۔۔۔جشن جمہوریت یا جمہوریت کا خون
(Nazish Huma Qasmi, Mumbai)
دلتوں کو مارنے والے مسلمانوں کو فساد ات کی آگ میں جھونکنے والے ان کے املاک کو تباہ وبرباد کرنے والے دیش بھکت بنے بیٹھے ہیں۔میڈیا خاموش ،پولس تماشائی بنی بیٹھی اور عدلیہ اپنا راستہ بھٹک رہی ہے۔گاندھی جی کے امن کو ہٹلر کے فساد میں بدلنے کی کوشش جاری ہے اور یہ سب کچھ اتنے منظم طريقہ پر انجام دیا جارہا ہے کہ اگر کوئی آواز بھی اٹھائے تو فوراً اس کی آواز دبا دی جاتی ہے، میڈیا ایک خاص طبقہ کا ترجمان بن گیا ہے، حتی کہ ہماری فوج بھی اب ان کے کرتوتوں سے ناپاک ہو گئی ہے،سرحد پر رہ کر ملک کی حفاظت کرنے والے جوانوں کو درست کھانا میسر نہیں ہے۔ |
|
اس سال 26 جنوری کو پورے ملک میں 68 واں
جشن یوم جمہوریہ نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا اور یہ جشن
جمہوریت کیوں نہ منایا جائے کیوں کہ یہی وہ مبارک دن ہے جس میں ہندوستان کے
رہنے والوں کیلئے ہندوستان کے ہی افراد کے ذریعہ تیار شدہ آئین ملا ۔ ایک
ایسا آئین اور دستور جو گونا گو خصوصیات کی بنا پر دنیا کا سب سے بہترین
جمہوری دستور ہے، جس میں تمام مذاہب اور ہر شہری کے مکمل حقوق کی رعایت کی
گئی ہے،جہاں کوئی بھی ذات پات کی بنیاد پر بڑا یا چھوٹا نہیں ہے،ایسا دستور
جس نے ہندو قوم میں صدیوں سے رائج چھوت چھات کے سسٹم کو بند کردیا، ایسا
دستور جس کیلئے ہم آج بھی فخر محسوس کرتے ہیں، اور دنیا کو فخر سے بتاتے
ہیں کہ ہمارے ملک میں تمام لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی
حاصل ہے ۔ اس سال یوم جمہوریہ کے موقع سے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے ایک
مرتبہ پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام لوگ ملک میں امن وامان اور شانتی
کے ساتھ رہیں۔یوم جمہوریہ کے موقع سے آئے متحدہ عرب امارات کے شہزادہ محمد
بن زائد کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی بات ہوئی ہے اور ۱۴؍
نکاتی معاہدہ پر دستخط بھی عمل میں آیا ۔ہےبہر حال دستوري اعتبار سے آج
بھی ہمارا ملک دنیا کا سب سے زیادہ صاف ستھرے قانون کا حامل ملک گرداناجاتا
ہے لیکن افسوس کہ ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘ آج ملک میں ہی
بسنے والے کچھ افراد ذہنی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔۔۔جنہیں ملک کا یہ
قانون پسند نہیں ہے جو ملک کے امن و امان کو فتنہ و فساد سے بدلنا چاہتے
ہیں۔ اور گاہے گاہے اس کا نظارہ بھی ملک میں پیش کرتے ہیں وہ طبقہہٹلر اور
مسولینی کے پیروکار بنے بیٹھے ہیں،وہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کی حالت وہی
ہوجائے جوہٹلر کے زمانہ میں جرمنی کی تھی۔ یہ فرقہ پرست گنگا جمنی تہذیب
دشمن بنے ہوئے ہیں، ان کی ہمہ دم یہ کوشش رہتی ہے کہ کس طرح دیگر اقلیتوں
کو نشانہ بنایا جائے،انہیں ستایا جائے،ان کی معیشت برباد کی جائے ، ان کے
نوجوانوں کو پابند سلاسل کرکے ان کا مستقبل تاریک کیاجائے۔ افسوس کہ اب تک
یہ سارا کام چھپ کر اور رات کے اندھیرے میں انجام دیا جارہا تھا لیکن اب یہ
کام دن کے اجالے میں انجام دئیے جارہے ہیں ۔اب دلتوں کو مارنے والے
مسلمانوں کو فساد ات کی آگ میں جھونکنے والے ان کے املاک کو تباہ وبرباد
کرنے والے دیش بھکت بنے بیٹھے ہیں۔میڈیا خاموش ،پولس تماشائی بنی بیٹھی اور
