’’ال‘‘ حرفِ تعریف ہے ،کبھی عہدی ہوتا ہے اور کبھی جنسی
جیسے خلق انسان ضیعفاً انسان ضعیف و کمزور پیدا کیا گیا ۔ کبھی اسمِ موصول
کے معنی دیتا ہے جب کہ یہ اسم فاعل و اسم معفول پر داخل جیسے جاء نی الضارب
والمضروب(۱) اسم مشبہ پر جو داخل ہوتا ہے تو صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ حرفِ
تعریف ہے(۲) عربی میں اسم او رصفت کے ساتھ آکر اس کے معنوں میں خصوصیت پیدا
کر دیتا ہے (۳)غالب ؔ کے ہاں جن الفاظ کے ساتھ ’’ال‘‘ کا اضافہ ہوا ہے ان
میں زور اور خصوصیت پیدا ہوگئی ہے۔ اِس ضمن میں چند مثالیں ملاخطہ ہوں:
البحر۔بحرعربی اسم مذکر۔اس کے مغوی بڑا سمندر، دریائے محیط، مہاساگر وغیرہ
ہیں(۴)’’ال‘‘ کے اضافے سے اس کے معنوں میں خصوصیت پیدا ہوگئی ہے گویا ایسا
سمند رجو دوسرے سمندروں کے مقابل کسی خاص وصف اور کسی خاص اہمیت کا حامل
ہے۔ غالبؔ کے ہاں اِ س کا استعمال ملاخطہ ہو
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
غلام رسول مہر لکھتے ہیں :
’’ ہر قطرے کے اندر سے صدااٹھ رہی ہے کہ میں سمندر ہوں، مجھے حقیر چیزنہ
سمجھنا چاہیے۔
ہماری عظمت کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ جز ہونے کے باوجود ہم کل سے تعلق
رکھتے ہیں۔
اس کی عظمت پوری کائنات پرچھائی ہوتی ہے گویا قطرے کو جو نسبت سمندر سے،
وہی ہر
وجود کو اُس کے مبداء سے ہے‘‘(۵)
غالبؔ در اصل جز کی اہمیت واضح کرنا چاہتے ہیں ورنہ عمومی رویہ یہی ہے کہ
معمولی اشیاء کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ وہ اپنی نسبت اور مبدء کے
حوالہ سے معمولی نہیں ہوتیں۔ غالبؔ نے بحر کوالبحر قرار دے کر اس کی اہمیت
اور وقعت واضح کی ہے۔ قطرے کا دعویٰ اپنی دلیل رکھتا ہے ‘گویا:
(۱)قطرہ اپنی ذات میں سمندر کی گہرائیاں اوروسعتیں رکھتا ہے۔
(۲)سمندر کے پوشیدہ بھید اپنے وجود میں چھپائے ہوئے ہے۔
ب قطرے میں سمندر بننے کی اہلیت موجود ہے۔
ج اس کامبداو سر چشمہ بیکراں سمندر ہے۔
البحر صفتی حوالہ سے استعمال میں آیا ہے چونکہ قطرہ بحر کے اوصاف رکھتا ہے
اس لئے ’’ال‘‘کی بڑھوتی لایعنی اور اضافی نہیں ہے
النعش۔ نعش عربی اسم مونث ۔تابوت، ارتھی، لاش، میت۔ النعش، خاص نوعیت کی
لاش۔ غالبؔ کے اِس شعر کے تناظر میں اِس لفظ کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتے
ہیں
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ
عریاں ہوگئیں
بنات النعش ۔سات ستاروں کاجھمکا،عقدِثریا، دب اکبر، کھٹولا(۶) پہلے مصرعے
کا لفظ گردوں جبکہ دوسرے مصرعے کا رات، آسمان پرچمکنے والے ستاروں کے ایک
گروہ کی طرف توجہ لے جاتاہے یہ رات کو چمکتے ہیں اور دن کو غائب ہوجاتے
ہیں۔ اہل عرب کے محاورہ میں بنات،
۶۷
ابن کی جمع ہے مثلاً ابن العروس کی جمع بنات العروس ہے(۷) اِ س اصول کے تحت
بنات النعش ، ابن النعش کی جمع ہے۔ جس کے معنی جنازہ اٹھانے والے کے ہیں(۸)
جبکہ شعر کا پہلا لفط ’’تھیں‘‘ او رشعر کا ردیف یہ کھول رہا ہے کہ ’’بنات‘‘
بنت کی جمع ہے نہ کہ ابن کی ۔ اِس حوالہ سے گردوں کے معنی آسمان مراد نہیں
لئے جا سکتے۔ ضرورت ، مجبوری، حالات وغیرہ معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔
بنات کسی مجبوری، ضرورت یا پھر حالات کے تحت چاردیواری کے تقاضوں ، اصولوں
اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بے پردہ (عریاں)ہوگئیں اور خاص و عام کی
نگاہ کا مرکزبن گئی ہیں۔’’رات‘‘ جہالت ،ظلم و جور، جبر او رتنگدستی کے لئے
بھی مستعمل ہے۔ اس سے مراد اندھیرا بھی لیا جاتا ہے۔ میکدے اور طوائف کدے
کی رونقیں رات سے وابستہ ہیں۔
بنات (عزت کا)جنازہ اٹھا کر چلنے والے بیٹیاں ، نعش کے سبب بنات عریاں
ہوئیں(۹) اس اعتبار سے نعش (عزت ‘ وقار‘ آبرو‘ عصمت ) النعش ٹھہرتی ہے یعنی
علّتِ فعل جبکہ قواعدکے لحاظ سے اسم معرفہ مونث۔
بنات : اسم جمع مونث۔ ایک ساتھ میں رہنے والی لڑکیاں، بیٹیاں
اِ س مرکب کے ظاہری معنی، دلکش منظر سے لطف اندوزی کا موقع فراہم کرتے ہیں
لیکن غور کرنے پر افسردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ بر صغیرکی معاشرت او رسماجی
روایات لڑکیوں اوربیٹیوں کی عزت و ناموس کی محافظ رہی ہیں۔ ان کی بے
حجابی(عریاں) کبھی پسند نہیں کی گئی۔ ’’جی میں کیا آئی‘‘ بنات کی آبرو کی
پوزیشن (عریاں) واضح کر رہا ہے اس لئے نعش کے ساتھ’’ال‘ کا اضافہ ناگزیر
ٹھہرتا ہے
الحبس۔حبس عربی اسم مذکر ۔گھٹن ، قید و بند، قید خانہ، زنداں، امس، گھٹن ،
گھٹاؤ(۱۰) شعر کے تناظر میں حبس کی پوزیشن کا جائزہ کریں
دائم الحبس اِس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسدؔ جانتے ہیں سینۂ پُر خوں کو
زنداں خانہ ہم
دائم۔ عربی اسم مذکر۔ ہمیشہ، سدا، مدامی، مدام، جنم بھر(۱۱) دائم الحبس،
ایسی حبس جس کا کبھی بھی ختم نہ ہونا قرار پایا ہو ۔ کسی دکھ تکلیف کے ختم
ہونے کی اُمیدرہتی ہے جب یہ طے ہو کہ اسے کبھی ختم نہ ہونا ہے یا اس میں
کبھی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی تو اسے الگ سے حیثیت حاصل ہو جائے گی ایسی
صور ت میں’’ال‘‘کاسابقہ بڑھاکر اسے امتیازی پوزیشن دینا پڑے گی۔ دوسرے
مصرعے میں اور’’ زنداں خانہ‘‘آئے ہیں گویا وہ جیل نہیں لیکن اس کی حیثیت
جیل (Jail)کی سی ہے اور اس زنداں خانے کی حیثیت دائمی ہے۔ یہاں جسمانی سزا
مقرر نہ سہی لیکن اس کی گھٹن اور کچو کے تو تکلیف وہ ہیں۔ اس کے
بندی(تمنائیں) آزادی کی نعمت سے محروم ہیں۔ اِس حوالہ سے ان کا پُرخون ہونا
فطری امر قرار پاتا ہے اِس لئے حبس کے ساتھ’’ال‘‘ کا اضافہ ناگزیر قرار
پاتا ہے۔ غلام رسول مہر کا کہنا ہے:
’’ہم اپنے لہو بھرے سینے کو قیدخانہ سمجھتے ہیں کیونکہ اِ س میں لاکھوں
تمنائیں ہمیشہ کے لئے قید ہیں‘‘(۱۲)
سینے سے باہران کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
الرغم۔ رغم :ناپسندیدہ سمجھنا، ذلیل رکھنا، کسی کے خلاف کام کرنا، خاک
آلودہ ہونا(۱۳) ناپسندیدگی، مجبوری، ذلت ،ذلیل(۱۴) کسی کی ذات سے یا کسی کے
کسی فعل سے اختلاف ہونا‘ ایسی نئی بات نہیں جو ’’رغم‘‘ کے ساتھ’’ال‘‘ کا
پیوند لگادیا جائے۔ اس سابقے کی ضرورت غالبؔ کے اِس شعر سے سامنے آجاتی ہے
علی الرغم دشمن شہید وفاہوں مبارک مبارک!سلامت سلامت
وجۂ رغم حسد ہے۔ وفاکی راہ میں شہیدہونے والا سرخرہوا دوسرا شہید مرتا نہیں
۔وفاداری نبھی اور حیات جادواں بھی میسّر آئی جبکہ رقیب یا پھر خود محبوب
اِس سے محروم رہا۔ اس حوالہ سے’’ رغم‘‘ کی حیثیت غیر عمومی ٹھرتی ہے۔ اِس
بنا پر ’’ال‘‘ کا سابقہ لازم قرار پاتا ہے۔
العین۔ عین: آنکھ، آلۂ بصارت، نورالعین۔ آنکھ کا نور، آنکھ کا تارا، حد
درجہ عزیز(۱۵)
غالبؔ کے ہاں عین کا استعمال ملاحظہ ہو
سر شک سر بصرا دادہ، نورالعین دامن ہے دل بے دست و پا افتادہ بر خوردارِ
بستر ہے
عین(آنکھ) انسانی جسم کا نہایت اہم عضو ہے۔ اِس حوالہ سے آنکھ سے وابستہ ہر
چیز معتبر ٹھہرتی ہے۔ آنسو، آنکھ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کی حیثیت بھی
کچھ کم نہیں ہوتی۔ اس کی تین وجوہ ہیں:
اول : وہ کسی نہ کسی کرب کی نشاندہی کرتے ہیں
دوم: اظہار کا ذریعہ ہیں
سوم: ستاروں سے ہوتے ہیں۔ ستارے روشنی دیتے ہیں۔یہ بھی کہ ذہن حالت پر
روشنی ڈالتے ہیں
آنسوؤں کا تعلق آنکھوں سے ہے۔ آنکھیں ذہنی حالت کو اجاگر کرتی ہیں۔ آنسوؤں
کا تعلق خارج سے بھی ہے۔ گویا یہ ایسا خارج ہے جو باطن کی کہانی لئے ہوتا
ہے یا یوں کہہ لیںآنکھیں داخل اور خارج کے درمیان پل کا درجہ رکھتی ہیں۔
زبان کا کہا کانوں سناغلط مبالغہ آمیز ہوسکتا ہے لیکن آنکھیں بہت کم جھوٹ
بولتی ہیں ۔ا س لئے ان کے کہے پر یقین کرناہی پڑتا ہے۔ اس حوالہ سے انھیں
عمومی لسٹ میں رکھا نہیں جا سکتا۔ آنسوکے دامن کی آنکھ کا تارا ہونے کا
جواز یہی ہے کہ ان کا سرچشمہ آنکھیں ہیں۔ آنسوؤں نے دامن میں اقامت اختیار
کر کے اسے عزت بخشی ہے۔ دوسرا دامن میں ہی غلط یا صحیح جگہ پاتا ہے ۔دامن
انھیں عزیز رکھتا ہے۔ دامن کی تو قیر کا سبب آنسو ہی تو ہیں جو تو قیر کا
سبب بنے ۔آنسوؤں کا منبع آنکھیں ہیں اس حوالہ سے آنکھوں کا وجود معتبر طے
پاتا ہے۔ لہذا آنسودامن کی آنکھ کا تارا جبکہ آنکھیں آنسو کے وجود کا سبب
ہیں ۔اس لیے ’’ال‘‘ کے سابقے کی سزا وار ٹھہریں گی۔
الہتاب۔ اشتعال، شعلوں کا بھرک اٹھنا(۱۶)غالبؔ کے ہاں اِ س لفظ کا استعمال
دیکھئے
ملتی ہے خوئے یار سے نارالہتا ب میں کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
دوزخ کی آگ ہونا اگرچہ عام آگ پر برتری کی دلیل ہے ۔غالبؔ نے اِس کی اس سے
بڑھ کر خوبی کا ذکر کیا ہے دوزخ کی آگ کے شعلے اِس لئے خصوصیت رکھتے ہیں کہ
ان کی تپش اور تیزی محبوب کے تندمزاج سے مماثل ہے۔ یہ مماثلت ہی ہتاب
پر’’ال‘‘ کی بڑھوتی کا سبب بنی ہے ورنہ آتش دوزخ ایک آگ ہے ۔ عام آگ سے
ذرابڑھ کر آگ ۔لیکن محبوب کی کسی عادت سے مماثلت ، وجۂ فضیلت ضرور ہے۔
القدس۔قدس عربی مذکر پاک پوتر ، متبرک(۱۷) القدس: کوئی مخصوص پاکیزگی ،روح
القدس، جبریل کا نام ، خاص قسم کی پاگیزگی کی حامل روح۔ جبریل کو بہت پہلے
سے اس کے فرائض اور تخلیقی حوالہ سے ’’روح القدس‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے
لیکن غالبؔ کے ہاں اس کے القدس ہونے کی وجہ کوئی اور ہے
پاتا ہوں اُس سے داد کچھ اپنے کلام کی روح القدس اگر چہ مراہم زباں نہیں
جبریل کلام شناس ہے۔ الہامی کتب نبیوں تک لایا۔ باور رہے وہ صاحب کلام نہیں
۔وہ غالبؔ کا ہم زبان بھی نہیں اِس کے باوجود غالبؔ کا کلام اسے متاثر کرتا
ہے۔ آسمانی کلام کی تحسین تو کرتا ہی تھا اور وہ اس کے مطالب کی اہمیت و
وقعت سے آگاہ بھی تھا۔ اُس کلام کی تحسین کا جواز تو بنتا ہے جبکہ زمینی
کلام جس کا وہ ہم زبان نہیں ، نہ ہی اس کی ا ہمیت ووقعت سے آگاہ ہے۔ اس کے
باوجود اس کا مداح ہونا اس کے ذوقِ جمال کے نفیس ہونے کی دلیل ہے۔ پہلے وہ
ایک دوسرے حوالے سے القدس تھا اب ایک نیا حوالہ سامنے آیا ہے جس کے سبب قدس
پر ’’ال‘‘ کے سابقے کا اطلاق واجب قرار پاتا ہے۔
الامان۔ امان :پناہ ، خلاصی، حفاظت اور چھٹکارے کے لئے استعمال میں آنے
والا لفظ ہے۔ امان بے بسی اور بے کسی کی حالت میں طلب کی جاتی ہے۔ یہ کلمہ
جان‘ مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ
حشر کے عذاب کے لئے بھی یہی کلمہ استعمال میں آتا ہے۔ جب کوئی چارۂ کار
باقی نہ رہے ،مجبوری کا عالم ہوتو یہ لفظ ناگزیریت اختیار کر جاتا ہے۔ بلکہ
بے ساختہ استعمال میں آجاتا ہے۔ غالبؔ کے ہاں اِس کے استعمال کی وجہ اِس سے
قطعی مختلف ہے
جاں، مطربِ ترانۂ ھل من مزید لب، پردہ سنج زمزمۂ الاماں نہیں
کسی چیز کی انتہائی نفی کی جائے تب ہی ال کے سابقے کی ضرورت محسوس ہوگی
مشہور ہے آپ ﷺنے فرمایا میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں اور اٹھایا جاؤں
اور پھر شہید ہوجاؤں اور یہ سلسلہ مسلسل رہے۔یہ عشق کی انتہا ہے۔ عشق میں
اذیت لطف کا سبب بنتی ہے اور لطف سے سیری کی کوئی حد نہیں ۔ہربار مزید کی
ہوس پیدا ہوتی ہے۔ امان ، نجات یا خلاصی کے لئے ہے۔ اذیت کو اذیت سمجھنے کی
صورت میں اس کی ضرورت محسوس ہوگی یاکسی مقام پر سیری کی صورت میں طلب کی
جائے گی۔ جس طرح جہنم کا ایندھن سے پیٹ نہیں بھرتا اسی طرح اذیت کی آگ
زیادہ سے زیادہ بھڑکنے کی خواہشمند رہتی ہے۔ اذیت عشق کی تسکین کا سبب بنتی
ہے۔ اِس آگ کے باعث عشق زندہ رہتا ہے۔ عشق آگ ہے۔ اس کی برقراری اذیت کے
حوالہ سے قائم رہ سکتی ہے۔ یہ عشق کی آگ کے لئے ایندھن کا درجہ رکھتی ہے۔
ایسی صورت میں امان سے زیادہ آگ کی خواہش ہوگی ۔گویا اِس حوالہ سے امان کی
انتہائی نفی کی جارہی ہے۔ امان نظر انداز کرنے کی آخری حد تک نہیں پہنچ
پارہی بلکہ اس کے وجود ہی کو محسوس نہیں کیا جا رہا۔ اسی صورت میں امان نظر
انداز ہونے والی اشیاء میں سب سے آگے ہے اس کے لئے ’’ال‘‘کا سابقہ نامناسب
اور غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ امان نظر انداز ہونے والوں میں خصوص کے
درجے پر فائز ہے۔
الہوس ۔ ہوس :فارسی اسم مونث۔ تمنا، خواہش، شوق، ادھورا اور جھوٹا عشق ،
ناقص محبت ، حرص، لالچ(۱۸) بوالہوس: ہوس پرست ، جھوٹاعاشق۔ ہوس عام استعمال
کا لفظ ہے ۔ ال کے اضافے نے اِسے خاص بنا دیا ہے۔ غالبؔ کے شعر کے سیاق و
سباق میں ’’ال‘‘کی ضرورت کا کھوج کیا جاسکتا ہے
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
شعر میں اہل ہوس او راہل نظرکے عشق کے حوالہ کا تقابلی جائزہ پیش کیا جارہا
ہے۔ گویا یہ رسم عام ہوگئی ہے کہ اب سچے عاشقوں کے طور طریقے کی آبرو جاتی
رہی ہے۔ سچے او رجھوٹے میں امتیاز کا کوئی پہلو باقی نہیں رہا (۱۹) سچ اور
جھوٹ برابر ہوگئے ہیں یا جھوٹ سچ سے زیادہ توقیر رکھتا ہے تو ہوس کے ساتھ
’’ال‘‘ کی بڑھوتی لازم ہو جاتی ہے۔ ہراعلیٰ چیز کے برابریا اس سے بڑھ کر
اسم معرفہ ہوگی۔
حواشی
۱۔ المنجد،ص۵۹ ۲۔مصباح اللغات ،ص۳۷ ۳۔فیروز اللغات ،ص۱۱۱
۴۔لغاتِ نظامی ،ص۸۹ ۵۔ نوائے سروش ،ص۹۲ ۶۔ لغاتِ نظامی ،ص۱۰۸
۷۔ بیانِ غالب ،ص۲۲۶ ۸۔روح المطالب فی شرح دیوانِ غالب ،ص۲۹۱
۹۔ نوائے سروش ،ص۱۰۸ ۱۰۔ لغاتِ نظامی ،ص۳۰۵ ۱۱۔ لغات نظامی ،ص۲۳۹
۱۲۔نوائے سروش ،ص۲۷۶ ۱۳۔ فرہنگ فارسی ،ص۴۷۰ ۱۴۔ مصباح اللغات ،ص۳۰۳
۱۵۔نوائے سروش ،ص۶۳۱ ۱۶۔ نوائے سروش ،ص۳۱۵ ۱۷۔ لغات نظامی ،ص۵۵۰
۱۸۔ لغات نظامی ،ص۹۰۲ ۱۹۔ نوائے سروش ،ص۵۲۲ ْ
|