انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو
تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
دنیا دار المحن ہے اور آخرت دار النعم‘ دنیا میں محنت و مشقت اگر درست رخ
پر کرلی گئی تو آخرت میں عیش وآرام ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام وارد زمین
ہوئے‘ انہیں سالہا سال تک مشقت ہی اٹھانا پڑی‘ وہ اللہ کی رضا والی جنت میں
رہتے تھے‘ تھوڑا سا چوک ہوگئی‘ آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔ زمین پر اتارے
گئے‘ اماں حوا سے جدائی ہوگئی‘ کتنی ہی گریہ وزاری کے بعد عرفات کے میدان
میں دونوں کی ملاقات ہوئی‘ رو رو کر دعا مانگی تو قبول ہوئی‘ پھر انہی کی
اولاد سے زمین کو آباد کیا گیا اور اعلان کردیا گیا: ”لقد خلقنا الانسان فی
کبد“ (انسان کو بیشک ہم نے محنت ومشقت اٹھانے کے لئے پیدا کیا ہے) حضرت نوح
علیہ السلام آئے‘ الٰہی احکام پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائی‘ ۵۰/ کم ہزار سال
تبلیغ ودعوت کا فریضہ انجام دیا‘ خوش نصیب لوگوں کو ایمان اور عمل نصیب ہوا‘
نبی کی پیروی کی سعادت نصیب ہوئی‘ حضرت نوح علیہ السلام ہی کا بیان ہے کہ
انہوں نے رات دن انسانوں کو بھلائی کی دعوت دی‘ مگر انہوں نے راہ فرار ہی
اختیار کی، بالآخر حضرت نوح علیہ السلام کے ماننے والے کشتی میں سوار ہوکر
نجات پاگئے اور اللہ اور رسول کے نافرمان اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ ان کے
مال ودولت‘ ان کے عزت ووقار‘ ان کے وسائل واقتدار اور سارا پروٹوکول ان کو
نہ بچا سکا۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی پانی چڑھ دوڑا اور نبی کی رشتے داری
بیٹے اور بیوی ہونے نے بھی ان کو نہ بچایا‘ جی ہاں فرمان فیض نشان سید
الانس والجان ا : ” من بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ “ (جس کے اعمال نے اسے
پیچھے دھکیلا اس کی عالی نسبی اسے آگے نہیں لے جا سکتی۔ محنت تو ڈوبنے
والوں کی بھی لگی اور نجات پانے والوں نے بھی مشقت اٹھائی‘ مگر نجات درست
رخ والوں کو ملی‘ انجام انہی کا اچھا ہوا جنہوں نے نبی کی مانی۔
سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی مشقتیں برداشت کیں، بلکہ بعض
روایات کے مطابق پیدائش سے بھی پہلے محنت ومشقت ان کے کھاتے میں لکھ دی
گئی‘ کہیں غاروں میں جاکر ماں نے جنم دیا‘ وہیں پلے بڑھے مگر بچپن ہی میں
جب والد کے گھر پہنچے تو تبلیغ کا علم اٹھالیا‘ والد محترم ہی کو سب سے
پہلے تبلیغ کئے جانے کا حق دار پایا‘ پھر قوم کو سیدھی راہ کی دعوت دی مگر
حق کی راہ میں مخمل کا فرش تو نہ تھا‘ چھوٹوں، بڑوں کو‘ ہمسروں کو پھر شاہ
وقت کو سمجھانے پہنچے‘ مگر کسی نے مان کے نہ دیا۔ سمجھانے کا ایک انداز یہ
بھی تھا کہ ”جن پتھروں کو خود گھڑ کر تم معبود ومسجود سمجھتے ہو‘ میں ان سے
نمٹ لوں گا“ بے خطر ایک کلہاڑا لے کر سب اصنام کو برابر کردیا اور ہاں ان
پتھروں کو بھی دعوت کے بغیر نشانہ نہیں بنایا‘ فرما رہے تھے ”تم کھاتے کیوں
نہیں ہو‘ نوع بہ نوع کھانے تمہارے سامنے رکھے ہیں اور تم بت بنے بیٹھے ہو‘
ارے تم بولتے کیوں نہیں ہو؟ پھر قوم سے مخاطب ہوئے ”تف ہے تمہارے اوپر اور
تمہارے ان مجبور ومقہور معبودوں پر“ مکالمے ہوتے رہے مگر باطل پرست‘ روشن
خیال‘ اپنی اصل اعتدال پسندی پر آگئے‘ کہنے لگے: ارے ہمارے پاس سفید
فاسفورس بم بھی تو ہیں‘ لاؤ ناں! اکیلے خدا کی دعوت دینے والے کو مزا
چکھائیں : ”حرقوہ وانصروا اٰلہتکم “ فاسورس کی آگ بھڑکاؤ‘ اسے اٹھاکر اس
میں پھینکو‘ یہ مانتا ہی نہیں‘ ہمارے خداؤں کی توہین کئے چلا جارہا ہے
(اگرچہ وہ اس بات کو تسلیم کرچکے تھے کہ یہ اصنام واوثان ہیں تو معبودان
باطل‘ کر تو کچھ نہیں سکتے‘ بچا تو اپنے کو بھی نہیں سکے‘ مگر ہم اپنے باپ
دادا کے رسم ورواج اوران کے طور اطوار کیوں چھوڑیں)۔
دوسری طرف موحد اعظم‘ مبلغ اعظم‘ جد الانبیاء‘ جد خاتم النبیین سیدنا
ابراہیم علیہ الصلاة والسلام اپنے مقام پر ڈٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس تو جو
کلہاڑا تھا وہ بھی معبود ان باطل کے بڑے کے حوالے کر آئے تھے‘ مقابلہ تو
کچھ بھی نہ تھا مگر ایمان وایقان اتنا طاقتور تھا کہ آگ میں گرنے سے بے خوف
مالک لم یزل پر نظریں جمائے نتیجے سے بے پروا کھڑے تھے‘ پھر کیا وہی آگ
گلزار جنت کا نظارہ نہیں دے رہی تھی؟ اب یہ اس بے نیاز مالک کی مرضی ہے‘
کبھی تو اپنے نام پر زنیرہ‘ سمیہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہم کی قربانیاں
وصول کرنا پسند کرتا ہے‘ کبھی تو جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی معصوم ہزاروں
طالبات اور سینکڑوں طلباء کی جان کی قربانیاں لے کر خوش ہوتا ہے‘ کبھی
آسیہ کی زبان سے دعائیں سنتا مگر بے تکلف شہادت قبول کرلیتا ہے‘ کبھی تو
ستر ہزار جادوگروں کے اسلام کو قبول کرتا مگر ہاتھوں پاؤں کے کٹنے اور
کھجوروں کے تنوں پر ان کے سولی دئے جانے کا منظر دیکھتا ہے‘ وہ بے نیاز
مالک کبھی تو دیوبند اور دہلی سے پشاور تک کی جی ٹی روڈ کے اطراف میں لگے
درختوں پر ہزاروں فرزندان حق کی سولی دئے جانے کے مناظر پر خوش ہوکر جنت کے
اعلیٰ منازل ومساکن کا ان کے لئے فیصلہ کرتا ہے‘ اس لئے کہ جیسے دو نقطوں
کے درمیان کم ترین فاصلے کو خط مستقیم کہا جاتا ہے‘ اللہ اور بندے کے
درمیان کم سے کم فاصلے کو جہدوجہد اور صراط مستقیم کہا جاتا ہے‘ کٹ جانے
والے اپنی خوش نصیبی پر نازاں‘ جنات عدن کو زیارت محبوب جل مجدہ کے لئے
روانہ ہوجاتے ہیں اور پیچھے والے بھی ان کے ساتھی نعرہ زن ہوتے ہیں‘ سچی
خبریں دینے والا خبر دیتا ہے: ”فمنہم من قضی نحبہ ومنہم ینتظر ،وما بدلوا
تبدیلا“ ان خوش نصیب عالی بختوں میں سے بہت سے جو سچی لو لگا کر وعدہ پورا
کرچکے اور بہت سے ایسے ہیں جو اس عالی مقام کے حصول کے منتظر ہیں‘ ڈٹے ہوئے
ہیں (اب یہ مالک کی مرضی ہے کہ کس کو کب تک زندہ رکھ کر باطل قوتوں کو تگنی
کا ناچ نچاتا ہے اور کس کو کب شہادت کا شہد سے میٹھا پیالہ پلاکر شراب وصل
سے سرفراز کرتا ہے، یہ تو اس کی مرضی ہے) طالبان تو ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ اس بے
نیاز مالک کی مرضی ”ان الحکم الا لله“ فیصلے تو اللہ کے نافذ العمل ہوتے
ہیں، جب بھی کسی کی مدت پوری ہوتی ہے پھر ایک گھڑی تاخیر نہیں ہوتی اور ہاں
ایک گھڑی پہلے بھی موت نہیں آسکتی‘ پھر ان سعادتمند مردوں عورتوں کو بتا
بھی دیا جاتا ہے کہ : ”ان موعدکم الجنة“ دیکھو اے آل یاسر! اے میرے غیور
قربانی دینے والے صحابہ! وعدہ تم سے جنت کا ہے (اور وہ بہت بڑی کامیابی
تمہیں مل کر رہے گی)وہ بے نیاز مالک کبھی مال ومنال نہ دے کر‘ کبھی دے کر
پھر چھین کر آزماتا ہے۔ جیسے سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمایا‘ کبھی
جان عزیز‘ وطن عزیز‘ کبھی اولاد وازواج کی قربانی لے کر آزماتا ہے‘ پھر
کہتا ہے: تم بھی اعلان کردو ناں : ”انا لله وانا الیہ راجعون“ مولا!ہم تو
جو کچھ ہیں‘ آپ ہی کے ہیں اور واپس آپ ہی کی عالی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
اگر جامعہ حفصہ کی یتیم ومسکین بے سہارا بچیوں کو اور طلبائے دین کو لال
مسجد کے اندر اور باہر شہادت دے کر ان کی جان عزیز کو قبول کرنا اسے پسند
ہوتا ہے تو اس سے پہلے اپنے محبوب انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی
قربانیاں لی ہیں‘ کبھی ابراہیم علیہ السلام کو سیدہ ہاجرہ اور ننھے حضرت
اسماعیل علیہ السلام سے جدائی کا حکم ملتا ہے‘ کبھی حضرت اسماعیل علیہ
السلام کی ننھی جان کو پیاس سے تڑپایا جاتا اور سیدہ ہاجرہ کو صفا ومروہ
میں سرگرداں دوڑایا جاتا ہے‘ پھر انعام بھی بڑا کہ ہمیشہ ہمیشہ تاقیامت
زمزم کا پاکیزہ پانی‘ خراب نہ ہونے والا چشمہ یہ تو اس بے نیاز مالک کی
مشیت ہے کہ کس سے کیا کام لینا ہے‘ محنت ومشقت تو سب نے کرنی ہے مگر سعادت
ان کی ہے جن کا رخ درست ہو۔ وہ مالک بے نیاز کبھی حضرت داؤد علیہ السلام
جیسے نوجوان مجاہد سے طاقتور ہمہ مقتدر قوتوں والے جالوت کو مرواتا ہے‘
کبھی ننھے معاذ اور معوذ سے طاقت کے نشے میں چور مغرور ابوجہل کو گھائل
بہ جہنم مائل کروا دیتا ہے پھر ظاہراً کمزور سیدنا عبد اللہ بن مسعود کے
ہاتھوں اسے جہنم داخل کروا دیتا ہے۔ وہ مالک کبھی سیدنا سلیمان علیہ السلام
کو تخت دے کر آزماتا ہے اور کبھی تخت شاہی چھین بھی لیتا ہے‘ پھر بعد از
ابتلاء جن وانس اور ہواؤں کو اس کے حکم کا پابند کردیتا ہے‘ تخت ان کے حکم
پر آجکل کے خصوصی فوجی ہوائی جہازوں سے تیز تر رواں دواں ہوتا ہے‘ تخت
بلقیس ان کے پلک جھپکنے میں سامنے حاضری پر مجبور ہوتا ہے‘ وہ مالک بے نیاز
جب چاہتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ڈنڈے کوہی ان کی عطا یافتہ قوتوں کے
اظہار کا ذریعہ بنا دیتا ہے‘ یہی ڈنڈا کہیں اژدہا بن کر ستر ہزار جادو گروں
کی ہدایت کا ذریعہ مگر فرعون کے روشن خیال دین پر اپنے باطل نظریے پر
ڈھٹائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی عصائے موسوی کہیں بارہ سڑکیں بناتا اور کہیں
بارہ چشمے جاری کرتا نظر آتا ہے اور یہی عصائے موسوی فرعون اور اس کے
لشکروں اور ننھے معصوم بچوں کو (ہاں بچیوں کو نہیں) ذبح کرنے والے قوة
قاہرہ کے مالک فرعون اور اس کے مشیروں کے غرق نیل ہونے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ہاں! اس لئے کہ بنی اسرائیل نے نبی کی مان کر ان کے ساتھ چلنے کا صحیح رخ
اختیار کیا تھا۔ پھر جب تک انہوں نے نبی کی مانی‘ انہیں بغیر محنت منّ
وسلویٰ کھلایا۔ مگر جب انہی بنی اسرائیل نے بچھڑا پوجا تو نجات کا ایک ہی
راستہ بتایا کہ پوجنے والے نہ پوجنے والوں کے ہاتھوں قتل کئے جائیں اور وہ
بہ رضا ورغبت قتل ہوں تو معافی دی جا سکتی ہے‘ پھر انہی بنی اسرائیل نے
اپنی کتابوں اور نبیوں کی دی گئی نشانیوں پر آخری نبی‘ آخری ہادی ومہدی
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی انتظار میں مدینے کا رخ کیا تو ان کو
مدینے اور خیبر کے نخلستانوں کا مالک بنایا مگر ان میں سے اکثر کو نفس
وشیطان نے ورغلایا کہ جب خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے
تو (ضد وسرکشی کی بناپ ر ان پر ایمان لانے سے) انکار کردیا۔ مالک بڑا بے
نیاز ہے‘ اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہتھیلی پر جان لئے پھرتے تھے،
پھر نتیجہ کیا تھا کہ:
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
محنت تو کرنا ہی پڑتی ہے‘ قربانیاں تو دینا ہی پڑتی ہیں‘ مگر کامیابی حق
والوں‘ صحیح رخ والوں کو ملتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس درست رخ کی محنت کی
وجہ سے یورپ (اندلس‘ فرانس وغیرہ) عیسائی قوم عدل وانصاف ڈھونڈنے افریقہ کی
غریب لیکن حق پرست مجاہد قوم بربر کے سپوتوں کے آگے داد رسی کے لئے جھولی
پھیلاتی تھی اور وہ مجاہد حضرت طارق بن زیاد‘ بربر قوم کے سپوت‘ لائق صد
فخر فرزند‘ اسلام کی زیر سرکردگی سمندروں‘ پہاڑوں کو عبور کرتے اسلام کا
عدل اور امن وسلامتی کا نظام وہاں نافذ کردیتے تھے (خیال رہے کہ بربریت عدل
وسلامتی کے معنی میں تھا‘ مگر کافرانہ سازش کے پروپیگنڈا کا کمال ہے کہ آج
ہمارے پڑھے لکھے بلکہ کئی متدین حلقے بھی اور عقیل وفہیم صحافی بھی بربریت
بمعنی ظلم وستم لینے لگے ہیں‘ حالانکہ ظلم وستم کے لئے درست اصطلاح تو
امریکیت‘ چنگیزیت‘ سبائیت اور قرمطیت وغیرہ ہے) بہرحال یہ درست رخ کی محنت
کا کمال تھا اور اس کا نتیجہ دنیا میں ظاہر نظر آئے یا نہ‘ برزخ اور آخرت
میں تو اتنا لاجواب ہے کہ اس کا ذکر لایزل کتاب حق قرآن مجید میں کر دیا کہ
وہ وقت بہت قریب ہے جب غلط اور باطل نظریات کی غلط رخ کی محنت کرنے والے
پکاریں گے: ” اے ہمارے رب! ہم نے دل کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دل کے کانوں
سے سن لیا‘ تو ہمیں واپس لوٹا دے‘ اب ہم (درست رخ پر) نیک اعمال ہی کریں
گے‘ ہمیں یقین حاصل ہوچکا ہے“ مگر کیا واپسی ہوسکے گی؟ واضح بات ہے کہ نہیں
ہوگی۔ اسی لئے تو قرآن مبین میں وہاں کے احسن دن کے مناظر آج سامنے رکھ دئے
گئے ہیں‘ خوش نصیب ہیں وہ جو اس مختصر زندگی میں یقین کی دولت حاصل کرنے
میں کامیاب ہوگئے۔ دنیا میں چھوٹے بڑے امتحانات بھی اسی کی طرف سے آتے ہیں،
ان میں کامیابی کی دعا بھی اسی سے کی جاتی ہے۔
ترجمہ:”کیا لوگوں نے گمان کرلیا ہے کہ ان کے دعویٰ ایمان کے بعد ان کو
آزمایا نہیں جائے گا اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا“ ۔(القرآن)
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ: ۱۴۲۹ھ دسمبر:۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 12 |