عدلیہ اپنا راستہ بھٹک رہی ہے۔گاندھی جی کے امن کو ہٹلر کے فساد میں بدلنے
کی کوشش جاری ہے اور یہ سب کچھ اتنے منظم طريقہ پر انجام دیا جارہا ہے کہ
اگر کوئی آواز بھی اٹھائے تو فوراً اس کی آواز دبا دی جاتی ہے، میڈیا ایک
خاص طبقہ کا ترجمان بن گیا ہے، حتی کہ ہماری فوج بھی اب ان کے کرتوتوں سے
ناپاک ہو گئی ہے،سرحد پر رہ کر ملک کی حفاظت کرنے والے جوانوں کو درست
کھانا میسر نہیں ہے۔
اگر سب کچھ ایسا ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب پورا ملک ان فرقة پرستوں
کی زد میں آجائے گالیکن پھر بھی ہم شان سے کہتے ہیں کہ ’’میرا بھارت مہان
ہے‘’کیونکہ ہمیشہ سے کچھ ایسے لوگ بستے آئے ہیں جو امن وامان کے دشمن
ہیں،ہمیں ہمارے ملک اور ملک کے آئین پر مکمل اعتماد ہے، ہم اپنے ان سرفروش
اکابرین کی تاريخ کو نہیں بھلا سکتے ہیں جنہوں نے بڑی جانفشانی اور عرق
ریزی کے بعد بابا صاحب امبیڈکر کی قیادت میں اس دستور کو مرتب کیا تھا،
دستور کے ہر ہر شق پر مکمل بحث ہوئی ہے تب کہیں جاکر 1950 میں یہ قانون
نافذ ہوا ہے، ہم نے کل بھی اس چمن کی آبیاری کی تھی اور آج بھی ہم اس چمن
کے نگہبان ہیں اور آئندہ جب بھی ضرورت پڑے گی ہم ویر عبد الحميد کی شکل
میں موجود رہیں گے۔ لیکن اتنا تو ضرور کہیں گے مسند اقتدارپر بیٹھے ہوئے
متمکنوںسے کہ تم جمہوریت کا جشن آخر کیوں منارہے ہو کیا کشمیر کے رستے لہو
جمہوریت پر بدنما داغ نہیں ہے ؟ کیا اقلیتی طبقے کے افراد کا قتل جمہوریت
کا قتل نہیں ہے ؟ کیا نجیب کو غائب کردینا جمہوریت کو غائب کرنے کے مترادف
نہیں ہے ؟ کیا جلی کٹو کو احتجاج کے بعد عدلیہ پر فوقیت دینا اور کشمیریوں
کے احتجاج کے بعد اسے پیلٹ گن کا نشانہ بنانا دوہرا معیار نہیں ہے؟ کسی
نیتا کی بھینس کھوجائے چند دنوں میں مل جاتی ہے لیکن نجیب دوماہ سے غائب ہے
کیا یہ ماں کے زخم پر نمک چھڑکنا نہیں ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اب تک نجیب
نہیں مل سکا ۔۔۔جیل تڑواکر بے گناہون کو چند منٹوں میں انکاونٹر کا نام لے
کر موت کی نیند سلانا وہیں اکالی دل کے غنڈوں کو چھڑواکر اسے باعزت مقام
دینااور موت کی نیند نہ سلانا جیل حکام کی بدنیتی نہیں ہے؟ اور اس جشن
جمہوریت کے موقع پر مسلمان محب وطن اپنے مدارس و مکاتب پر جھنڈا لہرا کر
ترنگے کی شان دوبالا کرتے ہیں لیکن وہیں ہندومہاسبھا کے اراکین اس مبارک دن
کو سیاہ دن مناتے ہیں اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے کیا یہ گوڈسے کو
خراج عقیدت پیش کرنا نہیں ہے؟ (منکول نے اس سلسلے میں بڑا ہی چبھتا تبصرہ
کیا ہے’’عجب المیہ ہے کہ وطن پرست لوگ غدار وطن کو حب الوطنی کا ثبوت پیش
کر رہے ہیں۔۔۔!) ۔ کیا یہ اُن مجاہدین آزادی کے ساتھ کھلا دھوکہ نہیں ہے
جنہوں نے اپنے خون جگر سے اس چمن کو سیراب کیا تھا، اپنی وطن کی آزادی کے
خاطر اپنی بیویوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیمی کا درد دیا تھا؟ خیر ہمیں کچھ
نہیں کہنا ۔۔۔۔بس ہمیں وہ جمہوریت چاہیے جس کا ہمیں آئین نے حق دیا ہے
تبھی حقیقی معنوں میں ہمارا جشن جمہوریت منانا درست ہوگا۔ نہیں تو اسی طرح
ملک میں دادری ۔نجیب ۔بھوپال انکاؤنٹر ہوتے رہے اور خاطی افراد گناہ گار
ہونے کے باوجود مجرموں کی فہرست سے دور رہے، اور بے گناہ جیلوں میں مرتے
رہے،جیل کی سلاخوں کے پیچھے جوانی برباد کرتے رہے تو یہ جشن جمہوریت نہیں
بلکہ جمہوریت کا خون ہے۔
|
|