’’ہیلو! ‘‘
’’ہاؤ آر یو؟‘‘ دلاور نے فون ریسیو کرکے کہا۔ سبین کی کال آئی تھی۔
’’ہائی……‘‘ ۔ سبین نے ایک گہری سانس لی۔’’یار! ایک پرابلم ہو گئی ہے…… مجھے
خیال نہیں رہا اور میری گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیا ہے…… میں کافی دور ہوں
شہر سے…… ‘‘ ۔ سبین نے جملہ ادھورہ چھوڑا۔ وہ ہائی وے پر اکیلی کھڑی تھی۔
صبح کے نو بج رہے تھے۔ وہ ایک کانفرینس اٹینڈ کرنے جا رہی تھی۔ گاڑی تو اس
کے پاس تھی اور ڈراؤنگ بھی وہ خود ہی کرتی تھی۔مگر اس دن بے دھیانی میں
پیڑرول کے انڈیکیشن پر نظر نہیں پڑی اور جلدی جلدی میں اس نے پیٹرول
بھروایا بھی نہیں۔
’’اچھا! کہاں ہو تم؟؟؟‘‘ ۔دلاور نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’میں یہاں ہمدرد یونیورسٹی جاتے ہوئے جو ہائی وے ہے اس پر ہوں‘‘۔ سبین نے
اپنی لوکیشن بتائی۔
’’وہاں!!! اتنی دور کیا کر رہی ہو؟؟؟‘‘
’’ارے یار…… ایک کانفرینس تھی یونیورسٹی میں …… وہی اٹینڈ کرنے جا رہی تھی‘‘۔
سبین نے تنگ آ کر کہا۔
’’اچھا میں آتا ہوں‘‘ ۔
’’مگر ایک گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا آتے آتے۔ وہ جگہ خطرناک ہے۔ بہتر ہے تم
فوراََ ہائی وے پولیس کو کال کر لو۔ میں بھی انہیں کال کر کے انفارم کردیتا
ہوں‘‘۔
ایک گھنٹے کے اندر اندر دلاور اس جگہ پہنچ گیا تھا مگر تب تک ہائی وے پولیس
کی مدد سے سبین نے گاڑی میں پیٹرول ڈلوا لیا تھا اور یونیورسٹی بھی پہنچ
گئی تھی۔ دلاور بھی وہیں یونیورسٹی پہنچ گیا۔
’’تھینک یو ویری مچ یار!‘‘ ۔ سبین نے تہہ دل سے دلاور کا شکریہ ادا کیا۔
’’وہ……پولیس والوں نے پیٹرول تو ڈلوا لیا تھا مگر پھر بھی تم اتنی دور آئے
میری خاطر……‘‘ ۔ سبین مسکراتے ہوئے اس کا شکرایہ ادا کر رہی تھی۔
’’ نو پرابلم ……مائی پلیژر……‘‘۔ دلاور بھی کھل کر مسکرایا۔ سبین کی آنکھیں
اس کے آنے سے چمک اٹھی تھیں۔ وہ بہت خوش تھی کے دلاور اس کے ساتھ تھا۔ ویسے
بھی جب بھی وہ دونوں ساتھ ہوتے ہر کوئی ان کے جوڑے کو رشک سے دیکھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
فوزیہ سے اتفاقاََ ملاقات ہو جانے کو میں قسمت کا لکھا سمجھ رہا تھا۔ کالج
کے دن تو ویسے ہی بہت یادگار ہوتے ہیں۔ لا ابالی عمر ہوتی ہے۔ آئے دن کسی
نہ کسی سے دل لگانے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی کوئی اچھا لگ گیا کبھی کوئی……
ایسے میں میں بھی کسی کو پسند کرتا تھا ۔ اور وہ تھی فوزیہ…… کالج کا ماحول
تھوڑا سخت تھا اور فوزیہ بھی لڑکوں سے دیادہ گھلتی ملتی نہیں تھی۔ لہذا دل
کی بات کبھی زبان پر آ ہی نہیں سکی۔ پھر وقت کا بھی پتا نہیں چلتا کیسے
جلدی سے گزر جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کالج کے دو سال تمام ہو گئے۔
میری زندگی میں بھی پھر کوئی لڑکی نہیں آئی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ
میں کچھ شرمیلا اور ریزرو طبعیت کا مالک تھا۔ اب اتنے عرصے بعد فوزیہ کا
پھر میرے سامنے آ جانا…… میں اسے قسمت کا لکھا سمجھ رہا تھا۔ مجھے بہت امید
تھی کہ فوزیہ میرے کارڑ پر لکھے ہوئے نمبر پر ضرور مجھ سے رابطہ کرے گی۔ کم
از کم وٹس ایپ پر تو کوئی فارورڈ میسج بھیج ہی دے گی۔ مگر اب تک تو کوئی
رابطہ نہیں ہوا تھا۔
اس سے پھر ملنے کے بعد سے اکثر میں کالج کے پرانے دن یاد کرتا اور از خود
ہی آنے والے دنوں کے خواب بنتا رہتا…… دل میں پھر ایک بار کچھ پیار بھرے
جزبات فوزیہ کے لئے ابھر رہے تھے۔
پھر ایک دن فوزیہ دوبارہ اسٹور پر آئی۔ میں اس دن اسٹور میں ہی تھا۔میں اسے
دیکھتے ہی کھل اٹھا۔ شاپ کا سیلز مین فہد اس سے بات چیت کر رہا تھا۔ میں نے
سارا کام ایک طرف رکھا اور خود فوزیہ کو سرو کرنے آفس سے باہر آ گیا۔
’’ہائی ذولقرنین!!!‘‘ ۔ فوزیہ نے گرم جوشی سے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
’’…… آپ نے تو اس کے بعد مجھے کونٹیکٹ ہی نہیں کیا‘‘۔ میں نے فوراََ شکوہ
کر دیا۔
’’او ہاں…… اصل میں تمہارا کارڈ کہیں گم ہو گیا تھا……‘‘۔ فوزیہ نے اداس سی
شکل بنا کر کہا۔ وہ دوسری ہی ملاقات میں آپ سے تم پر آ گئی تھی۔
’’اچھا!‘‘۔ میں نے خود کو دلاسہ دیا کہ اگر فوزیہ کے پاس کارڈ ہوتا تو وہ
ضرور پہلے ہی کونٹییکٹ کر لیتی۔
’’چلیں اپنا نمبر دے دیں‘‘۔میں نے اسی وقت، موقع پر ہی فوزیہ سے اس کا
موبائیل نمبر مانگ لیا۔ اس نے بھی بلا جھجک مجھے نمبر دے دیا۔
’’فہد آپ انہیں شوز دکھا دیں……پھر آپ اندر آفس میں آ جائیے گا‘‘۔ میں نے
فہد اور فوزیہ دونوں سے مخاطب ہو کر کہا۔
تھوڑی ہی دیر میں فوزیہ آفس میں آ گئی۔
’’کیا ہوا کچھ پسند نہیں آیا؟؟؟‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’نہیں بس……‘‘ ۔ فوزیہ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ مجھ
سے ہی ملنے آئی تھی شوز خریدنے نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ میری خوش فہمی ہو۔
’’……اور سنائیں…… کالج کے بعد تو کوئی رابطہ ہی نہیں رہا…… ‘‘
’کہاں ہوتی ہیں آپ؟؟؟‘‘ ۔ میری غزلیات شروع ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجدی کی منگنی ہو گئی تھی۔ اس نے گھر میں ہی بنا کسی مہمان وغیرہ کو بلائے
بغیر انگوٹھی پہنا دی تھی اور خود بھی ایک چاندی کا چھلا چڑھا لیا تھا۔ مگر
ہم تو قریبی دوست تھے۔ اس سے دعوت کی ضد کرنے لگے۔ مجدی کو بھی دعوت دینی
ہی تھی۔ہم نے ایک رات ساتھ ڈنر کرنے کا پروگرام بنایا۔ سی ویو پر ایک بہت
اچھے ریسٹورینٹ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ میں اس دن اسٹور ہی آیا ہوا تھا تا
کہ وہیں سے مجدی کو پک کر لوں۔ کیونکہ اس کے پاس گاڑی تو تھی نہیں، مجھے ہی
اسے پک کرنا تھا۔
میں نے اسٹور میں اپنے آفس میں کچھ پیپرز وغیرہ سائن کئے اور فہد کو آواز
دی۔
’’فہدیار! یہ کچھ پیپرز اور بل وغیرہ ہیں کل آصف صاحب کو دے دینا……‘‘ ، میں
نے فہد کے ہاتھ میں پیپرز پکڑائے۔ جوں ہی اس نے ہاتھ بڑھایا تو اس کی آستین
پیچھے کو کھنچ گئی۔ مجھے اس کی کلائی پر کچھ زخم سے نظر آئے۔
’’یہ ہاتھ پر کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘، فہد نے جھٹکے سے ہاتھ نیچے کر لیا۔
’’دکھاؤ……‘‘ ، میں نے اصرار کیا۔
’’نہیں سر! کچھ نہیں وہ بائیک سے گر گیا تھا …… تھوڑی سی چوٹ آ گئی‘‘۔ فہد
نے اپنی کلائی نہیں دکھائی بس زبانی ہی کہانی سنا دی۔
’’اچھا!!! کیا ایکسیڈنٹ ہوا تھا؟؟؟‘‘
’’ جی سر ! چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا……‘‘ اس نے سیدھا سا جواب دیا جیسے کوئی
بات ہی نہ ہو۔
’’دکھاؤ تو……‘‘ ۔میں پھر بھی رسماََ اس کا زخم دیکھنا چاہتا تھا۔ فہد نے
ایک لمحے کو ہاتھ اٹھا کر کلائی دکھائی اور پھر فوراََ ہاتھ نیچے کر لیا۔
میں نے بھی پھر ذیادہ نہیں کریدااور اپنا والٹ ، موبائیل وغیرہ اٹھا کر
مجدی کو پک کرنے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہم تینوں سی ویو پر ریسٹورینٹ میں پہنچ گئے تھے ۔ رات کے نو بج رہے تھے۔
دلاور سے کافی دنوں بعد پھر ملاقات ہو رہی تھی۔ وہ تو ان دنوں اپنا سارا
وقت سبین کو سونپ چکا تھا۔ کام وام تو کوئی خاص تھا نہیں۔ باپ کی بنائی
ہوئی دکانوں کا کرایہ آتا اور دلاور اور اس کے بھائی آپس میں یہ پیسہ بانٹ
لیتے۔ ویسے بھی ایک چھڑے آدمی کی کون سی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ بس وہ
اور اس کی گرل فرینڈز…… یہی تو اس کے خرچے تھے۔
دوسری طرف مجدی بیچارہ خوش بھی تھا اور ساتھ ساتھ اداس بھی۔ جو تلوار اس کے
سر پر لٹک رہی تھی اب اس پر گِر چکی تھی۔ اس کی جاب چلی گئی تھی۔ابھی تک ہم
میں سے کسی کو خبر نہیں تھی۔ شاید یہ ابھی ہی ہوا تھا۔ اسی لئے اس کے چہرے
پراس دعوت میں مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ میں تو مجدی کے بہت قریب تھا ، اس سے
ملتے ہی بھانپ گیا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ مگر میں دعوت میں ایسی باتیں از خود
نہیں کرنا چاہتا تھا کہ یہ دعوت تو منگنی کی خوشی میں دی جا رہی ہے۔ سوچا
جب واپس جائیں گے تو میں مجدی سے اکیلے میں پوچھ لوں گا۔
’’ہاں بھئی …… تو کیا نئی تازہ ہے؟؟؟‘‘ ۔ دلاور نے ہم دونوں سے پوچھا۔
’’الحمد ﷲ…… سب ٹھیک ہے……‘‘ میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب
دیا۔ ہم تینوں ریسٹورینٹ میں ایک ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔
’’…… اور آپ کا کیوں منہ بنا ہوا ہے؟؟؟ ایسا منہ تو شادی کے چھ ماہ بعد
بنتا ہے …… جب شادی کے سائڈ ایفیکٹ بندے پر کھلتے ہیں…… ہاہاہا……‘‘ دلاور
کی تو عادت تھی ہر وقت ہنسی مذاق کرنے کی۔
’’……ہی ہی…… نہیں یار بس……‘‘۔ مجدی کسھسیانی بلی کی طرح دبک کر بیٹھا ہوا
تھا۔ اس نے اپنا جملہ ادھورا ہی چھوڑا۔
’’آپ سنائیں …… آج کل کیا عیاشیاں ہو رہیں ہیں؟؟؟‘‘ میں نے دلاور سے پوچھا۔
’’بس یار کچھ خاص نہیں…… ‘‘ ۔ دلاور کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ نمودار
ہوئی۔ میں اور مجدی بھی ہنسنے لگے۔
’’ بتا دو…… آج کل کس کو چکر دے رہے ہو؟؟؟‘‘
’’…… اور وہ محترمہ کیسی ہیں …… جن سے بارش والی رات کو ملاقات ہوئی
تھی؟؟؟‘‘۔ مجھے وہ لڑکی یاد تھی جو آدھی رات کو دلاور کے ساتھ بارش میں
کھڑی تھی اور پھر دلاور نے اسی کے ہوٹل میں رات گزاری تھی۔ مجھے اس کی یہ
حرکت بہت نا مناسب لگی تھی۔
’’ کون؟؟؟‘‘۔ دلاور نے تیوری چڑہائی اور ساتھ ساتھ اپنے دانت نکالنے لگا۔
ہم بھی مسکرا دئیے۔
’’ اچھا جی…… کون!!!‘‘ میں نے اسی کی بات دہرائی اور ظنز کیا۔
’’چھوڑو یار …… تم لوگ بھی پرانی باتیں لے کے بیٹھ جاتے ہو…… ہاہاہا……‘‘
دلاور ہنسنے لگا۔
’’رات گئی بات گئی……‘‘
’’ہم م م……‘‘ ۔ میرے منہ سے نکلا۔
’’تو پھر کیسی ہیں ہماری بھابھی اور کیا کرتی ہیں؟؟؟‘‘ دلاور نے بات کا رخ
مجدی کی منگنی کی طرف موڑا۔
باتیں یوں ہی چلتی رہیں۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ سب نے پیٹ بھر کر کھایا۔پھر
ہم تینوں گپ شپ لگاتے سی ویو پر والک کرتے رہے۔ جب کافی رات ہو گئی اور
تینوں تھک گئے تو اپنے اپنے گھر جانے کی راہ لی۔
مجدی نے بتایا کو وہ وہیں قریب اپنے کسی کزن کے گھر ٹھہرنا چاہتا ہے۔ لہذا
وہ وہیں سے الگ ہو گیا۔ میں اور دلاور اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس
ہوئے۔
اپنے گھر کے گیٹ پر پہنچ کر مجھے دلاوور کی گاڑی وہیں باہر کھڑی نظر آئی۔
میں تھوڑا چونک سا گیا کہ وہ اپنے گھر کے باہر کیوں کھڑا ہے۔ ہم دونوں
پڑوسی تھے۔ اس کی گاڑی اسٹارٹ ہی تھی اور وہ اسی میں اندر بیٹھا ہوا تھا۔
میں نے اپنی گاڑی پارک کی اور دلاور کو دیکھنے آیا۔ میں اس کے پیچھے سے
آرہا تھا۔ شاید اس نے مجھے اپنے بیک مرر میں آتا ہوا دیکھ لیاتھا۔
’’کیا ہوا؟؟؟‘‘ میں نے اس کی گاڑی کے بند شیشوں پر اپنی ایک انگلی بجائی۔
اس نے فوراََ شیشے اتارے اور جھک کر مجھے دیکھا۔
’’ہاں یار اندر آؤ …… ایک بات کرنی ہے……‘‘ دلاور بولا اور گاڑی کا دروازہ
کھول دیا۔
’’کیا ہوا……؟؟؟‘‘ مجھے کچھ تشویش سی ہوئی۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔
’’ارے یار…… ‘‘
’’وہ……‘‘۔’’ ایکچلی……‘‘۔ دلاور نے جملہ توڑ توڑ کر بات کی۔
’’ کچھ پیسے چائیے تھے……‘‘ دلاور بولا۔
’’پیسے؟؟؟ رئیلی؟؟؟‘‘ ۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ دلاور نے مجھ سے
پیسے مانگے ہوں۔ وہ تو ایک کھاتا پیتا بندہ تھا۔ بلکہ میں نے کئی بار اپنی
طالب علمی کے زمانے میں اس سے مدد لی تھی۔
’’ہاں رئیلی…… ہی ہی……‘‘ وہ تھوڑا ہنس دیا۔
’’خیریت ہے……؟؟؟ ‘‘
’’گھر میں سب ٹھیک چل رہا ہے نا……‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں سب ٹھیک ہے…… ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ارے یار …… تمہیں پتا ہی ہے ہم پانچ بھائی ہیں…… جو بھی آمدنی ہوتی ہے
ایک دوسرے کو بانٹ بانٹ کر اتنا ذیادہ تھوڑی بچتا ہے…… ‘‘ دلاور نے کچھ
وضاحت کی۔ مگر میں کچھ خاص مطمئین نہ ہوا۔ بہر حال میں نے ذیادہ کریدہ نہیں
کہ کیا ہوا ہے۔ کیوں پیسے چائیے وغیرہ وغیرہ بلکہ سیدھا سیدھا اس سے پوچھ
لیا کہ کتنے پیسے چائیے۔
’’یار…… اگر ایک لاکھ تک مل جائیں……‘‘ ۔ میں جلد ہی تمہیں واپس دے دوں
گا‘‘۔ دلاور نے کوئی پکی تاریخ نہیں بتائی اورمیں نے بھی نہیں پوچھی۔
’’اچھا…… چلو انشاء اﷲ‘‘ ۔ میں کل تمہیں بتا دوں گا۔
دلاور میرا بہت پرانا دوست تھا۔ گو کہ میری اور اس کی عادتوں اور حرکتوں
میں بہت فرق تھا۔ مگر کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے موجود تھے ۔ لہذا اسے یوں
ہی انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میں نے دوسرے دن دلاور کو ایک لاکھ روپے کا چیک دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔ |