معروف افسانہ نگارہ آپا بانو قدسیہ ، ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی

راجہ گدھ کی خالق ،ادیبوں کی آپا ، اشفاق احمد کی اہلیہ اور معروف افسانہ نگارہ آپا بانو قدسیہ ، ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی
معروف ادبیہ ، ممتاز دانش ور اشفاق احمد کی اہلیہ ، اثیر احمد کی والدہ اور ممتاز ناول نگار ہ آپابانو قدسیہ 89سال کی عمر میں 4 فروری 2017ء کو انتقا ل فرما گئیں ۔

انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔ بے شک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ پر جانے والے ہیں

آپا بانو قدسیہ کا سب سے مقبول ناول "راجہ گدھ" تھا ۔جس نے عالمی شہرت حاصل کی ۔ یہ ناول 1981میں شائع ہوا تھا ۔ آپابانو قدسیہ نے 27 کے لگ بھگ ناول ، کہانیوں کے مجموعے ، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے متعدد ڈرامے لکھے ۔ آپ کی ادبی خدمات پر 2003ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز اور 2010ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا ۔ ٹی وی ڈراموں پر بھی آپ نے متعدد ایوارڈ حاصل کیے۔ محرومہ ادبی حلقوں میں آپا بانو قدسیہ کے نام سے معروف تھیں ۔مرحومہ کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں میں بازگشت ، ناقابل ذکر ، امربیل ، دستہ بستہ سامان وجود ، توجہ کی طالب آتش زیرپا ، اور کچھ نہیں ،ایک دن ، آسے پاسے ، لگن اپنی اپنی ، ایک دن شامل ہیں ۔ان کے مقبول ڈراموں میں آدھی بات ، کلو ، امربیل ، دھوپ جلی ، خانہ بدوش ، پیا نام دیا شامل ہیں ۔مرحومہ کی پہلی ڈرامہ سیریز "سدھراں" تھی ۔آئیے آپا بانو قدسیہ کی زندگی کی ایک جھلک ملاحظہ کریں جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوگی ۔
..................
بانو قدسیہ اردو ادب میں اس وقت نمودار ہوئیں جب اردو افسانہ فنی ارتقاء کی چند اہم منزلیں طے کر چکا تھا۔ رومانی تحریک کے افسانہ نگاروں…… جن میں نیاز فتح پوری‘ حجاب امتیاز علی‘ مجنوں گورکھ پوری‘ حامد اﷲ افسر‘ احمد اور میرزا ادیب شامل ہیں‘ کا آفتابِ شہرت نصف انہار پر تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے تجدد پسند افسانہ نگاروں نے ادبی افق پر دو متوازی کہکشائیں استوار کرنی شروع کر دی تھیں۔ اس دور میں ترقی پسند تحریک کے افسانہ نگاروں میں سے کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدری‘ خواجہ احمد عباس‘ ملک راج آنند‘ اختر حسین رائے پوری‘ عصمت چغتائی‘ احمد علی اور بلونت سنگھ کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ حلقہ ارباب ذوق سے سید فیاض محمود‘ شیر محمد اختر‘ امجد الطاف‘ محمد حسن عسکری‘ آغا بابر اور عاشق حسین بٹالوی جیسے افسانہ نگار نمایاں ہوئے۔ سعادت حسن منٹو نے جو کسی تحریک میں باقاعدہ طور پر شامل نہیں تھے اپنے مدار فن میں خود اپنا چراغ روشن کر رکھا تھا جس کی روشنی منفرد قسم کی تھی۔ ممتاز مفتی سماجی حقیقت نگاری کے فروغ کے دور میں نفسیات کے وسیلوں سے کرداروں کے باطن میں جھانک رہے تھے اور تحلیل نفسی کے وسیلے سے شعور کی گرہیں کھولنے اور لاشعور کو سطح پر لانے کی کاوش کر رہے تھے۔ اس دور کو مولانا صلاح الدین احمد نے اردو افسانے کا دور زریں قرار دیا تھا۔
اردو افسانے کے اس قدر روشن آسمان میں کسی نئے ستارے کی آمد بظاہر اس کے مطلع ادب پر طلوع ہونے کی خبر بھی نہ دیتا لیکن جب بانوقدسیہ کا افسانہ ’’واماندگی شوق‘‘ ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع ہوا تو انہوں نے ایک نئے ’’قطبی ستارے‘‘ کی افسانے کے آسمان پر طلوع ہونے کی خبر بھی دی۔ اس افسانے نے قارئین کی غیرمعمولی توجہ کھینچی تو اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اسے ایک لڑکی نے لکھا تھا جو ایم اے (اردو) کی طالبہ تھی۔
زندگی نامہ:
بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو متحدہ پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق جاٹ خاندان کی چٹھہ شاخ سے ہے جس کے بیشتر ارکان کا تعلق کھیتی باڑی اور زمینداری کے پیشے سے تھا۔ والدہ نے ان کا نام قدسیہ بانو رکھا تھا لیکن وہ ادب میں بانو قدسیہ کے نام سے معروف ہوئیں۔ ان کا پہلا افسانہ اس نام سے چھپا تھا۔ ان کے والد کا نام بدر الزمان تھا‘ ایگری کلچرل (زراعت) کے شعبے میں بی ایس سی کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور متحدہ پنجاب کے ضلع حصار میں ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ گئے۔ بدر الزمان کو گھڑ سواری کا شوق تھا اور وہ فٹ بال کے علاوہ ٹینس کے بھی عمدہ کھلاڑی تھے لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی۔ قدسیہ بانو اوائل عمری کے چوتھے سال سے گزر رہی تھیں کہ 1932ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پسماندگان میں ان کی والدہ مسز ذاکرہ چٹھہ (پ‘ 1905) بڑا بھائی پرویز چٹھہ اور خود قدسیہ شامل تھیں۔ اس وقت ان کے بھائی کی عمر قریباً پانچ برس تھی۔
اپنے شوہر بدر الزمان کی وفات کے بعد مسز ذاکرہ چٹھہ نے جن کی عمر اس وقت قریباً 27 برس تھی‘ اپنی تعلیم مکمل کی اور انہیں ایک مدرسہ میں ہیڈمسٹریس کی ملازمت مل گئی۔ اس دوران تین افراد پر مشتمل یہ خاندان ضلع کانگڑہ کے خوبصورت شہر دھرم سالہ میں منتقل ہو گیا جو انگریزوں کی ایک اہم فوجی چھاؤنی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس شہر کی دلکش یادیں بانو قدسیہ کے دل میں محفوظ ہیں اور وہ جب چاہتی ہیں ان یادوں کی بازیافت کر لیتی ہیں۔ اس کا ایک صوری نقش انہوں نے اپنے الفاظ میں یوں محفوظ کر رکھا ہے۔
’’یہ 1937ء کا واقعہ ہے: ان دنوں دھرم سالہ کی کل آبادی پانچ ہزار تھی لیکن اس تھوڑے سے معمورہ کے لئے بجلی‘ پکی سڑکیں‘ سول ہسپتال‘ سیمنا گھر‘ لڑکے اور لڑکیوں کے لئے دسویں تک سکول بمعہ ایک عدد انگریز ہیڈماسٹر موجود تھا۔ ایک ایسا کلب مخلوط تھا اور اس میں کچھ آزاد خیال پڑھی لکھی اور امیر خواتین بھی برابر کی ممبر تھیں…… پانچ ہزار کی آبادی کے لئے تہذیبی طور پر تو حکومت نے بہت سی عنایات کر رکھی تھیں لیکن ان پہاڑی علاقوں کی شامیں پھر بھی اداس رہا کرتی تھیں…… پہاڑوں میں عموماً شام پڑتے ہی شہر سنسان ہونے لگتا ہے اور پہاڑی لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے پر پہاڑوں کو اندھیروں میں ڈوبتے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔‘‘
دھرم سالہ کی اس تنہائی میں قدسیہ بانو کی سوچ ایک طرف خاموشی کے پہاڑ کو کاٹ رہی تھی تو دوسری طرف ان کے معصوم دل میں انوکھے سوالات بھی ابھار رہی تھی۔ ان سوالات کا اب تجزیہ کیا جائے تو انہیں ان کے کھلی آنکھوں کے ایسے خوابوں سے موسوم کیا جا سکتا ہے جن کی حقیقی تعبیریں مستقبل کے پردوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ اس قسم کا ایک خواب قدسیہ بانو نے نو سال کی عمر میں دیکھا تھا:
’’ایسی ہی ایک اداس گھرتی شام کو میری والدہ (مسز ذاکرہ چٹھہ) بھائی (پرویز چٹھہ) اور میں گھر لوٹ رہے تھے۔ صاف ستھری سڑک کے کنارے بانس کے جھنڈوں میں جگنو جگمگا رہے تھے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلب روشن تھے۔ سناٹا تھا۔ ایسی خاموشی جو صرف پہاڑوں پر ممکن ہے۔ چلتے چلتے میری نظر آسمان پر گئی۔ ایک ستارہ جو روشنی میں باقی ستاروں سے سوا تھا مجھے نظر آیا اور پہلی بار مجھے یوں لگا کہ میں جلاوطن ہوں اور مجھے اس ستارے میں لوٹ جانا ہے کیونکہ یہی میرا مسکن اور یہی میری منزل ہے۔ میں نے اپنی پڑھی لکھی ماں سے کہا…… میں اس چمکتے ستارے سے آئی ہوں اور وہیں میرا گھر ہے…… لیکن ماں نے معصومیت سے جواب دیا ’ہم سب اسی ستارے میں رہتے ہیں…… تم‘ میں اور پرویز…… یہاں آنے سے پہلے۔‘‘
بچپن کے اس تجسس آمیز دور میں قدسیہ کے دل میں قسم قسم کے مہمل سوالات جنم لیتے رہتے اور وہ ان کا جواب وصول کرنے کے لئے اپنی ماں کے پاس ہی جاتی۔ ایک مرتبہ ان کی سہیلیوں نے کہا کہ تمہارا ابا گزر گیا ہے‘ تو قدسیہ نے امی سے سوال کیا گزر گیا‘ کیا ہوتا ہے۔ امی نے بڑے بھول پن سے کہا ’’گزر گیا…… یعنی چلا گیا…… یہ دیکھو ایسے……‘‘ اور پھر وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چلی گئیں اور اس طرح ان کے نزدیک یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو گیا۔ ان کی والدہ 27 برس کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں‘ اس وقت تو شاید قدسیہ اس بات کو نہ پا سکیں کہ ان کی ماں بیوگی کے پہاڑ کو کس طرح کاٹ رہی تھیں لیکن لمبے عرصے کے بعد جب انہیں دیکھی ہوئی حقیقتوں‘ مشاہدوں اور تجربات کا تجزیہ کرنے کا سلیقہ آ گیا تو انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کی ماں نے جوانی سے بڑھاپے تک کا سفر اپنا دل خود بہلا کر کاٹا تھا۔ انہیں اوکھے لوگوں کے ساتھ پھیکی‘ روکھی باتیں کرنے اور تشنہ جواب حاصل کرنے کی خواہش نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی اولاد سے کبھی سوال نہیں کیا ’’کہ تم لوگوں کے پاس میرے لئے کیا تھوڑا سا وقت بھی نہیں ہے۔؟‘‘ اس کے برعکس بانو قدسیہ نے لکھا:
’’وہ اس عمر میں بھی لطیفوں پر ہنس سکتی ہیں‘ سکریبل کھیل کر‘ گانے گاتے ہوئے‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کہانیاں سنا کر‘ ان کے لئے نظمیں لکھ کر مسرور ہو جاتی ہیں‘ ان کی عبادت‘ شکرگزاری‘ عرض گزارنے اور جھکڑنے کے لئے ضروری ہے‘ لیکن وہ اﷲ سے سوال نہیں پوچھتیں‘ اس کا احتساب نہیں کرتیں۔‘‘
یہ مشرق کی ایک مثالی ماں کا کردار ہے جو اپنا ’’آج‘‘ اپنے بچوں کے کامیاب ’’کل‘‘ کے لئے قربان کر دیتی ہے اور جوانی کی بیوگی کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ ہر وقت اپنے نفس مطمئنہ کی شاداب چھاؤں سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں حاصل کرتی رہتی ہے۔ بانو قدسیہ نے خردمندی کے دور میں اپنا موازنہ اپنی ماں سے کیا تو انہیں احساس ہوا کہ
’’میری حالت ان سے بہت مختلف ہے۔ میرے اندر سوالوں کی کھیپ بھکڑا پوہلی بن کر اگتی رہتی ہے۔ کچھ سوالات خودبخود جوابات میں ڈھل جاتے ہیں‘ لیکن جو کہنی ٹیک کر کھڑکی میں بیٹھ رہیں ان کے حل کی بھی ایک صورت کبھی نہ کبھی نکل آتی ہے۔‘‘
سوال ابھارنے اور پھر جواب تلاش کرنے کی اس عادت نے ہی بانو قدسیہ کو افسانہ نگار بنا دیا۔ انہیں بچپن میں دھرم سالہ کا افسانوی ماحول میسر آ گیا تھا۔ اس ماحول نے ان کے فطری ذوق کی پرورش کی۔ گھر میں بہن بھائیوں اور عم زادوں کی کثرت نہیں تھی‘ تین افراد پر مشتمل ایک جواں سال بیوہ کا گھر‘ جس میں ہر وقت خاموشی اور تنہائی رہتی۔ اردگرد پہاڑ تھے اور مناظر قدرت کا حسن تھا۔ گھر میں پینٹ باکس تھے اور کتابیں تھیں۔ پرویز چٹھہ پینٹنگ کی طرف مائل ہو گئے۔ قدسیہ کو کہانیاں بنانے کا شوق لاحق ہو گیا۔ انہوں نے پانچویں جماعت میں ایک ڈرامہ لکھا جو سکول کے سٹیج پر کھیلا گیا۔
انگریزی زبان کی تعلیم نے ان کو انگریزی میں نظمیں لکھنے پر بھی مائل کیا اور کبھی کبھی انگریزی نظم خود بھی بن جاتی لیکن افسانہ نگاری پر پوری توجہ دینے کی وجہ سے انہوں نے انگریزی نظم نگاری کی مشق نہیں کی۔
بانو قدسیہ کا اپنا خیال ہے کہ ساتویں جماعت تک وہ کوئی ذہین طالبہ نہیں تھیں۔ اپنی اس ابتدائی عمر میں انہیں اپنے گھر پر کسی بزرگ مرد کی سرپرستی بھی حاصل نہیں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے باطن میں شدید احساس کمتری پیدا ہو گیا۔ ثانیاً ان میں ایک خوف بھی سرایت کر گیا۔ ممکن تھا کہ وہ داخلیت پسند اور معاشرے کو سہمی ہوئی‘ خوفزدہ نظروں سے دیکھنے والی لڑکی بن جاتیں لیکن خوش قسمتی سے اس برس میں ہی ان کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی کا سبب پیدا ہو گیا۔
بانو قدسیہ نے لکھتی ہیں:
’’ساتویں جماعت میں میری ملاقات ایک ہندوستانی بزرگ سے ہوئی جن کی سرپرستی نے میرے اندر کی دنیا بدل دی۔ میں اپنے خول سے بتدریج باہر نکلتی گئی۔ میں اپنی نظروں میں بلند ہو گئی اور میرے اندر کسی قدر اعتماد پیدا ہو گیا۔ آٹھویں جماعت میں…… میں کانگڑانوالی میں اول آئی۔ دسویں میں بھی اول آئی۔‘‘

دھرم سالہ میں تعلیم کا انتظام صرف میٹرک تک تھا۔ چنانچہ بانو قدسیہ کو یہ پہاڑی شہر چھوڑ کر لاہور آنا پڑا۔ کوپر روڈ کالج سے ایف اے کرنے کے بعد انہوں نے کنیئرڈ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ رہائش کا انتظام ہوسٹل میں کیا۔ ایک چھوٹے سے دورافتادہ قصبہ نما شہر سے نکل کر ایک بڑے شہر کی زندگی اور ’’لاہوری کلچر‘‘ کو قریب سے دیکھنے کا انہیں پہلا موقع ملا۔
اس دوران بانو قدسیہ کا خاندان گورداس پور منتقل ہو چکا تھا۔ ان کی والدہ ڈسٹرکٹ انسپکٹریس آف سکول بن چکی تھیں۔ بانو قدسیہ بی اے کا امتحان دینے کے بعد اپنی والدہ کے پاس آ گئیں جو ایک سکھ کی حویلی میں کرایہ دار کی حیثیت میں رہتی تھیں۔ پھر اگست 1947ء آ گیا‘ آزاد ہندوستان میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا لیکن جب باؤنڈری کمیشن کا اعلان ہوا تو گورداس پور کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا تھا۔ آزادی کے دن کی کیفیت بانو قدسیہ کے الفاظ میں یوں ہے:
’’دن گرم ہو گیا۔ رات ہونے سے پہلے بہت سے لوگ ہمارے آنگن میں جمع ہو گئے اور اس نے مہاجر کیمپ کی شکل اختیار کر لی۔ ان میں سے چند ایک کے سوا اکثر سے ہماری جان پہچان بھی نہیں تھی۔ چودہ اگست کا گرم آسمان ہمیں چوطرفہ گھیرے ہوئے تھا۔ وہی چھتی گلی جیسا راستہ‘ باورچی خانہ میں کام کرنے والی بنگالی مریم‘ بھینس کا دودھ دوہنے والا نذیر‘ نانک چندی اینٹوں والی پچھلی گلی‘ پچھواڑے کھلا گراؤنڈ‘ سب کچھ وہی تھا…… لیکن نہ جانے کون کھڑیا مٹی سے ہماری ڈیوڑھی پر نشان بنا گیا تھا۔ یہ نشان ایسا تھا جس نے ہندو سکھوں کے اس محلے میں ہمارے گھر کو بالکل الگ تھلگ کر دیا تھا۔ اس نشان کو خطرہ سمجھتے ہوئے ہم نے آہستہ آہستہ سامان باندھنا شروع کر دیا تھا۔ صبح تمنا کا جو ننھا سا بچہ منہ میں چوسنی لئے آرام سے سو رہا تھا‘ ایک ہچکی لے کر ہمیشہ کے لئے سو گیا۔ ہم نے کیوٹی کورا جیسے خوشبودار خواب اس کی آرائش کے تمام چھوٹے چھوٹے فراک نما پلان‘ پروان چڑھانے کے ٹانک جیسے عزم‘ اس کے پالنے میں ڈالے اور پنگھوڑے کو لاشعور کے گودام میں ڈال دیا۔‘‘
.......................
ان احساسات کے ساتھ بانو قدسیہ کے خاندان کے ساتھ ان کی نشان زدہ حویلی میں جمع ہونے والے لوگوں نے ہجرت کی اور پاکستان آ گئے۔ بانو قدسیہ کو ایک رضائی میں چھپا کر لایا گیا تھا۔
بانو قدسیہ کا بی اے کا نتیجہ لاہور آنے کے بعد نکلا اور وہ کامیاب قرار دی گئی تھیں۔ اب ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ بانو کی شادی کر دی جائے۔ وہ مزید تعلیم کے حق میں نہیں تھیں اس لئے ڈیڑھ سال تک تعلیم کا سلسلہ منقطع رہا لیکن پھر ان کی والدہ کی ایک سہیلی نے ان کی معاونت کی اور انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا جہاں پٹھان خاندان کا ایک فرد اشفاق احمد خان بھی ان کا ہم جماعت تھا۔
اشفاق احمد افسانہ نگار تھے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’توبہ‘‘ مولانا صلاح الدین احمد کے رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں 1944ء میں چھپا۔ مولانا نے اس افسانے کا خصوصی ذکر اپنے اداریے میں کیا۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد افسانے لکھے جو ’’نقوش‘ سابق‘ ادب لطیف‘ سنگ میل اور اردو ادب‘‘ میں شائع ہوئے۔ ان کے افسانوں کی پہلی کتاب ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اور بہت مقبول ہوئی۔
بانو قدسیہ نے لکھنے کی ابتداء 1947ء میں آزادی کے بعد کی۔ ان کے ذہن پر گورداس پور سے پاکستان تک کی ہجرت کے اثرات زیادہ تھے۔ بی اے تک تعلیم یافتہ اس لڑکی کی سوچ معاشرے کے مسائل اور انسانوں کے دکھ سکھ کا تجزیہ کرتی تو اس کے ذہن میں ایک کہانی صورت پذیر ہونے لگتی جسے وہ کاغذ پر بھی اتار لیتی تھی۔ اشفاق احمد سے تعارف ہوا تو وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی آزاد فضا اور مخلوط تعلیم سے اعتماد کی دولت سے سرفراز ہو چکی تھیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے اشفاق احمد سے کہا:
’’آپ کی تو کتاب شائع ہو گئی براہ کرم کسی ایسے پرچے کا نام بتائیں جو میرا افسانہ چھاپ دے۔‘‘
اشفاق احمد نے ان سے افسانہ لیا اور ’’ادب لطیف‘‘ میں ’’واماندگی شوق‘‘ کے عنوان سے چھپوا دیا۔ اس افسانے کی اشاعت پر انہیں ضرور خوشی حاصل ہوئی ہو گی کیونکہ یہ ان کی پہلی تخلیق تھی جو اردو کے ایک ممتاز ادبی ماہنامے میں شائع ہوئی تاہم طویل عرصے کے بعد جب اصغر عبداﷲ نے ان کا انٹرویو لیا تو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:
’’داماندگی شوق‘‘ کو تو غالباً کسی نے نہیں پڑھا۔ میں اتنی معروف ادیبہ تو نہ تھی کہ قابل ذکر لوگ میری طرف نظر کرتے۔ بہرحال دو تین افسانوں کے بعد افسانہ ’’روشنیوں کا شہر‘‘ چھپا تو امجد حسین کا خط ملا اور جو میرے پاس محفوظ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ آپ اچھے افسانے لکھ رہی ہیں اور ’’روشنیوں کا شہر‘‘ تو بے مثال ہے۔ آپ اسی طرح لکھتی رہیں۔ مجھے عجیب طرح کی خوشی ہوئی کیونکہ امجد حسین جانے پہچانے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس کے بعد پے درپے خطوط آنے لگے۔‘‘
بانو قدسیہ کی ادبی زندگی میں اشفاق احمد سے ان کی ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے اس احسان کو کبھی فراموش نہیں کیا کہ ’’انہوں نے میرا افسانہ لیا اور پھر میرا افسانہ چھپ گیا‘‘ بلکہ ہمیشہ اعتراف کیا کہ ’’اگر اشفاق احمد نہ ملتے تو میں بانو قدسیہ نہ ہوتی۔ کسی عام ڈائجسٹ کی معمولی افسانہ نگار لڑکی ہوتی۔ ان ملاقاتوں میں ہی اشفاق احمد نے بانو قدسیہ کے تخلیقی اعتماد کو یہ کہہ کر پختہ کر دیا کہ
’’نہ کسی ادیب سے ڈرنا اور نہ کسی تحریر سے ڈرنا۔‘‘

چنانچہ انہوں نے اشفاق احمد کو ہمیشہ استاد کا درجہ دیا لیکن ایسا استاد تھا جس نے اپنی فکر کو بانو قدسیہ کی تحریر پر اثرانداز نہیں ہونے دیا۔
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی ادبی ملاقاتوں کا نتیجہ بڑا خوشگوار نکلا اور یہ 1956ء میں دونوں کی شادی پر منتج ہوا۔ یہ دونوں کی پسند کی شادی تھی لیکن اشفاق احمد کا پرانی وضع کا پٹھان خاندان اس شادی پر رضامند نہیں تھا۔ اس حوالے سے ممتاز مفتی نے لکھتے ہیں:
’’ماں باپ اور بھائیوں نے اشفاق احمد کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کا حق نہیں دیا تھا۔ انہیں بانو قدسیہ کے خلاف کوئی شکایت نہیں تھی۔ جھگڑا اس بات پر تھا کہ خان خاندان میں جاٹ کی آمیزش قابل قبول نہ تھی۔ اشفاق کے والد صاحب چونکہ ویٹرنری ڈاکٹر تھے اس لئے وہ بریڈ کے شدت سے قائل تھے۔‘‘
اس شادی کے بارے میں بانو قدسیہ نے اپنے خاندان کا تاثر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’ہمارا خاندان بہت ’’ریزرو‘‘ قسم کا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد ہمارے گھر کو اداسیوں نے گھیر لیا تھا۔ ہمارے گھر میں عام لوگوں کی آمد ورفت کم تھی اور تنہائی کا ہر طرف راج تھا۔ میری والدہ ’’سیلف میڈ‘‘ خاتون تھیں اور عملی معاملات پر ان کی نظر گہری تھی۔ اشفاق احمد کے والدین نے اگرچہ شادی کی اجازت دے دی مگر یہ مجبوری کی رضامندی تھی البتہ میری والدہ اشفاق احمد کو پسند کرتی تھیں۔ ہماری شادی میں صرف چار افراد نے شرکت کی تھی۔ (شادی کے بعد) بہرحال ہم نے علیحدہ گھر لے لیا۔‘‘
خاندانی اصولوں کو ٹھکرا کر جاٹ لڑکی سے شادی کر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اشفاق احمد کے رشتے داروں نے ان سے قطع تعلق کر لیا اور شادی کے بعد ان کی روایتی معاونت سے بھی ہاتھ کھینچ لیا تاہم اشفاق اور بانو نے جو ایک دوسرے کی روح میں ضم ہو چکے تھے اس سماجی مخالفت کی پروا نہ کی اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کام میں لانے کا فیصلہ کر لیا۔ ممتاز مفتی نے اس نازک دور کی قلاش اور سفاک حقیقت کو یوں پیش کیا ہے:
’’ان دنوں اشفاق ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا تھا۔ آمدنی کی کوئی صورت نہ تھی۔ میاں بیوی کے ہاتھ میں سکرپٹ رائٹنگ کے سوا کوئی ہنر نہیں تھا لیکن ان دنوں سکرپٹ کی مانگ نہیں تھی۔ بہرحال اشفاق نے پنسل کان پر اٹھائی‘ ہاتھ میں کاغذ کی سلپیں پکڑیں اور پھیری لگانے لگا ’’سکرپٹ لکھوا لو…… سکرپ لکھوا لو۔‘‘ گھر میں قدسیہ بانو کو اپنے پلو سے کھولا‘ اسے پنسل کاغذ دے کر میز پر بٹھا دیا کہ کوئی آرڈر مل جائے تو لکھنے کا کام فی الفور کر دے۔ جب اشفاق فلم بنانے لگا تو بانو کو پھر سے میدان میں اترنا پڑا۔ وہ چھتری لگا کر سٹوڈیو جا پہنچی اور وہاں ڈائریکٹر‘ پروڈیوسر اشفاق احمد کی اسسٹنٹ کی حیثیت میں کام کرنے لگی۔‘‘
اشفاق احمد نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں مکان قرض لے کر بنوایا تھا۔ ممتاز مفتی نے انہیں مشورہ دیا کہ قرض اتارنے کے لئے مکان کرائے پر دے دو‘ جب وہ نہ مانے اور ترت جواب دیا کہ ’مکان میں نے کرائے پر چڑھانے کے لئے نہیں بنوایا‘ خود رہنے کے لئے بنوایا ہے‘ تو قرض اتارنے کی بات بانو قدسیہ کی سمجھ میں آ گئی۔ اس نے پنسل ہاتھ میں لی‘ کاغذ کی سلپیں سامنے رکھیں اور میز پر بیٹھ کر سکرپٹ لکھنے لگیں‘ نتیجتاً نہ صرف قرض ادا ہو گیا بلکہ بقول ممتاز مفتی:
’’صرف مکان ہی نہیں گھر میں جتنا ساز وسامان ہے سب سکرپٹوں سے بنا ہے۔ یہ صوفہ تین سکرپٹوں سے خریدا تھا۔ یہ ٹیپ ریکارڈر بارہ سکرپٹوں کا ہے۔ ان سکرپٹوں میں اکیلا اشفاق ہی نہیں بانو بھی برابر کی شریک ہے۔‘‘
اردو میں تجرباتی نوعیت کا ایک ننھا سا خوبصورت رسالہ ’’داستان گو‘‘ 1957ء میں اشفاق احمد نے جاری کیا تو اس پر بانو قدسیہ کا نام بطور شریک مدیر نہیں چھپتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس رسالے کے لئے مطلوبہ معیار کی تخلیقات نہ ملتیں تو اس کی ضخامت پوری کرنے کے لئے بہت سے مضامین خود لکھتیں جو فرضی ناموں سے شائع ہوتے تھے اور بعض اوقات تو سارا رسالہ انہیں بھرنا پڑتا تھا۔ اشفاق احمد ہفت روزہ ’’لیل ونہار‘‘ کے مدیر مقرر ہو گئے تو ’’داستان گو‘‘ کی ادارت بانو قدسیہ کو تفویض کر دی گئی۔ اس رسالے کے لئے انہوں نے متنوع اقسام کے مضامین لکھے مثلاً شکاریات کے حوالے سے انہوں نے ’’میر شکاری‘‘ کے فرضی نام سے مضامین لکھے‘ ایک پائے کا مضمون انہوں نے شہد کی مکھیوں اور ایک ’’چیتے‘‘ پر لکھا۔ ان کے ناولٹ ’’ایک دن‘‘ اور ’’پروا‘‘ اور ناول ’’موم کی کلیاں‘‘ بھی ’’داستان گو‘‘ میں چھپے تھے۔ معروف افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کا ناول ’’تلاش بہاراں‘‘ بھی بانو قدسیہ نے ’’داستان گو‘‘ میں شائع کیا تھا۔ اس رسالے نے افضل سیار‘ شرون کمار ورما اور ریزی کو بھی متعارف کرایا اور غلام علی چودھری کو مسلسل افسانے لکھنے پر مائل کیا۔ ’’داستان گو‘‘ کی خصوصی عطا یہ ہے کہ اس نے افسانہ نگار بانو قدسیہ کو زندگی کے وسیع تر زاویوں پر نظر دوڑانے اور معاشرتی اور سماجی مسائل کو گہرائی سے دیکھنے کی تربیت دی اور ان کے باطن سے اس وسیع النظر فنکار کو ابھارا جو ’’راجہ گدھ‘‘ جیسا ناول لکھ سکتا ہے۔ ’’داستان گو‘‘ بالآخر سرمائے کی کمی اور ادیبوں کے عدم تعاون کی وجہ سے 1969ء میں بند کر دیا گیا۔
بانو قدسیہ بنیادی طور پر مجھے ایک خانہ دار خاتون نظر آتی ہیں لیکن زندگی کی مادی ضرورتوں کی فراہمی کے لئے انہوں نے قلم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے صرف افسانہ نگاری اور ناول نویسی پر قناعت نہیں کی بلکہ اشفاق احمد کی معیت میں ادبی صحافت اور فلم سازی بھی اختیار کی لیکن یہ دونوں تجربے ناکام ہو گئے۔ پھر انہوں نے نشریات کے جدید ترین وسائل یعنی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے لکھنے شروع کئے۔ ان کے ڈرامے سماجی مسائل پر صحت مند انداز میں نظر ڈالتے اور قدروں کی اہمیت بڑی خوبی سے اجاگر کرنے لگے۔ اس ابتدائی کامیابی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بانو قدسیہ نے افسانے اور ٹی وی ڈرامے تیزرفتاری سے لکھے۔ ناول نگاری کی طرف بھی توجہ دی اور متعدد کامیاب ٹی وی سیریل تخلیق کئے۔ اس اعلیٰ کارکردگی کو پیش نظر رکھا جائے تو انہیں ایک پیشہ ور مصنفہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس کی مقبولیت کا مدار بہت وسیع تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کثرت نویسی کے باوجود انہوں نے اپنا معیار قائم رکھا اور ادب کے فنی تقاضوں کی پوری پوری بجاآوری کی۔ یہ دونوں پیشے اشفاق احمد نے بھی اختیار کئے اور اپنا پیغام عام کرنے کے لئے گفتگو عوام سے کی۔ چنانچہ ادب کی دنیا میں دونوں کو ایک مثالی ادبی جوڑا بھی تسلیم کیا گیا۔ اس دوران بانو قدسیہ نے انیق‘ انیس اور اثیر خان تین بچوں کو جنم دیا اور ایک مثالی ماں کے فرائض بھی انجام دیئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا بنیادی تشخص ایک اعلیٰ پائے کی ادیبہ کا ہے جس نے ایک سینئر ادیب اور افسانہ نگار اشفاق احمد کے سائے میں فن کا سفر شروع کیا اور ان کے احسانات کو ہر جگہ اور ہر طرح تسلیم بھی کیا۔ بقول پروفیسر فتح محمد ملک:
’’اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ ایک دوسرے کے لئے باعث تقویت بنے رہے۔ دونوں ایک مکان کی ایسی اینٹیں ہیں جو باہم مل کر ایک دوسرے کو تھامے رکھتی ہیں۔ اب کس اینٹ نے کس اینٹ کو سہارا دے رکھا ہے اس پر میں کیا کہوں؟ البتہ یہ اور بات ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اشفاق صاحب بقول بانو قدسیہ ان کے مرشد ہیں‘ بابا جی ہیں جو بچوں کو پچکارتے بھی ہیں اور ناراض ہو کر جھاڑ بھی پلا دیتے ہیں۔ اشفاق احمد کے فیض سے تو بہت سے اپنی ہستی کا کونڈا بھرتے ہوں گے لیکن بانو قدسیہ کا فیض خاص اشفاق احمد کے لئے ہے۔ یوں وہ اشفاق احمد پر سبقت لے جاتی ہیں۔‘‘
بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے مابین قدر مشترک ان کا افسانہ نگاری کا فن ہی نہیں تھا بلکہ وہ ان کی شریک حیات بھی تھیں۔ انہوں نے اپنی شادی کا بندھن اپنی پسند سے باندھا تھا اور اشفاق احمد کے خاندان کی مخالفت بھی قبول کی تھی۔ دو مختلف سمتوں سے پرواز کر کے آنے والے ان دو پرندوں کی ملاقات اتفاقی طور پر گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوئی تھی۔ اس دور کے بارے میں بانو قدسیہ نے لکھا ہے:
’’گورنمنٹ کالج میں ان دنوں ایک فضا تھی‘ استاد اچھے تھے اور کھلے دل والے تھے‘ سازش اور سیاست سے پاک موسم میں بڑا مزا آیا۔ اشفاق صاحب سے وہیں ملاقات ہوئی۔ وہ صاحب جمال اور صاحب کمال آدمی تھے‘ اسی لئے مجھے محبوب ہوئے۔ بات کرنے کا سلیقہ شروع سے ان میں تھا‘ استادوں کو لمبی بات میں پھنسا لیتے تھے۔‘‘
پروفیسراحمد عقیل روبی نے ان دونوں کی کامیاب زندگی کو دیکھا تو بانو قدسیہ کو اشفاق احمد کی داسی قرار دیا۔ انہیں ایسی باورچن شمار کیا جو پہلے انہیں کھلاتی ہے پھر خود کھاتی ہے۔ پہلے انہیں سلاتی ہے‘ پھر خود سوتی ہے کیونکہ داسی اور باورچن کا یہی دھرم ہے اور اسی میں ان کی مکتی ہے۔ ان کا قیاس غالب یہ تھا کہ
’’ممکن ہے بانو آپا کا اشفاق احمد صاحب سے اس دنیا کے ملن سے بھی پہلے ملن ہو چکا ہو۔ آسمانوں پر…… اور جب اﷲ تعالیٰ ارواح تشکیل کر رہے تھے تو یہ دونوں روحیں‘ دنیا میں بھیجے جانے سے پہلے اﷲ میاں سے گزارش کر چکی ہوں کہ انہیں دنیا میں بھی ایک دوسرے کا ہمدم بنا کر بھیجا جائے کیونکہ بانو قدسیہ نے بھی اسی مٹی سے جنم لیا ہے جہاں کی مٹی سے اشفاق احمد بنے ہیں۔ فرق صرف برسوں کا ہے۔ بانو آپا 28 نومبر 1928ء کو فیروز پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئیں اور اشفاق احمد ان سے کوئی تین برس پہلے (اس سرزمین پر) 22 اگست 1925ء کو پیدا ہوئے۔‘‘
قضا وقدر کی ستم ظریفی دیکھئے جن دو روحوں کا ملن اس دنیا کے ملن سے بھی پہلے آسمانوں پر ہو چکا تھا‘ انہیں 7 ستمبر 2004ء کو لاہور کی دھرتی پر الگ کر دیا گیا۔ اس روز اشفاق احمد کی روح کسی اور جہان کو پرواز کر گئی۔ بانو قدسیہ اکیلی کونج کی طرح اس زمین پر کرلاتی رہ گئیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اس روح فرسا مرحلے پر ان کی معاونت اس عقیدے نے کی ہو گی کہ ’’زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے‘‘ اور ’’جو انسان اس دنیا میں آیا ہے‘ اس نے اس دنیا سے جانا بھی ہے۔‘‘ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نے 1956ء میں ازدواجی زندگی شروع کی تھی تو ان کے عزیز واقربا ان سے ناراض تھے۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ کو وراثت میں تین بیٹے اور تین بہوئیں دے گئے‘ ان کا آنگن پوتے اور پوتیوں سے بھرا ہوا تھا جو انہیں یقین دلا رہا تھا کہ
’’دادی اماں‘ تم اکیلی نہیں ہو۔ کونجوں کی ڈار تمہارے ساتھ ہے اور ہماری مہار تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ بانو قدسیہ نے مستقبل کی طرف پرامید نظروں سے دیکھا اور اپنے پوتے پوتیوں کو آغوش میں لے لیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بانو قدسیہ شاید اب افسانے نہ لکھ سکیں‘ شاید کہانیاں تخلیق نہ کر سکیں‘ اشفاق احمد کے غم فراق میں شاید دنیا تیاگ دیں لیکن انہوں نے ’’غم محرومی جاوید‘‘ کو قبول کر لیا اور افسانے کی تخلیق کاری میں عملی دلچسپی لینی شروع کر دی۔ خدا کا شکر ہے کہ بانو قدسیہ کے فن کا سفر جاری ہے۔ ان کا ایک افسانہ ’’ہم سفر‘‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف کے کتابی سلسلے ’’وجدان‘‘ کے شمارہ اپریل 2008ء میں شائع ہوا ہے۔
بانو قدسیہ کی شخصیت:
ایم اے اردو کی ایک طالبہ افشاں منظور ’’بانو قدسیہ کے افسانوں میں عورت‘‘ کے موضوع پر اپنا امتحانی مقالہ لکھ رہی تھیں تو انہوں نے ایک سوال نامہ مجھے( ڈاکٹر انور سدید ) بھی بھیجا تھا۔ ان کا آخری سوال بانو قدسیہ کی شخصیت کے بارے میں تھا۔ میں نے اپنا مشاہدہ چند جملوں میں سمیٹتے ہوئے انہیں جواب دیا:
’’تاریخ پیدائش کے اعتبار سے بانو قدسیہ مجھ سے چھ دن بڑی ہیں۔ میں نے انہیں جب بھی دیکھا وہ مجھے اشفاق احمد کے سائے میں سمٹی ہوئی نظر آئیں‘ وہ مشرقی مزاج کی ایسی خاتون ہیں جو روشن خیال اور جدیدیت پسند ہونے کے باوجود دوپٹے کو سرکنے نہیں دیتیں۔ مہاتما بدھ کے مجسمے کی طرح اطمینان اور شانتی ان کے چہرے پر بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ مہاتما بدھ کا مجسمہ بول نہیں سکتا لیکن بانو قدسیہ جب بولتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ انہوں نے دنیا سے خیر اور نیکی کے جو تجربے حاصل کئے ہیں اب انہیں بڑی دریادلی سے تقسیم کر رہی ہیں۔ ’’داستاں سرائے‘‘ میں کبھی ممتاز مفتی آ جائے تو اس گھر کی رونقوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بانو قدسیہ ممتاز مفتی کے عقیدت مندوں کی خدمت میں مصروف ہو جاتیں۔ خود مفتی صاحب کا ذکر یوں کرتیں جیسے ان کے پیر ہوں۔ اتنی بڑی ادیبہ ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی انا کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اشفاق احمد ساتھ ہوں تو وہ چپ کی سمادھی میں گم ہو جاتی ہیں۔ محفل میں صرف اشفاق احمد بولتے ہیں‘ وہ گوش ہوش سے سنتی اور ان کی تائید میں سر ہلاتی ہیں۔ چلنے لگیں تو اشفاق احمد سے دو قدم پیچھے رہتی ہیں۔ بانو قدسیہ فطری طور پر وضعدار گھریلو خاتون ہیں اور اپنے اس منصب پر بے حد مطمئن نظر آتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ کسی این جی او کی صدر تو کیا رکن بھی نہیں لیکن اس قسم کا کوئی ارادہ انہیں تقریر کرنے یا افسانہ سنانے کی دعوت دے تو اچھے اور قابل عمل مشورے دینے سے گریز نہیں کرتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ این جی او چلانے والی کوئی خاتون اپنی مصلحتوں اور مالی مفادات کے تحفظ کے تحت ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتیں کیونکہ دنیاوی خسارے کا سودا کسی این جی او خاتون کو قبول نہیں۔ اس کے برعکس بانو قدسیہ نے خسارے کے ہر سودے کو نواب مصطفی خان شیفتہ کے اس شعر کے مصداق ہمیشہ قبول کیا ہے:
زیاں ہے عشق میں یہ جانتے ہیں ہم…… لیکن
معاملہ ہی کیا ہوا گر زیاں کے لئے
افسانہ لکھنا بانو قدسیہ کی شخصیت کا بے حد داخلی اور باطنی مسئلہ ہے۔ افسانہ لکھنے کے بعد انہیں ’’کتھا رسس‘‘ حاصل ہو جاتا ہے۔ ان کی عظمت یہ ہے کہ وہ اب بانو قدسیہ نہیں رہیں‘ اردو دنیا کی ’’بانو آپا‘‘ بن چکی ہیں۔ انہیں یہ مقام فن کی عظمت اور معاشرے کے ایک ایسے بلند کردار فرد کی حیثیت سے ملا ہے جس کے داخل اور خارج میں کوئی تضاد نہیں۔
ممتاز مفتی صاحب نے ایک دفعہ اپنے اس عجز کا اظہار کیا تھا کہ 30 برس سے بانو قدسیہ کے قریب رہنے اور انہیں جاننے کی کوشش کے باوجود وہ انہیں جان نہیں پائے تھے۔ انہوں نے لکھا:
’’اس کی وجہ یہ نہیں کہ بانو کی شخصیت ’’راستہ تلاش کرو‘‘ قسم کا گورکھ دھندا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ ایک ست رنگی شخصیت ہے۔ پرزم (Prisom) کی طرح اوپر سے بے رنگ ہے۔ اندر رنگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔‘‘
ان کے کردار کے چند زاویوں کا ذکر آیا تو انہوں نے تسلیم کیا:
’’بانو ایک عظیم خاتون ہیں‘‘
وہ بہت بڑی پتی بھگت ہیں۔
ایک عظیم ماں ہیں…… جگت ماتا…… بانو میں ممتا کا جذبہ اتنا فراواں ہے کہ ایک میاں اور تین بیٹوں کو شرابور کرنے کے بعد بھی تشنہ ہے۔ اس کا بس چلے تو ہر محروم کو اپنی ممتا کی چادر میں لپیٹ لے۔ عمر کے لحاظ سے وہ میری بیٹی ہے لیکن برتاؤ کے لحاظ سے وہ میری ماں ہے۔ جتنی محبت اور خدمت بانو نے مجھے دی ہے کسی اور نے نہیں دی۔ بانو کی شخصیت کے رنگ رس سے میں‘ یوں بھرا بیٹھا ہوں جیسے آم مٹھاس سے بھرا ہوتا ہے۔‘‘
ان کی شخصیت کے رنگ رس میں ڈوبے ہونے کے باوجود مفتی صاحب کو بانو قدسیہ کے وجود میں ایک نہیں دو افراد نظر آتے ہیں۔ جس طرح کسی بادام میں دو مغز موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک فرد بانو ہے۔ دوسری قدسیہ…… ممتاز مفتی نے توضیح کے طور پر لکھا:
’’شاید آپ کبھی مظفرآباد گئے ہوں گے جہاں دریائے نیلم اور دریائے جہلم کا سنگم ہوتا ہے۔ ایک طرف سے دریائے جہلم آتا ہے۔ گدلا‘ مٹیالا‘ شوریدہ سر…… دوسری طرف سے نیلم آتا ہے‘ نیلا‘ شفاف‘ پرسکون…… پھر دونوں مل جاتے ہیں اور مل کر کوئی ایک فرلانگ تک ایک طرف نیلے شفاف اور دوسری طرف گہرے مٹیالے پانی کے دھارے ساتھ ساتھ‘ پہلو بہ پہلو بہتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بانو قدسیہ میں ساتھ ساتھ‘ پہلو بہ پہلو‘ شخصیت کے دو دھارے بہہ رہے ہیں۔ ایک نیلا شفاف ذہن کا دھارا‘ دوسرا گدلا مٹیالا جذبات کا دھارا…… ایک بانو…… دوسرا قدسیہ۔‘‘
ادب اور زندگی کے یہ دو دھارے الگ الگ بہتے ہیں لیکن ’’پتی بھگت‘‘ کے سنگم پر یہ دونوں دھارے مل جاتے ہیں۔ دریائے نیلم اور جہلم کے سنگم کا کوئی نام نہیں ہے لیکن بانو اور قدسیہ کے سنگم کا نام اشفاق احمد خان ہے جو بانو اور قدسیہ دونوں کا شوہر ہے۔ بانو قدسیہ نے اپنی زندگی کو افسانہ نگار سلطانہ مہر کے سامنے بازیافت کیا تو کہا:
’’1956ء میں جناب اشفاق احمد سے میری شادی ہوئی۔ اﷲ کے فضل سے تین بیٹے۔ ڈاکٹر انیق احمد خان‘ انیس احمد خان اور اثیر احمد خان کی والدہ ہوں اور پوتے پوتیوں کے لئے اﷲ کی شکرگزار ہوں۔ گھریلو زندگی بسر کرتی ہوں اور زیادہ واقعات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
لیکن احمد عقیل احمد روبی نے ان دو افسانہ نگاروں کا مشاہدہ کیا تو خاکہ ’’آل ان ون‘‘ (All in one) میں لکھا:
’’اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا نام اور کام جتنا پھیلا ہوا ہے وہ اتنے ہی سمٹ گئے ہیں۔ شخصیت کے دروازوں پر دبیز پردے تان لئے ہیں تاکہ اندر کوئی جھانک نہ سکے۔ بہت کم باہر نکلتے ہیں۔ اشفاق احمد سائنس کی طرف راغب ہیں تاکہ وہ ایٹم کے اختصار کا بھید جان لیں اور ایٹم کی منہ زور طاقت اپنے اندر حلول کر سکیں۔ ان کے ساتھ بانو قدسیہ ہیں۔ خان صاحب کے پیچھے پیچھے‘ کیونکہ قدم بڑھا کر برابر چلنا یا آگے بڑھنا ان کا دین دھرم نہیں ہے۔ وہ تو اشفاق احمد کی داسی ہیں‘ باورچن ہیں‘ پہلے ان کو کھلاتی ہیں‘ پھر خود کھاتی ہیں‘ پہلے انہیں سلاتی ہیں‘ پھر خود سوتی ہیں کیونکہ داسی اور باورچن کا یہی دھرم ہے اور اسی میں مکتی ہے۔‘‘
’’پتی بھگتی‘‘ بانو قدسیہ کی شخصیت کا سب سے روشن زاویہ ہے جسے تابندہ رکھنے کے لئے انہوں نے نہ صرف اپنے وجود کی نفی کر دی بلکہ زندگی کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ ’’ہر نیا رشتہ کسی پرانے رشتے کو توڑ کر ہی بنایا جا سکتا ہے۔ جب تک کسی پچھلے رشتے کی مکمل نفی نہیں کی جاتی‘ نیا رشتہ پنپتا نہیں‘ اشفاق احمد پٹھان تھے‘ بانو قدسیہ جاٹ خاندان کی فرد تھی لیکن جب دونوں نے اپنی پسند سے شادی کر لی تو سابقہ رشتوں کو توڑنے میں ہی عافیت اور مستقبل کی طمانیت سمجھی۔ اس شادی کی مخالفت اشفاق احمد کے خاندان نے کی‘ لیکن بانو قدسیہ میں شہد کی مکھی کے اوصاف بھی تھے اور وہ پروانہ وار فدا ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے ’’اعلان ذات‘‘ کے بغیر نہ صرف اشفاق احمد کے خاندان سے اپنے آپ کو تسلیم کرایا بلکہ اہل جہان اور اہل ادب سے اپنی عظمت پر مہر تصدیق بھی ثبت کرا لی۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ بات ممتاز مفتی نے لکھی ہے:
’’اسے (بانو قدسیہ) ملنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ محبت پھولوں کا ہار ہوتی ہے اور جسے پتی بھگت بیوی مل جائے تو اس کے لئے گھر جنت بن جاتا ہے۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ بے شک گھر جنت بن جاتا ہے لیکن پتی پر محبت کے پھولوں کے اتنے ہار ڈھیر ہو جاتے ہیں اور وہ یوں دب کر رہ جاتا ہے جیسے کفنائی ہوئی میت پڑی ہو اور اس سے مشک کافور کی بو آنے لگتی ہے۔‘‘
بانو قدسیہ کی ’’پتی بھگتی‘‘ بلاواسطہ نہیں‘ لیکن ان کا عمل تمام تر بے غرض اور بے تحریک نظر آتا ہے اور وہ اشفاق احمد کے منہ سے نکلی ہوئی معمولی اور غیرضروری بات کو بغور سنتیں اور اسے عملی جامہ پہنا دیتیں۔ چند واقعات کے عینی شاہد ممتاز مفتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اگر اشفاق قدسی کی موجودگی میں برسبیل تذکرہ آپ سے کہے کہ اس گھر میں تو سامان کے یوں انبار لگے ہوئے ہیں جیسے سٹیٹس (Status) گھر ہو۔ میرا تو دم رکنے لگا ہے۔ تو اگلے روز گھر میں چٹائیاں بچھی ہوں گی۔ پیڑھیاں دھری ہوں گی‘ سارا گھر خالی پڑا ہو گا۔‘‘
’’اگر کسی روز لاؤڈ تھنکنگ (Loud Thinking) کرتے ہوئے (اشفاق) کہہ دے ’’بھئی چینی کھانا‘ مجھے بہت پسند ہے تو چند دنوں کے بعد کھانے کی میز پر چینی کھانے یوں لگے ہوں گے جیسے وہ گھر کی نہیں بلکہ ہانگ کانگ ریستوران کی میز ہو۔‘‘
’’ایک روز کھانا کھاتے ہوئے اشفاق نے کہا کھانے کا مزا تو ان دنوں آتا تھا جب اماں مٹی کی ہنڈیا میں پکایا کرتی تھیں۔ آج کل ککرز (Cookers) نے بربادی کر رکھی ہے۔ اگلے روز قدسی کے باورچی خانے میں چار ہانڈیاں چولہوں پر رکھی ہوئی تھیں۔‘‘
’’ایک روز اشفاق احمد نے کہا ’قدسیہ نور بابا کی بات میرے دل میں کھب گئی ہے۔ فرماتے ہیں ’کوئی چیز خریدو تو پہلے اسے حلال کر لو۔ پھر استعمال کرو‘ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ حضور بولے اپنے لئے اور قمیض خریدو تو ساتھ کم ازکم ایک قمیض اﷲ کے نام پر دینے کے لئے ضرور خریدو‘ اسکول میں اپنے بچے کی فیس ادا کرو تو ساتھ ہی کسی حاجت مند بچے کی فیس بھی ادا کرو۔ اسی طرح وہ خرچ جو تم اپنی ذات پر کرتے ہو حلال ہو جائے گا۔‘ اگلے روز اشفاق احمد دفتر سے لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ اجنبی لڑکا گھر میں بیٹھا ہے۔ قدسی سے پوچھا ’یہ کون ہے۔‘ قدسی بولی ’ہمارے تین بیٹے مدرسے میں پڑھتے ہیں‘ ان کے اخراجات حلال کرنے کے لئے میں نے ایک حاجت مند بچہ گھر رکھ لیا ہے۔ ہم اسے تعلیم دلوائیں گے‘ ان کی پرورش کریں گے۔ آج بھی اشفاق کے گھر میں ایک نہیں تین لڑکے پرورش پا رہے ہیں اور باقاعدہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
بانو قدسیہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کی نرگسیت میں مبتلا نہیں بلکہ خود اپنی نقاد ہیں اور زمینی حقیقت کو دیکھ کر اس کا تجزیہ کرتی ہیں اور نتائج اخذ کرنے کے بعد ان کو زیرعمل لانے سے گریز نہیں کرتیں اور اس نئی آگہی کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے بھی برداشت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں مشرقی معاشرے میں مروت کی فراوانی کا پورا احساس ہے لیکن انہیں اس حقیقت کا ادراک بھی ہے؟ کہ محبت کا خاص دودھ نایاب ہے۔ مروت کی کچی لسی زبردستی پلائی جاتی ہے۔ اس مشرقی معاشرے میں پچھلی بیوی…… پرانی سہیلی…… بچھڑے دوست۔ گلی پار بھائی کو سسکتا چھوڑ دینے کا رواج ہے لیکن ان کا تجربہ یہ تھا کہ جب تک کسی پچھلے رشتے کی مکمل نفی نہیں کی جاتی اس وقت تک نیا رشتہ پنپتا نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’جب تک کوئی بیٹی اپنی ماں کی محبت میں گرفتار رہتی ہے‘ وہ شوہر پرست نہیں بن سکتی۔ ماں سے بندھی وہ مائیکے کی وفاداریوں پر نازاں رہتی ہے اور پتی بھگتی وہ الاؤ ہے جس میں تمام رشتے ناطے جلا دینے پڑتے ہیں۔ پچھلی محبتیں‘ نظریے اور بانو قدسیہ نے اس مرحلے پر خود اپنی مثال پیش کی:
’’میں نے ماں کی محبت کا آندل کاٹ کر پتی دھرمے کا سفر شروع کیا۔ کبھی کبھی اس گناہ پر احساس جرم بھی ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں عملی زندگی میں ایک عام بیٹی جتنا کردار بھی ادا نہ کر سکی۔ یہ کمزوری ہے اور بہت بڑی کمزوری لیکن فیصلہ تو اسی دن ہو گیا تھا جب میں نے اپنی مرضی کی شادی کی تھی۔ دو راستوں پر کوئی کیسے اور کب تک چل سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ماں کی سرداری بھی قائم رہے…… مائیکہ کا تن تناکروفر بھی سلامت رہے اور شوہر کا وقار بھی قائم ہو جائے۔‘‘

بانو قدسیہ نے شوہر کے وقار کو اپنی شخصیت کے جزو اعظم کی حیثیت دی۔ ادب میں نا م پیدا کیا لیکن اپنے سر پر اشفاق احمد کی چھتری کو قائم رکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بانو قدسیہ سے غیرمعمولی محبت اور ان کی صلاحیتوں سے پوری آگہی کے باوجود اشفاق احمد سے ان کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ بڑی بے نیازی سے کہتے:
’’بانو قدسیہ کا ادب سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ان کی ساری تصنیفات اور تخلیقات ضد بازی کا نتیجہ ہیں‘ جیسے ایک لیگ کے مقابلے میں دوسری لیگ میدان میں آ جائے۔ اسی طرح بانو قدسیہ صاحبہ ادب کے میدان میں آ گئی ہیں۔ بی اے تک یہ ریاضی کی طالبہ تھیں اور ’’فائدے‘‘ کو عین سے لکھا کرتی تھیں۔ آٹھویں جماعت تک یہ بھی ’’حبشی‘‘ کو ’’حشبی‘‘ پڑھتی تھیں‘ لیکن پھر خدا جانے ان کی غیر نے کیسے کروٹ لی کہ لاگت بازی میں آ کر اردو زبان کا مطالعہ شروع کر دیا۔ بی اے کے بعد فتح محمد جالندھری صاحب کی اردو گرامر‘ گھر پڑھی۔ پھر مولوی قمر دین صاحب ریٹائرڈ نائب مدرس چوہٹہ مفتی باقر کی ٹیوشن رکھ کر املا درست کی اور ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن بعد میں جب انہوں نے لکھنے لکھانے کو اپنا شغل بنا لیا تو ہم ایسے مستند ادیبوں کا ماتھا ٹھنکا۔ پھر خیال پیدا ہوا کہ ایک دو بار منہ کی کھانے کے بعد یہ مشغلہ چھوڑ جائیں گی لیکن یہ اپنی ضد اور ہٹ کی پکی نکلیں اور اس علاقے کی کوچہ گردی کو اپنا سرمایہ حیات بنا کر رہیں۔ اردو زبان کے ادیبوں‘ شعروں اور تمثیل نگاروں کے برعکس بانو قدسیہ ذہنی اپج‘ وسعت نظر‘ بصیرت اور تخیل کی بلندی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض محنت کے زور پر لکھتی ہیں۔ میں ان کی عزت کرتا ہوں اور ان کی تحریروں کو پسند کرتا ہوں لیکن آپ جیسے ماورا النہری ادیبوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ آپ ایک فوک خاتون ہیں۔ اس لئے Matter of fact چیزیں ہی لکھتی ہیں۔ کوئی تجریدی یا سائیکی تجربہ ان کی تحریروں میں نمایاں نہیں۔‘‘
یہ اقتباس اشفاق احمد کے خاص اسلوب میں ’’زیب داستان‘‘ کا مظہر ہے جس کی بہت سی باتیں اشفاق احمد کے تخیل کا نتیجہ ہیں تاہم اس میں بانو قدسیہ کی شخصیت کے عناصر بھی موجود ہیں کہ وہ اپنے ارادے کی پکی ہیں اور جس کام کو کرنے کا عہد کر لیں اس کی تکمیل میں بھی کوشاں رہتی ہیں‘ ان کی محنت اور استقلال عمل سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اشفاق احمد نے جن چیزوں کو بانو قدسیہ کی ’’میٹر آف فیکٹ‘‘ چیزیں شمار کیا ہے وہ ان کی حقیقت نگاری کی آئینہ دار ہیں اور ان میں وسعت نظر بھی ہے اور تخیل کی بلندی بھی جو ان کے افسانے کو زندگی کے ساتھ وابستہ کرتی اور قاری کو معاشرے کا چہرہ دکھاتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ادبی دنیا میں یہ باور کیا جاتا رہا کہ بانو قدسیہ کے پردے میں بھی اشفاق احمد ہی بول رہا ہے۔ پھر اس قسم کی باتیں بھی پھیلائی گئیں کہ بانو قدسیہ افسانہ تو خود تخلیق کرتی ہیں لیکن اس کی فنی نوک پلک اشفاق احمد سنوارتے ہیں۔ بانو قدسیہ نے اس قسم کی باتوں کا کبھی تاثر نہیں لیا اور اپنے تخلیقی عمل کو جاری رکھا اور حقیقت یہ ہے کہ رسالہ ’’داستان گو‘‘ کی ادارت کے زمانے میں بانو قدسیہ کئی فرضی ناموں سے افسانے لکھتی اور ’’داستان گو‘‘ کا پیٹ بھرتی رہیں۔ افسانہ نگاری کا فن انہیں مبدائے فیاض نے عطا کیا اور یہ ان کی داخلی شخصیت کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ اشفاق احمد کے متذکرہ بالا اقتباس کے برعکس جس میں نفی سے اثبات کا زاویہ تلاش کرنا ضروری ہے انہوں نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ
’’جہاں تک تھاٹ (Thought) کا معاملہ ہے وہاں تو میں ان (بانو قدسیہ) سے متاثر ہوں کیوں کہ ان کی سوچ بڑی فریش (Fresh) ہے اور اس کا انداز بہت منفرد ہوتا ہے۔ بانو کو پڑھنے کا زیادہ موقع نہیں ملتا لیکن صبح کے ناشتے کی ٹیبل (Table) پر جب ہم دونوں اکٹھے ہوتے ہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ کوئی ’القائے ربانی…… کوئی نئی چیز؟‘ اور وہ کہتی ہیں ’ہاں رات ایک خیال آیا لیٹے لیٹے‘ پھر وہ خیال بیان کرتی ہیں اور وہ بہت مختلف اور عجیب ہوتا ہے۔ پھر وہ مجھ سے پوچھتی ہیں…… بس یوں تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ اس طرح سے کچھ خیالات یاد رہ جاتے ہیں کچھ بھول جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ خیال ہماری تحریروں میں بھی آئیں۔‘‘
اشفاق احمد نے اس بات کا تذکرہ بھی اس انٹرویو میں کیا کہ ان کی اور بانو قدسیہ کی راہیں الگ ہیں:
’’جہاں تک متاثر ہونے کی بات ہے یہ ہمارے ہاں شروع سے رہا کہ نہ میں نے کبھی ان (بانو قدسیہ) کی کوئی چیز دیکھی‘ نہ اس پر تنقید کی اور نہ اس نے میری کسی تخلیق پر۔ اپنی اپنی راہیں الگ ہیں۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ وقت کا فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ کی آپا بھی ایک اور رخ اختیار کر رہی ہیں‘ روحانیت کا۔ ویسے وہ خالص دین کی طرف مائل ہوئی ہیں۔ میں کہتا ہوں ’تم ڈرو اس وقت سے جب لوگ تمہیں دورِ جدید کا ڈپٹی نذیر احمد کہنے لگیں۔‘‘
بانو قدسیہ زندگی پر ایک قانع انسان کی نظر ڈالتی ہیں اور اس کے عملی زاویوں کو نظرانداز نہیں کرتیں۔ وہ اپنی خوبیوں کا اعتراف کھل کر نہیں کرتیں۔ ایسے مواقع پر ان کی نسوانیت‘ فطری شرم اور انکسار غالب آ جاتا ہے۔ مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی کہ اپنے جمالِ ذات کے سحر میں گم عام خواتین کے برعکس انہوں نے ممتاز مفتی صاحب کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف بڑی جرأت مندی سے کیا۔ انہوں نے کہا:
’’مفتی جی! میری پہلی اور ناقابل معافی کمزوری تو یہ ہے کہ میں ایک اچھی بیٹی نہیں ہوں۔ میں نے اپنی ماں کے دل کا کبھی اس طرح سے خیال نہیں رکھا جیسے عام طور پر مشرقی عورتیں رکھتی ہیں۔ میری دوسری کمزوری یہ ہے کہ میں انصاف پرست نہیں ہوں۔ جہاں مامتا ایک بہت بڑی خوبی ہے وہیں اس نے مجھ سے انصاف پرستی کا وصف چھین لیا ہے۔ میری محبت اچھا برا سب ڈھانپتی جاتی ہے۔ عورت ماں بن کر اندھی ہو جاتی ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے بے انصافی بڑے انوکھے زاویے اختیار کرتی ہے۔ کیا کروں؟ یہ بات سرشت میں نہ ہوتی تو اس کا علاج کرتی۔ بے انصافی سے ’’عظیم ماں‘‘ بنی ہوں تو اس کے منفی پہلو سے کیوں کر کنی کتراؤں؟‘‘
اس اقتباس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بانو قدسیہ اپنی شخصیت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتی ہیں تو اس آئینے سے وہی تصویر منعکس کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو وہ اپنے نہاں خانۂ خیال میں خوددیکھتی ہیں۔ بلاشبہ وہ اردو افسانے کی ایک اہم شخصیت ہیں لیکن جب انہیں عظیم تخلیق کار کہا گیا تو انہوں نے برملا کہا:
’’جی! یہ بات بھی درست نہیں اور یہ آپ کی محبت ہے لیکن بفرض محال اگر یہ بات درست ہے تو پھر میری اس خوبی سے ایک بڑی کمزوری نے جنم لیا ہے۔ آدمی کے قد کے تناسب سے اس کا سایہ پڑتا ہے۔ عام کمزور انسانوں کی خوبیاں ہی ان کی خرابیاں ہوا کرتی ہیں۔ اگر میں بڑی تخلیق کار ہوں تو اس کے ساتھ ساتھ بہت ہی چھوٹا انسان ہوں جو خوردبین لگا کر انسانوں کو جانچے چلا جاتا ہے۔ مشاہدہ محبت کی موت ہے۔ میری اس ناقابل برداشت کمزوری نے جہاں میرے قلم کو سیراب کیا ہے وہیں میرا دل سرد کر دیا ہے۔‘‘
یہ تجزیہ اس بانو قدسیہ کا ہے جس نے زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کی کاوش کی ہے تو اپنے باطن میں اتر کر اس کردار کو بھی تلاش کیا ہے جو خود ان کا ’’ویلین‘‘ ہے اور ان کے خیر وبرکت کے جذبات پر شب خون مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی کا یہ پہلو بانو قدسیہ کی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے‘ دوسری طرف جب وہ اشفاق احمد کو ذات کے اظہار میں دلچسپی لیتے ہوئے دیکھتی ہیں تو اس کی تحلیل نفسی بھی اپنے مخصوص ادیبانہ اسلوب میں یوں کرتی ہیں:
’’اشفاق احمد کے ماتھے پر بھی شہرت کا نشان ہے۔ جب وہ جوان تھے تو ان کا حسن متاثر کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ تحریر نے دلوں کو حصار میں لے لیا۔ پھر فصاحت کا رنگ ایسا ہے کہ جو شعبدہ بازی سے کم نہیں۔ مشیت کو یہی منظور ہے کہ وہ جہاں ہوں ٹاپ لائٹ ان پر پڑتی رہے۔ شہرت نصیب سے ہے۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ اشفاق احمد اپنی شہرت انجائے کرنا چاہتے ہیں۔ میں اچھی طرح سے نہیں کہہ سکتی کہ کیا واقعی وہ شہرت کے متوالے ہیں کیوں کہ اشفاق احمد ایک ایسا تنہا بھیڑیا ہے جو سردیوں کی رات میں برفیلے پہاڑوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ وہ بڑے ہی فرسودہ روح بجھے ہوئے انسان ہیں۔ یا تو یہ ہے کہ وہ اندر کے اندھیروں کو اجالنے کے لئے شہرت کی لائٹ جلائے رکھتے ہیں یا پھر شہرت کی پھل جھڑی کچھ ایسی خیرہ کرنے والی ہے کہ وہ اندھیروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ میں نے اپنے اندھیرے کو قبول کر لیا ہے اور اپنی تنہائی سے دوستی کرتے مجھے دیر نہیں لگی کیوں کہ میں مزاجاً قنوطی ہوں۔ اشفاق احمد بھی اندھیروں سے لڑ رہے ہیں۔ کبھی سرچ لائٹ لاتے ہیں۔ کبھی لالٹین۔‘‘
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ دونوں کو شہرت ان کے فن کی اساس پر ملی اور اس کا اجلی چاندنی اب بھی دور سے نظر آ رہی ہے لیکن بانو قدسیہ کا یہ تجزیہ حیرت انگیز ہے کہ وہ زندگی بھر اندھیروں سے لڑتے رہے جبکہ بانو قدسیہ نے اپنی شہرت کے اس نصف النہار پر جس میں زوال کے آثار نظر آتے ہیں اپنی تنہائی سے دوستی کر لی اور اندھیرے کو قبول کر لیا۔ مزاولت کے برعکس مفاہمت کا یہ انداز بانو قدسیہ کی شخصیت کا منفرد نقش ہے جس میں ’’فقیرا ہور وی انیواں ہو‘‘ کے تمام عناصر موجود ہیں۔ انہیں حکومت‘ معاشرے اور اداروں نے متعدد ایوارڈز پیش کئے۔ ان میں حکومت پاکستان کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ برائے ادب 1983ء بھی شامل ہے۔ چند برس پہلے انہوں نے پی ٹی ایوارڈز سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ دوحہ ’’قطر‘‘ ایوارڈ ان کا آخری انعام تھا۔
( یہ مضمون ڈاکٹر انور سدید کی کتاب پاکستانی ادب کے معمار میں سے اخذ کیاگیا ہے جس میں بانو قدسیہ کی شخصیت اور فن کو زیر بحث لایاگیا تھا ۔ ڈاکٹر انور سدید کے شکریے اور آپا بانو قدسیہ کی اجازت سے یہ مضمون شامل کتاب کیاجارہا ہے )
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.