جس کو ہم مسلم کہتے ہیں اس میں ان تین صفات
کا ہونا ضروری ہے
خوف خدا عشق مصطفے صل اللہ علیہ وسلم اور حس اخلاق پر عمل کرنا ہے حقیقت
میں یہی صراط مستقیم ہے اور قرآن کا مختصر ترین اگر خلاصہ کہا جائے تو بے
جا نہ ہوگا اہل اسلام کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کے کرہ ارض پر اہل ایمان
کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے سازشی عناصر کی یلغار ہے وقت کی نبض پر ہاتھ
رکھو اور دیکھو دشمنان اسلام کیا منصوبہ سازی کررہے ہیں زمینی حقائق کیا
کہہ رہے ہیں وہ وقت آگیا ہے کہ ہم حقیقت کا سامنا کریں اور حقیقت ہی کو
آشکار کریں نہ خود خواب غفلت میں رہیں اور نہ ہی کسی کو گمراہ کریں اگر
مسلم امہ کو آج متحد نہ کیا گیا تو نتائج بہت بہیانک نکلیں گے اور متحد
کرنے کا واحد حل اسی صورت میں ہے ہم سب کو اس ایک تقطے پر جمع ہونا ہوگا
یعنی خوف خدا عشق مصطفے صل اللہ علیہ وسلم کو دل میں بسانا اور حسن اخلاق
پر عمل کرنا فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دین اسلام کیلئے فکر کرو
اس کی آبیاری کرو اس کی سربلندی کیلئے عملی جدوجہد کرو جو پیسہ وقت طاقت
اپنے اپنے مسالک کے فروغ کیلئے صرف کرتے ہو کاش وہ سب سرمایا دین اسلام
کیلئے وقف کیا جائے تو نتائج
بہتر آئنگے اور اللہ کی خوشنودی کا سبب بھی ہوگا دشمنان دین و ملت لڑاو اور
حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ تو ملت اسلامیہ میں افتراق و
انتشار ہی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے انھوں نے برطانیہ و امریکہ میں
خطیر سرمائے سے ادارے قائم کررکھے ہیں اور ہمارے یہاں غیر محسوس طریقے سے
انکے آلہ کار بنتے چلے جارہے ہیں جو کام انکے لیئے مشکل ترین تھا اسکو ہم
نے ازخود آسان بنا دیا سوچیئے اور فکر کیجئے کہ ہمارے کون کون سے وہ عمل
ہیں جس سے دین کو یا وحدت اسلامیہ کو نقصان بہنچ رہا یا پہنچ سکتا ہے اپنی
ہر انا کو اللہ کی رضا کیلئے قربان کر دیجئے
خطبہ حجۃالوداع اورتاریخی موقعے کا ذکر تو آپ سب نے یقینا” پڑھا سناہوگا۔
کوئی لاکھ سوا لاکھ کا مجمع تھا۔ اس وقت موجود صحابہ اور نو مسلم شیعہ تھے
یا سنی؟
شاید آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ 1703 سے پہلے جب عبدالوہاب نجدی،،1856 سے پہلے
احمد رضا خان بریلوی،1866سے پہلے دارلعلوم دیوبند، اور
لگ بھگ 100 سال پہلے جب اہل حدیث اور سلفی تحریک جب وجود نہیں رکھتے تھے
تو عام سادہ مسلمانوں کو کیا کہا جاتا تھا اور کیا ان سب تحریکوں، مدرسوں
اور شخصیات نے خود یا اپنے ماننے والوں کی وجہ سے الگ مسلک اور فرقوں کا
روپ نہیں دھارا ؟
کیا ان سب نے مسلمانوں کو تقسیم کیا یا متحد کیا؟
رنگ، نسل، زبان، علاقے اور برادری کی تقسیم کیا مسلمانوں کے لئے ناکافی تھی
