خوشی کی لہر ملتان سے اٹھی اور پلک جھپکتے ہی بہاول
پور، گوجرنوالہ اور سرگودھا تک پہنچ گئی۔ بہاول پور چونکہ ملتان سے قریب تر
شہر ہے، اس لئے وہاں دوسرے دونوں شہروں کی نسبت اس لہر کا زیادہ اثر ہوا۔
خوشی سے نہال لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ابتدا میں تو انہیں سمجھ نہیں
آرہی تھی کہ وہ خوشی کا اظہار کس طرح کریں، وہ حاکم وقت اور خادمِ اعلیٰ (دونوں)
کے حق میں گلا پھاڑ پھاڑ کر فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے، فرطِ جذبات سے بے
ہنگم اور بے قابو ہوئے جاتے تھے، بغیر کسی منزل کے سڑکوں پر بھاگتے جاتے
تھے، بھاگتے بھاگتے وہ نڈھال اور بے حال ہو گئے، خوشی کے مارے زمین پر لوٹ
پوٹ ہو گئے، بہاول پور کی صاف ستھری سڑکوں (یہ ضمانت بارش کے دنوں کے لئے
نہیں) پر لوٹتے جاتے تھے اور خوشی کا اظہار کرتے جاتے تھے۔ لَوٹتے لَوٹتے
لوگ بہاول وکٹوریہ ہسپتال تک پہنچے تو وہاں مریضوں کے لواحقین کے رش میں
الجھ گئے، یہ صرف لواحقین ہی نہیں تھے، بلکہ ان میں بہت سے مریض بھی شامل
تھے، جوکہ ڈاکٹروں کی کمی یا عدم دستیابی اور ہسپتال میں مریضوں کی گنجائش
کی کمی کی وجہ سے باہر راہداریوں، لانوں سے ہوتے ہوئے سڑکوں تک بکھرے پڑے
تھے۔ خوشی کی لہر میں ڈوب جانے والوں پر یہ رش نہایت ناگوار گزرا، مگر کیا
کرتے کہ دنیا داری میں بہت سی ناپسند چیزوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے ملتان میں میٹرو بس سروس کا افتتاح کرتے ہوئے
گوجرانوالہ، سرگودھا اور بہاول پور کے شہریوں کو بھی میٹرو بس سروس کی خوش
خبری سنائی تھی۔ بہرحال جب مریضوں کے لواحقین وغیرہ کو لوگوں کے خوشی سے
لَوٹنے کی وجہ معلوم ہوئی تو وہ اور بھی سیخ پا ہو گئے، بات الجھنے لگی،
خوشی اور غمی(پریشانی) والوں کے مزاج آپس میں ٹکرانے لگے، بات بگڑنے کے
خدشات ابھرنے لگے۔ انتظامیہ جو کہ عملی طور پر خوشی منانے والوں کے ساتھ
تھی، کو مداخلت کر کے معاملہ رفع دفع کروانا پڑا۔ لَوٹنے والوں نے اب دوسری
طرف کا رخ کیا، ریلوے سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک بڑی مگر غریب
آبادی پڑتی تھی، یہ خوشی سے لَوٹنے والے تو حال مست ہو چکے تھے، انہوں نے
زندگی میں میٹرو بس سروس سے بڑی اور زیادہ خوشی والی خبر کبھی سنی نہ تھی،
یہ لوگ بے روز گاری کے مارے لوگوں کی آبادی میں پھنس گئے، چھوٹے چھوٹے گھر،
تین مرلے کے گھر میں دو دو تین تین خاندان، ایک ایک خاندان کے کئی کئی بچے۔
کوئی بچہ کچرا چننے والا، کوئی ورکشاپ پر کام کرنے والا، کوئی ریڑھی پر باپ
کا ہاتھ بٹانے والا، کوئی حجام کے پاس کام سیکھنے والا، کوئی دوسروں کے
گھروں میں خدمات بجالانے والا، کوئی آوارہ گردی کرنے والا، کوئی حالات کے
ہاتھوں مجبور ہو کر نشہ کا عادی بننے والا اور کوئی جرائم کی دنیا میں اتر
کر معاشرے کا ناسور بننے والا تھا۔ کچی پکی آبادیاں، گندی گلیاں، ابلتے گٹر،
ہر طرف غلاظت، کچرے سے اٹھتا دھواں، یہ سارے عوامل خوشی منانے والوں کے رنگ
میں بھنگ ڈال رہے تھے۔
ان تین شہروں کے باسی خوشی کیوں نہ منائیں؟ اب انہیں سفر کی باوقار اور
آرام دہ سہولت میسر آنے کو ہے، اب وہ بیس روپے دے کر شہر کے دوسرے کونے میں
جاسکیں گے، اب سہولت کے ساتھ تہذیب بھی آجائے گی۔ رہے مسائل تو کسی کو دل
چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں، اگر ضلع بھر میں پچاس ہزار کے قریب بچے سکول
نہیں جاتے تو کیا ہوا؟ اتنی بھی کیا جلدی ہے ، حکومت ایسا بندوبست کر کے ہی
جائے گی کہ اِن بچوں کی آنے والی نسلیں تو ضرور زیور تعلیم سے آراستہ ہو ہی
جائیں گی۔ تعلیم تو اب بھی عام اور مفت ہے، اگر پنجاب بھر سے پون کروڑ بچہ
سکول نہیں جاتا تو اس میں حکومت کا کیا قصور؟ رہی بات مفت علاج کی، تو
حکمرانوں کا اس سلسلہ میں بھی واضح اعلان ہے کہ ’’وہ عوام کو معیاری اور
مفت علاج کی سہولتیں پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔ علاج بھی ہو ہی
جائے گا، جس کے مقدر میں بیماری لکھی ہے، حکومت اس کے لکھے کو تبدیل نہیں
کرسکتی ۔ پینے کے صاف پانی کی منصوبہ بندی پر عمل ہو رہا ہے، اگر کوئی یہ
چاہتا ہے کہ راتوں رات ہی تمام مسائل حل ہو جائیں تو حکومت کے ہاتھ میں
کوئی جادو کی چھڑی نہیں، نہ ہی اس قدر وسائل ہیں کہ ہر مسئلہ پلک جھپکتے حل
کر دیا جائے۔ بیس تیس ارب روپے سے بھی بھلا کسی شہر کے مسائل حل ہو سکتے
ہیں؟بس ایک دفعہ میٹرو بسیں چل جانے دیں، پھر دیکھنا چھوٹے موٹے مسائل ایسے
غائب ہو ں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ |