علامہ شبلی نعمانیؒ کامؤرخانہ امتیاز:تفہیم وتوسیع

’’المامون ‘‘کے حوالے سے
کئی زمانوں کاایک انساں:
علامہ شبلی نعمانی(1857-1914) انیسویں صدی کے ہندوستان کاایک ایسانام ہے،جس کی تاریخی علمیت،فکری بلندقامتی،ادبی و تنقیدی بصیرت، علمی برتری،تہذیبی آگاہی اور مطالعاتِ اقوام ومذاہب کے باب میں امتیازی شناخت تب سے لے کراب تک قائم ہے،اُنھوں نے بطورِخاص اردوکتب خانے کوایسی قیمتی تصنیفات سے مالامال کیا،جن کی نظیرنہیں ملتی،حقیقت یہ ہے کہ شبلی نعمانی اپنی بے پناہ خدمات اور حصولیابیوں کی بناپرتنِ تنہاایک عہد ہیں، ایک ادارہ ہیں،ایک انجمن ہیں اورایک اکیڈمی ہیں۔قدرت نے اُنھیں ایسے اساتذہ،پھررفقاے کاراورماحول سے نوازا،جنھوں نے مل کر ان کے علمی وفکری ذوق کی آبیاری کی اورعنفوانِ شباب سے ہی ان کی تصنیفی صلاحیت،فکری تعمق اور گیرائی کے نمونے سامنے آنے لگے۔
یوں توشبلی نے علم و ادب ،تاریخ وتہذیب اور فکروفلسفہ کے بیشتر موضوعات کواپنی قلم را نی کاموضوع بنایااوران میں سے ہرایک کاحق اداکیا؛لیکن خاص طورسے تاریخ نگاری اورمؤرخانہ تحقیق و تدقیق کی جونیوشبلی نے اٹھائی،اس میں وہ یکتاومنفردتھے،ان کاکوئی مثیل نہ تھا،اُنھوں نے اردوزبان میں تاریخ نگاری کی گویا باقاعدہ اساس رکھی،بقول مہدی افادی شبلی اردوزبان میں’’تاریخ کے معلمِ اول‘‘ہیں۔پھرچوں کہ ان کامطالعہ وسیع اورعلمی جغرافیہ طویل و عریض تھا، سو انھوں نے اپنی دقتِ نظری ودیدہ وری سے تاریخ نگاری کے ایسے اصول مقرر کیے،جوکم ازکم اردوزبان میں ان کے دورمیں بالکل نایاب تھے، انھوں نے اپنی تصنیفات میں تحقیق و تنقیدِمعلومات کے جدید ترضابطوں کوبرتااور اس وجہ سے بھی ان کی تحریروں کوغیر معمولی مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی،وہ اپنی تحریروں میں صرف معلومات کی جگل بندی پر انحصارنہیں کرتے تھے؛بلکہ ان کی چھان پھٹک کرکے کھرے اور کھوٹے میں تمیزبھی کرتے تھے، شبلی نے اردو زبان کوتاریخ نگاری کاسلیقہ دیااورتحقیق و تنقیدکی بنیادیں فراہم کیں۔دوسری جانب انھوں نے پوری ہنرمندی اور قوتِ استدلال کے ساتھ اسلامی تاریخ کی خصوصیات و اوصاف پرقلم اٹھایااور مستشرقین کے اتہامات کامنہ توڑجواب دیا،اسلام کی علمی بنیادوں، مآخدومنابع،پس منظروپیش منظرکی ایسی تصویرکشی کی کہ معاصردنیادنگ رہ گئی!
شبلی کی تاریخ نگاری -پس منظر:
شبلی نے اپنی عملی زندگی کے آغازمیں ہی اردوزبان میں اسلامی تاریخ اور تہذیبی و سیاسی سرمایے کی حد درجہ قلت کوشدت سے محسوس کیااورتبھی ان کے دل میں خیال میں آیاکہ اسلامی تاریخ کے تسلسل کوعلمی اعتبار سے بھی دنیاکے سامنے پیش کیاجائے اوراُن شخصیات وافرادکے سوانح لکھے جائیں، جنھوں نے فی الجملہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پرکسی بھی طرح کااثرڈالاہے۔یہ خیال جب ان کے دل میں آیا تب وہ جوانِ رعناتھے،جذبۂ عمل تاب ناک اورحوصلۂ کار قوی ترتھا اورپھربہت جلد اُنھوں نے اپنے منصوبے پر عمل بھی کرناشروع کردیا،جس کے نتیجے میں ان کے ذریعے ’’المامون‘‘(1888ء)،’’سیرۃ النعمان‘‘ (1890ء) ، ’’الفاروق‘‘ (1899ء)’’الغزالی‘‘(1901ء)’’سوانح مولاناروم‘‘(1906ء)’’سیرۃ النبیﷺ‘‘(ابتدا:1912ء)جیسی عظیم الشان تصنیفات اوران کے علاوہ اورنگ زیب عالمگیر، مکتبہ اسکندریہ،ذمیوں کے حقوق،جزیہ،عہدِاسلامی کے تعلیمی نظام اوردیگر بیسیوں موضوعات پرتاریخی وتحقیقی مقالات اوررسائل سے اردو دنیا بہرہ ورہوئی۔
انفرادیت:
اردومیں تاریخ نویسی وسوانح نگاری کے منفردطرزکی ایجادکے حوالے سے اردوکے اکابراہلِ تنقیدوبصیرت نے ان کے تفوق کوتسلیم کیاہے ،آل احمدسرور ’’مولانا شبلی کامرتبہ اردوادب میں‘‘(طبع اول:1945)کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’انھوں نے اردومیں تاریخ کاذوق پیداکیا،خودبڑی اچھی سوانح عمریاں اور تاریخیں لکھیں اور تحقیق و تدقیق،واقعات کی چھان بین اور مآخذکی تلاش اور تاریخ میں ایک صاف اور واضح نقطۂ نظر؛ان سب کی اہمیت دکھائی اورجتائی‘‘۔
