ختم نبوت سے مراد یہ کامل ایمان ہے کہ نبی پاک ﷺ اﷲ کے
آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کو ئی نبی مبعوث نہیں ہو گا ۔کوئی بھی شخص اگر
ختم نبوت ﷺ سے انکار کرتا ہے تو اس کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا ۔ قادیانیت
کی ابتدا ء مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹا نبی ہو نے کے دعوی ٰ کے بعد ہو
ا۔جس نے خود کو مسیح الموعودکہا ۔ ان گنت لوگ اپنی کم علمی یا جہالت کی وجہ
سے مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار بننے لگے اس طرح قادیانیت ایک مکمل
فر قہ کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی ۔قادیانیت دین اسلام کے خلاف اٹھنے والے
فتنوں میں سب سے نازک اور امت کے تباہ کن ہے ۔ یہ فر قہ درحقیقت (نا
آعوذباﷲ ) نبی کے مقابلہ میں نبی اور اس جھوٹے نبی کے ماننے والوں کو صحابہ
کا درجہ دینا ہے ۔ اس کی بیویوں کو امہات المومنین کہا گیا ، مکہ اور مدینہ
کے مقابلہ میں ارض ِ قادیان کو ارض ِ حرم اور مکہ المسیح قرار دیا ۔ حج کے
مقابلہ میں قادیان حاضری کو حج سے زیادہ ثواب قرار دیا گیا ۔ قرآن پاک کے
مقابلہ میں تذکرہ کتاب کو پیش کیا گیا ۔
اس کا اعتراف خود مرزا غلام احمد کے بیٹے نے اپنی تقریر میں کہا ۔ حضرت
مسیح الموعود نے فرمایا کہ ان ( مسلمانوں ) کا اسلام اور ہے ، ہمارا اور ،
ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور، ان کا حج اور ہے ہمارا اور، اسی طرح ہر
بات میں ان سے اختلاف ہے ۔ اس قادیانی فتنے کو مولانا محمد یوسف لدھیانوی
شہید لکھتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کے لیے آنحضرت ﷺ کی
دو بعثتوں کا نظریہ ایجاد کیا ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺایک بار تو چھٹی
صدی عیسوی میں مکہ میں مبعوث ہوئے اور دوسری بار (ناآعوذباﷲ ) مرزاغلام
احمدقادیانی کی شکل میں قادیان کی ملعون بستی میں۔ (تحفہ قادیانیت ، جلد
دوئم )
مرزا غلام احمد نے نبی پاک ﷺ کے تمام کمالات مخصوصہ کو اپنی جانب منسوب
کرنے کے لیے قرآن پاک اوراحادیث نبویہ میں بے دریغ تحریف کر ڈالی ۔۔ اسلامی
عقائد کا مذاق اڑایا، انبیاء کرام کو فحش گالیاں دیں ، تما م امت مسلمہ کو
گمراہ اور کافر قرار دیا ۔مسئلہ جہاد کو حرام اور منسوخ ٹھہرایا اور
مجاہدین ِ اسلام کو منکر خدا قراردیا ۔زنا کو جائز قرار دیا ، شراب نوشی کی
اجازت دی ۔ الغرض دینِ اسلام کی شکل کو بگاڑنے کی حتی ٰ المکان کوشش کی گئی
۔
اس فتنہ کے قلعہ قمع کے لیے عملی اقدامات کا آغاز 1953ء میں ہوا اور بیس
سال کی ان تھک کوششوں کے بعد سات ستمبر ۱۹۷۴ء کو ۴ بج کر ۳۵ منٹ پر
قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اور اقلیت قرار دیتے ہوئے دائرہ
اسلام سے خارج کر دیا گیا۔ آئین کی دفعہ ۲۶۰ میں شق ۲۱ کے بعد یہ شق رکھی
گئی ۔
جو شخص حضرت محمدﷺ جو کہ آخری نبی ہیں کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر
مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا حضرت محمد ﷺ کے بعدکسی بھی مفہوم میں یا
کسی قسم کا نبی ہونے کا دعوی ٰ کرتا ہے ، جو ایسے مدعی کو نبی یا مصلح دینی
تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کے اعتراض کے لیے مسلمان نہیں ہے ۔
آج کل سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے
کہ اگر کوئی اﷲاور نبی پاک ﷺ پر ایمان لائے پر (ناآعوذباﷲ )آخری نبی نہ
مانے تو اسے مسلمان ماننے سے انکار کیوں کیا جارہا ہے ، ان کی عبادت گاہوں
کو مسجد کیوں نہیں گر دانا جاتا ۔ اس کا سادہ سا جواب یہ کہ مسلمان حضرت
موسیٰ ؑ، حضرت عیسی ٰ ؑ ، اﷲ کی نازل کردہ کتابوں انجیل اور تورات کو بھی
مانتے ہیں تو کیا انھیں عیسائی یا یہودی کہا جا سکتا ہے ؟ نہیں ۔ بالکل اسی
طرح نبی پاک ﷺ کو آخری نبی ماننا بھی اسلام لانے کے لیے لازمی امر ہے ۔ختم
نبوت ﷺ کی گواہی اﷲ نے قرآن پاک میں یوں دی ۔
آج ہم نے تمھارے لیے دین کامل کر دیا اور تم پر احسان پورا کر دیا اور
تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ۔ سور ت المائدہ
دین کی تکمیل حضرت محمدﷺ کی نبوت کے بعد ہو چکی ہے اب یہی شریعت قیامت تک
جاری رہے گی شریعت مححمدی ﷺ کو نبی پاک ﷺکے اس دنیائے فانی سے پردہ فرمانے
کے بعدصحابہ کرام ،صحابہ کرام کے بعد تبع تابعین ، خلفا ء ، علماء نافذ
کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔قرآن پاک میں ارشاد ِ
باری تعالیٰ ہے
بے شک آپ ﷺ ان میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں البتہ اﷲ کے رسول اور آخری نبی
ہیں ۔ سورت احزاب
حضور اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا اعلان درحقیقت امت مسلمہ کو ایک لڑی میں
پرو دینے والا احسان ِربی ہے ۔ مولانا منظور احمد نعمانی فرماتے ہیں ۔ بس
اب کو شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہت یا کسی نئی نبوت کی گنجائش نکالتا ہے وہ
اﷲ کے اس فیصلہ اور اس کے قائم کئے ہوئے اس سارے دینی نظام کو درہم برہم
کرنا چاہتا ہے ۔
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن ندوی کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ عقیدہ نبوت
درحقیقتنوع انسانی کے لیے ایک شرف امتیاز ہے ۔ اس بات کا اعلان ہے کہ نوع
انسانی سن بلوغت کو پہنچ گئی ہے اور اس میں یہ لیاقت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ
خدا کے آخری پیغام کو قبول کرے ۔ ان انسانی معاشرے کو کسی نئی وحی ، کسی
نئے آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں ۔ اس عقیدے سے انسان کے اندر خوداعتمادی
پیدا ہوتی ہے ۔ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنے نقطہ ء عروج پر پہنچ چکا
ہے ۔ ( قادیانیت کا مطالعہ و جائزہ ) ۔
اس حقیقت کو علامہ اقبا ل نے واشگاف الفاظ میں یوں بیان کیا ۔ دین و شریعت
کا استمرار اور وجود مربوط ہے جب تک کتاب و سنت ہے دین باقی ہے ۔ دین و
شریعت باقی ہے لیکن امت کی بقاء ختم نبوت ﷺ کے عقیدے سے ہے ۔(بحوالہ خطبات
مفکر اسلام ، جلد ۵ صفحہ ۱۰۹)
مسلمانون کے تمام فرقے تحفظ ختم نبوت ﷺپر کار بند ہیں۔ اس کی مثال تمام
فقہائے کرام ، علمائے کرام کی جانب سے ختم نبوت ﷺکے عقیدہ کو پھر سے زندہ
کرنے کے لیے پورے ملک میں ریلیاں نکالی گئی ، اجلاس منعقد کئے گئے اورعوامی
خطبات میں عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں شعور اجاگر کیا گیا ۔تمام مکتبہ فکر
اس عقیدہ پر متفق ہیں اور اس کے احیاء کے لیے کوشاں ہیں ۔عوام الناس کو یہ
پیغام دیاگیا ہے کہ وہ قادیانیت کا شکار ہونے سے بچیں ۔قرآن پاک کا نسخہ
خریدتے ہوئے خاص خیال رکھیں کہ وہ تحریف سے پاک ہو ۔ اپنے ایمان کی حفاظت
کریں ۔
یاد رکھیے ۱جب تک مسلمانوں کے دل میں نبی پاک ﷺ کی محبت باقی اور عقیدہ ختم
نبوت باقی رہے گی ، مسلمان باقی رہیں گے ۔ جس وقت مسلمانوں کے دل میں نبی
پاک ﷺ کی نبوت کے بارے میں شکوک پیدا ہو گئے اسی لمحے اسلام کا نام و نشان
اس دنیا سے اٹھ جائے گا ۔یہ نبی پاک ﷺ کی ذات کی محبت ہی ہے جو مسلمانوں کو
یکجا اور کفر کے مقابلہ میں مضبوط رکھے ہوئے ہے ۔ اسلام کو کفار سے اس حد
تک خطرہ نہیں ہے جتنا خطرہ ان آستین کے سانپوں سے ہے جو اسلام کی آڑ میں
اسلام کو گزند پہیچانے سے کسی قسم کی کو ئی کسر اٹھا نہ رکھتے ہیں ۔ |