تلخ بیانیاں
(Atif Javed, Azad Jamu Kashmir)
چند دن پہلے سپریم کورٹ کے ان ریمارکس پر
کہ اگر آرٹیکل 62,63 کے مطابق نا اہلی شروع ہوجائے تو سراج الحق کے علاوہ
کوئی اسمبلی میں نہ رہے پر چہ میگوئیا ں شروع ہو گئیں اور ہمارے جماعت
اسلامی کے دوستوں نے اس کو اپنی اتنی بڑی کامیابی سمجھ لیا کہ باقاعدہ اسکی
تشہیر شروع کر دی اور اسکو اپنی فتح عظیم قرار دیا بلا شک یہ ریمارکس قابلِ
فخر ہیں لیکن ذاتی اخلاقی بلندی کے معیار اگر جماعت اسلامی کا مقصد اور
منزل تھی تو واقعی وہ کامیاب ہوگئے لیکن جب ہم جماعت اسلامی کے منشور اور
مولا نا مودودی کے نظریہ سیاست کو دیکھتے ہیں تو ہمیں جماعت اسلامی کا مقصد
اور منزل صرف اور صرف اسلامی نظام کا نفاذ اور اللہ کی خوشنودی نظر آتی ہے
۔
مولانا مودودی جو بیسویں صدی کے عظیم مصلح اور مجدد اعظم تھے جنہوں نے
نوجوانوں کو الحاد اور فرقہ پرستی سے نکالا اور سیاسی اسلام کے مردہ شعور
کو زندہ کیا اور شخصیت پرستی سے زیادہ مقصد اور منزل کو اہم قرار دیا
اورجماعت اسلامی کو اک سیاسی جماعت نہیں اک تحریک قرار دیا جس کے کارکن کو
اپنا مقصد حیات صرف اور صرف قربانی بنانا ہوتا ہے اور اگر جمہوریت کا راستہ
اپنایا تو اس کو اک سیڑھی قرار دیا نہ کہ منزل اور مقصد۔
لیکن افسوس آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے پہ وہ منزل حاصل نہ ہوسکی
اورجماعت کا کارکن سیاسی نظام کی گندگی میں الجھ کر قربانی کے جذبہ کو
فراموش کرتا جا رہا ہے اور جمہوری نظام حکومت کو اپنا مقصود سمجھ رہا ہے
اور پھر چھوٹی چھوٹی کا میابیوں پر جشن کا سماں باندھ دینا اور عظیم
کامیابی قرار دینا کہیں مقصد عظیم سے پہلو تہی نہ ہو بلاشک جماعت کی مرکزی
قیادت خواہ قاضی حسین احمد ہوں ،منور حسن ہوں ،سراج الحق ہوں یا عبدالرشید
ترابی باکردار لوگ تھے اور ہیں لیکن ان سے عظیم وہ مقصد ہے جسکے نفاذ کیلیے
اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی اگر مقصد صرف قیادت کی تعریف پہ خوش ہو نا ہے
تو باقی جماعتوں اور تحریک اسلامی میں کیا فرق رہ حائے گا جنہوں نے مقصد
میں کامیابی سے پہلے ہی راستے کے پڑاءو کو اپنی منزل سمجھ لیا ہے ﴿ جماعت
اسلامی کے کارکنوں سے معذرت کےساتھ |
|