اقبال شاہ سے ملاقاتوں کے بعد کئی سال تک
میں بابا جی کی اصلیت جان کر بہت زیادہ غمزدہ رہا۔ پھر میں نے اقبال شاہ
اور بابا جی سے کبھی نہ ملنے کا فیصلہ کر لیا۔ حالانکہ مجھے ان سے نہ ملنے
کے عہد پر پکا رہنے میں بشری خامیوں کو بھی چھتر مارنا پڑے۔ زندگی کی
تلخیوں اور سماجی و کاروباری معاملات کو حل کرنے کیلئے کسی ماورائی طاقت کی
مدد کا بھی خیال آتا تھا۔ اس عجز و پستی سے گزرنے والی زندگی اور جھکی ہوئی
گردن کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت سے چھٹکارا پانے کیلئے بھی بابا جی سے
مددمانگنے کی خواہش کی نفسانی قوت غلبہ پا لیتی تھی۔ مجھ پر اللہ کریم کا
یہ احسان رہا کہ میں نے خود کو کبھی مغلوب نہیں ہونے دیا لہذا نفس پر ایمان
کی قوت غلبہ پا لیتی تھی۔ اقبال شاہ نے جب یہ بتایا تھا کہ ’’بابا جی شیطان
کا پرتو ہیں۔ وہ عامل کے معمول ہیں اور موکل کی طرح حکم بجالاتے ہیں‘‘۔ تو
مجھے پندرہ سو سال کی زندگی کا دعویٰ رکھنے والے ان بابا جی پر بہت غصّہ
آتا تھا جنہوں نے علم و حکمت اور اسّی زبانوں پر دسترس حاصل کر رکھی تھی
لیکن وہ ان پڑھ، جاہل اور گندے مسلمان کی عملیاتی قوت کے اسیر ہو کر رہ گئے
تھے۔ ان کی عظمتیں عامل کی خباثتوں کے سامنے ہیچ ہوکررہ گئی تھی۔
میں بابا جی کی علمی عظمتوں سے بہت زیادہ متاثر تھا لیکن جب ایک جاہل کالا
علم رکھنے والے ریاض شاہ نے انہیں مٹھی میں قابو کر کے تماشاگر بنایا تو
میرا ایمان ڈانواڈول ہو گیا تھا۔ میں نے اس دور میں بہت بڑا دھوکا کھایا
اورپھر ایک معمول کی طرح زندگی بسر کرتا رہا ، اس دھوکے کے غلاف کوپھاڑنے
کی ناکام کوششیں کرتا رہا کہ کسی طرح حقیقت پسندانہ اور عملی زندگی کی طرف
لوٹ آؤں۔ مگر اس وقت بہت دیر ہو گئی تھی۔ میرا بہت کچھ لٹ گیا تھا۔ جوحاصل
ہوا اسے میں نے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ جو علم مجھے بابا جی نے
سکھایا تھا اسکو استعمال نہ کرنے کی اصل وجہ بڑی معقول تھی۔ میں انکے
سکھائے علم کواپناایمان بچانے کی خاطر استعمال نہ کر سکا اور اس سارے عمل و
فعل کو کفر و شرک اور شیطان کی دنیا کا کھیل سمجھتا رہا۔ مگر کیا آپ جانتے
ہیں کہ ہمارے مسلمان بہن بھائیوں نے اس شیطانی دنیا سے اپنی رغبت کتنی بڑھا
لی ہے؟؟ان سالوں میں ایسے بہت سے مسلمانوں کو دیکھا ہے جو سیدھے راستے پر
چلنے کی بجائے الٹے راستے پر چلنے پر بضد رہے۔ وہ اس شیطانی دنیا کے
کرداروں کی مدد سے اپنے گھریلو، کاروباری اور رومانوی مسئلے حل کرانے کیلئے
میرے ساتھ رابطے کرتے اور پوچھتے۔
’’شاہد صاحب۔ آپ تو جانتے ہیں۔ آپ بتا سکتے ہیں۔ لاہور میں یاپھر پاکستان
میں کونسا عامل یا ایسی ہستی موجود ہے جو جنات پر بالادستی رکھتی ہے۔ جنات
ان کی مانتے ہیں‘‘۔
’’بھائی میں آپ کو کیا بتا سکتا ہوں۔ کسی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس میں
فراڈ بہت ہے۔ آپ کیلئے یہی مشورہ ہے کہ آپ اللہ کی کتاب پر یقین رکھیں اور
خود کو جنات سے دور رکھیں‘‘۔ میں ان پتھریلے انسانوں کو سمجھاتا حالانکہ ان
میں کوئی ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر ہوتا۔ کوئی جاپان، کوئی امریکہ کوئی روس
