کیا اہل کتاب عورت سے شادی کرنا جائز ہے؟

محترم قارئین، چند احباب نے مجھ سے پچھلے دنوں پوچھا تھا کہ کیا اہل کتاب عورت سے شادی کرنا جائز ہے؟

اس سلسلہ میں ایک علمی فتوی سے چند ایک اقتباس عرض ہیں:

اللہ سبحانہ وتعالی نے یھودی اور عیسائ عورت سے مسلمان مرد کو شادی کرنے کی اجازت دی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عفت و عصمت کی مالکہ ہونی چائیے یعنی زانیہ نہ ہو اسپر مسلمان کو ولایت ہوگی.

اللہ تعالی نے فرمایا:

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ: "آج تمہارے لیے... پاکدامن مسلمان عورتیں اور جن لوگوں کو تم سے قبل کتاب دی گئ ہے انکی پاکدامن عورتیں بھی حلال ہیں، جب تم انکو مہر ادا کر دو. اس طرح کہ تم ان سے باقعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، اور جو ایمان لانے سے کفر کا ارتکاب کرے گا اسکے اعمال ضائع اور اکارت ہیں. اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا.
(سورۃ المائدۃ 5: 5)

احصان سے یہاں مراد زانیہ نہ ہو

ابن کثیر کہتے ہیں:
وهو قول الجمهور ها هنا ، وهو الأشبه ، لئلا يجتمع فيها أن تكون ذمية وهي مع ذلك غير عفيفة ، فيفسد حالها بالكلية ، ويتحصل زوجها على ما قيل في المثل : " حشفا وسوء كيلة " والظاهر من الآية أن المراد بالمحصنات العفيفات عن الزنا .ا.هـ.

مفہوما ترجمہ: جمہور علماء کہتے ہیں کہ اس میں دو چیزیں جمع نہ ہوں جائیں. یعنی ایک تو وہ کتابیہ ہو اور پھر عفت وعصمت کی مالک بھی نہ ہو تو اس طرح اسکی حالت کلیتا ہی خراب ہو جاۓ گی.. اور ظاہر یہی کہ کہ آیت میں محصنات سے مراد زنا سے عفت و عصمت والی ہونی چاہیے
(تفسیر ابن کثیر مترجم جلد: 2 صفحہ: 71 تبع مکتبہ اسلامیہ)

امام طبری کہتے ہیں
قال الإمام الطبري في تأويل هذه الآية : " ( والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم ) يعني : والحرائر من الذين أعطوا الكتاب وهم اليهود والنصارى الذين دانوا بما في التوراة والإنجيل من قبلكم أيها المؤمنون بمحمد من العرب وسائر الناس أن تنكحوهن أيضاً ، ( إذا آتيتموهن أجورهن ) يعني : إذا أعطيتم من نكحتم من محصناتكم ومحصناتهم أجورهن وهي مهورهن " ( تفسير الطبري 6/104 ) .

ولكن لا يحل له أن ينكح المجوسية ولا الشيوعية ولا الوثنية أو ما يشبههم .
والدليل على ذلك قوله تعالى : ( ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمنّ ولأمة مؤمنة خير من مشركة ولو أعجبتكم .. ) البقرة/221 .

امام طبری کہتے ہیں مفہوم: جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئ ہے اور وہ تورات اور انجیل پر عمل کرنے والے یھودی اور عیسائ ہیں اور انکی پاکدامن عورتوں سے بھی نکاح کر سکتے ہو. یعنی جب انکے مہر ادا کر دو

کمیونسٹ بت پرست وغیرہ سے شادی کرنا حلال نہیں ہے، اللہ نے فرمایا:
،مفہوم: اور تم مشرکہ عورت سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آۓ
(سورۃ البقرۃ 221)

ولایت کی شرط پر مندرجہ ذیل آیت دلالت کرتی ہے. اللہ تعالی نے فرمایا:

مفہوم: اور اللہ تعالی نے کافروں کے لیے مومنوں پر کوئ راہ نہیں ہے
(سورۃ النساء آیت: 141)

اس لیے بہتر ہے کہ ایک مسلمان مرد اھل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنے کی بجاۓ ایک صحیح العقیدہ مسلمان عورت سے شادی کرے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وهي وصيَّة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم.

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : تُنكح المرأة لأربع لمالها ولحسبها وجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك .

مفہوم: عورت سے شادی اسکے مال و دولت، حسب و نسب، خوبصورتی اور دین کی وجہ سے کی جاتی ہے
اور پھر فرمایا: تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی کو اختیار کر
(متفق علیہ)

امام نووی رحمہ اللہ نے اسکی شرح میں فرمایا:

الصحيح في معنى هذا الحديث : أن النبي صلى الله عليه وسلم أخبر بما يفعله الناس في العادة فإنهم يقصدون هذه الخصال الأربع وآخرها عندهم ذات الدين ، فاظفر أنت أيها المسترشد بذات الدين ، لا أنه أمر بذلك.

وفي هذا الحديث : الحث على مصاحبة أهل الدين في كل شيء لأن صاحبهم يستفيد من أخلاقهم وبركتهم وحسن طرائقهم ويأمن المفسدة من جهتهم.

مفہوم: اس حدیث کہ صحیح معنی یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ان عادات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے وہ شادی کرتے ہیں اور انکے ہاں دین داری سب سے آخری ہوتی ہے. اس لیے اے رہنمائ چاہنے والے دین والی کو اختیار کر
(شرح مسلم للنووی ج: 10 ص: 52)

اسی طرح ایک مسلمان عورت نہ تو مشرک مرد اور نہ اہل کتاب مرد سے شادی کرسکتی ہے. اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ

مفہوم: اور مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں. ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے
(سورۃ البقرۃ 221)

عن قتادة والزهري في قوله : ( ولا تنكحوا المشركين ) قال : لا يحل لك أن تنكح يهودياً أو نصرانياً ولا مشركاً من غير أهل دينك .
امام طبری، قتادہ اور زھری رحمہم اللہ نے ایسا ہی فرمایا.
(تفسیر الطبری ج: 2 ص: 379)
یعنی کسی بھی قسم کے مشرک و اھل کتاب سے کسی مسلمان عورت کی شادی حرام ہے

اس ساری تفصیل کے بعد بھی اگر کوئ مسلمان اہل کتاب عورتوں سے شادی کرنا ہی چاہتا ہو تو ہم انکے سامنے اسکی چند خرابیاں بھی رکھ دیتے ہیں.

1. خاوند اپنی بیوی سے اسکے دین کے معاملہ میں نرم رہے گا اور خاص کر گے اگر اسکی بیوی اپنے دین پر سختی سے کاربند ہو، گرجہ جاۓ اور سلیب لٹکاۓ. اسی طرح آنے والی اولاد پر بھی اسکا برا اثر مرتب ہو سکتا ہے.
2. کتابی بیوی حیض کے بعد فورا غسل کرنے میں احتیاط نہ کریگی
اور نہ حیض کے دوران خاوند سے ہم بستری سے سختی سے منع کرے گی. جس سے اسکو شرعی حرج اور جسمانی اور جسدی نقصان ہوگا.
3. کتابی بیوی کے لباس اور مردوں سے میل جول اور ان سے بات چیت کی وجہ سے اسکے مسلمان خاوند کو مشکلات کرنا پڑ سکتا ہے
4. مسلمان خاوند اور کتابیہ بیوی کے مابین اختلاف، طلاق کی صورت میں کافر حکومتیں ان کتابی عورتوں کا ساتھ دیں گی کہ ان کی اولاد ماں کے سپرد کی جاۓ، جو کہ ایک مسلمان کی اولاد کے ضیاع اور کفر میں واقع ہونے کا سبب ہو گا. کئ ایسے واقعات ہیں جن میں خاوند کتابیہ بیوی کے دین پر چل پڑا. ان تفصیلات کے باوجود اگر ایک مسلمان خاوند کتابیہ بیوی سے شادی کرے تو وہ اسکو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا

کیونکہ اللہ نے فرمایا:
لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

مفہوم: دین کے بارے میں کوئ ضبردستی نہیں، ہدایت ضلالت و گمراہی سے واضح اور روشن ہو چکی ہے.."
(سورۃ البقرۃ 256)

حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:
يقول تعالى : { لا إكراه في الدين } أي : لا تكرهوا أحداً على الدخول في دين الإسلام فإنه بيِّن واضح جليٌّ دلائله وبراهينه

مفہوم: یعنی تم کسی کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور نہ کرو کیونکہ دین اسلام کے حق ہونے کے دلائل و براھین واضح اور ظاہر ہیں
(تفسیر ابن کثیر مترجم نسخہ ج1 ص424)

یہ معلوماتی فتوی اور دلائل محترم صالح منجد کی ویب سائیٹ سے ماخوذ ہیں

ضروری نوٹ: نیز یاد رہے کہ دین کے مختلف شعبہ جات مثلا منہج، جہاد، خروج وغیرہ پر کلی طور پر ہمارا ان ویب سائیٹ کے فتاوں سے متفق ہونا ضروری نہیں. اس لیے ہماری رائے میں ان ویب سائیٹ سے صرف وہ شخص یا طالب العلم استفادہ کرے جو قرآن و السنۃ کو علی منہج السلف پر صحیح و حسن اسناد کی روشنی میں سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہو اور حق اور باطل میں فرق کر سکے اور اسکے ساتھ ساتھ جمہور علماء حق اور کبار اہل علم سے تمسک اختیار کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 410751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.