کہ مذہب کے اندر فرقے متعارف کروائے گئے؟
کیا ہمارے قابل احترام اساتذہ، جن کو ہم آئمہ کرام کہتے ہیں، کیا ہم کو
کبھی اپنی پوری زندگیوں میں ایک بار بھی حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اور
جعفریہ میں بٹنے کا درس دے کر گئے؟
تصوف کے نام پر جو سلسلے بنائے گئے اور راستے جدا کئے گئے ان کی تفصیل الگ
ہے۔
اگر یہ محض فقہی، فکری اور علمی مسالک ہیں تو مسجدیں کیوں الگ ہیں؟
ڈاڑھی کا سائز، ٹوپی کا سٹائل، عمامے کا رنگ، جھنڈے کی شبیہ، نماز میں ہاتھ
باندھنے کا طریقہ، اور مدرسے کا سلیبس کیوں الگ ہے؟
تقسیم اتنی خوفناک ہے کہ عقائد، رسومات، تہوار، بچے اوربچیوں کے نام، زمانے
کے امام، حتی کہ صحابہ کرام تک بانٹ رکھے ہیں۔ یہاں شہہ دماغوں نے کالا،
سفید، نارنجی، ہرا ،پیلا اور بھورا سب رنگ اپنے ساتھ مخصوص کر رکھے ہیں۔
سارا زور اس بات پر کیوں ہے کہ کوئی ہمیں جس ‘حالت‘میں بھی دیکھے پہچان
جائے کہ ہم ‘الگ‘ ہیں اور فلانے ہیں۔ جناب والا مجھ کم علم اور کم عقل کو
یہ بھی سمجھا دیں کہ مدرسوں، فتووں کی کتابوں اور لوگوں کی باتوں سے نکلا
ہوا مسلک اور فرقہ موروثی کیسے ہو تا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی کسی
ملٹی نیشنل پراڈکٹ کی طرح لیبل لگا کر آتا ہے کہ ان کے سامنے ماڈرن
کارپوریٹ کلچر، مارکیٹنگ اور برانڈنگ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔
آج کے مقابلے میں تو اچھے دور تھے شائد وہ جب مناظرے اور چیلنج کیے جاتے
تھے۔ اول اول بحث مباحثہ ہی تھا لیکن پھر بات آگے بڑھتی گئی۔ پہلے تو محض
ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور تبرے بھیج کر کام چلا لیا جاتا تھا، پھر کفر
کے فتوے مارکیٹ میں آئے۔ بات جنت اور دوزخ کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے تک چلی گئی۔
پھر چند "جدت پسندوں" نے سیدھا وہاں تک پہنچانے کا کام بھی اپنے ذمہ بہ
احسن و خوبی لے لیا۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور یہ "سائینسدان" گروہ در گروہ
لوگوں جنت بلکہ اپنی طرف سے دوزخ کو روانہ کرنے لگے۔ میرے رسول ہادی و برحق
نے تو منع کرنے کے لئے اور ہماری پستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل
سے تقابلے میں ہمارے 73 فرقے کہے، ہم نے اس حدیث سے اپنے فرقے کے صحیح اور
جنتی ہونے کا جواز گھڑ لیا، اور باقی سب کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب ہوتے تو پتہ
نہیں کیا کہتے،
لیکن نصف صدی پہلے ابن انشاء نے لکھا تھا،
"دائروں کی کئی اقسام ہیں۔ ایک دائرہ اسلام کا بھی ہے ۔ پہلے اس میں لوگوں
کو داخل کیا جاتا تھا ۔ اب عرصہ ہوا داخلہ بند ہے صرف خارج کیا جاتا ہے ".
