مسلمانوں میں شراب کا استعمال!
(Inayat Kabalgraami, Depalpur)
گزشتہ ہفتے سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس سجاد
علی شاہ کی سرباراہی میں دو روکنی بینچ نے شراب خانو پر دلائل سونے دوران
سماعت اقلیتی ممبر نیشنل اسمبلی رمیش کمار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں
حیرت ذادہ ہو کہ مسلمان وکلا کیسے یہاں کھڑے ہے شراب خانوں کی دفاع کیلئے ،شراب
تمام مذاہب میں حرام ہیں ،اس پر دین اسلام کیا کہتا ہے اس پر کچھ روشنی ڈال
کر آگے چلتے ہے ،ہمارا دین جو انسانیت کو پاکیزگی وپاک بازی، اچھائی و پاک
دامنی، شرم وحیا اور راست گوئی جیسی اعلیٰ صفات سے متصف اور مزین دیکھنا
چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بے شرمی، بے حیائی، بے عقلی، بدگومانی اور کم
زرفی جیسی مبغوض وملعون عادات اور خسیس ورذیل حرکات سے بچنے کا حکم کرتا
ہیں۔اسی بنا پر اسلام نے ہر اس چیز کے کھانے، پینے اور استعمال کی اجازت دی
ہے جو حلال، طیب، پاکیزہ اور صاف ستھری ہو، جس کے استعمال سے صحت، قوت،
طاقت، فرحت اور انبساط جیسی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہوں اور کردار واخلاق
جیسے عمدہ خصال بنتے اور سنورتے ہوں اور اس کے برعکس ہراس چیز کے برتنے اور
استعمال سے منع کیا ہے جس سے صحت ایمانی اور صحت جسمانی کی خرابی، عقل
وشعور جیسی نعمت کا زوال اور تہذیب واخلاق جیسے اعلیٰ اوصاف کے بگڑنے یا
بدلنے کا اندیشہ اور شائبہ تک پایا جاتا ہو۔قرآن کریم اور سنت نبویہ ﷺکی
نصوص قطعیہ اور صحابہ کرام ؓکی تصریحات سے حلال وحرام کی وضاحت ہوچکی ہے،
جن کی تفصیلات وتشریحات فقہائے عظام اجتہاد کے ذریعے اور علمائے کرام وعظ
وبیان وافتاء کے ذریعے امت مسلمہ کے سامنے پیش کرتے آئے ہیں۔ایک مسلمان کے
لئے جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ ،قربانی اور حج کی فرضیت کا عقیدہ رکھنا، ان
کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا فرض اور ضروری ہے، اسی طرح شراب، جوا،
سود، زنا اور چوری کی حرمت کا عقیدہ رکھنا، اس کی حرمت کا علم حاصل کرنا
اور اس سے بچنا بھی فرض اور ضروری ہے۔شراب کے نفع ونقصان، حلال وحرام ہونے
کے اوقات، پھر قطعی طور پر ممانعت کا حکم اور حرمت وممانعت کی حکمت کا ذکر
قرآن کریم میں تین مقامات پر آیا ہے۔:ترجمہ:۔’’تجھ سے پوچھتے ہیں شراب کا
اور جوئے کا، کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو
اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدہ سے…‘‘ (البقرہ:۱۲)۔اس آیت میں شراب
کی بابت سوال کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ اگرچہ شراب
اور قمار میں کچھ فائدہ ہے، لیکن ان کا گناہ اور نقصان ان کے فائدہ سے شدید
تر ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ شراب پینے سے عقل جاتی رہتی ہے اور یہی عقل ہی
انسان کو تمام برائیوں اور افعال شنیعہ سے بچاتی ہے۔اس آیت کے نزول کے بعد
بہت سی محتاط طبیعتوں نے مستقل طور پر شراب نوشی ترک کردی، پھر کسی موقع پر
نماز مغرب ہورہی تھی، امام صاحب نے نشہ کی حالت میں سورۃ الکافرون میں
’’لاَأَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ کی جگہ‘‘أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘پڑھا،
جس سے معنی میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی، یعنی شرک سے اظہار برأت کی جگہ شرک
کا اظہار لازم آیا تو اﷲ تعالیٰ نے فوراً یہ آیت نازل فرمائی،: ترجمہ:۔’’اے
ایمان والو! نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو، یہاں تک کہ
سمجھنے لگو جو کہتے ہو… (النساء:۳۴)‘‘۔چونکہ اس آیت سے بھی شراب کی
ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے، جس کی بنا پر بہت سے حضراتِ صحابہ کرام نے
بالکلیہ شراب نوشی ترک کردی اور بہت سوں نے نماز عصر اور نماز مغرب کے بعد
شراب پینا اس لئے چھوڑ دیا کہ ان نمازوں کے اوقات قریب قریب ہیں۔ بہرحال
قرآن کریم کے اشارات اور قرائن سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ عنقریب شراب کی
حرمت کا قطعی حکم نازل ہونے والا ہے، اس لئے حضرت عمر نے ان دو آیات کے
نزول کے بعد یہ دعا کی: اے اﷲ! شراب کے بارہمیں فیصلہ کن حکم فرما دیجئے۔
تیسرے مرحلہ پر سورۃالمائدہ کی یہ آیات نازل ہوئیں:ترجمہ:۔’’اے ایمان والو!
یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے، سو ان
سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی
اور بیر بذریعہ شراب اور جوئے کے اورروکے تم کو اﷲ کی یاد سے اور نماز سے،
سو اب بھی تم باز آؤ گے؟ اور حکم مانو اﷲ کا اور حکم مانو رسول ا کا اور
بچتے رہو، پھر اگر تم پھر جاؤگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ا کا ذمہ صرف
پہنچادینا ہے کھول کر‘‘۔ (سوراۃالمائدہ:۰۹،۱۹،۲۹)۔محدث العصر حضرت علامہ
سید محمد یوسف بنوری نور اﷲ مرقدہ مذکورہ بالا آیات کو نقل کرنے کے بعد
تحریر فرماتے ہیں:اس آیت کریمہ میں شراب کی حرمت کس مؤثر انداز سے بیان
فرمائی ہے، کسی حرام اور ممنوع چیز کی حرمت کا اعلان اس انداز سے نہیں
کیاگیا اور ساتھ ہی ساتھ ممانعت کی علت وحکمت بھی دینی ودنیوی دونوں پہلو
سے بیان فرمادی، کسی تشریح وتفسیر کے بغیر صرف ترجمہ سمجھ کر اس آیت کو بار
بار پڑھئے اور سوچئے کہ کتنا بلیغ پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے۔غور
فرمایا جائے کہ حرمت کے اعلان کے لئے کتنا مؤثر وبلیغ طرز اختیار فرمایا
گیا ہے، ان حقائق کے بعد کتنا احمقانہ خیال ہے اور کتنا جاہلانہ تصور ہے کہ
یہ کہا جائے کہ قرآن کریم نے نہ تو صریح حرام کا لفظ استعمال کیا ہے اور نہ
ہی ان محرمات کا جہاں ذکر ہے، وہاں بیان کیا ہے۔ اثم، رجس، اجتناب انتہاء،
عمل شیطان، سببِ بغض وعداوت، نماز وذکرُ اﷲ سے غفلت کا باعث، وغیرہ، وغیرہ
تعبیرات سے کیا ایک لفظ حرام زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے؟ کیا کسی چیز کی ممانعت
کی ایک ہی تعبیر ہو سکتی ہے؟ کل کو ’’زنا‘‘ کے بارے میں بھی کہا جائے گا کہ
حرام کا لفظ کہاں ہے؟ وہاں تو صرف ’’لاَتَقْرَبُوْا الزِّنَا‘‘ کا حکم ہے،
وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس قسم کے خرافات علمی دلائل کے سامنے کچھ وقعت رکھتے ہیں؟
بعض خِردباختہ اونچے منصب والوں سے میں نے خود سنا ہے کہ جس چیز میں حکومت
کا انٹرسٹ ہو یا خارجی سیاست کا تقاضا ہو، اس پر پابندی نہیں لگائی
جاسکتی۔’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب
رکھی ہوئی تھی، میں نے اس کے بارہ میں آپ ﷺسے دریافت کیا (آپ ﷺنے اس شراب
کو ضائع کرنے کا حکم دیا) میں نے عرض کیا کہ وہ تو ایک یتیم کی ملکیت ہے؟
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اس کوبہادو‘‘۔(مشکوٰۃ:۸۱۳) لیکن آج مسلمانوں کا
ادبی شغل شراب کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب تک شاعر شراب نہ پیے
وہ اچھا شعر نہیں کہ پاتا۔ کیا ہوگیا مسلمانوں کو آج ،شراب کی ایک گھونٹ
پینے سے چالیس دن تک ایمان سے مسلمان خارج ہوتا ہے خدا نا خواستہ اگر ان
چالیس دنوں میں توبہ کیئے بغیر یہ مر گیا تو کیا حال ہوگا اس کا قبر میں ۔پاکستان
میں جنرل یحی پہلے حکمران تھے جن کی شراب نوشی اور زبان زد عام ہوئی مگر
پھر بھی کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ پاکستان میں شراب پر پابندی وزیراعظم
ذوالفقار علی بھٹونے لگائی اور اس کا اثر جنرل ضیاء کے دور تک رہا۔ اس کے
بعد شراب اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کا پینا پلانا کوئی معیوب نہیں رہا۔
نام کے مسلمان جب ذرا دولت کی ریل پیل دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے شراب اور
کباب سے اپنی تواضح کرتے ہیں۔ آج شراب خانوں کی وکالت کرنے والے مسلم وکلا
کو اقلیتی ایم این ائے سے ہی سبق لے لے نا چاہی ئے۔ ورنہ خود کو مسلمان
کہلوانہ بند کردیں ۔ پتہ نہیں شراب پینے کے باوجود مسلمان اپنے آپ کو کیسے
مسلمان سمجھتا ہے۔ ہو سکتا ہے جس طرح باقی خرافات کے بہانے نکال لئے گئے
ہیں اسی طرح شراب پینے کا بھی کوئی بہانہ تراش لیا گیا ہو گا۔ میراخیال ہے
کہ روشن خیالی اور عملیت پسندی آنے سے مسلمانوں میں شراب کا استعمال پہلے
سے بڑھ گیاہیں۔اﷲ ہم سب کو ہدایت نصیب کریں ۔(آمین)
|
|