اور کوئی جرمنی و سپین، کینیڈا سے مجھے فون کر رہا ہوتا ’’خدارا ہماری مدد
کریں۔ ہمیں بابا جی کا۔ غازی کا۔ بابا تیلے شاہ کا۔ اقبال شاہ صاحب کا۔ کسی
کا تو پتہ بتادیں‘‘۔ ان سالوں میں بلامبالغہ ہزاروں ای میلز، فونز اور
بالواسطہ ملاقاتوں کے ذریعے مجھ پر زور دیا جاتا رہااور میں جواباً کہتا
رہا ’’خدارا یہ بات سمجھیں کہ میں نے جنات کے غلام میں کیا پیغام دیا ہے۔
بابا جی سے نہیں اللہ پاک سے رابطہ کریں۔ عاملوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے
عمل کی راہ پر بھاگیں‘‘
لیکن میں سمجھتا ہوں میری ہڈبیتی جنات کا غلام نے انہیں متاثر تو بہت کیا
لیکن کوئی اس رمز کو پانے کی کوشش نہ کر سکا اور نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی لوگ
اصرار کر رہے ہیں کہ میں بابا جی سے ہونیوالی ملاقاتوں کی روداد انہیں
سناؤں۔
میں نے یہ عرض کردیاہے کہ بوجوہ میں اقبال شاہ سے ملنے سے بھی گریز کرنے
لگا تھا۔ بخدا میں ان سے ہرگز نہ ملتا اگر میرے اندر روحانی بیداری شروع نہ
ہوجاتی یا میرے دئے ہوئے ذکر و اذکار اور وظائف کے بعد بابا تیلے شاہ مجھے
حکماً ہدایت نہ فرمادیتے۔میں نے بابا تیلے شاہ کا حکم مان لیا اور پھر داتا
ہجویریؒ کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔اور پھر اسکے بعد وہ کہانیاں اور راستے
کھلتے چلے گئے جن سے کنارہ رکھنے کی خواہش کیا کرتا تھا۔
جب داتا ہجویری سرکارؒ کی بارگاہ میں حاضری دیکر واپس آ رہا تھا تو میرے
موبائل کی گھنٹی بجی۔ رات کا وقت تھا ۔ بازار میں شور سا برپا تھا لہٰذا
میں نے رش میں سے گزرتے ہوئے فون اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔ گھنٹی بند ہوتی
اور پھر بج اٹھتی ۔میں پیدل چلتا ہوا حزب الاحناف کے قریب پہنچا تو میرا
ڈرائیور گاڑی لئے وہاں کھڑا تھا۔میں گاڑی میں بیٹھا اور فون چیک کرنے
لگا۔کافی سارے غیر مانوس نمبروں کی کالیں آئی ہوئی تھیں۔لیکن ایک نمبر سے
کم از کم پانچ مسڈ کالیں موصول ہوئی تھیں۔اس سے پہلے کہ میں اس بے چین نمبر
والے کو فون کرتا،اس کی کال پھر آگئی۔
’’یہ شاہد بھائی کا نمبر ہے‘‘ دوسری جانب سے ایک صاحب نے پوچھا۔
’’اسلام و علیکم ‘‘ میں نے جواباً کہا’’جی فرمائیے‘‘
اس نے سلام کا جواب دینے کی بجائے وفور مسرت سے کہا ’’اسلام وعلیکم کہا
شاہد بھائی میں بابر حسین بات کررہا ہوں اسلام آباد سے ‘‘
میں نے سلام کا جواب دیا۔
’’شاہد بھائی میں لیبرڈپارٹمنٹ میں جاب کرتا ہوں ۔دراصل میں اور میری بیگم
آپ کی کتاب جنات کا غلام پڑھنے کے بعد آپ سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں۔کیا
ایسا ممکن ہے کہ آپ ہمیں تھوڑا سا ٹائم دے دیں‘‘ میں سمجھ سکتا تھاکہ بابر
حسین کی طرح بہت سے لوگ اس کتاب کو پڑھنے کے بعدمجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں
لیکن میں اس حوالے سے کسی سے بھی نہ ملنے کے لیے صاف گوئی سے کام لیتا۔
’’برادر اس کتاب کے حوالے سے آپ ملنا چاہتے ہیں اور ظاہر ہے آپ کے
استفسارات ہوں گے یا پھر آپ کا کوئی ایسا مسئلہ ہوگا جو آپ اس کتاب کے