اللہ رب العزت نے تو کہا "اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے
پاس ہے" (سورہ الروم)۔
اور اللہ یہ بھی تو کہتا ہے کہ "جن لوگوں نے دین کو فرقے کر دیا اور گروہوں
میں بٹ گئے،(اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دو تمہارا ان سے کوئی
واسطہ نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ
ان کو (سب) بتائے گا" (سورہ الانعام)۔
یہ آیت بھی تو سب کو یاد ہی ہوگی کہ "سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے
رہنا اور تفرقے میں نہ پڑنا" (سورہ آل عمران)۔
اور کیا اللہ نے امہ کی تقسیم کو اپنے عذاب سے تشبیہ نہیں دی؟ فرمایا کہ
"کہہ دو کہ وہ قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے
نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر
آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھادے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے
ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں" (سورہ الانعام)۔
جو دین فرق مٹانے اور ایک لڑی میں پرونے آیا تھا،اس کو ہم نے بالکل الٹ بنا
کر خانوں میں رکھ دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کوئی بھی فارم پر کرتے ہوئے جب
میں مسلک کا خانے خالی چھوڑتا ہوں تو دوسرے کو اعتراض کیوں ہوتا ہے۔ جب
کوئی تعارف کرواتا ہے تو اس کو صرف الحمدللہ میں مسلمان ہوں کہنے پر
شرمندگی کیوں ہوتی ہے۔
کیا ہماری نظروں سے یہ آیت نہیں گزری کہ "اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان
رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ
رسولِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان
پر گواہ ہو جاؤ’’۔ (سورہ الحج)۔
معاذاللہ،نعوذ باللہ ہم اور ہمارے تکبر کیا اتنے بڑے ہیں کہ ہم کو اسلام
اور اللہ کے بیان میں کوئی کمی لگتی ہے اور ہم اللہ کے دیئے ہوئے نام یعنی
صرف مسلم کے ساتھ شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، سلفی، اہل حدیث یا بریلوی لگا
کر پورا کرتے ہیں۔ ہم نے سب امامین کو زمانے کا استاد تسلیم کیوں نہیں کیا؟
اگر ایک ہی مسلےیا مرض پر سپیشلسٹ ڈاکٹرز کا پینل اختلاف رائے کا اظہار
کرتا ہے، اگر ایک ہی کیس میں سپریم کورٹ کے ججز اختلافی نوٹ لکھتے ہیں اور
اگر ہی مظہر کائنات پر سائنسدان متنوع نظریات پیش کر سکتے ہیں تو ہم کبھی
طب،قانون اور سائنس اور اس کے ماہرین پر انگلی نہیں اٹھاتے، ان کے پیچھے
مسالک قائم نہیں کرتے اور ان کےمشترکہ نقائص نہیں نکالتے۔ بلکہ ایک طالب
علم کی حیثیت سے سب کو مان کر اور پڑھ کر اپنے علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تو
پھر ہمیں کس چیز نے کاٹا ہے کہ ہم در بدر، رنگ برنگی دکانوں پر پھرتے ہیں
اور اصل تو دور کی بات،کیوں نقل کے دھوکے میں خالی رنگین پیکنگ اٹھائے لئے
پھرتے ہیں
آج کل ھم مسلمان ھوتے ھوئے بھی مذھب اسلام کے بارے میں اپنےالگ الگ نظریات
اور سوچ وبچار رکھتے ھیِں کبھی سوچا کہ آخر ھم اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے
اور ایک ھی دین یعنی دین اسلام کو ماننے والے اسلام کے بارے میں الگ الگ
نظریات کیوں رکھتے ھیں اگر ھم مسلمان ھیں تو ظاھر سی بات ھے اس میں دو رائے
ھونی ھی نھی چاھیے اگر اس میں دو رائے آگئیں تو لازمی بات ھے جس چیز میں دو
رائے ھوں وہ مشکوک ھوجاتی ھے کہیں ھم بھی کچھ ایسا ھی تو نھی کر رھے کیونکہ
بحثیت مسلمان ھم کو اپنے دین کے بارے پوری آگاھی بھی ھونا ضروری ھوتا ھے
اور ھم پہلے سے ھی اپنے دین اسلام کے بارے بھت اچھی طرح واقف ھیں اور میرے
سبھی دوست دین کے بارے کافی نالج بھی رکھتے ھیں لیکن اس کے باوجود ھم میں
وہ دینی ھم آہنگی نھی ھے جو ایک مذھب کے ماننے والوں کے درمیان ھوتی ھے
کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ھے کیا اس معاملے میں ھمارے دل ودماغ پر کوئی اور
چیز تو حاوی نھی ھے یا ھم ایسے ھی لکیر کے فقیر ھیں جس نے جو کہا اس کے
پیچھے اندھی تقلید کرتے ھوئے چل پڑھتے ھیں ھم مسلمان یعنی مسلم ایمان والے
ھیں باقی دنیاداری کے کاموں اور اعلی تعلیم حاصل کرتے ھوئے کہیں ھم اصل
راستے سے ھٹ تو نھی رھے ھیں اس پر سوچنا ضرور .تو آج کا موضوع بھی میں نے
جو سلیکٹ کیا ھے وہ اسی بارے میں ھے کہ جب ھم مسلمان بھی ھیں ایک ھی کلمہ
پڑھ کر مسلمان ھونے کا دعوی بھی کرتے ھیں ایک اللہ اور ایک کتاب,ایک نبی
اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ھیں تو پھر ایسی کونسی بات ھے کہ ھمارے
مسلمانوں کو ایک مذھبی ھم آہنگی, فکر اور نظریے پر اکھٹا نھیں ھونے دیتی .
