استادغالبؔ کے چند سابقے اور لاحقے

سابقے اور لاحقے کسی بھی زبان میں الفاظ کی ترکیب و تشکیل، بناوٹ، نحوی ترتیب اور معنوی تغیر و تبدل کے حوالہ سے بڑی خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر زبان دو قدم چلنے سے بھی قاصر و عاجز رہتی ہے۔ اردو نے دیسی و بدیسی سابقے اور لاحقے نہایت فراخدلی سے اپنے ذخیرے میں داخل کئے ہیں۔ الفاظ کے منفی و مثبت اور شناختی ووضاحتی مفاہیم کے لئے اردو میں ان کا استعمال بڑا عام رہاہے۔ باضابطہ سابقوں اور لاحقوں کے علاوہ باقاعدہ لفظ بھی یہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے توسط سے عام لفظ خاص کے درجے پر فائز ہوتے ہیں یا اس لفظ کی شناخت کا ذریعہ بنے ہیں۔
غالبؔ کے ہاں صفتی سابقے بکثرت پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی ایڈجسٹمنٹ اردو کے اپنے لسانی سیٹ اپ کے مطابق ملتی ہے اور کہیں اوپرے پن کا شکار نہیں ہوئی۔ فارسی کی پیروی میں ’’ی‘‘ کا لاحقہ دیسی الفاظ کے ساتھ پیوند کر دیتے ہیں جبکہ جمع بنانے کے دیسی لاحقے بدیسی الفاظ کے ساتھ بھی روا رکھتے ہیں۔ اسی طرح مضارع بنانے کے لئے ’’ے‘‘ بدیسی الفاظ کے ساتھ بلاتکلف جوڑ دیتے ہیں۔ دیسی مصدری لاحقے بھی استعمال میں لائے ہیں۔ اگلے صفحات میں درج بالا حوالوں سے متعلق کچھ سابقے اور لاحقے درج کئے گئے ہیں۔ اس سے نہ صرف غالبؔ کا لسانی سیٹ اپ اور محاورہ سامنے آسکے گا بلکہ اردو کو ثروت عطا کرنے کے حوالہ سے ان کا کنٹری بیوشن بھی کسی حد تک واضح ہو سکے گا:
سابقے
تلخ:
نوائی رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
’‘ نوائی کی پوزیشن واضح کرنے کے معاملہ میں ’’تلخ‘‘ بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔
تشنہ: تشنہ لب ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
تشنہ، لب کو واضح کر رہا ہے دونوں الفاظ (تشنہ، لب) اپنی حیثیت میں مکمل اور قائم بالذات ہیں۔ اس کے باوجود ’’تشنہ‘‘ لب کی شناخت کے حوالہ سے مرکب میں ثانوی اور معاون لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔
بیسنی:
روٹی جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسنی روٹی
روغنی:
روٹی مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
ال :
الماس
کہ اس میں ریزۂ الماس جزو اعظم ہے
العین
سر شکِ سر بصحرا دا دہ نور العینِ دامن ہے
النعش
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
الاماں
لب پردہ سنج زمرمۂ الاماں نہیں
وہ : نشنیدن
تو ایک وہ نشنیدن کہ کیا کہوں
میں:
برگزیدہ پر عاصیوں کے زمرے میں ، میں برگزیدہ ہوں
یہ:
شیرازہ کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
جو: قطرہ آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفان نکلا
وں: آبلوں ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں (آبلہ)
عاصیوں
پر عاصیوں کے زمرے میں، میں برگزیدہ ہوں (عاصی)
وقتوں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو (وقت )

رقیبوں
سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنانِ مصر سے (رقیب)
اں:
بے حجابیاں،بے حجاب، بے حجابی، بے حجابیاں
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
سر مستیاں،سر مست، سرمستی، سرمستیاں
وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
وا ماندگیاں،وا ماندہ، وا ماندگی: واماندگیاں
آرائیاں آرا، آرائی، آرائیاں
اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجوریاں
یں: تہمتیں
کس روز تہمتیں نہ تراشا کئے عدو
خواہش ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ی:
طبعی نہ ہوئی غالبؔ اگر عمر طبعی نہ سہی (طبع)
ہستی شرح ہنگامۂ ہستی ہے زہے موسم (ہست)
چوری رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو (چور)

ے:
آئینے برنگِ خار مرے آئنے سے جو ہر کھینچ (آئینہ)
قطرے قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جز میں کل (قطرہ)
کوچے کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر درودیوار (کوچہ)
نشے نشے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ (نشہ)
لرزے لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر (لرزہ)
ن: آن سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں
جان نہ مارا جان کر بے جرم غافل تیری گردن پر
وں:
جانوں تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
ونا:
آونا جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
جاونا تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے
۸۶
کہلوانا کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
لاونا نہ لاوے تاب جو زخم کی وہ میراراز داں کیوں ہو
ئیو:
آئیو تمہارے آئیواے طرہ ہائے خم بہ حم آگے
کھائیو ہاں کھائیو مت فریب ہستی
بن :
بن آئے اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کنڈا:
ہتھکنڈا ہتھکنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے (ہتھ +کنڈا)
تا :
تا پھر تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آلودہ :
مسی آلودہ مسی آلودہ ہے مہرِ نوازش نامۂ ظاہر ہے
یو:
رکھیو رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
رہیو رنج نو میدیِ جاوید گوارا رہیو
زم:
قلزم لے گئی ساقی کی نخوت، قلزم آشامی مری
زمزم زمزم پہ چھوڑو مجھے کیا طوفِ حرم سے
شبنم:
شب + نم فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم

اہل:
اہل دنیا دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہل دنیا جل گیا
بد:
بد خو عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا
با :
با اندازہ توفیق با اندازہ ہمت ہے ازل سے
بر:
برطرف تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی
بہ:
بہر حال گزری نہ بہر حال یہ مدت خوش و ناخوش
ب:
جو دراصل بہ ہے خالی مجھے دکھلاکے بوقتِ سفر انگشت
بے: بے اختیار جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
پُر:
پر خوں دیدہ ء پُر خوں ہمارا ساغرِ سرشار دوست
سر:
سرگرم سرگرم نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

نو:
نو خیز موجۂ سبزہ نو خیز سے تا موجِ شراب
نا: نا حق پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
نیم:
نیم باز ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
ہر : ہر چند ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
ہم:
ہمسایہ و ہ آرہا مرے ہمسایہ میں تو سائے سے
لاحقے
آرا:
خود آرا غافل بو ہم نازِ خود آرا ہے ورنہ یاں
آرائی:
کثر ت آرائی کثرت آرائی وحدت سے پرستاریِ وہم
آرائیاں:
بزم آرائیاں اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجوریاں
آزار:
دل آزار نہ کھڑے ہو جئے خوبانِ دل آزار کے پاس
آزما:
جرأت آزما حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
آگیں:
پنبہ آگیں کہ گوشِ گل نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے
آلودہ: شفق آلودہ مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا
ار: رفتار
لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
خریدار لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر
غبار مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
دیدار جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
دیوار کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
انہ:
مردانہ ہیں وبال تکیہ گاہِ ہمت مردانہ ہم
افزا:
زندگی افزا اے ترا لطفِ زندگی افزا
افشاں:
پر افشاں دل و جگر میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
انداز:
خاک انداز جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
انگیز :
قلم انگیز اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
بار:
آتش باز ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
باری:
گرانباری ہاں کچھ اک رنجِ گرانباری زنجیر بھی تھا
باز:
آئینہ باز ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
بردار:
غلط بردار ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