شیخ محمداکرام تصانیفِ شبلی کو’’اردوادب کازیور‘‘قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانانے ہندوستانی مسلمانوں کوصحیح طورپراسلامی تاریخ سے روشناس کرایا اور یہ الفاروق،المامون،الغزالی،سیرۃ النعمان ہی کافیض ہے کہ ہندوستان کے خواندہ مسلمانوں کو ان عظیم الشان شخصیتوں سے خاصی واقفیت ہے‘‘۔(موجِ کوثر،ص:226،ط:ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور،1979ء)
مہدی افادی کایہ تبصرہ بھی معنی خیزہے کہ:
’’عام مصنفین کے خلاف،جوچندکتابوں سے موٹے موٹے واقعات لے کرایک تاریخ یاسوانح عمری مرتب کردیاکرتے ہیں،مولاناتمام ذخیرۂ کتب، جو دست رس میں ہوتاتھا،نہایت غورواحتیاط سے مطالعہ کرتے تھے اور اکثرجزئیات ایسی کتابوں سے اور کتاب کے ایسے گنجلک مقامات سے تلاش کرلیتے تھے، جن پرکسی کی نظرنہیں پڑتی تھی،پھران جزئیات کوایسی خوب صورتی سے ترتیب دیتے تھے کہ جس سے بہتر ترتیب نہیں ہوسکتی،اس کے ساتھ مولاناجوکچھ لکھتے تھے،وہ نہایت حزم و احتیاط سے اورانتہائی تحقیق و تنقید اور اصولِ فلسفۂ تاریخ کے مطابق‘‘۔(تذکرہ شمس العلمامولاناشبلی،ص:48)
سحرانگیزاسلوب:
ایک اورچیز،جوخاص طورسے ذکرکیے جانے کے قابل ہے کہ شبلی کی تصنیفات کازمانہ انیسویں صدی کانصفِ آخرہے،جب اردوزبان معانی واسالیب اور طرزہاے تعبیر کے اعتبار سے اُس قدرثروت مندنہیں ہوئی تھی،جتنی کہ آنے والی صدیوں میں ہوئی؛لیکن اس کے باوجودشبلی کی تصنیفات کامطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ذرابھی احساس نہیں ہوتاکہ ہم1900ء سے پہلے یابیسویں صدی کی پہلی دہائی کی اردوکتاب کامطالعہ کررہے ہیں،اس کی ایک وجہ توشبلی کی علمی و ادبی صلاحیت کی بے کرانی ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تحریرکوطباعت کے اسٹیج تک پہنچنے سے پہلے کئی بارتصحیح و تنقیدکے مرحلے سے گزارتے تھے،وہ صرف مضمون اور موادومعلومات کی عمدگی و استنادپرہی توجہ نہ دیتے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کازورلفظوں کی تراش خراش،اسلوبِ بیان کوخوب سے خوب تر بنانے پر بھی ہوتاتھا؛یہی وجہ ہے کہ ان کے بغیراردوادب واسلوبِ تحریرکے’’ عناصرِخمسہ‘‘ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ سرسیداحمد خان نے ان کے خوب صورت طرزِ نگارش پرتبصرہ کرتے ہوئے ’’المامون‘‘کے دیباچے میں لکھا:
’’یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہے اورایسی صاف وشستہ اور برجستہ عبارت ہے کہ دلی والوں کوبھی اس پر رشک آتاہوگا‘‘۔
’’المامون‘‘میں اسلوبِ شبلی کے تعلق سے سیدصباح الدین عبدالرحمن کایہ تبصرہ بھی خاصاحقیقت افروز ہے کہ:
’’مولانانے یہ کتاب اس وقت لکھی،جب وہ تیس برس کے جوان تھے،جوانی تمام رعنائیوں کواپنی آغوش میں لینے کی خواہاں ہوتی ہے،مولاناکی جوانی کی رعنائیاں اس کتاب میں گل وصنوبربن کر دکھائی دیتی ہیں،آگے چل کر انھوں نے اوربھی کتابیں لکھیں؛لیکن اس کتاب میں قدم قدم،روش روش پر جو رنگینیاں دکھائی دیتی ہیں،وہ شعرالعجم کے علاوہ ان کی کسی اورکتاب میں نہیں پائی جاتی ہیں،مگرشعرالعجم حسن و عشق کا صحیفہ تھا،اس کے لکھنے میں قلم کی سرشاریاں خود رہنما بنی ہیں؛لیکن’’ المامون‘‘ میں تاریخ کے خشک واقعات سمیٹے جارہے تھے،اس کومولانانے اپنے ادب وانشا کے حسن کاصحیفہ بنادیاہے‘‘۔(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر، معارف، شمارہ: جنوری1985،ص:42)
شبلی کااصولِ تاریخ نویسی:
ویسے شبلی کی تاریخی وسوانحی تصنیفات کے مطالعے سے ان کی تاریخ نویسی کے کچھ بنیادی اصول سامنے آتے ہیں،ان کاذکرکہیں توخود انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں کیاہے اوربعض ان کی نگارشات کے مطالعے سے اخذکیے جاسکتے ہیں، ڈاکٹرمحمدسہیل شفیق،اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی (جنھوں نے چھ سوسے زائد صفحات پرمشتمل ’’معارف ‘‘کانوے سالہ (جولائی1916تامئی2005)نہایت ہی قیمتی اشاریہ مرتب کیا اور گزشتہ دنوں ’’معارف ‘‘میں علامہ شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی کے حوالے سے شائع شدہ مضامین کواپنے وقیع مقدمے کے ساتھ’’معارفِ شبلی‘‘کے نام سے جمع کرکے شائع کیاہے )نے اپنے مطالعات کی روشنی میں اُن اصول کی نشان دہی کی ہے ،جنھیں شبلی نے اپنی تاریخی وسوانحی تصانیف میں برتاہے ،تلخیص وترمیم کے ساتھ ان کاذکرفائدے سے خالی نہیں ہے:
1-شبلی کے نزدیک تاریخ کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ تاریخ صرف سیاسی امور پر مشتمل نہ ہو؛ بلکہ ادبی تہذیب و تمدن کی سرگزشت بھی ہو، جس میں اجتماعاتِ انسانی کی معاشرت، اخلاق، عادات، مذہب؛ ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جائے۔
2-شبلی نے مؤرخ کے لیے صحتِ واقعہ میں روایت کے پہلو بہ پہلو درایت سے کام لینا بھی ضروری قرار دیا ہے؛بلکہ اپنے تمام اصولِ تاریخ نویسی میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا ہے۔
3-سبب یعنی Cause کا سلسلہ تلاش کیا جائے ،کہ اس کے بغیر حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔
4-شبلی کے نزدیک فلسفہ، انشا پردازی اور تاریخ کی سرحدیں جدا جداہیں، ان میں وہی فرق ہے، جو ایک خاکے، نقشے اور تصویر میں ہوتا ہے۔ مؤرخ کا فرض یہ ہے کہ وہ سادہ واقعہ نگاری سے تجاوز نہ کرے،البتہ شبلی کی خصوصیت یہ ہے کہ سادہ واقعہ نگاری میں بھی پرکاری اور بیان و اسلوب کے حسن کومکمل طورپرملحوظ رکھتے ہیں؛اس لیے تاریخ نگاراگر ایک طرف شبلی ہے اور دوسری طرف کوئی اور،توقاری غیرمحسوس طورپرتحریرِشبلی کی طرف کھنچتاچلاجائے گا۔
5-شبلی تاریخ کو ملّی تناظر میں دیکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے ’’المامون‘‘ کے مقدمے میں لکھاہے:
’’ہندوستان کی بہت سی تاریخیں لکھی گئیں اور مغلیہ و تیموریہ حکومت کے کارنامے بڑی آب و تاب سے دکھائے گئے؛ لیکن ظاہر ہے کہ ہندوستان کی مجموعی تاریخ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔‘‘(ص:2،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ)
6-اسلام اور مسلمانوں سے متعلق یورپ کے کذب و افترا اور ان کی تاریخی غلطیوں کا ازالہ علامہ شبلی کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن تھا، جرجی زیدان کی تاریخِ تمدنِ اسلامی کی مدلل تردیداور دیگر کتبِ سیروتاریخ میں مستشرقین کے اتہامات کاتعاقب شبلی کاخاص امتیازِ تحریرہے۔
7-ان کی یہ خصوصیت بھی قابلِ ذکرہے کہ جہاں وہ چھوٹے سے چھوٹے تاریخی جزئیے کوبھی دلیل اورحوالے سے مبرہن کرتے ہیں،وہیں وہ جن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں ،ان کے پایۂ اعتبار و استناد کوبھی بیان کرتے جاتے ہیں،حتی کہ بہت سی دفعہ ان کے مصنف کے علمی واخلاقی احوال پربھی گفتگوفرماتے ہیں۔
8-شبلی کے نزدیک مغربی مصنفین کی غلط بیانیوں کی وجہ تعصب کے علاوہ یہ بھی تھی کہ وہ پرانے زمانے کا مقابلہ جدید دور سے کرتے ہیں؛حالانکہ یہ ایک غلط اصول ہے اور مؤرخانہ دیانت داری و ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کو صرف ماضی کی نگاہ سے دیکھیں ۔شبلی نے ’’المامون‘‘کی ابتدامیں اس کی طرف واضح اشارہ کیاہے۔
9-دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے مغربی مؤرخین نے بنوامیہ یابنوعباسیہ کے بعض خلفاکے ذاتی اعمال و افعال کوراست طورپر اسلام سے منسوب کرکے مذہبِ اسلام کوموردِالزام ٹھہرانے کی مذموم حرکت کی ہے؛حالاں کہ یہ قطعاً نامناسب ہے؛کیوں کہ اگرعیسائیوں یایہودیوں کی سیاسی تاریخ کامطالعہ کریں، توبداطواربادشاہوں کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے؛لیکن کیاان افرادکی وجہ سے ان کے مذہب کوکٹہرے میں کھڑاکرنادرست ہوگا؟
10- شبلی کے نزدیک یورپ کے تاریخی ذخیرے میں ایک بہت بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اس میں راوی کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی پروا نہیں کی جاتی؛بلکہ اگر کوئی ایسا موقع پیش آجاتا ہے ،تو ہر قسم کی بازاری افواہیں بھی قلم بند کرلی جاتی ہیں، جن کے راویوں کا نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا، ان افواہوں میں سے وہ واقعات الگ کرلیے جاتے ہیں ،جو عقل کے معیار پر پورے اترتے ہیں، پھر ایک ’’کتاب‘‘ یا تاریخ بنالی جاتی ہے اور یہی اصولِ تصنیف ہے ،جو یورپ کی تصانیف کی بنیاد ہے۔
11-شبلی اسلامی علوم پر مکمل عبور رکھتے تھے اور اسلامی تاریخ و تہذیب پر ان کی نظر گہری تھی، نئے حالات، رجحانات، تازہ افکار و خیالات اور جدید مسائل و تحقیقات بھی ان کے لیے انوکھے اور نامانوس نہ تھے؛اس لیے مستشرقین کے اعتراضات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کے مدلل اور محققانہ جوابات دینے میں انھیں دشواری نہیں ہوئی۔
12-مواد کی ترتیب و تحلیل اور تنقید و تجزیے کی شرط تحقیق کو اول اول اردو میں شبلی نے ہی برتا اور فنی طور سے برتا؛یہی وجہ ہے کہ شبلی کی تمام تصانیف میں مختلف و متضادروایات کے مابین محاکمہ و نقد ملتا ہے اور صحیح کو غلط سے ممیزکیا جاتا ہے۔
13-شبلی کاایک امتیازِتصنیف یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہر ایک تصنیف کے مواد کے حصول کے لیے سیکڑوں مآخذ کے ہزاروں صفحات کھنگالے اور زیرِ خیال یا زیرِ قلم تالیف کے لیے تمام ممکنہ مراجع کا پتا لگایا، ان کو مختلف کتب خانوں میں تلاش کیا، ان کا مطالعہ کیا، ضروری معلومات اخذ کیں اور ہر طرح سے ان کو حاصل کیا۔یہ ان کے ذوقِ علمی اور شوقِ مطالعہ کی بے پناہی تھی کہ وہ جب کسی موضوع پرلکھنے کامن بنالیتے تھے،تواس سے متعلق مواداور مراجع کے حصول کے لیے نہ صرف متحدہ ہندوستان؛بلکہ بیرونِ ہندکے اسفارکے لیے بھی ہمہ دم تیاررہتے اورجس جگہ کے بارے میں انھیں پتالگتاکہ ان کے کام کی چیزوہاں دستیاب ہے،توہزارجتن کرکے اسے حاصل کرتے۔
’’المامون‘‘․․․․․․․ایک تجزیاتی مطالعہ:
شبلی نے ان اصولوں کواپنی تمام تر تاریخی وسوانحی تصانیف میں خوبی کے ساتھ برتاہے،اس سلسلے کی ان کی سب سے پہلی تصنیف ’’المامون‘‘ہے،جوعلی گڑھ میں ملازمت کے ابتدائی دنوں کے دوران لکھی گئی ہے۔’’المامون‘‘کے مقدمے میں شبلی نے پہلے اُن اسباب و علل پرروشنی ڈالی ہے،جو اس کتاب کے لکھنے کے لیے محرک ثابت ہوئے۔شبلی کویہ احساس ہواکہ اردوزبان بتدریج ایک علمی زبان کے طورپرابھررہی ہے اورمستقبل میں اس کادائرۂ اثرمزید وسیع ہونے والاہے؛لیکن اس وقت تک علماکے طبقے میں اردوکووہ توجہ حاصل نہ تھی،جوعربی اور فارسی زبان کوحاصل تھی،عام طورپرتدریس و تالیف کے لیے انہی زبانوں کااستعمال ہورہاتھا،جبکہ دوسری جانب نئی نسل تیزی سے اردوزبان کونہ صرف قبول کررہی تھی؛بلکہ اس زبان میں تصنیف وتحریر کابھی باقاعدہ سلسلہ شروع ہوچکاتھا،نوجوان طبقہ اردوزبان میں پڑھنااور لکھناچاہتاتھا،مگر اس کے سامنے اسلامی تاریخ کاکوئی ایساذخیرہ نہیں تھا،جس پروہ اعتمادکرتا،چوں کہ وہ عربی زبان سے ناواقف تھا؛اس لیے اپنی قومی تاریخ سے نابلدرہ گیااورانشاپردازی کے دوسرے شعبوں میں مصروف ہوگیا۔اسی پس منظرمیں علامہ نے اسلامی حکومتوں کی ایک مبسوط و مفصل تاریخ لکھنے کاتہیہ کیا؛لیکن اس سلسلے میں بعض وجوہ سے وہ اس ترتیب کوملحوظ نہ رکھ سکے،جوان کے ذہن میں تھی اور مختلف اسلامی خلفااور حکمرانوں میں جوان کے نزدیک عظیم الشان تھے،ان سب کی سوانح مرتب اندازمیں نہ لکھ سکے،خلفاے راشدین میں وہ حضرت عمربن خطابؓ،بنوامیہ میں ولیدبن عبدالملک،بنوعباس میں مامون رشید،اندلس کے بنوامیہ میں عبدالرحمن ناصر،بنوحمدان میں سیف الدولہ،سلجوقیوں میں ملک شاہ، نوریہ میں نورالدین زنگی،ایوبیہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی،موحدینِ اُندلس میں یعقوب بن یوسف اور ترک حکمرانوں میں سلیمانِ اعظم کونامور فرماں روا تسلیم کرتے ہیں ،گو انھوں نے حضرت عمربن خطابؓکی سوانح لکھنے کاعزم کررکھاتھا،جسے بعدمیں نہایت ہی دیدہ ریزی واہتمام سے پورابھی کیا، مگر مامون رشیدسے آغازکرناخودان کی طے کردہ ترتیب کے خلاف تھا،سوانھوں نے کتاب کے مقدمے میں اس کااظہارکرتے ہوئے معذرت بھی کی ہے:
’’اس بات کامجھ کوافسوس ہے کہ چندمجبوریوں کی وجہ سے اس سلسلے میں ترتیب کی پابندی نہ کرسکا اور خلفاے راشدین و بنوامیہ کوچھوڑکر پہلے اس خاندان کولیا، جوترتیباًتیسرے نمبرپرتھا،آیندہ بھی شایدمیں ترتیب کی پابندی نہ کرسکوں؛لیکن یہ قطعی ارادہ ہے کہ اگر زمانہ نے مساعدت اور عمرنے وفاکی،تواس سلسلے کے کل حصے جس طرح ہوسکے گا،پوراکروں گا‘‘۔(ص:5)اسی طرح انھوں نے ہارون رشیدکے بالمقابل مامون کو خلفاے بنوعباسیہ کا’’ہیرو‘‘قراردینے کی وجہ بھی بیان کی ہے۔
پہلاحصہ:
اصل کتاب دوحصوں میں منقسم ہے ،پہلے حصے میں انہی احوال وواقعات کاذکرہے ،جوعموماً اس قسم کی کتا بوں میں بیان کیے جاتے ہیں،مامون کی زندگی کے تمام ترسانحات کونہایت ہی حزم و احتیاط سے بیان کیاگیاہے اوراس سلسلے میں شبلی نے ابن جریرطبری،مسعودی،واقدی،ابن الاثیرجزری،ابن خلدون،ابوالفداء،ذہبی،ابن قتیبہ اور بلاذری وسیوطی وغیرہ عرب مؤرخین کی کتابوں کے ساتھ مغربی مصنفین میں گبن،کارلائل،بکل اورہیگل وغیرہ کی تصانیف کوبھی پوری باریک بینی سے پڑھا ہے،ہرتالیف میں ان کایہ طریقہ رہاہے،جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں مستندمعلومات اور جدیدطریقۂ استنتاج وطرزِنگارش کے بہترین نمونوں کے ساتھ مغربی مؤرخین کے سہووتعصبات پرمعقول گرفت بھی پائی جاتی ہے۔
اس حصے میں خلافتِ اسلامیہ پراجمالی روشنی ڈالنے کے بعدبنوامیہ و بنوہاشم کی باہمی آویزش اور پھربنوعباس کی سلطنت کے آغازکوبیان کیاگیاہے،اس کے بعدمامون کی پیدایش،تعلیم و تربیت،اس ضمن میں اس کی بے مثال ذہانت و فطانت اور حاضردماغی کے مختلف واقعات،ہارو ن رشیدکامامون پرحد درجہ اعتمادواعتبار،مامون کی ولی عہدی،مامون و امین کی جانب سے لکھے جانے والی دستاویزات،مامون و امین کے درمیان برپاہونے والے سیاسی اختلافات، نزاعات، معرکے،مامون کی افواج کے ذریعے بغدادکامحاصرہ،امین کاقتل اور مامون کاتختِ خلافت پربراجمان ہونا،مامون کے دورِحکومت میں رونما ہونے والی مختلف بغاوتوں کاذکراورمامون کاان سے بخوبی نمٹنا،مامون کے عہدکی فتوحات اور اس کی وفات کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔
دوسراحصہ:
دوسرے حصے میں عہدِ مامونی کے سیاسی انتظامات،سماجی حالات،مامون کی نجی و سیاسی زندگی کے نشیب و فراز،اس کے خصائص و عادات،اس کی علمی حیثیت،فکری مبلغ،علم حدیث،تفسیر،فقہ،ایام العرب،ادب،انساب،فلسفہ،شعر وشاعری،ریاضی ،فنونِ لطیفہ وغیرہ میں مامون کی مہارت اوراس کے طرزِزندگی پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،چوں کہ مامون مصنف کاہیروہے؛اس لیے انھوں نے اس کی زندگی کے ہر واقعے اور ہر پہلو کونہایت وضاحت اوردلائل کے ساتھ پیش کیاہے اوربسااوقات توایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ اس ہیروکی خامی کوبھی اپنے زورِبیان اور قوتِ استدلال سے خوبی بناکر پیش کررہے ہیں۔اس حصے کا آغاز بغداد -جوخلفاے بنوعباسیہ کادارالخلافہ تھا-کی سیاسی،سماجی،علمی و جغرافیائی حیثیت پر گفتگوکی گئی ہے،اس کے بعدمامون کے زمانے میں حکومت کے ذرائعِ آمدنی کی تفصیلات کابیان ہے،ملکی آبادی میں امن و امان کی فضاکاعام ہونا،مامون کی بیدارمغزی اور رعایاکے احوال و کوائف سے باخبری،عدل وانصاف کے قیام پر زوراور اقلیتوں کے حقوق کی رعایت وغیرہ کو بیان کیاگیاہے اوراس ضمن میں کئی ایسے واقعات ذکرکیے گئے ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ مامون نہایت ہی قابل اور عوامی مفادات کومدنظررکھنے والاحکمران تھا،اس کی انصاف پسندی اور عوام کی بے خوفی کے حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکرہے:
’’ایک دن ایک شکستہ حال بڑھیانے دربارمیں آکرزبانی یہ شکایت پیش کی کہ’’ ایک ظالم نے میری جائدادچھین لی ہے‘‘مامون نے کہاکہ’’ کس نے اوروہ کہاں ہے؟‘‘تواس نے اشارہ سے بتادیاکہ’’ وہ آپ کے پہلومیں ہے‘‘۔مامون نے دیکھاتوخوداس کا بیٹاعباس تھا،وزیر اعظم کوحکم دیاکہ عباس کو بڑھیا کے برابرلے جاکر کھڑاکردے اوردونوں کے اظہارسنے،شہزادہ عباس رک رک کرآہستہ گفتگوکرتاتھا؛لیکن بڑھیاکی آوازبے باکی کے ساتھ بلندہوتی جاتی تھی۔ وزیر اعظم نے روکاکہ’’ خلیفہ کے سامنے چلاکر گفتگوکرناخلافِ ادب ہے‘‘مامون نے کہا’’نہیں! جس طرح چاہے،آزادی سے کہنے دو، سچائی نے اس کی زبان تیزکردی ہے اور عباس کوگونگابنادیاہے‘‘۔آخرمقدمہ کافیصلہ بڑھیاکے حق میں ہوااورجائدادواپس دلادی گئی‘‘۔(ص:113)
