مالیگاؤں کی سیاسی تاریخ ایک عجیب سی داستان بیان کرتی
ہے۔اہلیان مالیگاؤں ستّہ میں موجودجس لیڈرکی پانچ سالوں تک بُرائیوں
اورکوتاہیوں کے نغمے اَلاپتے ہیں،آنِ واحد میں پورے شہر کے لوگوں کی ذہنیت
نہ جانے کیسے تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر سیاست کی کرسی پر برسوں تک وہی
لیڈربراجمان نظرآتاہے جس کی سستی وکاہلی کے چند دن پہلے تک ترانے گنگنائے
جارہے تھے۔ رفتہ رفتہ سوچ بدلی،نظریات بدلے،وقت بدلا،سیاسی حالات اُتھل
پُتھل ہوئے،بڑی تبدیلی واقع ہوئی ،تعمیری،فلاحی،رفاہی،طبّی اور شہری ترقی
کے نام پر نئے نئے چہرے عوام کے سامنے جلوہ گر ہوئے،لوگوں کا اعتماد حاصل
کیا،ووٹ بینک بڑھائی،سیاسی کرسی حاصل کی اورپھر وہی ہواجو برسوں سے
ہوتاآرہاتھایعنی صرف جھوٹے وعدے،ایک دوسرے پر لعن طعن،دھوکہ دہی،الزام
تراشی اور عوامی حقوق کا استحصال۔اس کرسی کے لیے مختلف حلیوں میں کئی لوگ
کئی ایجنڈوں کے ساتھ آئے،دنیاکی ترقی اور دین دھرم کا واسطہ دیامگر اہلیان
مالیگاؤں حقیقت حال سے بخوبی واقف ہیں۔سیاست خدمت خلق کا بہترین
ذریعہ،عوامی بھلائی کا راستہ،تعمیر وترقی کی بنیاد،نظم وضبط کی اساس،فکری
توانائی کی اعلیٰ دلیل،رفعت وبلندی کی سیڑھی،جہاں بانی وحکمرانی کی
کلید،اعلیٰ تہذیب وتمدن کی علامت اور فتح وکامرانی کی نشانی ہے۔مگر آج
سیاست کی گفتگوکی جائے تو ماحول کچھ الگ ہی نظر آتاہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے
کہ ’’سیاست‘‘لفظ سنتے ہی ذہن وفکر میں دجل وفریب،جھوٹ اور وعدہ خلافی،نفرت
وحقارت،رشوت خوری اور مفاد پرستی اور عیش پرستی ولذت کوشی کی بھیانک تصویر
اُبھرآتی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج اہل سیاست کا جو کردار ہے اسے
قابل نفرت اور لائق مذمت کہا جائے مگر اس میں غلطی سیاست کی نہیں بلکہ اہل
سیاست کی ہے۔سیاست اپنی جگہ بہت ہی اہم اور مفید چیزہے مگر آج کے دور میں
اس کے ہٹے کٹے مریضوں نے اسے بدنام کردیاہے،اسے لائق نفرت اور قابل مذمت
بنادیاہے۔
شہرمالیگاؤں میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی انڈسٹری نہیں ہے،ایک پاورلوم صنعت
ہے مگر وہ بھی اکثربحران اور خسارے کا شکار رہتی ہے،یایوں کہہ لیجیے کہ
اپنوں کی محنت پر غیروں کی اجارہ داری کی صنعت بھی برسوں سے سکرات میں
زندگی گزار رہی ہے۔نسلی،برادری اور مذہبی سیاست تو کھیلی گئی ہے مگر شہر ی
فلاح وبہبود کے لیے کوئی بڑاکام نظرنہیں آتا۔ساٹھ ستّر سالوں سے سیاسی
اسٹیج سے صرف روـڈ،گٹراوربیت الخلاء کی تعمیر کا ہی ایجنڈہ پیش
کیاجاتارہاہے۔کیا صرف یہی مسائل ہے شہریوں کے؟؟افسوس!اس ذمہ داری کو کتنی
سستی سمجھ لیاگیاہے۔ اسمبلی کا ممبراور کارپوریشن کے کارپوریٹرس عوام کے
سامنے محض سڑک ،گٹراور بیت الخلاء کی تعمیر کی بات کرتے ہیں۔یہ مسائل
لیڈران اور عوام دونوں کی فکری کج روی کا اظہارکرتے ہے۔کیااہل اقتدار کی
یہی ذمہ داریاں ہیں؟ان کے اختیارات بس اتنے ہی ہیں ؟ اورکیا عوام اپنے
نمائندوں سے صرف اتناہی کام چاہتی ہے؟اگر ستّر سالوں تک صرف ان تین باتوں
پر سیاست چلتی رہی تو ایم آئی ڈی سیز،انڈسٹریز،یونیورسٹی،کالج،ضلع،ملٹی
اسپیشلٹی ہاسپٹل، ٹرین، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ جیسے اہم اور حساس پہلوؤں
پر آنے کے لیے ارباب سیاست کو نہ جانے اورکتنے سال درکار ہوں گے؟
گذشتہ ایک مہینے سے شہر میں اُمید کی کرن دیکھنے کو مل رہی ہے۔اکثرلوگوں کا
کہناہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کواب کا الیکشن لڑناچاہیے۔یہ امر یقیناقابل
ستائش ہوگامگر سوال یہ پیداہوتاہے کہ کون سی پارٹی تعلیم یافتہ لوگوں کو
ٹکٹ دے گی؟کیوں کہ مشاہدہ یہ کہتاہے کہ الیکشن تعلیم سے نہیں پیسہ اور پاور
سے جیتا جاتا ہے،اب ایسے میں کون سی پارٹی تعلیم یافتہ کینڈیڈیٹ کو ٹکٹ دے
کر اپنی ایک سیٹ کم کرواناچاہے گی؟یہ امر پر عمل اس وقت ممکن ہے جب اہل
سیاست اور عوام دونوں کے نظریات اس بات کو قبول کریں گے۔
پورے مالیگاؤں پر ایک طائرانہ نظرڈالیں تو یوں معلوم ہوتاہے کہ شہر دوحصوں
میں تقسیم ہوچکاہے،ندی کے اس طرف نظر دوڑائے تو رہائشی مکانات کی بے
قاعدگی،صاف صفائی میں کمی،جگہ جگہ سڑکوں پر گٹر اور بارش کاجمع پانی،بے
روزگاری،جھگڑے،اَتی کرمن،ٹریفک،تعلیم کی کمی وغیرہ وغیرہ مگر ندی کے اس پار
ہر قسم کی سہولیات مہیاہیں۔ایسا کیوں ہے یہ امر اربابِ علم ودانش سے مخفی
نہیں ہے۔مسلم علاقے میں ایک بس اسٹینڈ ہے،جس کے ٹرانسفر کی خبریں آئے دن
اخباروں میں گردش کرتے رہتی ہے۔مستقبل قریب میں کہی ایسانہ ہوجائے کہ ایک
کیل خریدنے کے لیے بھی ندی کے اُس پار جانا پڑے۔ ویسے بھی یہ کڑوی سچائی ہے
کہ جن جن علاقوں میں مسلم آبادی اکثریت میں ہے ان شہروں میں ترقی کا گراف
انتہائی کم ہے۔(مثلاً: مالیگاؤں ،بھیونڈی اور دیگر مسلم اکثریتی علاقے)اب
ایسا کیوں ؟اس کی دووجہ ہوسکتی ہے،پہلی تو یہ کہ عوام خودنہیں چاہتی کہ
ترقی ہواور دوسری یہ کہ ارباب سیاست ڈیولپمنٹ نہیں چاہتے ۔کیوں کہ اگر ایک
قصبہ یاشہر، ضلع بن جائے تو آس پاس کے دوسرے قصبے اور دیہات بھی ضلع میں
شامل ہوں گے۔پھر الیکشن جیتنے کی اساس صرف مسلم ووٹ بینک نہیں بلکہ دویا
دوسے زائد دھرم پر مشتمل ہوگی۔جس کے سبب الیکشن میں مقابلہ آرائی زیادہ
ہوگی اور دوسماج کے سنگم کی وجہ سے اہل سیاست کی کرسی خطرے میں پڑسکتی ہے ۔
یعنی کرسی کی حفاظت شہر کی ترقی کی رکاوٹ کابنیادی سبب ہے۔جبکہ عزم یہ ہونا
چاہیے کہ کام کی بنا پرصرف ضلعی نہیں بلکہ ریاستی الیکشن فتح کرناہے اور یہ
نا ممکن بھی نہیں ہے ۔ کیاہم نے نہیں دیکھاکہ گجرات کے وِکاس کوپیش کرکے
نریندرمودی جی کس طرح وزیراعظم بن گئے۔ویسے بھی اب کا الیکشن شاید کام کی
بنیادپر جیتاجائے گا۔خیر یہ تو وقت بتائے گا کہ اہلیان شہر کی سوچ میں کتنی
تبدیلی واقع ہوئی ہے یاسابقہ روایت اب بھی برقرارہے۔ |