بو: مشکبو سوائے با أ گلفام مشکبو کیا ہے
بوس:
قدم بوس کرتے ہو مجھ کو منعِ قد م بوس کس لئے
باں :
بادباں پر پروانہ شاید بادبانِ کشتی مے تھا
پا:
گریز پا کبھی حکایتِ صبر گریز پا کہیے
پرست:
خدا پرست ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بیوفا سہی
پرداز:
نوا پرداز چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
پرور:
نفس پرور قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
پوش:
سیہ پوش شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
پیکر:
پری پیکر پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
پذیر :
دل پذیر سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہنر کو میں
تاب:
جہاں تاب لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکہ
جو:
جستجو کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے
چیں:
گلچیں خطِ پیالہ سراسر نگاہِ گلچیں ہے
خانہ:
میخانہ بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے
خوار:
غمخوار دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غمخوار کے پاس
خواں:
نوحہ خواں اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
خوش:
خوشحال خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
دار:
پردہ دار گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار رازِ عشق
داری:
جگر داری کیا کس نے جگر داری کا دعوےٰ
دان:
نمک داں سامانِ صد ہزار نمکداں کئے ہوئے
ربا:
طاقت ربا یہ کافر فتنۂ طاقت رُبا کیا
رو :
سست رو سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے
ریز:
خونریز خلش غمز ۂ خونریز نہ پوچھ
ریزی:
جلوہ ریزی بجلوہ ریزی بادو بہ پرفشانی شمع
زاد:
خانہ زاد خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
زار:
لالہ زار لوگوں میں کیوں نمود نہ ہولالہ زار کی
زدہ: ستم زدہ مگر ستم زدہ ہوں ذوق خانہ فرسا کا
زن:
موج زن ہے موج زن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
زنی:
رہزنی رہزنی ہے کہ دبستانی ہے
زم:
قلزم ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
سار:
کوہسار طوطیِ سبزۂ کہسار نے پیدا منقار
سپاری:
جانسپاری روز بازارِ جاں سپاری ہے

ستاں:
گلستاں چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے
سوز:
نظارہ سوز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
سیہ:
سیہ مست خوشحال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
شعاری :
غفلت شعاری کیا ہوئی ظالم تیری غفلت شعاری ہائے ہائے
شناس:
حق شناس ہر چند اس کے پاس دل حق شناس ہے
فام:
گلفام آسماں سے بادۂ گلفام برسا کرے
فروش:
گلفروش ہوں گلفروشِ شوخی داغ کہن ہنوز
فزا:
ذوق فزا یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے
فروز:
دلفروز جب وہ جمالِ دلفروز صورتِ مہر نیم روز
فشانی:
گلفشانی گلفشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
قاں:
دہقاں اگر بودے بجائے دانہ دہقاں نوک نشترکی
کار :
پرکار سادہ وپرکار ہیں خوباں غالبؔ
کاری:
لالہ کاری خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
کاہی :
جانکاہی کہیں حقیقتِ جانکاہی مرض لکھئے
کدہ: بت کدہ اس تکلف سے گویا بت کدے کا در کھلا
کشا:
دلکشا وہ زخم تیغ ہے جس کو کہ دلکشا کہیے
کش:
دلکش تو اس قدر دلکش سے جو گلزار میں آوے
کن؛
کوہکن دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پانوء
گار:
گناہگار آخر کنگاہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
گر :
ستمگر وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
گری:
جلوہ گری کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
گداز
جاں گداز طمعہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
گسار :
غمگسار کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
گشتہ:
گم گشتہ دل گم گشتہ مگر یاد آیا
گیر :
عناں گیر آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
گیری :
دستگیری جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر نہ ہو نہ عریانی
گاہ:
خوابگاہ فروغِ حسن سے روشن ہے خوابگاہ تمام

گہ :
قتل گہ عشرتِ قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ
گل :
گلبدن اٹھا نہ سکا نزاکت سے گلبدن تکیہ
گینہ:
آبگینہ آبگینہ کوہ پر عرض گراں جانی کرئے
نواز:
غریب نواز میں غریب اور تو غریب نوا ز
نشینی:
خاکستر نشینی نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
واز:
پرواز بحز پرواز شوقِ ناز کیا باقی رہا ہوگا
وار:
تلوار مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 194231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.