غالبؔ کی فارسی میں اردو شاعری

غالبؔ کے عہد میں فارسی کا پتا کاٹا جا چکا تھا اور وہ ایک غیر موثر طبقے میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ غالبؔ اس حقیقت کو پوری طرح محسوس کر رہے تھے۔ انہیں فارسی سے بے پناہ الفت تھی۔ انہیں اس امر کا احساس ہو گیا تھا کہ آنے والا وقت فارسی کو بھول جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اردو دان طبقے میں زندہ رکھنے کے لئے اپنی اردو شاعری میں مختلف حربے اور طریقے استعمال کرتے ہیں۔ گزرے کل کی اردو میں فارسی اس لئے زندہ ہے کہ وہ فارسی کا دور تھا۔ غالبؔ کی اردو شاعری میں فارسی اس لئے زندہ ہے کہ لوگوں میں کچھ فارسی کا ذوق باقی رہے۔ ان کے ہاں ،جو حربے استعمال ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
الف۔ فارسی اشعار میں اردو کے ا لفاظ شامل کر دیتے ہیں۔
ب۔ بہت سے مصرعے فارسی میں ہوتے ہیں۔
ج۔ الفاظ فارسی ہوتے ہیں ،اسلوب تکلم اردو ہوتا ہے۔
د۔ الفاظ اردو ہوتے ہیں لیکن بندش فارسی ہوتی ہے۔
ھ۔ فارسی کے مخصوص الفاظ اردو میں فارسی مفاہیم کے ساتھ لے آئے ہیں۔
و۔ فارسی مرکب توصیفی مخصوص، بول، مخصوص اسم فاعل اور مصادر مختلف طریقوں سے اردو میں نظم کر دیتے ہیں۔
درج بالا معروضات کی سند میں غالبؔ کی اردو شاعری میں سے چند مثالیں بطور نمونہ پیش کر رہا ہوں:
کلفت افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دلِ افشر دن بنائے خندہ ہے
پورا شعر فارسی میں ہے۔ صرف ’’کو‘‘ اور ’’ہے‘‘کو بدلنے ضرورت ہے۔
کلفت افسردگی را عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دندان دردلِ افشردن بنائے خندہ ہست
شعرکی بنیادی خصوصیت اس کا مضمون ہے۔یہ مضمون کسی مخصوص کلچر تک محدود نہیں۔ سچائی یہی ہے کہ بے تابی میں حرکت بڑھ جاتی ہے اور سوچ جمود کا شکار نہیں ہوتا جبکہ افسردگی حرکت کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ مثل مشہور ہے دکھ کے بعد سکھ میسر آتا ہے۔ شعر کے بیشتر الفاظ اردو میں رواجِ عام رکھتے ہیں۔ افسردگی، عیش، بے تابی، ورنہ ،دل، خندہ، دندان۔ غالبؔ اس حقیقت کو کیش کروا رہے ہیں۔ یہ فارسی شعربھی بلا تر دد اردو کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
یہ طوفان گاہِ جوشِ اضطرابِ شام تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبح محشر تارِ بستر ہے
لفظ ’’ہے‘‘ کی جگہ ’’ہست ‘‘رکھ دیں شعر فارسی میں ہو جائے گا۔ دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ شعر کے تمام الفاظ اردو میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔
شمار سُجہ مرغوب بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بر دن پسند آیا
’’آیا‘‘ کی جگہ ’’آمد ‘‘رکھ دیں پورا شعر فارسی میں ہو جائے گا۔ شمار، مرغو ب، مشکل، پسنداور دل اردو کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔
غنچہ تا شگفتن ہائے برگ عافیت معلوم
باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشان ہے
شعر میں ’’ہے‘‘ کے سوا تمام الفاظ فارسی ہیں تاہم اسلوبی اعتبار سے شعر فارسی نہیں۔
نہ لائی شوخی اندیشہ تاب رنج نو میدی
کف افسوس ملنا عہد تجدیدِ تمنا ہے
نہ لائی، ملنا اور ہے کے سوا تمام الفاظ فارسی کے ہیں۔ ’’تاب نہ لانا‘‘ معروف اردو محاورہ ہے۔
