ہم مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہُ ایک مرتبہ اپنے گھر تشریف لائے تو آپ ؓ کی زوجہ نے حلوا پکھایا تھا تو
حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہُ نے اپنی زوجہ سے دریافت کیا کے کہاں سے آیا یہ
حلوہ؟ تو آپ ؓ کی زوجہ نے جواب دیاکہ میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے آٹے میں
سے آٹا اور گُڑ میں سے گُڑبچا کر حلوہ پکھا یا یہ سنکر آپؓ سیدے بیت المال
پہنچ گئے اور خادم سے کہا کہ آئندہ میرے راشن میں تھوڑا آٹا اور گُڑ کم
بھیج نہ ہمارا گزرا ہوجائیگا ۔ایک اور وقعہ ہے دوسر خلیفہ کا، حضرت عمر بن
خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ اپنے گھر پر موجود تھے کہ آپ ؓ کے بیٹے نے آپ کو
اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی توجیسے ہی حضر ت عمر رضی اﷲ عنہُ
درسترخوان کے قریب ہوئے توآپؓ کی نظر دسترخوان پر پڑی سرکے پر گئی (جو نکے
درستر خوان پر سالن کے ساتھ سرکا بھی ایک چھوٹی سی کٹوری میں پڑا تھا )توآپ
ؓ ایک دم کھڑے ہوگئے اور کہا عمر(رضی اﷲ عنہُ) اس دستر خوان پر کبھی نہیں
بیٹھ سکتا جس دستر خوان پر دو سالن ہو ۔لیکن کیا آج ہمارے ملک یا دیگر
اسلامی ممالک میں ایسے حکمران موجودہے ؟ جواب آئیگا نہیں ۔آج ہمارے ملک کے
حکمران ہو یا دیگراسلامی ممالک کے سب کے سب حوس کے بھوکے ہے ،ضرف کے چھوٹے
ہے ،کرپشن کے موٹے ہے ،آج اگر ہمارے اسلامی حکمرانوں کے گھر پر ان کے خادم
بھی وہ کھانا کھاتے ہے جس کے بارے میں ہم اور آپ صرف سوچ سکتے ہے ۔اگر ان
کی دستر خوان پر کم از کم چار پانچ ڈیشے نا ہو تو کھانا ان کی حلق سے نیچے
نہیں اُتر تھا اور پر کولڈرنک نا ہو تو پر زلزلہ آتا ہے ،کبھی کبار تو ہاٹ
ڈرنک کا استعمال بھی ہوتا رہتا ہے ۔آ ج اگرپاکستان میں کوئی ناظم بن جاتا
ہے تو وہ یہ سمجھ نے لگتا ہے کہ آسمان کو اس نے ہوا میں کھڑا کیا ہوا ہے ۔اس
کے گھر میں صبح شام ایک سے بھڑ کر ایک بہترین کھانوں کے لذیذ ڈیشے آپکو
پکھی ہوئی ملے گی کہ آپ بھی حیران و پریشان ہو جاؤگے کہ آیا کہا سے ؟یہ
عوام کا پیسہ ہے عوام سے لیاگیا ٹیکس کا پیسہ اس پر ہمارے موجودہ حکمران
عیاشیاں کرہی ہے جیسے یہ پیسے ان کی باپ دادا کی جائداد ہو ،آج پاکستان کے
وزیراعظم ہاؤس کا خرچہ اتنا ہے کہ اس کے ایک دن کے اخراجات پر پانچ افراد
پر مشتمیل سو سے بھی ذاید خاندان ایک ایک ماہ تک کھل ڈول کر کھا پی سکھے ،حضرت
عمر بن عبدالعزیزؒ اپنے دور خلافت میں انگور کھانے کی تمنا ہوئی، آپؒ اپنے
بیوی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تمہارے پاس ایک درہم ہے؟ میں انگور
کھانا چاہتا ہوں بیوی (فاطمہ) نے کہا خلیفہ المسلمین ہوکر کیا آپ میں ایک
پیسہ خرچ کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے فرمایا میرے لیے جہنم کی ہتھکڑی سے
زیادہ یہ آسان ہے ،جب آپ ؒکا انتقال ہوا تو آپ ؒکی ویراثت جو آپؒ کے بچوں
کے حصے میں آیی تو وہ ایک ایک دینارتھی ،نزح کے وقت عمر بن عبدالعزیزؒ کے
سالے ہشام نے آپ ؒسے کہا کہ میں آپ کو ایک لاکھ دینار دیتا ہوں اپنے بچوں
کو دیدو جس پر آپؒ نے کہا کہ وعدہ کرتے ہو تو ھشام نے کہا ہاں اس کے بعد
عمر بن عبدالعزیز ؒ نے فرمایا کہ یہ رقم ان لوگوں کو واپس کردوجن سے آپ نے
لی ہے ۔لیکن آج پاکستان کے حکمران اپنے بچوں کیلئے جائداد بنانے میں اس قدر
آگے نکل گیئے کہ حلال وحرام کی تمیز بھول گیئے ،آج موجودہ وزیر اعظم اور ان