لگتا ھے ھم نے دین کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت مولڈ کر دیا ھے پر اس سے
ھمارے مسلمان ھونے پر سوالیہ نشان بن جاتا ھے اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کر
بیرونی غیرمسلم قوتیں ھم پر حاوی ھوتیں جارھیں ھیں اس موضوع پر پہلے بھی
کافی علماء دین نے بحث کرتے رھتے ھیں اور ایک دوسرے پر اپنے خود ساختہ
عقائد تھوپتے نظر آتےھیِں لیکن اصل بات یہی ھے کہ عقیدہ توحید پر ایمان ,
اللہ کی آخری کتاب اور آخری نبی حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
ایمان اور آخرت پر ایمان لانا ھے بات تو اتنی سی ھے اب اس کو اپنی مرضی اور
اپنی دوکانداری چمکانے کے لیے
کھینچ کر خود ساختہ عقائد میں تبدیل کرنا گناہ عظیم ھے تو آئیے آج کے موضوع
❗
مذھب فرقے اور بربادی ❗ کی طرف آتے ھیں اور قران و حدیث کے حوالے سے تھوڑی
سی بحث کرتے ھیں.دین اسلام کی بات ھو تو پھر اس کے لیے ھر قدم اور لفظ کی
اپنی طاقت ھوتی ھے اس لیے کوشش کرتے ھیں کہ کسی کی دل آزاری کیے بغیر اصل
حقائق کو جاننے کی کوشش کرتےھیں کیونکہ اسلام ایک ایسا مذھب ھے جس کا علم
بھت ھی لامحدود ھے اور ھم اس کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے
ھیں میرے ذھن میں یہ بات کب سے کھڑک رھی تھی کہ آخر مسلمان ھی مسلمان کا
دشمن کیوں بنا ھوا ھے اوپر سے طاغوتی طاقتیں جو ازل سے ھی اسلام اور
مسلمانوں کو ختم کرنے میں پیش پیش ھیں. اور بھت حد تک وہ اپنی اس گھناؤنی
سازشوں میں کامیاب بھی ھو رھے ھیں شام کے مسلمان ھوں یا غزہ اور کشمیر کے
ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مسلمانوں کا جو حشر ھو رھاہے اس کو دیکھ کر ھم
مسلمانوں کا سر شرم سے جھکنے کی بجائے ان کے ساتھ ھونے والے ظلموں کا نام
تک لینا بھی گوارہ نھی کرتے اور اسی طرح غیر مسلم قوتیں ھم پر اپنا پورا
غلبہ کیے ھوئے ھیں اور ھم بےشرموں کی طرح ان کا ھر حکم آنکھیں بند کرکے مان
رھے ھیں اوریہ ھمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ھے اور ھم صرف نام کے مسلمان ھی
رہ گئے ھیں اور غیر مسلم قوتوں کی تابعداری اور چاپلوسی ھمارے خون میں رچتی
جا رھی ھے اور یہ صرف ھماری مسلمانوں کی اپنی اندر کی خلفشاری کا فائدہ
اٹھا کر مسلمان کے ھاتھوں ھی مسلمان کو ختم کرانے کی ایسی سازش رچائی جا
