چلو جلدی اٹھو 7.00 بج گے ہے آج تو بہت کام ہے
بچو ناشتہ کر لو
یہ سننا تھا کہ ہر اک اپنی جگہ چھوڑ کر ماں کے سر پر کھڑا هو گیا
امی آج چاۓ ملے گی ہمیں کیا . .....؟؟؟؟؟؟
نہیں تو .....😞
تو پھر کیوں کہا ناشتہ کر لؤ
نمی ماں کو صاف نظر آرہی تھی اپنی 5 سال کی بچی کی آنکھوں میں
امی کیا کھانے کو کچھ ہے یہ سوال بڑی بیٹی نے پوچھا تھا باقی چار جواب کا
انتظار کر رہے تھے
ہاں بچو ہاتھ دھو لو کل مالکن نے دعوت کی تھی اپنی بیٹی کی
تو تھوڑا سا کھانا اور 2 روٹیاں مجھے بھی دی تھی کھانے کے لیے میں کیسے
کھاتی میرے بچے تو گهر میں بھوکے تھے
میں نے رکھ لی تھی لیکن تم سب سو گئے تھے اس لیے یہ میں نے بھی نہیں کھائی
آؤ سب مل کر ناشتہ کرتے ہے
امی یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے
یہ کوئی لکڑی خراب لگ گئی ہے شاید
نہیں امی یہ سالن میں سے آرہی ہے بوس گیا ہے
پاگل هو بری بات ہے اللّه ناراض ہوتا ہے
وہ ماں پھلے ہی محسوس کر چکی تھی بدبو لیکن .بچے رات کے بھوکے تھے
.................؟؟؟؟؟؟؟
دیکھوں میں کھا رہی هو تو مطلب یہ بلکل ٹھیک ہے ماں کو کھاتا دیکھ کر سب نے
کھانا کھا لیا اور اللّه کا شکر ادا کیا ...........،
جی ہاں زندگی اس کا بھی نام ہے کچھ لوگ ایسے بھی جیتے ہیں اور پھر بھی اپنے
رب کا شکر ادا کرتے ہ؛ں میرے رب نے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہے جن کے زریعے
ہم لوگ پیٹ بھرتے ہے لیکن پھر بھی اس طرح سے شکر ادا نہیں کرتے جیسے یہ لوگ
کرتے ہے یہ ایسی زندگی جی رہے ہے جس کی بڑی وجہ وہ لوگ ہے جو دن رات نعمتوں
کی لذت کا لطف تو اٹھاتے ہے لیکن کسی قریب کے بچے کو اس میں حصے دار نہیں
بناتے کسی قریب کی بھوک نہیں مٹاتے کسی کے تن کو ایک گز کپڑے سے نہیں ڈھا
پتے
آپ صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا
مسلمان اپس میں بھائی بھائی ہے
اک مسلمان پر اپنے مسلمان بھائی پر حق ہے
لیکن یہ حق کون ہے جو پورا کررہا ہے
چھوٹے چھو ٹے معصوم بچے محنت مزدوری کر کے اپناپیٹ بھر رہے ہے وہ ننھے ننھے
ہاتھ بڑے بڑے کام کرتے ہے جس عمر میں کھیل خود اور زندگی جی جاتی ہے اس پل
وہ زندگی کے ہاتھوں تماشہ بنتے ہے
جس عمر میں میں آنکھیں خواب بونتی ہے خواہشات جنم لیتی ہے اس عمر میں آن
معصوم آنکھوں میں بے بسی اور تھکن ہوتی ہے .. ....
تھکن ہوتی ہے حالات کی زمانے کے روائیوں کی زندگی انکے لیے کسی کسوٹی سے کم
نہیں ہوتی بہت سارے سوال ہوتے ہے لیکن کوئی جواب نہیں ملتا
بہت سے خاندان ایسے ہے جو کسی سے سوال نہیں کر سکھتے جس کئی بنا پر نوبت
فاکوں تک پونچھ جاتے ہے
کیئ لوگ قربت کی زندگی سے تنک اکر خود خوشی کر لیتے ہے کیونکہ ذلت کی
سانسوں سے عزت کی موت آسان لگتی ہے
آخر کون ہے اس سب کا زمیدار کیا ہمارا کوئی فرض نہیں بنتا
آج کا امیر کہتا ہے یہ کھانا مزے کا نہیں ہے چلو پیزا آرڈر کرتے ہے جو گهر
میں پکا ہے وہ سڑک پر پھنک دیا جاتا ہے جیسے کوئی قسمت کا ہارا ہوا انسان
اٹھا کر اپنا پیٹ بھر لیتا ہے کیونکہ جب کسی قریب کو بھوک تنگ کرتی ہے نا
تو خراب بھی ٹھیک اور غلط بھی صیح لگتا ہے وہ نعمت جس کو سڑک کئی زینت بنا
دیا جاتا ہے کوئی بہت آسانی سے نعمت سے منہ پھر لیتا ہے کوئی ہے جو ترس
جاتا ہے اس ہی نعمت کو پانے کے لیے لیکن آج کا امیر کسی قریب کا دروازہ
نہیں کھٹکھٹاتا کیونکہ اسے اسکی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
ہر کوئی اپنی ذات میں مگن ہے کسی کو کسی پروا نہیں ہے کوئی کیسی زندگی گزار
رہا ہے کوئی جی رہا کوئی مر رہا یہ بس مسلسل مر ہی رہا ہے کسی کو اس بات کی
فکر نہیں ہے .......
ہم پر ھمارے رب کا احسان ہے کہ اس نے اپنی ہر نعمت سے ہمیں نوازا ہے میرے
رب کو پسند ہے کوئی اس کے بندوں کی مدد کرے جو اسکے بندوں کی مدد کرتا ہے
وہ اسکی مدد کرتا ہے
لیکن ہر شخص بس اپنی ذات تک ہی رہ گیا ہے اپنی خواہشات تک ہی محدود هو گیا
ہے یہ پھول ہی گیا کہ وہ لوگ جو قسمت کی ظلم ظرفی کا شکار ہوتے ہے انکے
سینے میں بھی دل ہے جو دھڑکتا ہے جس میں خؤاہشات جنم لیتی ہے وہ آنکھیں بھی
خواب دیکھتی ہے
کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کیا ہمیں اس بارے میں سوچنا نہیں چاہے کیا
ہمار ا کوئی فرض نہیں بنتا ........... ... ..... ذرا سوچۓ |