کے بیٹوں اور بیٹی کا نام پانامہ لیکس اسکینڈل میں آنے کے بعد بھی وہ دفاع
میں مصرو ف ہے اور کبھی قطر سے خط لیکھوا رہا ہے تو کبھی کہیں سے ۔جب تک
وزیر اعظم صاحب اس عہدے پر فائزرہنگے تب تک نہ تحقیقات ہوسکتی ہے اور نا ہی
کوئی فیصلہ ،اگر تحقیقات ہو بھی جائے تو مشکل ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف
فیصلہ آئے کیوں کے تمام تحقیقاتی ادارے بشمول نیب سب کے سب وزیر اعظم کے
احسانات تلے دبے ہوئے ہیں ۔یہی حال دوسرے اسلامی ممالک کا بھی ہیں ،حال ہی
میں آمریکا کے نئے صدر ٹرمپ نے مسلمانوں پر قیسم در قیسم پابندی لگائی تو
عرب ممالک نے اس کی بھر پور حمایت کی جو سمجھ سے بالاتر ہے ۔ایک اور واقعہ
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہُ کے دور خلافت میں روم (اس وقت تک فتح نہیں ہوا
تھا) کے بادشانے اپنے سب سے طاقتور پہلوان جو ایک آچھا تیر باز اور تلوار
کا ماہر بھی تھا اس کو حضرت عمر رضی اﷲ عنہُ کو شہید کرنے کیلئے روم سے عرب
کی طرف روانہ کیا جب پہلوان مدینہ پہنچ گیا تو دریافت کیا کے مسلمانوں کا
خلیفہ کہا ہیں تو کسی نے کہا مسجد میں پہلوان مسجد نبوی پہنچ گیا تو پتا
چلا حضر ت عمر ؓ باغ میں ہے ،باغ پہنچنے کے بعد پہلوان روم نے کسی سے
دریافت کیا کے تمہارے خلیفہ کہا ہیں اس شخص نے جواب دیا وہ درخت کے سائے
میں ارام فرما رہے ہیں پہلوان حیران ہوا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ ان کے پاس
دس بیس آدمی ہونگے ان کی حفاظت کیلئے مگر یہ تو یہا ں اکیلے ہی موجود ہے اب
میں ان کو اسانی سے قتل کرونگا جیسے ہی قتل کے ارادے سے روم کا یہ پہلوان
آپ ؓ کے قریب پہنچا تلوار نکالی کے یک دم کہی سے ایک شیر نمودار ہوا جس کو
دیکھ کر پہلوان ایک دم درخت پر چھڑ گیا شیر نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہُ ارد گر
چکر لگانے کے بعد درخت کے اُپر موجود پہلوان کی طرف خونخوار انداز سے دیکھا
درخت پر موجود روم کے پہلوان پر خوف تاری ہوگیا اور خوف کے مارے کامپ نے
لگا جس سے وہ نیچے گر گیا ،گرنے کی آواز سے حضر ت عمر رضی اﷲ عنہُ جاگ گئے
اور پہلوان سے پوچھا کون ہو تم؟ پہلوان نے سارا ماجرا سُنا دیا جو سنکر
فاروق اعظم ؓ بھولے کہا ہے شیر جاؤ یہاں سے پہلوان نے جانے سے پہلے حضرت
عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ سے درخوست کی کہ مجھے مسلمان بنادے تو آپ ؓ نے ان
کو کلمہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کیا۔ لیکن کیا آج ایسا ممکن ہے کہ کسی
اسلامی ریاسست کا کوئی سربراہ بغیر سیکورٹی کے ازادا نا طور پر کہی آ جاسکے
؟نہیں بلکول نہیں ،اگر پاکستان کی بات کرتے ہو تو یہاں پر ایک صوبائی
اسمبلی کا ممبر دس پندرہ گن مین لیکر گوم تھا ہے جب کہ وزیر اس سے بھی
زیادہ اور وزیر اعظم و صدر کی بات ہی کچھ اور ہے ۔پرٹیکول کے نام پر عوام
کے خون پسینے کی رقم کو پانی کی طرح بہا رہے ہیں ،کراچی سے لیکر حیدر آباد
کا سفر بھی ہلی کوپٹر میں تھے کرہے ہوتے ہے ،اگر بات کریں دوسرے اسلامی
ممالک کی تواس وقت عرب ہو یا عجم سب کے سب ہی اپنے آپ سے مخلص ہے عوام سے
نہیں ،موجودہ حکمرانوں کی طرزحکمرانی دیکھ کر کیا کوئی غیر مسلم اسلام میں
داخل ہونے کا سوچ سکتا ہے ؟ ممکن ہی نہیں ۔ اﷲ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت
نصیب کریں اور ہم پر اپنا رحم ( آمین ) |