پاک وطن کی پاک زمینو ں کا پاک دھندا !
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
پاکستانی عوام کو شروع سے ہی یہ فکر لاحق
رہی کہ دشمن ملک بھارت پاکستان پر قبضہ کرنے کے درپے ہے۔مشرقی پاکستان کا
المیہ رونما ہوا توہم اپنے بنگالی بھائیوں سے کی گئی زیادتیوں کو بھلا کر،
بھارت کی فوجی مداخلت کے فیصلہ کن اقدام کو دیکھتے ہوئے اپنی اس سوچ میں
مستحکم ہو گئے کہ بھارت پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔یوں عوام کی توجہ
مکمل طور پر اسی جانب مبذول رہی کہ کس طرح انڈیا ہمارے پاک ملک کے علاقوں
پر قابض ہونے کے درپے ہے۔1984ء میں انڈیا کی فوج نے سیاچن کے ایک بڑے رقبے
والے علاقے پر قبضہ کر لیا تو پاکستانی پریشان اور بے چین ہو گئے لیکن بھلا
ہو اس وقت کے سربراہ جنرل ضیا ء الحق کا کہ جنہوں نے ہمیں بتایا کہ سیاچن
میں تو گھاس کا تنکا بھی نہیں اگتا''،حاکم وقت کی اس بات سے عوام کی
پریشانی اور بے چینی ختم ہوئی کہ سیاچن کی زمین پر فصل نہیں لگ سکتی،اس جگہ
تعمیرات نہیں ہو سکتی یعنی اس زمین کو کوئی نہیں خریدے گا،لہذا سیاچن پر
قبضہ واپس حاصل کرنا قطعی غیر ضروری ہے۔
عوام نے جب کبھی بیرونی خطرات سے نظریں ہٹا کر ملک کے اندر کا جائزہ لیا تو
معلوم ہوا کہ پاک وطن کے پاک لوگوں نے ہی ملک کی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ
تیزی سے شروع کر رکھا ہے۔یہ کوئی معمولی کام نہ تھا بلکہ اس کے لئے پہلے
اداروں،اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ نظام کے خالقوں نے مفتوح کیا اور پھر پاک وطن
کی پاک زمینوں پرقبضے کی پاک رسم یوں چل پڑی کہ نجی لینڈ مافیا کے علاوہ
ادارے ،سیاسی جماعتوں کے افراداور حکومت بھی زمینوں کو فتح کرنے کے مقدس
کام کی ترویج میں مصروف ہو گئے ۔جہاں تک ہو سکا ،اس اعلی مقصدکے لئے قانون
سازی کرتے ہوئے من پسند قواعد وضوابط بھی بنائے گئے۔پاک وطن کی پاک زمینوں
پر قبضے کا چلن یوں چل پڑا کہ نجی ہی نہیں سرکاری زمینیں بھی اس مقدس مہم
سے محفوظ نہ رہ سکیں ،پبلک پارک اور سرکاری تعلیمی اداروں کی زمینیں بھی اس
سے مبرا نہ رہیں۔اس صورتحال میں عام شہری پریشان ہے کہ انڈیا کی طرف سے
پاکستان پر قبضے کے ناپاک عزائم پر توجہ مرکوز رکھی جائے یا پاک وطن کی
زمینوں پر پاک لوگوں کے قبضے پر توجہ دی جائے۔دیکھا جائے تو سب سے مضبوط
ملک میںلینڈ مافیا ہے،ہر حکومت،ہر ادارہ،ہر سیاسی جماعت ان کی سہولت کار کے
طور پر نظر آتی ہے۔تاہم ملک میں ایسے محب وطن شہری بھی ہیں جو یہ سوچ کر
خوش ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ انڈیا تو کافر اور ہمارا دیرینہ دشمن ہے،اس
کی جگہ ہماری زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے والے تو ہمارے اپنے ہم وطن
ہیں،چلو، ہم برباد ہوتے ہیں تو خیر ہے،فائدہ تو اپنے ہی ملکی بھائیوں کا ہو
رہا ہے ۔
انہی دنوں قائد اعظم یونیورسٹی کی چھ سو کنال زمین پر بااثر افرادکے قبضے
کا معاملہ ایک بار پھر منظر عام پر آ یاہے۔راولپنڈی میں قائم ایک سرکاری
چنار پارک بھی گزشتہ کئی سال سے لینڈ مافیا کے قبضے کا شکار ہے،اگر اہلیان
علاقہ کی مزاحمت نہ ہوتی تو اب تک چنار پارک کی زمین پر درجنوں عمارتیں بن
چکی ہوتیں۔راولپنڈی میں سٹلائٹ ٹائون علاقے میں ہی واقع ایک سرکاری کالج کی
زمین پر ناجائز قبضے کے بعد وہاں گھر بنا کر کئی ہاتھوں میں فروخت بھی ہو
چکے ہیں۔سرکاری زمینوں کے سرکاری اور سیاسی کسٹوڈین زمینوں پر قبضے کی
معاملات سے یوں آنکھیں چراتے ہیں کہ جیسے انہوں نے اپنے مشکل حالات میں یہی
سبق حاصل کیا ہے کہ ''لینڈ مافیا سے پنگا بہت مہنگا پڑا ہے'' اور یہ کہ ملک
کی اس اعلی مخلوق کو خوش و خرم رکھنا ہی سرکاری محکموں اور حکومتوں کی
اولین ذمہ داری ہے۔جب ملک میں ادارے مفتوح ہو چکے ہیں تو عوام کو بھی مفتوح
ہی تصور کیا جاتا ہے۔
معصوم عوام سمجھتے ہیں کہ لینڈ مافیا والے کوئی غنڈے بدمعاش قسم کے لوگ
ہیںلیکن انہیں تجربہ ہونے پر ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ تو نہایت با اثر لوگ
ہیں،جن کے معاون سرکاری افسران،محکمے،ادارے ،سیاست دان اور حکومت ہوتی
ہے۔اس بات کے بھی کافی امکانات پائے جاتے ہیں کہ ملک میں لینڈ مافیا کی
تقدیس بھی عوام کے لئے لازم اور قابل تعذیر معاملہ قرار پا جائے گا۔ملک کا
وہ کون سا علاقہ ہے جہاں لینڈ مافیا دھڑلے سے نجی اور سرکاری زمینوں پر
قبضے کرتے ہوئے دشمن ملک کی طرف سے قبضے کے ناپاک عزائم کو شرمندہ نہیں کر
رہا۔
غریب شہر کے تن پہ کپڑے ہیں باقی
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
|
|