اک موتی اک تارا

یہ آرٹیکل محمداسلم لودھی کے مضمون "وفاؤں کے حصار" کے حوالے سے لکھاگیا ہے ۔
تحریر : فرخندہ لودھی
مٹی کا انسان زمین پر رہتے ہوئے ممائلت کے لیے تشبیہ زمینی اشیاء یا ماحولیاتی شواہد سے ہی دے سکتا ہے کہ وہ اس کے حواس خمسہ کے احاطے میں آئی ہیں اور اسے متاثر کرتی ہیں ۔محمداسلم لودھی نے اپنی بیگم عابدہ کے بارے میں جو جذبات و تاثرات سپرد قلم کیے ہیں ان کو پڑھ کر مجھ جیسی زمینی بندی کے تاثرات کچھ اس طرح ہیں ۔

اسلم لودھی سچے موتی جیسا شاندار مرد ہے ، جو پچاس کے پیٹے ہیں ہوتے ہوئے بھی رفیقہ حیات سے چندر روز کی عارضی جدائی میں سفر حیات کونئے سرے اور نئی نظر سے دریافت کررہا ہے ۔ یہ دریافت قطعی زمینی ہوتے ہوئے ان جوڑوں کے لیے قابل رشک ہے جو جذبات کے تمام تر نشیب و فراز سے لطف اندوز ہوچکنے کے بعد بور ہونے کی حد تک زمین پر چلتے ہیں اور چلتے چلے جانے کو ایک ذمہ داری ، ایک فرض کے طور پر لیے چلتے رہتے ہیں ۔جیسے آخری لمحہ ء زیست کے منتظر ہوں ۔

بیوی سے لگاؤ ایک روٹین کا معاملہ ہے اس کی ضرورت و اہمیت بھی ایک روٹین ہی ہوتی ہے ۔ اس کو سوچنے یا محسوس کرنے کی حاجت ہی نہیں ہوتی ۔ بس وہ گھر میں ایک شے ہے، جو ہونی چاہیئے ۔ سوہے ۔ غیر اہم ناقابل توجہ ، بری بھلی جیسی بھی ایک عادت کی مثال ۔

اسلم لودھی کاخلوص بیگم کی شخصیت اور خوبیاں بیان کرنے میں کامیاب رہا انہوں نے کردار کو جس انداز سے پینٹ کیا وہ ایک سراپا مسلم اور آئیڈیل بیوی کا ہے ۔ بہشتی زیور کی تعلیمات سے آراستہ ، شریعت کی حدود کے چوکھٹے میں فٹ اس حد تک لگتا ہے کہ خدا نے عابدہ کو مثال بنا کر بھیجا ہے دنیا میں ۔ اسلم دنیا کا خوش بخت ترین مرد کہلانے کے قابل ہے ۔ وگرنہ اس ہماہمی اور میڈیا کی یلغار کے دور میں خواتین کے مزاج میں بڑا تاریخی قسم کا بدلاؤ نظر آنے لگا ہے ۔ عابدہ جیسی جیون ساتھی اسلام کے دور زریں کی نمائندہ نظر آتی ہے ۔جو آجکل کتابوں میں بھی کم کم ملتی ہے ۔قدرت نے عابدہ کو رنگ روپ دیتے ہوئے بھی بخل سے کام نہیں لیا ۔ہزاروں میں بیٹھی نظر آتی ہے ۔ تعلیم تربیت صالح ہونے کی وجہ سے طبیعت کی ٹیڑھ میڑھ نکال کرقابل رشک خاتون بنادیا کہ دیکھنے والا اسلم لودھی کی قسمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔

اﷲ تعالی خود اک اعلی منتظم ہے کہ اس نے عابدہ کو جیون ساتھی بھی ایسا دیا جو بیوی کی خوبیوں کو اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ دل سے معترف بھی ہے ۔ حقیقی تعریف بھی وہی ہوتی ہے جو پیٹھ پیچھے یا تنہائی میں کی جائے ۔ عابدہ کی جدائی نے "یاد"کی وساطت سے اسلم کو تسلیمات کے رخ پہ اس طرح ڈالا کہ شوہر کی شخصیت کے نیم روشن گوشے منور ہوکر اظہار کے لیے صفحہ قرطاس پر آگئے ۔یہ عابدہ کی عبودیت کا کرشمہ ہے یاعابدہ کی شخصیت کا۔ جو کبھی موسم سرما کی نرم ملائم دھوپ میں بیٹھ کر کنوں کھانے کوایک نیا مگر دیرپا ذائقہ دیتی ہے اور کبھی دیگچے پر کھنکتے کفگیر کی آواز میں سے ہوکر اسلم تک پہنچتی ہے تو اسلم کی ہستی کومترنم کردیتی ہے کہ لگتا ہے اسلم کی ذات میں جوگرم جوشی اور جدوجہد کاتلازمہ ہے وہ اس عورت کے باعث ہے جو بیوی کی حیثیت سے اس کی سچ مچ نصف بہتر ہے اور اس کے نام عابدہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ نام شخصیت کی تشکیل پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔

عابدہ بیگم ایک ایسی بیوی کے طور پر سامنے آئی ہے جو ہر مسلمان نیک مرد کی آئیڈیل ہوتی ہے ۔ ایثار کی دیوی ، محبت کی پتلی ، تدبر کی ملکہ ،صبرو شکرکی راہ رو بے مثال ، سلیقے میں اپنی مثال آپ ،اﷲ تعالی عابدہ کونظر بد سے بچائے جو کہیں ڈپٹی نذیر احمد کی بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوجائے تو موصوف ٹھٹھک کر رہ جائیں اور آنکھیں ملتے ہوئے پکار اٹھیں میں نے ایسا تو نہیں لکھاتھا ۔ البتہ چاہا ضرور تھا ۔

اسلم لودھی ............. شا باش بیٹا ............. تمہاری محبت اور قلم کی سچائی دونوں قابل داد ہیں ۔ ایک حقیقی منطقی دلیل کے ساتھ جس شخصیت کی حیثیت کو تسلیم کیا وہی تمہاری نصف بہتر اور شاہد ہے
میں تم دونوں کو اک موتی ....... اک تارا سے مشابہ پاتی ہوں ............. ہمیشہ سچائی اور خلوص سے دمکتے رہو ۔

فرخندہ لودھی
25 جنوری 2009ء
 
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784651 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.