لفظیات غالب اور مقصود حسنی

لفظیات غالب سے دلچسپی مقصود حسنی کا مستقل موضوع ہے۔ غالب سے ان کا عشق اب تک کئی مراحل طے کر چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقصود حسنی عشق کی ایک جست سے قصہ طے کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے عشق میں مستی اور بے خودی کے ساتھ ہشیار ی اور اثبات ذات بھی شامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ذوق و شوق اب قلب و نظر کے راستے سے عقل و خرد کے مرحلے تک جا پہنچا ہے جس نے تفہیم غالب کے کئی در کھول دئیے ہیں ۔گویا عشق کا حضور و اضطراب رفتہ رفتہ عقل کی تگ و تاز اور جستجو میں ڈھل چکا ہے اور اب وہ ا سلوبیات غالب کو نئی معنوی جہات عطا کرکے جلوہ بے حجاب کا خود بھی مزہ لے رہے ہیں اور طرف داران غالب کے لئے سخن فہمی کا وسیلہ بھی بنے ہوئے ہیں۔

میرے لئے یہ امر انبساط بے پایاں کا حامل ہے کہ مجھے اس سے پہلے ان کی تصنیف ’’مترادفات غالب‘‘ کا پیش لفظ لکھنے کا موقع مل چکا ہے۔ ’’مترادفات غالب‘‘ میں انہوں نے غالب ؔ کے اشعار میں استعمال ہونے والے ایسے کلیدی الفاظ سے بحث کی تھی جو اپنے معمول کے مترادف معنوں میں استعمال ہونے کے بجائے بالکل جدید اور متنوع معنوں میں استعمال ہوئے تھے۔ غالب ؔ کے حوالے سے یہ کام کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو غالب ؔ کے پہلو دار، تمثال دار اور آہنگ دار الفاظ سے آشنائی رکھتے ہیں۔ اور جن لوگوں کی نظرسے مقصود حسنی کی تصنیف مترادفات غالب گزر چکی ہے وہ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے امر واقعہ میں بڑی متانت فکر اور دقت نظر سے کام لیا تھا۔ میں نے مترادفات غالب کے پیش لفظ میں یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ مقصود حسنی کے ذہن میں اسی نوع کے دیگر کئی منصوبے بھی ضرور موجود ہوں گے اور اس کے بعد وہ یقیناً غالبؔ کی ترکیبات اور ان کے مترادف مختلف اور متنوع مضامین کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے اور اب انہوں نے اپنی تصنیف نو ’’لفظیات غالب‘‘ کا مسودہ ارسال کیا ہے تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ ان کا جنون ہنوز فارغ نہیں بلکہ تفہیمات غالب اور امکانات غالب کی گرہ کشائی میں مصروف عمل ہے۔ ان کی گرمئ آرزو اور شورش ہائے دیگرنے ایک نیا عالم سوزوساز پیدا کر لیا ہے جس میں لذتِ طلب نے ایک عجیب سماں پیدا کر رکھا ہے۔

میں نے جب کتاب کے مسودے پر ایک نظر ڈالی تو سب سے پہلے مجھے کتاب کے عنوان نے چونکا یا غالبؔ کو غالبؔ ہی کی لفظیات کے حوالے سے سمجھنے کی طرح ڈالی گئی ہے کتاب کے ذیلی عنوانات بھی دل چسپ اور منفرد ہیں۔ ملاحظہ کیجئے غالبؔ کے محاکات و مناظر کا نفسیاتی مطالعہ ، ’’ ال‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ کا تفہیمی مطالعہ، لفظیات غالب دیسی بدیسی زبانوں میں غالبؔ کے غیر اردو مصادر ، غالب کے ہاں بدیسی الفاظ کو اردوانے کے چند اصول، غالب ؔ کے محاورے کے لسانی زاویے وغیرہ یہ وہ موضوعات ہیں جن کی تفصیلات آپ کو کتاب کے اندرونی صفحات میں دکھائی دیں گی۔ اس کے لئے مقصود حسنی نے متن غالبؔ کو بنیاد بنایا ہے اور غالب ؔ کے اشعار کو سامنے رکھ کر تفہیم غالب کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے یوں کتاب میں بیک وقت متنی اور تشریحی تنقید کا لطف بھی پیدا ہوا ہے اور غالب ؔ کی تخیلی فکر کو لفظیات و تراکیب کے حوالے سمجھنے اور ان کی نفسی کیفیتوں کو جاننے اور لسانی اشکال کی گرہیں کھولنے کی کامیاب کوشش بھی ملتی ہے۔

اس میں کیا شبہ ہے کہ غالبؔ پر قلم اٹھانے سے پہلے بات کرنے کا سلیقہ چاہیے وگرنہ یہ وہ منزل ہے جہاں طاقت گفتار کا زعم نادانی کی نذر ہو کر شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں مقصود حسنی کے حوصلے اور ہمت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ غالب ؔ کے آفریدہ جہان حیرت میں گم سم ۳۸
نہیں بلکہ با ہوش و حواس کھڑے ہیں اور غالب ؔ کی لفظیات کے حوالے سے مضامینِ نو کے انبار لگاتے جارہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی زیر نظر تصنیف نہ صرف تفہیم غالب کے نئے امکانات کو ظاہر کرنے کا سبب بنے گی بلکہ سخن فہمی غالب کا وسیلہ بھی ثابت ہوگی اور ہم کہہ سکیں گے ۔
ہم سخن فہم ہیں غالب ؔ کے طرف دار نہیں

۴ ستمبر ۲۰۰۴
ڈاکٹر نجیب جمال
ڈین فیکلٹی آف آرٹس
ہ یونیاسلامیورسٹی بہاول پور

 
ڈاکٹر نجیب جمال
About the Author: ڈاکٹر نجیب جمال Read More Articles by ڈاکٹر نجیب جمال: 184 Articles with 211353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.