شبِ خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
شعر میں ’’تھا‘‘ کے سوا کوئی لفظ اردو کانہیں۔ تاہم شعر کے تمام الفاظ اردو کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔
درسِ عنوان تماشا بہ تغافل خوش تر
ہے نگہ رشتۂ شیرازہ مثرگاں مجھ سے

شعر کا پہلا مصرع فارسی میں ہے جبکہ دوسرے مصرعے میں ’’ہے‘‘ او ر ’’مجھ سے ‘‘غیر فارسی الفاظ ہیں۔ تاہم شعر کے جملہ فارسی الفاظ اردو میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔
بروئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا
شعر کا پہلا مصرع اسلوبی اور طرزِ ادا کے حوالہ سے اردو سے متعلق نہیں ہے۔
تھی نو آموز فنا ہمتِ دشوار پسند
سخت مشکل ہے یہ کام بھی آساں نکلا
شعر کا پہلا مصرع مکمل فارسی میں ہے جبکہ مصرعے کے تمام الفاظ اردو میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ نواور آموز دونوں، بطور سابقہ اور لاحقہ اردو میں مستعمل چلے آتے ہیں۔
بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
شعر کا پہلا مصرع فارسی ہے۔
ہمہ ناامیدی ہمہ بدگمانی میں
دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا
پہلا مصرع بطرز ادا ،فارسی ہے جبکہ دوسرے مصرع میں ’’فریب وفا خوردگاں‘‘ فارسی کے الفاظ ہیں۔
ہے شکستن سے بھی دل نو مید یارب
اب تلک آبگینہ کوہ پر عرض گر اں جانی کرے
پہلے مصرعے کا فارسی آمیز اردو اسلوب ہے جبکہ دوسرے مصرعے میں ’’پر‘‘ اور کرے کے سوام تمام الفاظ فارسی ہیں تاہم اسلوب تکلم فارسی نہیں ۔
کم نہیں نازش ہمتائی چشم خوباں
تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا
پہلے مصرعے میں ’’کم نہیں‘‘ کے سوا تمام الفاظ فارسی ہیں۔
دل آشفتگاں خالِ گنجِ دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں ’’کے‘‘ جبکہ دوسرے میں ’’میں‘‘ اور ’’ دیکھتے ہیں‘‘ کے سوا کوئی لفظ اردو کا نہیں ہاں بندش اردو سے لگا کھاتی ہے۔
غالبؔ کے کچھ مرکب توصیفی فارسی اسلوب تکلم کے تحت ترکیب پائے ہیں:
یک بیاباں ماندگی،یک تمثال شریں، یک عربدہ جو، یک دیدہ حیراں، یک جہاں ،زانو، تامل، یک عربدہ میداں، جلوۂ گل، یک عمر ورع، صد گلستان نگاہ، صد دام جستہ، حسن تماشا دوست، دیدۂ عبرت نگاہ، گوش نصیحت نیوش، بت بید اد فن، قطرہ دریاآشنا، ذرہ صحرا دستگاہ، موئے آتش دیدہ، ذوق خامہ فرسا، آب برماندہ، وسعت تہ سنگ آمدہ، کاغذِ آش دیدہ، نیرنگ یک بت خانہ ۔
فارسی کے کچھ اسم فاعل غالبؔ نے اپنی اردو غزل کا حصہ بنائے ہیں:
آتش زیر پا، داغ نہا ں، نشاط آہنگ، پابد امن، جنوں جولاں
غالبؔ نے فارسی کے کچھ ایسے الفاظ بولے ہیں جو اردو بول چال کا حصہ ہیں لیکن ان کے معنی فارسی بول چال کے مطابق ہیں:
مگر (شاید، سوائے) دماغ (برداشت) تماشا (دیکھنا) رخصت (اجازت) ارزانی (نصیب) معلوم (معدوم،نہیں) یارب
(فریاد، دہائی)
خاص فارسی کے بول: پنبہ، نشاط، عشرت، درخور، تمثال، بسکہ، از بسکہ
غالب نے اپنی اردو غزل میں فارسی مصادر کا بھی بلا تکلف مختلف حوالوں سے استعمال کیا ہے۔ ان کے کچھ فارسی مصادر، باب ’’غالبؔ کے غیر اردو مصادر ‘‘ میں درج کر دئیے گئے ہیں لہذا ان کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں لگتا۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.