مامون نہایت ہی ذکی الحس،بیدارمغزاور دوراندیش حکمراں تھا،وہ اپنے عاملوں اور گورنروں کومختلف مواقع پر جوفرامین لکھ کربھیجاکرتاتھا،وہ وقتی احکام ہونے کے علاوہ حکمت و تدبرکے عمدہ نمونے ہواکرتے تھے،علامہ نے اس کے بعض تاریخی فرامین کوذکرکیاہے۔اس حصے میں مامون کے عہدمیں ہونے والی بغاوتوں کے اسباب وعوامل پر بھی تفصیلی گفتگوکی گئی ہے،اس ضمن میں شبلی نے جن اسباب کی نشان دہی کی ہے،کوئی ضروری نہیں کہ ہر مؤرخ ان سے متفق ہو ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ شبلی نے نہایت تحقیق کے بعدان کاذکرکیاہے اورمعقول توجیہات پیش کی ہیں۔مامون کے علمی ذوق اور علومِ اسلامیہ کے علاوہ فلسفہ و حکمت کے حصول وترویج میں اس کے حد درجہ انہماک کوتفصیل سے بیان کیاگیاہے،وہ خودبھی ایک بڑاعالم فاضل انسان تھااور حکمراں ہونے ، رات دن انتظاماتِ سیاسی میں مصروف رہنے کے باوجودعلماوفضلاکی مجلسیں برپاکرواتا،ان کے ساتھ مذاکرے کرتا،مختلف مسائل و موضوعات پرماہرینِ علوم و فنون سے کتابیں اور تصنیفات تیارکرواتااور اہلِ علم کی حددرجہ قدرکرتاتھا،اس ذیل میں علامہ نے مستندحوالوں سے مامون کی علمی قابلیت اورذہنی استحضارکے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔
مامون گوشبلی کاہیروہے اوروہ اس کے کمالات اور محاسن کودل کھول کربیان کرتے ہیں،مگر چوں کہ وہ ایک غیر جانب دارمؤرخ ہیں،سوانھوں نے اس کی خوبیوں کے دوش بدوش اس کی شاہانہ خامیوں،بے جا شان وشوکت اور عیش وطرب کی مجلسوں کوبھی تفصیل سے بیان کیاہے،جہاں وہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک خوش اخلاق انسان تھا،وہیں اس کے اندرروایتی شاہانہ چونچلے بھی پائے جاتے تھے،مثلاً یہی کہ اس کی ایک شادی میں کل پانچ کروڑدرہم خرچ ہوئے، مسلسل اُنیس دنوں تک بارات کی خاطرداری ہوتی رہی،مہمانوں پرمشک و عنبرمیں بسائی ہوئی گولیاں نچھاورکی گئیں،جوکاغذکے ٹکڑوں میں ملفوف تھیں اور ان پرغلام،باندی،نقد،املاک،خلعت،اسپِ خاصہ اور جاگیروغیرہ کی خاص تعداد لکھی ہوئی تھی اوریہ عام حکم تھاکہ جس کی گولی پرجولکھاہو،اسے اسی وقت دلادیاجائے،مامون کے لیے جوفرش بچھایاگیا،اس میں سونے کے تاراستعمال کیے گئے تھے اور گوہرویاقوت سے مرصع تھا،مامون جب اس پر براجمان ہوا، تواس کے پاؤں پربیش قیمت موتی نچھاورکیے گئے،زفاف کی شباب جب دولہادولہن بیٹھے،تولڑکی کی دادی نے دونوں پرہزارقیمتی موتی نچھاورکیے۔یہ ساری تفصیلات خود شبلی نے مختلف تاریخی کتب کے حوالوں سے بیان کی ہیں،جوبظاہرکسی کوبھی اچھی نہیں لگیں گی اوراس فضول خرچی کوکوئی بھی نگاہِ تحسین سے نہیں دیکھ سکتا،خودشبلی کوبھی اس کا بخوبی احساس ہے،مگرمامون بہرحال ان کاہیروہے؛اس لیے لکھتے ہیں:
’’مامون کی ایک شادی کی تقریب جس شان وشوکت سے اداہوئی،وہ اس عہدکی مسرفانہ فیاضی اور حشمت و دولت کاسب سے بڑھاہوانمونہ ہے۔عربی مؤرخوں کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ اور موجودہ زمانہ اس کی کوئی نظیرنہیں لاسکتا،ہماری محدودواقفیت میں اب تک کسی نے ان کے اس فخریہ ادعاپراعتراض کرنے کی جرأت نہیں کی ہے‘‘۔(ص:151)
سیدصباح الدین عبدالرحمن نے شبلی کے اس بیان کی مدافعت کی ہے:
’’(شبلی)اس مسرفانہ فیاضی سے بیزاری کااظہارکرکے اس کی تفصیل کونظراندازکردیتے،تویہی ان کے لیے مناسب ہوتا،مگرایک مؤرخ کی حیثیت سے وہ اس موقع کی شان وشوکت اور حشمت سے متاثرہوئے،تواس سے صرفِ نظرکرنا بھی صحیح نہیں تھا‘‘۔(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر، معارف، شمارہ: جنوری1985،ص:32)
