قرآن کریم اور تفسیری ادب

قرآن کریم پوری انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی دولت اس کی برابری نہیں کرسکتی، یہ وہ نسخہ شفاء ہے جس کی تلاوت ،جس کا دیکھنا ، سننا سنانا ،سیکھنا سکھانا ، عمل کرنا ،اور جس کی کسی بھی حیثیت سے نشرواشاعت کی خدمت کرنا دنیا وآخرت دونوں کی عظیم سعادت ہے ۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے:۔
قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ فَقَالَ أَيُّکُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ کُلَّ يَوْمٍ إِلَی بُطْحَانَ أَوْ إِلَی الْعَقِيقِ فَيَأْتِيَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ کَوْمَاوَيْنِ فِي غَيْرِ إِثْمٍ وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ نُحِبُّ ذَلِکَ قَالَ أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُکُمْ إِلَی الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنْ الْإِبِلِ
رسول اللہ اس حال میں تشریف لائے کہ ہم صفہ میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا" کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ روزانہ صبح بطحان کی طرف یا عقیق کی طرف جائے اور وہ وہاں سے بغیر کسی گناہ اور بغیر کسی قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہان والی اونٹنیاں لے آئے"؟ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم سب اس کو پسند کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا" کیا تم میں سے کوئی صبح مسجد کی طرف نہیں جاتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں خود سیکھے یا سکھائے یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین تین سے بہتر ہے اور چار چار سے بہتر ہے اس طرح آیتوں کی تعداد اونٹنیوں کی تعداد سے بہتر ہے۔"

رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کی تلاوت ،اس کے معانی کا علم حاصل کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے جوفضائل بیان فرمائے ہیں ،اور امت کو جس طرح اس کی ترغیب دی ،مذکورہ بالاحدیث صرف اس کی ایک مثال ہے ،اس قسم کے مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں ،یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ نے قرآن کریم اور اس کے علوم کی ایسے ایسے پہلوؤں سے خدمت کی ہے اور اس کے الفاظ ومعانی کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسی بے مثال کاوشیں کی ہیں کہ ان کی تفصیلات دیکھ کرعقل ورطہ حیرت میں ڈوبجاتی ہے ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم علوم ومعارف کا وہ سمندر ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ،اس کے علوم کی بلندی کو تاڑنا اور گہرائی کو جانچنا بشری طاقت سے باہر ہے ،جنہوں نے قرآن کریم کے بیان کردہ اقسام علم کو حصروشمار کرنے کی تمنا کی وہ تھک ہار کر رہ گئے ،اور جنہوں نے اس کے ٹھوس حقائق کو للکارنا چاہا وہ سرپٹخنے پر مجبور ہوئے،اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ انسان کا علم اور اس کے سوچنے وسمجھنے کا محور اور غوروفکر کی صلاحیتیں محدود ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا (اسراء)
"اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے"

قرآن کریم تمام علوم کا سرچشمہ اور آفتاب علوم کا مطلع ہے جس میں تمام اہم اور ضروری چیزوں کا علم فراہم کردیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ کی شیرینی اور طرز بیان کی بے مثل خوبی تو اپنے کمال پر ہے جس سے عقل چکر میں آجاتی ہے اور دل خود بخود اس کی طرح کھینچ جاتا ہے اس کے ترتیب کلام کا اعجاز صاف صاف بتارہا ہے کہ کہ بجز علام الغیوب کے اور کوئی ایسا کلام کہنے پر قادر نہیں ہوسکتا ۔یہی باعث ہے کہ ہر ایک فن کا ماہر اس سے مدد لیتا ہے اور اپنے مسائل کی تحقیق میں اسی پر اعتماد کرتا ہے۔

فقیہ اس سے احکام کا استنباط کرتا ہے اور حلال وحرام کے حکم ڈھونڈ نکالتا ہے تو نحوی اس کی آیتوں پر اپنے قواعد اعراب کی بنیاد رکھتا ہے اور غلط وصحیح کلام کا امتیاز کرتا ہے۔ علم بیان کا ماہر بھی خوبی بیان اور عبارت آرائی میں اسی کی روش پر چلتا نظر آتا ہے۔ اور پندونصائح کا ذخیرہ اپنی جگہ ہے جس سے اہل دل اور صاحب نظر اشخاص عبرت ونصیت حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ قوموں کی تواریخ اس میں موجود ہیں جس سے مورخین اسلوب تاریخ کی تعلیم پاتے ہیں۔

قرآن کریم کے الفاظ میں اس قدر وسعت وجامعیت ہے کہ ہردو ر کے درپیش مسائل کا حل اس سے تلاش کیا جاتا رہا،یہی وجہ ہے کہ قرون اولی سے لے کر آج تک بے شمار تفاسیر لکھی گئی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی ان تمام تفاسیر کا تذکرہ کرنا جو اس وقت صفحہ ہستی پر موجود ہیں طوالت سے خالی نہیں تاہم ان تمام تفاسیر کو چھ قسموں میں بند کیا جاسکتا ہے۔

1۔فقہی:
جن میں اکثرصرف احکام کی آیات سے بحث کی گئی ہے ۔مثلاً احکام القرآن جصاص ،احکام القرآن ابن العربی ؒ وغیرہ۔
2۔ادبی:
جن میں قرآن مجید کا فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے معجز اور بے نظیر ہونا ثابت کیا گیا ہے مثلا"مفاتیخ الغیب "المعروف تفسیرکبیر امام فخرالدین محمد ابن ضیاء الدین عمرالرازی متوفی ۶۰۶؁کی شہرہ آفاق تفسیر ہے او ر" ارشادالعقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم"المعروف تفسیر ابی سعود، جوکہ قاضی ابو السعود محمدبن محمد العمادی الحنفی متوفی ۹۵۱؁ کی علمی یاد گار ہے ۔
3۔تاریخی:
جن میں قرآن مجید اقوام سابقہ اور ملل قدیمہ کے حالات اور انبیاء ؑ کے قصے بیان کیے گئے ہیں ۔ مثلاً "لباب التاویل فی معانی التنزیل "از خازن ،جو کہ علاء الدین ابوالحسن علی بن محمد بن ابراہیم کی تصنیف ہے ۔
4۔نحوی:
جس میں قرآن مجید کے نحوی مسائل سے بحث کی گئی ۔مثلاً "البحرالمحیط "جو ابو حیان محمد بن یوسف بن علی اندلسی غرناطی متوفی ۷۴۵؁ کی تصنیف ہے ۔
5۔لغوی:
جن میں قرآن مجید کے الفاظ مترادفہ کے معانی اور دیگر اہم تحقیقات پیش کی گئی ہے مثلاً مفردات القرآن ،امام راغب ،لغات القرآن ،ابو عبیدہ وغیرہ ۔
6۔کلامی:
قرآن کریم کی جن آیتوں سے عقائد کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں ان پر غور وفکر اور بحث کی گئی ہے مثلاً امام رازی ؒکی تفسیر کبیر اور جار اللہ زمخشریؒ کی "کشاف "اس اعتبار سے نمایاں ہیں ۔ (تاریخ تفسیرومفسرین)

غرضیکہ مختلف جہتوں اور گوناگوں پہلوؤں سے قرآن کریم کی خدمت کی گئی ہے اور ہر دور کے مسائل کا حل اس سے تلاش کیا جاتا رہا۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 284416 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More