ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کے پاکستانی انداز
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کے45ویں صدر کی
حیثیت سے کافی بڑے مجمع میں حلف اٹھا لیا۔پاکستانی سیاست کی مانند وہاں یہ
بحث چھڑچکی ہے کہ حلف برداری کی تقریب میں لوگوں کی تعداد کیا تھی۔ صحافیوں،
تجزیہ نگاروں اور سروے کرنے والے اداروں کی جانب سے جب تعداد سامنے آئی تو
ٹرمپ بپھر گئے، سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں پر اول فول بکا،
تعداد کم بتانے والوں کو برا بھلا کہا، وہی پاکستانی سیاست کا انداز، ایک
چیز سامنے نظر آرہی ہے اس کے باوجود سیاست کے کھلاڑی سفید جھوٹ بولتے
شرمندہ نہیں ہوتے۔ ٹرمپ چاہے کچھ بھی کہیں ان کی حلف براداری تقریب کا مجمع
اوباما کی حلف برداری تقریب سے بہت کم تھا۔ لیکن ٹرمپ اس موضوع پر بات کرتے
ہوئے آگ بگولا ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ تعداد کم بتانے والوں پر سخت برہمی کا
اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے، گویا ٹرمپ نے اپنی
عملی سیاست کا آغاز پاکستانی انداز سیاست کی طرح کیا ہے۔
امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں ٹرمپ کی مخالفت میں احتجاج
ہوئے لیکن تمام تر احتجاج اور مظاہروں کے باوجود ٹرمپ نے حلف اٹھا یا ۔
سابق صدر بارک اوبامہ نے خوش اسلوبی کے ساتھ ٹرمپ کو امریکہ کی صدارت منتقل
کرنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے والی صدارتی
امیدوار جسے ٹرمپ نے شکست دی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئیں۔ باوجود اس
کے کہ ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن امریکی
طرز انتخاب نے ہیلری کو شکست اور ٹرمپ کو فاتح قرار دیا۔امریکی الیکٹرول
کالج جو امریکی صدر کا انتخاب کرتا ہے کل 538 نمائندوں پر مشتمل ہے ،انتخاب
میں ٹرمپ نے 306 اور ہیلری کلنٹن نے232گویا 76ووٹوں کی برتری سے ٹرمپ چار
سال دنیا کی سپر پاور کا حکمراں رہے گا۔ یہاں بھی پاکستانی سیاست کا ایک
عنصر دکھائی دے رہا ہے وہ یہ کہ ٹرمپ کے مخالفین ہیلری کی شکست کو تسلیم
نہیں کر رہے اور ٹرمپ پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔یہاں
تک کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت میں اور ہیلری کی شکست میں امریکہ کے حریف
ملک روس نے ٹرمپ کو فاتح قرار دلوانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ہاں
بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ سیاست داں دوسرے کی جیت کو قبول ہی نہیں کرتے اور
طرح طرح کے الزامات لگانے میں دیر نہیں لگاتے۔امریکی انتخابات میں ایجنسیوں
خاص طور پر غیر ملکی ایجنسیوں کے عمل دخل کی باتیں حیرانی کا باعث
ہیں۔پاکستان میں تو یہ عام سے بات ہے۔ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ ہوسکتا
ہے کہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل کوئی ایسی صورت حال سامنے آجائے جس کے
نتیجے میں ٹرمپ کو غیر یقینی کی صورت حال کا مقابلہ کرنا پڑجائے اور وہ حلف
نہ اٹھا سکے لیکن ایسے تمام شکوک و شبہات محض قیاس آرائیوں تک ہی محدو د
رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف پرامن طریقے سے حلف اٹھایا بلکہ اس کے بعد عوام
سے خطاب بھی کیا ۔ اب ایک ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک غیر سیاسی شخص تھا امریکہ کا
اہم سیاست داں بن چکا ہے ۔جب وہ صدارتی مہم چلا رہا تھا اس وقت وہ دھاڑتا
چنگھاڑتا ہوا شیر تھا لیکن صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد وہ مختلف شخص نظر
آرہا ہے ،پیار محبت کی باتیں بھی کررہا ہے، اس نے کہا کہ امریکی کالے ہوں
یا گورے ان کے جسم میں سرخ خون ہی گردش کررہا ہے۔ حالانکہ اس نے اپنی
انتخابی مہم میں کالے امریکیوں کے لیے مختلف باتیں کیں تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ
سیاست کا کھلاڑی نہیں تھا، اسی لیے وہ تو امریکہ کے مالدار بلکہ ارب پتیوں
میں سے ایک ہے، اس کا رئیل اسٹیٹ کاکاروبار بہت وسیع اور کئی ملکوں تک
پھیلا ہوا ہے۔ اس نے دولت کے بل بوتے پرسیاست کے میدان میں بھی اپنے جوہر
دکھائے ۔ وہ ایک نجی ٹی وی چینل کا بھی مالک ہے ۔ امریکہ میں ٹرمپ کی وجہ
شہرت ایک سیاسی لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ وہ امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کے
کاروبار کے ماہر کے طور پر جاناجاتا ہے۔
اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کا ڈیٹا بیس
بنانے کی تجویز دی تھی جسے لوگوں نے غیر منطقی قرار دیا، مسلمانوں کے لیے
علیحدہ شناختی کارڈ کے اجراء کی بات کی تھی جسے امریکی قانون اور اخلاق کے
منافی ٹہرایا گیا۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ سے بے دخل کردینے کی بات بھی
کی تھی جس سے لوگ ھیران ہوئے، حتیٰ کہ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے
بھی ٹرمپ کے اُن خیالات کو منفی اور امریکہ کے قانون کے خلاف قرار دیا تھا۔
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کے تارکین وطن کے خلاف بھی مہم
چلائی ، وہ ہسپانوی اور کالے امریکیوں کے خلاف بھی باتیں کرتے رہے ہیں ۔
انہوں نے بانگ دہل کہا کہ میکسیکو کے 20لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن
جو امریکہ میں آباد ہوچکے ہیں انہیں امریکہ سے نکال باہر کیا جائے گا۔
امریکہ کی معاشی ترقی میں تارکین کا اہم کردار ہے۔ اگر یہ تمام تارکین
امریکہ سے نکال دیے جائیں تو امریکہ کی تمام تر ترقی ٹریڈ ٹاور کی طرح
دھڑام سے زمیں بوس ہوجائے گی۔ اس نے نسل پرستی کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ نسل
پرستانہ سیاست نے بھارت میں نریندر مودی جیسے سیاسی لیڈرکو مقبول بنا یا
اور وزیر اعظم کے منصب پر بھی فائض کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہی محسوس کرتا
تھا ، اس کے خیال میں یہ عوام کی دکھتی رگ تھی، انہیں اس جانب متوجہ کرنے
سے سیاست کی بازی اس کی گرفت میں آجائے گی ور ایسا ہی ہوا ، اس کی اس نسل
پرستانہ سیاست نے اس کی کامیابی میں اہم کرادار ادکیا ۔
دنیا میں پھیلی ہوئی دہشت گردی جس میں طالبان کے علاوہ اب داعش کی جانب سے
کی جانے والی کاروائیوں کو بنیاد بنا کر کسی بھی قوم کے لیے سرحدوں کو بند
کردینا، ان کے لیے علیحدہ شناختی کارڈ یا ڈیٹا بیس کی بات کرنا، مسلمانوں
کی عبادت گاہوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنا کسی بھی طور مناسب
نہیں،ٹرمپ نسل پرستی اور مسلم دشمنی کی بات کررہا ہے، ایسا وہ اپنی انتخابی
مہم میں کرتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ دو اصولوں پر عمل کرے گا ایک یہ
کہ’ امریکی خریدیں‘ اور’ امریکیوں کو ملازمت دیں‘ ۔ اس کا کہنا ہے کہ
اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف دنیا کو متحد کرے گا اور سب مل کر
اس کا خاتمہ کردیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف کون نہیں، دہشت گردی کسی بھی جانب
سے ہو،کوئی بھی کرے وہ قابل مذمت ہے۔ لیکن چند لوگوں کے غلط کام کی سزا کسی
بھی طرح افراد کے پورے گروہ کو نہیں دی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی باتیں اور
دلیلیں غیر اخلاقی اور امریکہ کے قانون کے منافی ہیں۔ صدر بارک اوبامہ کہے
چکے ہیں کہ’ امریکی عوام اور امریکی دستور اس نوعیت کی انتہا پسندی کی
اجازت نہیں دیتے اور امریکہ مسلمانوں کے تمام حقوق کا ضامن ہے‘۔ امریکہ کی
سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے مسلمانوں کے خلا ف ڈونلڈ ٹرمپ کی دشنام
طرازی کے جواب میں کہا تھا کہ’ مسلمانوں سے تعصب رکھ کر داعش کو شکست نہیں
دی جاسکتی۔کھوکھلے نعروں اور مسلمانوں پر پابندی جیسی باتیں کر کے شدت
پسندی کو ختم کرنا ممکن نہیں‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ’ تعصب،غرور اور تکبر
امریکی صدر کی خصوصیات نہیں ہوتیں‘، ہیلری کے مطابق ’ شدت پسندی سے نمٹنے
کی حکمت عملی میں مسلمانوں کو سائیڈ لائن نہیں کیا جانا چاہیے وہ امریکہ
میں مقیم ہوں یا کہیں اور کیوں کہ مسلمان داعش کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی
ہیں‘۔ ہیلری کلنٹن کے علاوہ بھی کئی امریکی لیڈروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید
کا نشانہ بنا چکے ہیں ۔ جیب بش نے بھی ٹرمپ کی مخالفت کی ۔ جیب بش نے ڈونلڈ
ٹرمپ کو ذہنی مریض قرار دیا تھا۔ سابق نائب صدر ڈک چینی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی
مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی کو اپنے اعتقاد کے خلاف کہا تھا ، امریکی
ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال ریان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کوغیر امریکی
کہتے ہوئے انہیں فضولیات سے تعبیر کیا تھا۔ امریکہ کے علاوہ اسرائیل کی
پارلیمان کے چالیس سے زیادہ اراکین نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے کی مخالفت
کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کا دورہ منسوخ کرادیا تھا لیکن بہت سے
اسرئیلی ٹرمپ کے حمایتی کے طور پر سامنے بھی آئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے’گن کلچر‘ کا
بھی امریکہ میں بہت مزاق اڑایا گیااور انہیں غیر سنجیدہ لوگوں میں گردانا
گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کو لوگوں نے سنا،اور
انہیں اپنا صدر منتخب کر لیا تاہم ٹرمپ اب صدر کی حیثیت سے جو کچھ بھی کرے،
اظہار رائے کو جس قدر دبانے کی کوشش کریں، جیسے پاکستان میں ہوتا چلا آیا
ہے ، اپنے مخالفین کو سلاخوں کے پیچھے ڈالیں وہ ایک متنازعہ ہیں اور
متنازعہ صدر ہی رہیں گے۔
پاکستانی سیاست میں اقربا پروری کا عنصر پایا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست داں
اپنی پارٹی میں اگر حکمراں بن جائیں تو حکمرانی میں اپنے بچوں، قریبی
عزیزوں، رشتہ داروں، ملازموں، ہمسایوں حتیٰ کہ دور پرے کے جاننے والوں ،
اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے باپ دادا کے ساتھ کام کرنے والوں یا احسانات کرنے
والوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر شاہد مسعود ’ہر اہم منصب پر میرا ہی
آدمی لگایا جائے‘، مثالیں دینے کی ضرورت نہیں بھٹو خاندان اس حوالے سے مثال
ہے، نواز شریف اور ان کی حکمرانی میں اس عنصر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے،
اخبارات میں نواز شریف کے بیٹی، بھائی، بھتیجے، داماد، بھانجے، بھانجیاں،
بھتیجیاں، اپنے اور بیگم صاحبہ کہ عزیز رشتہ دار اہم منصب پر فائز نظر آرہے
ہیں، رکن اسمبلی ہیں، سینٹ میں ہیں، وزیر ہیں ، سفیر ہیں۔آج کل پاناما لیکس
کے حوالے سے قطری خط کا بہت چرچہ ہے، اس وقت قطر میں پاکستانی سفیر اس بنکر
کا بیٹا ہے جس نے شریف فیملی پر کبھی کوئی احسان کیا ہوگا۔اس کے احسان کا
بدلہ اسے بنکر ہوتے ہوئے سفارت کی شکل میں دیا گیا۔ آج ہی کی خبر ہے جس کے
رپورٹر معروف صحافی انصار عباسی ہیں کہتے ہیں کہ توقع ہے کہ مریم نواز2018
کے عام انتخابات میں حصہ لے کر پالیمانی سیاست کا آغاز کردیں گی۔ مریم نواز
سیاسی مخالفین کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ میں نے بہت پہلے اپنے کسی کالم میں
لکھا تھا کہ نواز شریف جس طرح مریم نواز کی سیاسی تربیت کررہے ہیں اپنے
بھتیجوں کو جو طویل عرصے سے میدان سیاست میں موجود ہیں کو بائی پاس کر رہے
ہیں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے آئندہ وزیر اعظم
کی امیدوار مریم نواز ہوں گی۔اسی طرح زرداری صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ
اپنی بیٹی کو بھی میدان سیاست میں اتارنے کی تیاریوں میں ہیں۔ اس لیے کہ
بلاول سیاست میں اس طرح آگے نہیں بڑھ پارہے جیسا کہ زرداری صاحب کا خیال
تھا اس لیے، اب وہ اپنی بیٹی صاحبہ کو بھی سیاست میں لانے کی فکر میں ہیں۔
یہ ہے موروثی سیاست۔ امریکی صدر ٹرمپ ابھی سے اس پالیسی پر گامزن دکھائی دے
رہے ہیں۔ حالانکہ امریکہ کا ماضی اس سے مختلف نظر آتا ہے، ٹرمپ کے خاندان
کے افراد ، اہل خانہ سرکاری امور میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹا تے دکھائی دے
رہے ہیں۔ امور سلطنت کو نمٹاتے ، احکامات جاری کرتے ، حکم چلاتے نظر آرہے
ہیں۔ یہ صورت حال امریکی سیاست کے لیے کسی بھی طور مناسب نہیں۔(29جنوری2016) |
|