کرداروں کی مدد سے حل کروانا چاہتے ہوں گے تو سچی بات یہ ہے کہ میں آپ سے
مل نہیں پاؤں گا۔میں کوئی کاروباری یا فی سبیل اللہ عامل بھی نہیں۔۔۔ نہ
میں اس کام کو پسند کرتا ہوں۔نہ مجھے یہ کام کرنے آتے ہیں لہذا آپ کی مجھ
سے ملاقات رائیگاں جائے گی۔‘‘
’’آپ کی بات بجا ہے ،میں سمجھ سکتا ہوں ۔میں آپ کا فین ہوں لیکن حقیقت میں
مجھے آپ سے ایک کام بھی ہے۔اصل میں میری اور آپ کی کہانی بہت ملتی جلتی
ہے۔اگرچہ اب میں ایک اچھی جاب اور کاروبار سے منسلک ہوں ،لیکن میں نے زندگی
میں پراسرار حالات کی وجہ سے مشکلات اٹھائی ہیں ،وہ آپ سے شیئرکرنا چاہتا
ہوں ۔۔۔اور اس سے بڑی اہم بات یہ ہے کہ میں آج بھی ایک بہت بڑی آزمائش میں
مبتلا ہوں۔اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں بتاتا چلوں کہ محض کتاب پڑھ کر آپ
کا فین نہیں ہوا ہوں ،میری بیگم ۔۔۔۔سمجھ لیں وہ آپ کی زلیخاہے ،میرا مطلب
ہے جو آپ کی زلیخا کے ساتھ ہوا میری بیگم بھی ان حالات سے گزری ہے لیکن آپ
کو آپ کی زلیخا نہ ملی لیکن میں نے اپنی زلیخا کو حاصل کرلیا اور اسے موت و
عذاب سے نکال کر واپس لایاتو بے تحاشا خوش ہوا تھا ۔۔خوش تو اب ہوں کہ میری
محبت میرے پاس ہے لیکن اس فاتح محبت کو جو اولاد عطا ہوئی ہے وہ بہت کڑا
امتحان اور سزا ہے۔ہماری جو اولاد پیدا ہوئی ہے وہ ابنارمل ہے بلکہ ابنارمل
تو عام سا لفظ ہے۔۔۔۔۔۔ بس کیا بتاؤں شاہد بھائی میں ایسا بدقسمت انسان ہوں
جو محبت دولت حاصل کرکے بھی بے بس ہے۔میری دولت مجھے صحت مند اولاد نہیں دے
سکی ہے حالانکہ ملک میں، ملک سے باہر سے بھی ڈاکٹروں سے علاج کرائے ،ہر طرح
کی رپورٹس ٹھیک ہوتی رہی ہیں ،ڈاکٹروں کی مکمل نگرانی میں بیگم کا چیک اپ
ہوتا رہا ،الٹرا ساؤنڈ اور سارے ٹیسٹ ٹھیک ہوتے اور نارمل بے بی کی تصدیق
کرتے تھے لیکن جب بے بی پیداہوتا تو دنیا میں آتے ہی وہ ایک ایسی دردناک
اور زہریلی آواز نکالتا کہ ڈاکٹرز اور نرسیں سراسیمہ ہوجاتیں۔سنسنی پھیل
جاتی تھی ۔یہ باتیں خاصی پیچیدہ اور حیرت ناک ہوں گی۔۔۔۔بس میں چاہتا ہوں
آپ تھوڑا سا ٹائم دے دیں ۔ہوسکتا ہے آپ کی رہ نمائی سے میرا مسئلہ حل
ہوجائے۔۔‘‘
’’ میں آپ سے مل تو لیتا ہوں لیکن میں نہیں سمجھتا میں آپ کا مسئلہ بھی حل
کرپاؤں گا‘‘ میں نے کہا’’اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اسم اعظم بتا دیتا
ہوں۔‘‘
میرے منہ پر تھوک دیتا اور پھر اس کتاب یعنی جنات کا غلام سے پیٹنا شروع
کرتا ہے۔اس دوران میری آنکھ کھل جاتی ہے۔میں کیا دیکھتا ہوں آپ کی کتاب جو
شیلف میں رکھی تھی میرے سینے پرپڑی ہے اور میرے پورے بدن کا جوڑ جوڑ درد
کررہا ہے۔مجھے اس خواب کی تعبیر تو معلوم نہیں ہے لیکن میں نے جب بیگم کو
یہ خواب سنایا اور پھرکتاب اور درد کا واقعہ سنایا تو اس نے آپ سے فوری
رابطہ کا مشورہ دیا‘
’’اوہ۔۔۔یا اللہ مجھے معاف فرمانا‘‘ میں انکی بات سن کر گھبراگیا۔’’بھائی
میرے، اللہ آپ کو اور مجھے بھی ہر طرح کے امتحان سے بچائے‘‘
’’آمین۔بھائی،ہم لوگ آج ادھر لاہور ڈیفنس میں آئے ہوئے ہیں۔میراایک گھر
ادھر بھی ہے۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو گاڑی بھیج دیتا ہوں آپ میرے
گھر تشریف لائیں۔یہ میرے لئے عزت کی بات ہوگی،میں خود بھی حاضر ہوسکتا ہوں
آپ کے آفس میں لیکن میں بیگم اور بچوں کو بھی آپ سے ملوانا چاہتاہوں‘‘
بابر حسین کی گفتگو نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔ ان دنوں ویسے بھی میں داتا
دربار پر بابا جی کے ’’عطا کردہ ‘‘ ایک علم سے جان چھڑوانے کے لیے دعا کرنے
جاتا تھا۔اس عجیب و غریب علم نے مجھے اب پریشان کر رکھا تھا لہٰذا جب میں
ان علوم سے کوئی فائدہ اٹھاناہی نہیں چاہتا تھا تو اس لئے نجات ہی بہتر
تھی۔
اتفاق یہ ہوا۔ اسی رات مجھے ایک اسائمنٹ پر شہر سے باہر جانا پڑ گیا۔ رات
بھر سفر میں رہنے اور صبح سویرے اسائنمنٹ مکمل کرنے میں خاصا وقت لگ گیا۔
اس دوران بابر حسین کا فون آتا رہا لیکن کمزور سگنل کی وجہ سے میں اس سے
بات نہ کر سکا اور اسے میسج کے ذریعہ مطلع کرکے مطمئن ہوگیا کہ آج رات
لاہور واپس آگیا تو اگلے روز انشاء اللہ ملاقات کروں گا۔
بعض اوقات انسان اپنے تئیں اپنے ہر کام کو ترتیب سے کرنا چاہتاہے اور اسے
یقین ہوجاتا ہے وہ وقت کو اپنے ہاتھ میں لیکر اپنے سارے کام بخوبی انجام دے
لے گا۔ لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا۔ وقت چکمہ دیتا رہتا ہے اور انسان کو
نچواتا ہے۔ میں اس روز عشاء کے وقت لاہور واپس پہنچا تو ایک نئی مصیبت میرا
انتظار کر رہی تھی۔ خیر اس کا ذکر کیے بغیر میں یہ عرض کر دوں کہ میں اگلے
روز ہی کیا، ایک ہفتہ تک بابر حسین سے نہ مل سکا۔ میں بار بار معذرت
کرتارہا۔ اس دوران کئی اور مصیبت زدہ لوگوں نے بھی بابا جی سے ملنے کی
درخواستیں کی تھیں لیکن میں کسی کو بھی مناسب جواب نہیں دے سکا۔ جواب دیتا
بھی تو کیا ۔۔۔کس کے بھروسے پر انہیں بابا جی سے ملوانے لے جاتا؟ میں خود
بھی حیران تھا کہ یکایک اتنی گہما گہمی اور مصروفیت کا سبب کیا
پیداہوگیاہے۔
جمعرات کو میں حسب معمول داتا ہجویریؒ کے حضور رات گئے حاضری دینے پہنچا تو
اس بات کا اشارہ مل گیا کہ اس میں مشیّت الٰہی تھی ۔ بابر حسین سے فی الفور
ملاقات قدرت کو منظور نہیں تھی۔ میں داتا ہجویری ؒ کی مسجد میں نماز تہجد
پڑھنے کے بعد دعا کے لیے مزار پُرنور کے پاس پہنچا اور آپؒ کی تربت کے
سرہانے کی جانب باہرایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ زائرین معمول کے
مطابق آجارہے تھے لہٰذا اس وقت کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں لگ رہی تھی
لیکن میں نے محسوس کیا کہ جس ستون کے ساتھ میں نے ٹیک لگا رکھی تھی اس کے
دوسرے پہلو پرکوئی اور بھی بیٹھا تھا اور دھیرے دھیرے کھسکتاہوا میری جانب
آرہا ہے۔ اس وقت میں ارتکاز کی حالت میں تھا اور لذت انہماک سے باطنی
وسعتوں میں خود کو تیرتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ معاً میرے شعور کی دہلیز پر
دستک ہوئی،احساس نے مجھے چوکنا کیا اور گمان پیدا کیا کہ کوئی شے سرسراتی
ہوئی میرا دامن کھینچ رہی ہے۔
ذہن چوکس ہوگیا ، میری حسیات بیدار ہوئیں تو میں نے جھٹ سے اس جانب دیکھا۔
وہ ایک مجہول عام سے چہرے والا شخص تھا۔ اس نے میری قمیض کا دامن کھینچا
اور بولا ’’اٹھو۔۔۔اس کی بات سنو۔۔۔‘‘ اس نے سر سے ایک طرف اشارہ کیا۔
’’کس کی بات سنوں۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے ایک چار انچ لمبا کیل اپنی جیب سے نکالا، اس پر کچھ پڑھا اور مجھے دے
کر بولا’’وہ ۔۔۔ادھر کولر کے پاس بیٹھا ہے ۔۔۔یہ کیل اس کے سر میں ٹھونک
دو۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔میں کیوں یہ کام کروں۔۔۔‘‘ میں نے اپنا دامن چھڑوایا اور
پیچھے ہٹا۔’’کون ہو تم۔۔۔‘‘
اس نے محض دانت نکالے اور کیل زبردستی میرے ہاتھ میں پکڑا دیا اور پھر اتنی
جلدی میں وہ اپنے کپڑے سمیٹ کر اٹھا کہ میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ کیل ہاتھ
میں لئے میں ششدر تھا۔ کیل ۔۔۔کس کی کھوپڑی میں ٹھونکنے کی بات کرکے وہ چلا
گیا تھا ۔۔۔ یہ کیا معمہ تھا۔ بہرحال مجھے احساس ہوگیا کہ اس پراسرار یت کے
پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہوگا۔ میں نے ہمت کی اور کولر کے پاس جا کر
احتیاط سے پانی پینے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ پانی کا گلاس بھرا اور ترچھی نظروں
سے اس کے عقب میں دیکھنے کے لیے دبے پاؤں چلا گیا
مگرکوئی نہ تھاوہاں ۔۔۔میں نے پانی پیا اور سوچا یہ مجہول سا شخص یقیناً
کوئی دیوانہ ہی تھا۔ اسے پُراسرار سمجھنا محض واہمہ تھا۔ ویسے بھی ہم جیسے
لوگ عام مزارات پر بھی فاتحہ اور دعاؤں و منتوں کے لیے جاتے ہیں تو ہر کوئی
وہاں کسی کرامت اور انہونے واقعہ کا منتظر ہوتا ہے۔ مزارات پر ایسے کردار
بھی عام ہوتے ہیں جن میں سے اکثر نیکی کی آڑ میں اپنا کاروبار چلا رہے ہوتے
ہیں۔ ان کے چہرے غیر معمولی طور پر بھلے سے نورانی اور پراسرار ہی کیوں نہ
دکھائی دے رہے ہوں مگر ان کا باطن بہت کمزور اور نفس زدہ ہوتا ہے۔ وہ
زائرین کی عقیدت لوٹ لیتے ہیں اور انہیں مرعوب و متاثر کرنے کے لیے اس طرح
سے گفتگو فرماتے ہیں اچھا بھلا انسان محض کسی بددعا یا کسی موقع کے ضائع ہو
جانے کے خوف سے گھبرا کر انہیں عظیم ہستی سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے
اورپھر اس پر فخر کرتا ، دوستوں، عزیزوں کو بھی بتاتا پھرتا ہے۔۔۔مگر میں
جان گیا تھا کہ ۔۔۔بزرگ ہستیاں ان شعبدہ بازوں کالباس نہیں پہنتیں۔ وہ چکنی
چپڑی باتوں سے اپنے سائلین و زائرین کو متاثر نہیں کرتیں۔ بس ان کے باطن کے
سوئچ پر ہاتھ رکھ دیتی ہیں۔ ان کے قلوب میں ذوق و شوق آن کر دیتی ہیں۔ ان
کی مناجات اپنی جھولیوں میں بھر کر بارگاہ ایزدی میں سفارش کرتی ہیں اور ان
کے محبان کا دامن نور سے بھر جاتا ہے۔
میں نے کیل کو وہاں پھینکنا مناسب نہ سمجھا اور سوچا اگر یہاں پھینک دیا تو
کسی کا پاؤں زخمی ہو جائے گا۔
اس دوران اجتماعی دعا کا وقت ہوگیا۔ داتا دربار پر برسوں سے زائرین بڑی
عقیدت اور ذوق سے ذکر و دعا میں شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت لاہور کے بڑے بڑے
نامی گرامی، سرمایہ دار ، سیاستدان، گویا ہر شعبے کا بندہ عام سے لباس میں
وہاں پہنچتا ہے۔ دعاکی نورانیت سے فیض حاصل کرتا ہے۔
------------------------------جاری ہے
|