یار ومجھے صحافی مت کہو

جوانی میں میں نے سیا سی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر سیا سی ڈرامہ گیروں سے بہت کچھ سیکھا میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے یہ سنا کرتا تھا کہ سیاست غلاظت ہے اور پھر جب ہم نے سیا سی میدان میں پاؤں رکھا تو معلوم ہوا کہ ہم غلاظت میں گلے گلے تک دھنستے چلے جارہے ہیں اور ہمارا مستقبل ہمیں کوسنے لگا کیونکہ ہم ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جھوٹ اور حرام کھانے کی ہمیں عادت نہیں تھی اور نہ ہی ہم آوارہ گرد بن کر اپنے خاندان سے الگ رہ سکتے تھے گھر سے باہر سیاسی ڈیروں پر سارا سارا دن بیٹھنے اور ڈیروں پر رات کو سونے کی قطعی عادت نہ تھی اور نہ ہی ڈیروں پر سیاستدانوں کے لنگر سے پیٹ بھرنے کی عادت تھی ہمارے کچھ دوست ایسی محفلوں اور ڈیروں پر گپیں لگانے اور تاش وغیرہ کھیلنے کے عادی تھے ان کے والدین انکو اکثر بُرا بھلا کہتے اور نفرت سے کوستے تھے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی تھی چند ایک دوست تو اب بھی سیاسی غلاظت سے چمٹے ہوئے ہیں "ہا ں جی ــ"یہ وہ دوست ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سیاست بن چکا ہے اب وہ ترقی کر تے کرتے اپنے ڈیروں پر رونقیں بڑھانے میں کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھ چکے ہیں مگر میں ان سے نفرت بھی نہیں کرتا اور نہ ہی منفی تنقید کیونکہ ان لوگوں نے سیاست کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے حالانکہ مجھ سے زیادہ انکو انکے اس پیشے سے نفرت ہے کبھی کبھار وہ اپنا غبار نکال لیتے ہیں ایسے لوگ ارکان اسمبلی ہوں یا نہ ہوں ان کے پاس کچھ دینے کا اختیار ہونا چاہیے تو پھر وہ اپنا سیاسی قد بڑھانے کے کئی ایک عجیب و غریب جتن کرتے نظر آتے ہیں میرے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ یہ لوگ خود کو بڑے لوگ سمجھتے ہیں اور سیاسی چوہدریوں ، نمبر داروں اور سیاستدانوں کے خاص بندے تصور کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پسندیدہ سیاست کاروں کے خلاف کسی قسم کی تنقید سننا پسند نہیں کرتے مخالفوں کو چت کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں شریف مخالفوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے جھوٹے موٹھے مقدمات میں بھی پھنسا دیتے ہیں ایسے ہی صحافت کا کردار روشن ہورہا ہے میں تو سمجھتا تھا کہ سیاست غلاظت ہے مگر جب میں نے صحافتی میدان میں پاؤں رکھا تو چھٹی کا دودھ یاد آگیا میرے چودہ طبق روشن ہو گئے اور میں نے خود کو کوسنا شروع کر دیا کہ یار تم تو بہت زیادہ بیوقوف شخص ہو جو اس سبجیکٹ کو جانتے ہوئے بھی اس کی رٹ لگائے بیٹھے ہو یہ تمہارا فخر تمہیں بلندیوں کی بجائے پستیوں میں لے جائے گا میں نے اس سبجیکٹ کو اس لئے ٹچ کیا تھا کہ میں اچھا انسان بن جاؤں گااور لوگ میرے علم سے فیض یا ب ہو پائیں گے ہر چھوٹے بڑے شہر میں صحافیوں کے کلب بنتے دیکھ رہا ہوں اور ہر کلب میں دو ، دو، تین ، تین پریس کلب بن رہے ہیں اور ہر پریس رپورٹر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد لوگوں کے پیسوں سے بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے یہ لوگ شوقیہ نہیں بلکہ پیشہ ور بن کر اپنے پاپی پیٹ بھرنے کی فکر میں میں لگ چکے ہیں جیسے مجھے ان لوگوں سے مہا نفرت ہے اسی طرح یہ لوگ مجھے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں میرا پیشہ دیانتداری رہا ہے اور ہے جبکہ کرپٹ افراد مجھے منہ نہیں لگاتے پریس کلب کے چوہدریوں نے مجھے دل سے ہی قبول نہیں کیا وہ مجھے صحافی مانتے ہی نہیں لیکن یہ دو جماعت پڑھے خود کو سینئر صحافی لکھتے نہیں تھکتے غلطی سے اگر انکا کوئی میسج میرے موبائل پر دعویٰ بول دے تو دو سطریں میسج کی ہوتی ہیں جبکہ 4سطریں انکے عہدوں کی ہوتی ہیں مثلاً کارسپوڈنٹ گروپ آف نیوز ، جیو نیوز، جیو تیز چئیرمین پریس کلب کوٹرادھاکشن اس طرح کے کئی اور عہدے درج ہوتے ہیں یہ نفسیاتی مریض نہ جانے ایسا روئیہ اور فلسفہ اپنا کر ہم لوگوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں آج کل صحافتی تنظیموں کی آئے روز بھر مار ہوتی جارہی ہے ہر روز دو چار بڑے بڑے ناموں کی تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں اور بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑی تنظیم ہے آئیے اور اس میں اپنا حصہ ڈالئیے مگر متعدد ایسی تنظیموں میں نام نہار صحافی ملتے ہیں اکثر عہدیدار میٹرک فیل سرکاری ملازمتوں کے بھگوڑے ، قبہ خانے چلانے والے ،منشیات فروش جرائم پیشہ افراد اپنے غیر قانونی کاروبار کو تحفظ دینے والے لوگ ہیں سیاستدانوں کے خلاف بولنے والوں کی کمی نہیں جبکہ سیاستدانوں کو لوٹنے والے صحافیوں کو پکڑنے کے لئے کوئی قانون جاری نہیں ہوسکا میں نے دیکھا اور سنا ہے کہ چلو چھوڑ یار یہ صحافی ہے چاہے جیسا بھی ہے ایک پولیس آفیسر کے الفاظ تھے کہ ہمیں صحافیوں سے بہت ڈر لگتا ہے چاہے وہ نام نہاد ہی ہو یہی وجہ ہے کہ دو نمبری ہی نہیں بلکہ 10نمبری بھی 5سو روپے میں کسی چھوٹے اخبارکا پریس کارڈ خریدنے کی کوشش میں لگا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو کوئی نہ کوئی بوٹوں والا ان دونوں شعبوں کا آپریشن کر دے گا اور پھر یہ آپریشن بہت ہولناک ہوگا کہ کوئی شخص سیاستدان اور صحافی کہلانا پسند نہیں کرے گا بلکہ کہے گا یار میرا کیا تعلق اس شعبہ سے میں تو ایک امن پسند شہری ہوں ۔

Maqsood Anjum Kamboh
About the Author: Maqsood Anjum Kamboh Read More Articles by Maqsood Anjum Kamboh: 38 Articles with 29822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.