ویسے یہ حقیقت ہے کہ علامہ نے مامون کی نجی زندگی کے بھی ہر پہلوپر کھل کرلکھاہے اور حتی الامکان مؤرخانہ غیرجانب داری کا بھی ثبوت دیا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی مامون جومیدانِ جنگ میں ایک جری و بہادرانسان اور علمی مجلسوں میں باریک سے باریک نکتوں کوحل کرنے والاشناورہے،وہی عیش وطرب کی مجلسوں کابھی صدرنشین بناہواہے۔اس بارے میں شبلی لکھتے ہیں کہ آغازِ خلافت میں بیس مہینے تک وہ نغمہ و سرودسے بالکل محترزرہا،مگر چند روز کے بعد شوق پیداہوا،مگراتناہی کہ احتیاط کے ساتھ کبھی کبھی سن لیتاتھا،یہ حالت بھی چاربرس تک قائم رہی،پھرتوایسی چاٹ پڑگئی کہ ایک دن ان صحبتوں کے بغیر بسرنہیں کرسکتاتھا۔اس سلسلے میں عام انسانی فطرت کوسامنے رکھتے ہوئے شبلی کاکہناہے:
’’لیکن اگر انصاف سے دیکھیے تواس میں تعجب کی کیابات ہے،آزادی،حوصلہ مندی،لطافتِ طبع،جوشِ شباب ہمیشہ زہدکی حکومت سے باغی رہتے آئے ہیں‘‘۔(ص:155)
اس ضمن کے سارے واقعات شبلی نے اس دل آویزی کے ساتھ بیا ن کیے ہیں کہ ان میں مخصوص قسم کی طرب ناکی وسحرانگیزی پیداہوگئی ہے۔بالکل اسی طرح جب وہ غم و اندوہ کے مناظروواقعات کی نقشہ کشی کرتے ہیں،توایسامعلوم ہوتاہے کہ لخت ہاے جگرکوبکھیرکررکھ دیاہے ،یقیناً یہ اسلوب ِشبلی کا امتیاز ہے، سید صباح الدین عبدالرحمن نے لکھاہے:
’’مولانانے اس(مامون)کی وفات کی سوگواری کی جودردناک تصویر کشی کی ہے،اس میں ان کے قلم کاوہی زورہے،جومامون کے شبستانِ عیش کی مرقع آرائی میں ہے،فرق صرف غمناکی اور نشاط انگیزی کاہے۔مولانانے اپنے زمانے کی کم مایہ اردونثرنگاری میں اپنے قلم کاجواعجازدکھایاہے،اس کی مثال اردوکے ان کے معاصر اہلِ قلم کے یہاں کم ملے گی‘‘۔(معارف،جنوری 1985،ص:41)
شبلی نے مامون کے مذہبی افکاروخیالات کوبھی موضوعِ گفتگوبنایاہے؛لیکن ان پرکھل کرنہیں لکھاہے،شیعیت کی طرف اس کے رجحان،متعہ کے جوازکی عام منادی اور قرآن کے حادث ہونے کے عقیدے کی اشاعت وترویج پر اصراراوراس سلسلے میں علماوائمۂ وقت کے ساتھ کی جانے والی زیادتیاں یقیناً مامون کے شدیدترین فکری انحرافات ہیں۔اہلِ بیت سے اس کی محبت یقیناً قابلِ تعریف اورلائقِ تقلیدہے،اس نے بنوہاشم کے ساتھ جس دادودہش کا معاملہ کیا،اس میں بھی کسی کواشکال نہیں ہوسکتا،نبی پاکﷺسے اس کوجوگہری عقیدت ومحبت تھی،وہ بھی قابلِ رشک ہے؛لیکن برامکہ کی صحبت اور پھرفضل بن سہل جیسے اعلیٰ درجے کے درباری ارکان جومتشیع تھے اور پھربعدمیں معتزلہ کی رسائی وحاشیہ نشینی نے اسے اپنے موروثی عقائدونظریات سے بہت حد تک دورکردیاتھا،یہ چیزاچھی تھی کہ اس کی علمی انجمن میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی،یہودی،مجوسی اور ہندوہر مذہب کے ماہرینِ فن جمع تھے،جومختلف علوم وفنون کی تحقیق ،تدقیق و ترجمہ نگاری پرمامورتھے،مگرنظریاتی اور فکری طورپرمامون کادوسروں سے متاثرہوجانااندوہ ناک تھااوراس کے نقصانات خودسنی مسلمانوں کو اٹھانے پڑے،شبلی نے صراحت کی ہے کہ مامون کامتعہ کے عام جوازکااعلان کروانا’’شیعہ پن کے جوش‘‘میں تھا،جوبالآخرقاضی یحی بن اکثم کے جرأت مندانہ مکالمے کی وجہ سے منسوخ ہوا،اسی طرح فلسفہ میں حد درجہ استغراق نے اس کوبہت سے مسائل ونظریات میں معتزلی الفکربنادیاتھا،جن میں سے ایک قرآن کے حادث ہونے کاعقیدہ بھی ہے،جس پراس کواصرارتھااوراس کی وجہ سے اس نے علماے اسلام پربے پناہ مظالم ڈھائے۔
دوسرے حصے میں مامون کے عہدکی یورپی سلطنتوں کابھی اجمالی جائزہ لیاگیاہے،اس کے علاوہ مختلف سرکاری عہدوں اور مناصب اوران پرمامورہونے والے افرادکی ذمے داریوں کی تفصیلات،مامون اوراس کے اہلِ دربارکے متعدددلچسپ لطائف اوراخیرمیں مامون کے عہدکے بہت سے اہلِ فضل وکمال کاذکرِجمیل ہے۔ اس کتاب میں شبلی نے واقعات و جزئیات کے نقدوتحلیل کے بعدمختلف موقعوں پر جورائیں قائم کی ہیں،ان سے بعض دفعہ بعض قاری یامؤرخ کو اختلاف بھی ہوسکتاہے؛لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شبلی نے’’ المامون‘‘ کے ذریعے سے اسلامی تاریخِ حکومت وسیاست کی بہترین مرقع نگاری کی ، اردو زبان میں تاریخ نگاری کی انتہائی مہتم بالشان بنیاداٹھائی اور پھر بعدکے تصنیفی مرحلوں میں اسے قوی سے قوی تر کرتے گئے۔
’’المامون‘‘کاعربی ترجمہ:
’’المامون‘‘اپنی مذکورہ ٔ بالامتنوع خوبیوں کی وجہ سے اس بات کی حق دارتھی کہ’’ الفاروق‘‘ و’’سیرۃ النبیﷺ‘‘وغیرہ کی طرح اس کتاب کابھی عربی ودیگرزبانوں میں ترجمہ کیاجاتا؛تاکہ اس کی رسائی کادائرہ بڑھے اوراتنی قیمتی تصنیف کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کواستفادہ کاموقع نصیب ہو؛ لیکن اب تک ’’المامون‘‘کا عربی ترجمہ بھی نہیں ہواتھا۔اﷲ تعالیٰ نے یہ سعادت خطۂ اعظم گڑھ کے ہی کے ایک باکمال فرداورعربی زبان وادب و تحقیق کے فاضل ڈاکٹراورنگ زیب (اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) کے حق میں مقدر کر رکھی تھی،سوانھوں نے اس اہم تالیف کے عربی ترجمے کابیڑہ اٹھایااوراس کے شایانِ شان اس کام کوپایۂ تکمیل تک پہنچایاہے،’’المامون‘‘کایہ ترجمہ حال ہی میں ’’دارالکتب العلمیہ‘‘بیروت سے شائع بھی ہوگیا ہے۔ ترجمہ نہایت شگفتہ،سلیس اور خوب صورت ہے،ترجمے کے الفاظ میں بھرپورروانی ہے ،تعبیرات وتراکیب کوبوجھل بنانے سے احترازکیاگیاہے ،جس کی وجہ سے ترجمے میں اصل کتاب کالطف پیداہوگیا ہے، مترجم نے مؤلف کے مقاصدومفاہیم کوفصیح اورواضح زبان میں منتقل کیاہے ،ترجمے کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مترجم نے نہایت ہی عرق ریزی سے اصل متن کوکئی بار پڑھااوراس کے بعداسے عربی کاجامہ پہنایاہے،علامہ شبلی نعمانی نے نہایت دقتِ نظری سے تاریخی مآخذتک رسائی حاصل کرکے ان کے حوالے درج کیے ہیں اور جگہ جگہ بعض واقعات یاجزئیات کی توضیح کے لیے حاشیے اورنوٹس بھی تحریرکیے ہیں، مترجم نے اصل مراجع سے رجوع کرکے جن حوالوں میں اصل کتاب کاصفحہ نمبردرج نہیں تھا،ان کاصفحہ نمبراور اگرکہیں کوئی سہوواقع ہواہے،تواس کی تصحیح بھی کردی ہے۔کتاب کے شروع میں ’’المامون‘‘ کی تنقیدوتجزیہ پر مشتمل دبستانِ شبلی کے معروف محقق اورصاحبِ قلم سیدصباح الدین عبدالرحمن کے وقیع مقالے(جس کاحوالہ اوپردیاگیاہے)کاترجمہ بھی شامل کردیاہے؛تاکہ قاری اصل کتاب کوپڑھنے سے پہلے اس کی اہمیت اور قدرومنزلت سے آگاہی کے ساتھ اس کے مشمولات سے بھی اجمالی واقفیت حاصل کرلے۔ترجمہ علمی وفنی اعتبار سے اصل کتاب کے شایانِ شان ہے اوراس کے لیے مترجم لائقِ صد تبریک وتحسین ہیں کہ ان کے ذریعے ایک طویل عرصے کے بعدہی سہی،’’المامون‘‘کاوقیع ترجمہ ہوا ہے۔قابلِ ذکرہے کہ ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی نے اب تک علامہ شبلی نعمانی کی متعدداہم تاریخی وعلمی تحریروں کاعربی ترجمہ کیاہے،جن میں سے کئی شائع ہوچکیں اوربعض اشاعت کے مرحلے میں ہیں،جبکہ انھوں نے ’’مقالاتِ شبلی‘‘جلدششم کے مقالات(کتب خانہ اسکندریہ،اسلامی کتب خانے،اسلامی حکومتیں اورشفاخانے،مکینکس اورمسلمان) کاعربی ترجمہ(مترجمہ: ڈاکٹرہیفاشاکری،اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ)اپنے زیراہتمام شائع کیاہے،اس سے قبل2014ء میں ’’شبلی صدی‘‘ کے موقع پراپنے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ’’مجلۃ الہند‘‘مغربی بنگال کا شبلی نمبردو ضخیم جلدوں میں(ایک ہزارسے زائدصفحات پر مشتمل) شائع کرچکے ہیں، جس میں علامہ شبلی نعمانی کی حیات اوران کی خدمات کے مختلف گوشوں پر مختلف محققین اور اصحابِ قلم کے مقالات اوراردومقالوں کے عربی ترجمے شامل کیے گئے ہیں،ان عظیم الشان خدمات کے لیے پورے دبستانِ شبلی اورہندوستان کے علم دوست طبقے کی جانب سے ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ہندوستان کے ایک جلیل القدرمصنف،سوانح نگار،مفکراوریگانۂ روزگارفاضل کے افکارکے دائرے کووسعت بخشی ہے ۔ان کے علاوہ افکاروتصانیفِ شبلی کی تعریب وتوسیع کے کئی اہم منصوبے ان کے پیشِ نظرہیں،دعاہے کہ ان کایہ علمی وتحقیقی سفریوں ہی جاری وساری رہے اور علامہ شبلی نعمانی کی دقتِ نظر اورتاریخ وتحقیق نگاری کے بیش بہانمونے بتدریج عالمِ عرب کے سامنے آتے رہیں۔(ان شاء اﷲ)
 
Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 21971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.