رھی ھے جو کسی اور کو کیا ھمیں خود بھی نظر نھی آرھی اور ھم پر اپنے ھی ملک
میں مختلف پابندیاں رائج کر کے مسلمانوں کا ستیاناس کیے جا رھے ھیں اور
ھمارے نام نہاد مذھبی لیڈران اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بلی کی
طرح آنکھیں بند کر کے ھمارا تماشہ دیکھ رھے ھیں حالانکہ سبھی اصل بات اور
اسلام کی روح کو جانتے ھیں پر اگر وہ ان پر عمل پیرا ھوتے ھیں توان کی اپنی
دوکانداری بند ھو جاتی ھے مسلمانوں کے اپنے داخلی مسائل بھی بھت زیادہ ہیں
اور ان کے خطرے کہیں زیادہ المناک ہیں کیونکہ ہر قوم اور ملت جو اندرونی
طورپراختلافات اور تنازعات کا شکارھوجائے وہ نیست اور نابود ہوجاتی ھے۔ اسی
وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے دشمنوں کوجن میں کفر وشرک و نفاق کے
سربراھوں کو جنہیں سامراجی طاقتوں سے تعبیر کیا جاتاھے مسلمانوں کے درمیان
اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کےلئے بڑے بڑے بجٹ مختص کرتیں ھیں اور ان کو طاقت
اور فوج کا استعمال کرنے کی ضرورت ھی پیش نہيں آتی اسطرح ھم نے اپنا ایمان
تک ان کے پاس گروی رکھا ھوا ھے اھل نظر اور امت کا درد رکھنے والوں کا کہنا
ھے کہ مسلمانوں کو جوخود ہرطرح کے اختلافات کا شکارہیں کسی کی دشمنی کی
ضرورت ھی نہیں ھے وہ خود اپنے ھی ہاتھوں ہلاک ھو رھے ھیِں اور وہ سازشیں
ھیں مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کرنا اور مسلمان ھو بھی رھے ھیں لیکن
مسلمانوں کو کسی دوسرے مسلمان کا درد سمجھنے کےکیلئے
ایک پلیٹ فارم جو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ھے اس پر گامزن ھونا پڑھے گا
اور ھم مسلمانوں کو خود اپنے اندر یہ تبدیلی لانی ھو گی اور اگر ھم انھی
مذھب کے ٹھیکیدارں کے چنگل میں پھنسے رھے تو تباھی اور بربادی ھمارا مقدر
بن جائے گی اور اس کو سمجھنے کے لیے ھمیں ایسے صوفیاء اکرام کی ضرورت پڑھے
گی جو حق بات کو جانتے بھی ھوں اور سمجھتے بھی ھوں کیونکہ اللہ کے بندوں کی
ھی سنگت ایسی جگہ ھے جو ھم سب بھٹکے ھوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دیکھا سکتے
ھیں ورنہ اگر ھم نام نہاد مذھب کے ٹھیکدارں کے چنگل میں پھنسے رھے تو پھر
ھمارا اللہ ھی حافظ ھے دنیا میں رسواٰئی کے ساتھ ساتھ جھنم ھمارا مقدر بن
جائے گا.
ہماری دینی و دنیاوی بھلائ و بہتری اسی میں ہے کہ ہمارے دلوں میں خوف خدا ،
عشق مصطفے صل اللہ علیہ وسلم موجزن ہو اور حسن اخلاق پر عمل پیرا ہوں یہ وہ
بنیادی عقیدہ ہے جس کو اپنا کر ہم اللہ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی
رضا و خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں امت کو اس ایک نقطہ پر متحد ہونا ہوگا
یہی وہ راسطہ ہے جس سے اختلاف اور افتراق کے راستے بند ہوتے ہیں اس نظریے
کو اپنانے میں کسی کو اختلاف بھی نہیں ہوسکتا ان تین باتوں سے انحراف کا
مطلب واضح ہے کہ پھر اسکا ایمان کامل نہیں
توآئیے اپنے ناقص سے علم کے مطابق اور قران وحدیث کی روشنی میں اس فرقہ
بازی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ھیں. قران پاک میں ارشاد باری تعالی
ھے,
🍄 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً
فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا
وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون
.َ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی
اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔
پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی
بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں
اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی انداز
سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ھے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو
🍄 اسلام نے لوگوں کو اتحاد اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی دعوت دی ھے ،
قرآن کریم نے واضح راہنمائی کے ذریعہ تمام انسانوں کو توحید کا سبق اور صرف
ایک اللہ اور ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک کتاب قران پاک کو
ماننے پر زور دیا ھے اور تفرقہ کو راہ مستقیم سے دور ہونے کا سبب قرار دیا
ھے ، خداوند عالم فرماتا ھے : «وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ
بِکُمْ عَنْ سَبیلِہِ ۔ اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جاؤ کیونکہ وہ تمہیں
راہ خدا سے دور کردیں گے ۔
رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی اسلام کی عزت و شوکت
اورمسلمانوں کو مذہبی اقدار پر زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتے تھے ، ہمیشہ
اصولی اور اخلاص پر پابند ہونے کے متعلق گفتگو کرتے اوراپنی امت کو دین
سازوں اور بدعت قائم کرنے والوں کے جال میں پھنسنے سے ڈراتے تھے اور ایسے
نقصانات سے بچنے کا راستہ بتاتے تھے جس کی وجہ سے اختلافات اور تفرقہ
اندازی ھوتی ھے ۔
یہ تمام سفارشیں اس وجہ سے تھیں کہ آخری دین کے ماننے والے گزشتہ امتوں کے
راستہ کو اختیار نہ کرلیں اور ان کی طرح سے جنگجو فرقوں میں مبتلا نہ
ہوجاییں ۔
خداوند عالم فرماتا ھے : «وَ لا تَکُونُوا کَالَّذینَ تَفَرَّقُوا وَ
اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاء َہُمُ الْبَیِّناتُ « ۔ اور خبردار ان
لوگوں کی طرح نہ ھوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے
کے بعد بھی اختلاف کیا۔
لیکن ابھی کچھ ھی زمانہ گزرا تھا کہ اسلامی امت تقسیم ہوگئی اور مسلمان
مختلف شاخوں میں تقسیم ہوگئے اور قرآن کریم کی نصیحتوں اور پیغمبر اکرم
(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی راہنمائی کے برخلاف فرقہ واریت کی لہر نے
پورے اسلامی معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فرقہ واریت کی رشد ونمواور اس کے تسلسل نے بہت سے علماء اور دانشورں کو غور
وفکر کرنے پر مجبور کردیا اور اس حقیقت کو ا ن کے لیے آشکار کردیا کہ ایک
طرف تو مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے بدینی اور جدائی کے اسباب کو ختم
کیا جائے اور دوسری طرف اسلام کے اصلی روح اور مآخذ میں دین کی اصل اہمیت
کو اجاگر کیا جائے ۔
واضح رھے کہ ان دونوں باتوں سے بہترین نتائج اخذ کیے جاسکتے تھے اور امت
اسلامی کو دشمنوں کے مقابلہ میں لاکر ایک صف میں کھڑا کرسکتے تھے ۔ لیکن
افسوس کہ یہ سعی و کوشش ناکام ہوگئی اور بری عادت لکھنے والوں نے اتحاد کے
بجائے جدائی اور تفرقہ کا نعرہ لگادیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی دشمنوں کے
ساتھ مل گئے اور بدصفت لوگوں کے ہم صدا ہو کر مسلمانوں کو دور کرنے اور
فرقوں کی تشکیل کیلیے کھڑے ہوگئے یہی تو ساری بات ھے ہم اپنے آپ کو فرقوں
میں تقسیم کر ھی کیوں رھے ہیں ؟ جب اللہ کی پاک کتاب ھے
تو اسی پر عمل کریں اور رسول پاک کی سیرت پر تو یہ مشکل بھی ختم ہو جاتی ھے
ہم ان پر صحیح سے عمل نہیں کر پا رھے تبھی تو فرقوں میں بٹ گئے ہیں.
آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے کہ یھودی اکہترفرقوں میں
بٹے ان میں سے ستر جہنم اور ایک جنت میں ھے ، اور عیسائی بہتر فرقوں میں
بٹے ان میں سے اکہتر جہنم اور ایک جنت میں ھے ، اور اس ذات کی قسم جس کے
ھاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ھے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے
گی ایک جنت میں اور بہتر جہنم میں جائيں گے.اور جنت میں جانے والی ایک ھی
جماعت ھے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کی کہ وہ جماعت کون سی ھے
.تو اس حدیث میں جماعت سے مراد یہ ھے کہ جس عقیدہ اور عمل پر نبی صلی اللہ
علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضي اللہ تعالی تھے ۔
ان گروھوں اور فرقوں میں سے جو کہ اسلام کی طرف منسوب ہیں کچھ تو اللہ
تعالی کی توحیداوراس کے اسماء وصفات میں گمراہ ھوۓ اور انہوں نے یہ کہنا
شروع کردیا کہ جو کچھ بھی موجود ھے وہ اللہ ھے اور یہ کہ اللہ تعالی اپنی
مخلوق میں حلول کر گیا ھے ، - اللہ تعالی ان کے اس قول سے بھت بلند وبالا
ھے - بلکہ اللہ تعالی اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ھیں اور تمام مخلوق
سے الگ اور جدا ھیں وہ سنتا بھی ھے سبھی کچھ جاننے والا ھے ۔
اور کچھ گروہ اور فرقے باب الایمان میں گمراہ ہوۓ اور انہوں نے اعمال کو
ایمان سے خارج قرار دیتے ہوۓ کہنے لگے کہ ایمان میں کمی و زیادتی نہیں ھوتی
، حالانکہ صحیح یہ ھے کہ ، ایمان قول اور عمل کا نام ھے اور اطاعت کرنے سے
ایمان بڑھتا اور نافرمانی سے اس میں کمی واقع ہوتی ھے عمل سے زندگی بنتی ھے
جنت بھی جھنم بھی اور سبھی کوآخرت میں ان کے اعمال کے مطابق مقام ملے گا ۔
اورکچھ فرقے قضاء و قدر کے باب میں گمراہ ھوۓ اور انہوں نے کہنا شروع کردیا
کہ : انسان اپنے افعال کے کرنے پر مجبور ھے ، حالانکہ صحیح بات یہ ھے کہ
انسان کو ارادہ اور مشیئت حاصل ھے جس بنا پر اس کا محاسبہ ہوگا اور اپنے
افعال کا متحمل ہوگا ۔
اور کچھ گروہ اور فرقے قرآن کے متعلق گمراھی کاشکار ہوۓ اور کہنے لگے کہ
قرآن کریم مخلوق ھے ، حالانکہ صحیح بات یہ ھے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا
نازل کردہ کلام ھے جو کہ مخلوق نہیں ۔ اور یہ کتاب جس کو اللہ نے اپنے
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی شکل میں نازل فرماٰئی اور اپنے
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے علوم عطا فرمائے .
