اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے
موت کے بعد زندہ کیے جانے کی اس دلیل کے بارے میں جانا کہ جس خدا نے ہمیں
پہلی بار پیدا فرمایا ہے وہی دوسری بار بھی پیدا فرمائے گا۔ آئیے مضمون کے
دوسرے حصے میں اس بارے میں کچھ اور قرآنی دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔
•دوسری دلیل
قرآن حکیم اس سلسلے میں ہماری سمجھ کے لیے دوسری دلیل یہ دیتا ہے کہ دوسری
بار پیدا کرنا پہلی بار کی پیدائش کی نسبت زیادہ آسان کام ہے۔ عام فہم سی
بات ہے کہ جب کوئی کام پہلی بار کیا جائے تو مشکل ہوتا ہے اور جب ایک بار
ایک کام کرنا سیکھ لیا جائے تو پھر دوسری یا تیسری بار یا بار بار کرنا
پہلی بار کی نسبت بہت آسان ہوتا ہے۔یہی بات قرآن حکیم میں یوں کہی جا رہی
ہے:
سورة العنكبوت ( 29 )
أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ
ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ {19} قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا
كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ
اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {20}
کیا اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا
ہے،پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقینًا یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔ ان سے کہو کہ
زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے، پھر
اللہ دوسری بار بھی زندگی بخشے گا۔ یقینًا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
سورة الروم ( 30 )
وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاء وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا
دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ {25} وَلَهُ
مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ {26} وَهُوَ
الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ
وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ
الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {27}
اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔
پھر جونہی کہ اُس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم
نِکل آؤ گے۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اُس کے بندے ہیں، سب کے سب
اسی کی تابع فرمان ہیں۔ وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا
اعادہ کرے گا اور یہ (اعادہ تو) اس کے لیے آسان تر ہے۔ آسمانوں اور زمین
میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔
درج بالا پہلی آیات میں تخلیق اور اس کے اعادے کو یعنی پہلی پیدائش اور موت
کے بعد زندہ کرنے کے لیے إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ کے الفاظ
استعمال کیے گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مثالیں ہماری فہمائش کے لیے دی
جا رہی ہیں وگرنہ اللہ کی جلیل القدر ذات کے لیےنہ پہلی بار پیدا کرنا مشکل
ہے، نہ دوسری بار پیدا کرنا مشکل ہے۔ اور وہ تو تخلیق کا ہر کام جانتا ہے۔
اور دوسری آیت میں ہمیں سمجھانے کے لیے وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ کے الفاظ
استعمال کیے گئے یعنی یہ کہ تخلیق کا اعادہ یعنی موت کے بعد دوبارہ
پیدافرمانا اللہ کے لیے آسان تر ہے۔ ایک ہی پکارکےجواب میں اول تاآخر سارے
انسان نکل آئيں گے۔
سورة ق ( 50 )
وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ {41} يَوْمَ
يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ {42} إِنَّا
نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ {43} يَوْمَ تَشَقَّقُ
الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ {44}
اور سنو، جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے)قریب ہی سے پکارے گا، جس دن سب
لوگ آوازہ حشر کو ٹھیک ٹھیک سُن رہے ہوں گے، وہ زمین سے مُردوں کے نکلنے کا
دن ہو گا۔ ہم ہی زندگی بخشتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں، اور ہماری طرف ہی
اُس دن سب کو پلٹنا ہے جب زمین پھٹے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کے تیز
تیز بھاگے جا رہے ہوں گے۔ یہ حشر ہمارے لیے بہت آسان ہے۔
یہ اللہ کے لیے کتنا آسان ہے ؟ذیل کا مضمون ملاحظہ ہو:
سورة لقمان (31 )
مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۔۔۔ {28}
تم سارے انسانوں کوپیدا کرنا اور پھر دوبارہ زندگی بخشنا تو (اس کے لیے) بس
ایسا ہے جیسے کسی ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا)۔
اور یہاں تو یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم پہلےانسان سے لے کر آخری انسان تک
اربوں کی تعداد میں ہو یا کھربوں کی تعداد میں پہلی بار کی تخلیق اور پھر
موت کے بعد تم سب کو اکٹھے آنِ واحد میں زندہ کردینا تو اللہ کے لیے ایسا
ہی آسان ہے جیسے کسی ایک انسان کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندگی بخشنا۔تم میں
سے کسی ایک کی تخلیق اسے یوں مشغول نہ کردے گی کہ اسی وقت میں وہ دوسرے کو
پیدا نہ کر سکے تم ایک ہو یا کھربوں کی تعداد میں ہو اللہ کے لیے یکساں ہے۔
غور کیجیے کہ اس ایک لمحے میں جب کہ ہم یہ پڑھ رہے ہیں اللہ کتنی ہی تعداد
میں کہاں کہاں اپنی مخلوق کو پیدا فرما رہا ہے۔ تو جو کام وہ اس لمحے کر
رہا ہے کیا وہی کام وہ کل کے کسی لمحے نہ کر سکے گا؟ اور کیونکر یہ کام جو
آج اس کے لیے مشکل نہیں کل کو مشکل ہو جائے گا؟
•تیسری دلیل :ہماری روزمرہ زندگی سے بعث بعدا لموت کی مثالیں
سورة فاطر ( 35 )
وَاللهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى
بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ
النُّشُورُ {9}
وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر ہم
اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس کے ذریعہ سے اُسی زمین کو
جِلا اُٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی۔ مرے ہوئے انسانوں کا جی اُٹھنا بھی اسی
طرح ہوگا۔
سورة فصلت (41)
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا
عَلَيْهَا الْمَاء اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي
الْمَوْتَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {39}
اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی
ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور
پھول جاتی ہے۔ یقیناً جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں
کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
سورة ق ( 50 )
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ
وَحَبَّ الْحَصِيدِ {9} وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ
{10} رِزْقًا لِّلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذَلِكَ
الْخُرُوجُ {11}
اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا ، پھر اس سے باغ اور فصل کے
غلے اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کردیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے
خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں ۔ یہ انتظام ہےبندوں کو رزق دینے کا۔ اس پانی سے ہم
ایک مردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا
بھی اسی طرح ہو گا ۔
اوپر بیان کردہ آیات میں دو ایسی اہم باتوں کی طرف ہماری توجہ دلائی گئی ہے
جن پر ہماری زندگی کا انحصار ہے اور جن پر اگر غور کیا جائے تو انہی میں
موت کے بعد دوسری زندگی بخشے جانے کی نشانیاں بھی موجود ہیں۔
•پہلی غور طلب بات زمین پر آسمان سے پانی کے برسائے جانے کا نظام ہے۔حکمت
خداوندی دیکھیے کہ اس بارش کے برسانے میں خدا پانی کے قطرے کو کس طرح مارتا
ہے اور زندہ کرتا ہے۔ آپ کسی برتن میں تھوڑا سا پانی دھوپ میں رکھ دیجیے
کچھ ہی دیر کے بعد وہ برتن خشک ہو جائے گا اور پانی بخارات کی شکل میں اڑ
جائے گا یعنی پانی کے قطروں کامائع کی شکل میں جو جسمانی وجود تھا وہ ختم
ہو گیا اور اور وہ مر گیا پھر ہوائیں اور بادل انہیں قطروں کوبخارات کی شکل
میں اڑائے لیے پھرتے ہیں اور جب اللہ چاہتا ہے اور زمین کے جس حصے پر چاہتا
ہے انہیں بخارات کو پھر سے قطروں کی شکل میں زندگی عطا فرماتا ہے اور برسا
تا ہے یوں پانی کا وہ قطرہ جو مر چکا تھا پھر زندہ ہوتا ہے اور یوں اللہ
کھربوں کاتعداد میں ان قطروں کو ایک ہی وقت میں پھر زندہ فرماتا ہے اور
حیات بعد الموت کا یہ زندہ ثبوت ہم اپنی آنکھوں سے زندگی میں کتنی ہی بار
دیکھتےہیں۔۔۔ اللہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھنے والا دل اور دماغ عطا فرمائے۔
اور اس پر بھی کبھی غور کیجیے گا کہ اگر بخارات میں پانی میں ملی
کثافتیں،گندگی، بدبو اورسمندر کا نمک بھی ساتھ ہی اٹھ جائے تو کیا ہو؟ زمین
پر کون سی زندگی ممکن رہے؟ اللہ کی شان خلاقی ہے کہ سمندر کے کھاری نمکین
پانی سے وہ ایسے بخارات اٹھاتا ہے جو میٹھا پانی بن کربرستے ہیں اوراسی سے
ہمارے دریا ، نہريں ، چشمے، زراعت اور زمین کی ساری رونق ہے۔ وہ بادل جن کے
اندر لاکھوں ٹن پانی چھپا ہوتا ہے کتنی آسانی سے ہوا کے کندھے پر سوار ہو
کر اڑتے ہیں۔سبحان اللہ ۔کیسا انتظام ہے اس عظیم الشان ہستی کا اپنے بندوں
کو رزق دینے کا اور یہ بھی سوچئے کہ اگر سمندر ہی کا پانی میٹھا ہوتا تو
پھر وہ لاتعداد مخلوق جو وہاں بستی ہے، وہیں جیتی وہیں مرتی ہے جب وہاں گل
سڑ جاتی تو سمندر گندے بدبودار جوہڑ نہ بن جاتے؟ اور اتنے بڑے گندگی کے
جوہڑوں کی موجودگی میں خشکی پر ہی کونسی زندگی ممکن ہوتی؟سچ تو یہ ہے کہ ہم
چاہیں بھی تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ اب کہیے کیا وہ چند
انسانوں کو قیامت کے روز ایک ہی وقت میں زندہ نہ کر سکے گا؟
•دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ہی بارش سے خدا کتنی ہی لاتعدادمخلوق کو
ایک ہی وقت میں پیدا فرماتا ہے۔پانی کے چھینٹے پڑتے ہیں اور ہر مردہ جڑ اور
ہر بےجان بیج جو نجانے کتنی مدت سے اپنی اپنی قبر میں پڑے تھے جی اٹھتے ہیں
اور جہاں کچھ بھی نہ تھا وہاں قسم قسم کی نباتات اور حشرات پیدا ہو جاتے
ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہم نے اپنی آنکھوں سے عرب کے اندر کیا، وہ لق ودق صحرا
جہاں خیال بھی گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے جھلستا ہے اور جہاں بہت طویل عرصے
تک بارش نہیں ہوتی، انہی آنکھوں نے دیکھا کہ وہاں ایک دو بارشیں ہی ہو
جائیں تو ایسا سبزہ ہوجاتا ہے کہ عرب وہاں گاڑیاں اور خیمے لے کر آتے ہیں
اور کئی کئی دن وہاں ٹھہرتے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ جہاں اللہ کے حکم سےایک ہی
بارش سے مردہ زمین سے زندگی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، ریگزار گلزاروں میں
بدل جاتے ہیں،ہزاروں قسم کی نباتات اور حشرات زندگی کی بہار دکھاتے ہیں کیا
یہ سب کرنے والا خدا چند انسانوں کو بیک وقت قبروں سے نہ اٹھا سکے گا؟ سچ
تو یہ ہے کہ ہمارے گرد وپیش میں ہر وقت کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ایسی
نشانی ضرور ہی موجود رہتی ہے اور اللہ کی قدرت سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور
ہوتا رہتا ہے جو بعث بعد الموت پر دلالت کرتا ہو بس ذرا سی کھلی آنکھوں سے
دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں دیکھنے والی آنکھ عطا فرمائے۔
(جاری ہے)
یہ مضمون دائرہ عام ہی میں ہے اور حقوق طبع سے آزاد
ہے کوئی بھی شخص اس کو تبدیل کیے بغیر کہیں بھی شائع کر سکتا ہے۔ |