جب بھی کوئی بچہ گر جاتا یا اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ
جاتی‘ فتو کے منہ سے بےساختہ نکل جاتا: ہائے تیری ماں مرے۔
یہ فتو کے نہیں‘ ممتا کے منہ نکلی آواز ہوتی اور اس میں درد بھی ہوتا۔ ماں
بےشک ماں ہوتی ہے اور دنیا میں اس کا کوئی متبادل رشتہ موجود نہیں۔ اس قسم
کی مادرانہ شفقت‘ میں اپنی ماں کے ہاں بھی دیکھتا اور سنتا آرہا ہوں۔ تب ہی
تو تکلیف میں بےساختہ منہ سے ہائے ماں نکل جاتا ہے۔
ایک بار میں بیمار پڑا۔ فتو میرا سر دبا رہی تھی۔ تکلیف میں شدت ہوئی تو
میرے منہ سے ہائے ماں نکل گیا۔ فتو نے وہیں ہاتھ روک لیے اور غصہ سے اپنی
چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: کیا ہوا‘ کیوں
روٹھ کر چلی گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تکلیف میں ہوں۔
بڑی غصیلی آواز میں کہنے لگی: دبا میں رہی ہوں‘ یاد ماں کو کرتے ہو۔ جاؤ
اسی سے دبوا لو۔
اس کی بات میں دم تھا اور میں شرمندہ سا ہو گیا۔ کافی دیر تک من من کرتا
رہا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نکلی کیسے منہ میں جا سکتی تھی۔
آئندہ سے اس کا نام لینے کا وعدہ بھی کیا حالاں کہ یہ بس سے باہر کی چیز
تھی۔
اس روز چھوٹی کاکی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔ میری
پدرتا پورے پہار کے ساتھ جاگی۔ سابقہ تجربے کے تابع‘ میں نے منہ سے ہائے
تیری ماں مرے نکالا۔ اپنی اصل میں یہ مادرتا کی قدر کرنے کے مترادف تھا۔
وہ کاکی کا دکھ تو بھول گئی اور دونوں پاؤں سمیت مجھ پر چڑھ دوڑی۔ ہاں ہاں
تم تو چاہتے کہ میں مر جاؤں، میں بڑے دنوں سے تمہارے بدلے بدلے تیور دیکھ
رہی ہوں۔ تم تو ہو ہی ناشکرے۔ جتنا کرو یہاں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔
یہ کہہ کر بھائی کے گھر روٹھ کر جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ میں نے قسم کھا
کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی، مگر کہاں جی خلاصی نہیں کر رہی
تھی۔
مانتا ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس پرسنٹ خواہش بھی تھی
لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔ دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا جاتی۔ اگر ایسا
ہوتا تو دنیا میں کوئی عورت باقی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں بار ہائے
تیری ماں مرے نکلا لیکن وہ ایک بار بھی نہ مری تھی۔ کچھ باتٰیں کہنے کی
ہوتی ہیں لیکن ہونے کا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔
خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا ملی۔ منتٰیں ترلے تو کیے
ہی‘ کانوں کو ہاتھ لگانا پڑے‘ ساتھ میں پلا بھی جھاڑنا پڑا۔ |