Fatima Ishrat
About the Author: Fatima Ishrat Read More Articles by Fatima Ishrat: 30 Articles with 29042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.