اور کچھ فرقے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے متعلق گمراھی کا شکار ہوکر
انہیں کافرکہنے لگے اور ان سب پر لعن طعن کرنے لگے حالانکہ وہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ ہیں جن کے ھوتے ھوۓ اور ان کے درمیان وحی کا
نزول ھوا ، اور وہ امت میں سے سب سے زیادہ جاننے والے اور سب سے زیادہ
عبادت گزار ہیں انہوں نے اللہ تعالی کے راستے میں اس طرح جھاد کیا جس طرح
کہ جھاد کرنے کا حق حاصل تھا ، اور اللہ تعالی نے ان کے ساتھ دین اسلام کی
مدد فرمائی ۔
تو اس طرح وہ سب فرقے جو اسلام سے انحراف کا شکار ہوۓ اور اللہ تعالی کے
دین میں بدعات ایجاد کرلیں اور ہر ایک فرقہ جو کچھ اس کے پاس تھا اس پر خوش
اور شیطان کے راستے پر چل نکلا اور اللہ تعالی کے اس قول کی خلاف ورزی کرنی
شروع کردی ۔
اللہ تعالی کافرمان ھے :
اور بیشک میرا یہ سیدھا راہ ھے اس راہ کی تم بھی پیروی کرو اور مختلف راھوں
پر نہ چلو جو کہ تمہیں اللہ تعالی کے راہ سے ہٹا دیں گے اس کی اللہ تعالی
نے تمہیں وصیت کی ھے تا کہ تم اس کا تقوی اختیار کرو
اس تمام بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح ایاں ھوگئی کہ اللہ کی بات مانو
.قران کی مانو اور جس کو اللہ کہے اس کی بھی بات مانو تب ھی ھماری بخشش اور
نجات کا راستہ ممکن ھے . ارشاد باری تعالی ھے
ترجمہ
یقیناً ھمٰ نے مومنین پر احسان فرمایا جبکہ انہیں کے اندر سے ایک رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ھے
اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ھے گرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراھی میں تھے
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ھے اور اس میں خود ساختہ اور من گھڑت چیزیں
ڈالنا کفر ھے میرے پیارےمسلمان دوستو کتاب وسنت ھی روشن مند ہیں جو تابناک
مسلک ھے قرآن وسنت ھی میں واضح رہنمائی ،کردار کی صفائی اوراستقامت وثابت
قدمی ھے اور جھوٹے بدعتی رسومات کے تحت پیدا شدہ عقیدے اور فکری گراوٹوں
اورمنطقعی نظریات سے بچاؤ کتاب وسنت کے نور سے ھی ممکن ھے لہذا مسلمانوں کو
یہ یاد دلانا نہایت ھی اھم ھے کہ اپنے رب کی کتاب کو مضبوطی سے تھامیں اور
اپنے نبی کی سنت پر عمل کریں خصوصا ایسے زمانے میں جب کہ پیچیدگیاں پے درپے
آرھی ہیں اور امت پر مصائب کے پہاڑ یکے بعد دیگرے ٹوٹ رھے ہیں اور مسلسل
مذہبی اختلافات فرقہ بندی اور تنگ نظری کے تلخ تجربات ونتائج سے امت بری
طرح دو چار ھے باطل نظریات وافکار اور رائے پسندی کی بے راہ روی میں یوں
مبتلا ھے کہ کتاب وسنت کے صاف شفاف منہج سے بیزار ھے اور فتنوں کی موجیں
اور آزمائشوں کی آمد امت کے سفینے کو ہچکولے دے رھے ہیں اور اسے ساحل امان
اور کنارہ وسلامتی سے دور لے جارھے ھیِں ھر انسان کو اللہ تعالی نے باشعور
بنایا اور ھم اللہ کا کروڑوں بار شکر ادا کرتے ھیں ھمیں مسلمان بنایا اور
ایسا پیارا , سوھنا کالی کملی , والا سیدھا راستہ دیکھانے والا رھبر صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا فرمایا جو ھم سب کے لیے زندگی گزارنے کا مثالی
نمونہ لائے ھم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کی واحدانیت,آخرت
پر ایمان ,قران وسنت پر عمل کرنے والوں میں سے بناۓ اور جھنم کی آگ سے نجات
دے اوراچھے اور نیک و صالح لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل فرماۓ ۔اور اللہ
تعالی ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل
فرماۓ .اللہ تعالی ھم سب کو سچا اور پکا مسلمان بنائےہمارے دلوں میں خوف
خدا عشق مصطفے صل اللہ علیہ وسلم پیدا کرے اورہمیں حسن اخلاق پر عمل پیرا
ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین |