آج
کے دن کی Opening اچھی نہ تھی--- ویسے ایسے صبحوں کی آمد سے اس کی زندگی
بھری ہوئی تھی--- مگر اپنوں کے زخم بہت گہرے اور انسان کو توڑ دیتے ہیں-----
کسی غیر سے کیا شکوہ کرے---- جب اپنے زیادہ خون خار ہوں--- یہ بھائی ہے --
تمہارا میں نے سارے زمانے کا ٹھکا نہیں لیا --- اپنے بچوں کو سنھبالوں یا
تمہارے اس نکمے کے ناز اٹھاؤ--- میری شادی تم سے ہوئی ہے پورے جہان سے نہیں
--- سلمان کے بڑے بھائی نے بے بسی سے سلمان کو دیکھا--- سلمان نے بے ظاہر
ایسے Behave کیا جیسے خیر ہے ہوتا ہے---- وہ اپنے بھائی کو شرمندہ ہوتا
نہیں دیکھ سکتا تھا--- اس لیے کمرے سے باہر نکل گیا--- دیکھ لینا اس کے
نصیب میں صرف ڈھاکے اور گالیاں ہی ہے---- گالیاں----- سلمان واپس حال میں
آیا --- باہر اب بھی بم باری جاری تھی---- بھابی سہی کہتی تھی میرے نصیب
میں واقعی گالیاں ہی ہے--- سلمان کے کان اور اور پورے چہرے پر جلن سی ہو
رہی تھی--- گھر کے اندرونی دروازے کو ایسے مخصوص Timings کے علاوہ اندر سے
کھنڈی لگانے کی اجازت نہ تھی---- کوئی بھی گھر کے اندر کی جانب اس کے
کمرےAny Time گھس سکتا تھا---- یا دوسرے الفاظ میں اس کے کمرے میں پولیس کی
طرح Raid Mari جا سکتی تھی--- سلمان نے دروازہ کھولنے کی آواز سنی----
سلمان---- سلمان---- سلمان نے تیسری دفعہ ندا کے پکارنے پر چہرے سے پرانے
سے Blanket کو ہٹا دیا---
سلمان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ندا کے چہرے پر فکر مندی کے آثار ظاہر
ہوئے-----
سلمان کو حیرت ہوئی ندا کےExpressions ایسے کیوں ہوئی------
خیریت ہے آپ کو بخار ہے شاید---- اس کا چہرہ بخار بالکل ریڈ ہو جاتا تھا
ایسا ریڈ جس میں پیلاہٹ آہستہ آہستہ شامل ہو رہی ہوں---
سلمان سمجھ گیا کیونکہ اس کا چہرہ اور کان جل رہے تھے--- کل کی سردی اور
مایوسی نے اس کے جسم کو ہلکی سی آگ کی آنچ دے دی تھی----
ندا واپس پلٹ گئی----
ماں اس کو بخار ہے-----
ماں نے ایسے ندا کو دیکھا جیسے وہ کوئی موت کی خبر دینے والا فرشتہ ہوں یا
پھر ندا کا جنم ہی اس کی غربت کی وجہ ہوں---
ندا ٣٢ سال کی لڑکی تھی---- کم خوراک اور زمانے بھر کے ٹینشن نے اس کے دبلے
پتلے جسم نے پروان چڑھنا ہی چھوڑ دیا تھا--- وہ اپنی دلکشی کی بجائے کمزوری
کی وجہ سے لڑکی نظر آتی تھی----
بیٹا امبولیس بولاؤں--- شہر کے بہترین ڈکٹر کو فون کرو اتنا بڑا آدمی بیمار
ہوا ہے ایسے لوگ تو کبھی کبھی بیمار ہوتے ہے----
اس کی ماں کی تیر اندازی اسی Speed سے جاری تھی----
اماں وہ زیادہ بیمار ہے----
ہاں تو ماں صدقے جائے اس کے ----- یہاں اور مصیبتیں کیا کم ہیں--- جو اس کا
بھی علاج ہم کرے---- تو اس کی فکر میں اور دبلی نہ ہو جانا---
اماں کون کہہ رہا ہے اس کا علاج کروں--- میں تو بتا رہی تھی تم جانوں
تمہارا کرائے دار جانے---- مجھے کیا----
سلمان نے ہمت کی اور بیڈ سے اٹھ کے میدان جنگ کا رخ کیا------- جاری ہے |